Tag: چیف جسٹس

  • کیا بھٹو کیس کے فیصلے سے اداروں کے درمیان ایک لکیر نہیں کھینچ جائے گی؟ چیف جسٹس

    کیا بھٹو کیس کے فیصلے سے اداروں کے درمیان ایک لکیر نہیں کھینچ جائے گی؟ چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور ہماری تاریخ بوسیدہ ہے، کیا بھٹو کیس کے فیصلے سے اداروں کے درمیان ایک لکیر نہیں کھنچ جائے گی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کےخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں لارجز بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس نےریمارکس دیئے کیا یہ موقع نہیں کہ غلط کاموں کامدعا انفرادی شخصیات پر ڈال کراداروں کولاتعلق ہونےکا موقع دیں اور دونوں ادارےخود پر لگےالزامات سے دامن چھڑائیں؟ کبھی نہ کبھی تو نئی شروعات ہونی ہے کیا ایسا کرنے سےقوم کے زخم نہیں بھریں گے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ریمارکس دیئےہم ماضی میں رہ رہےہیں،ہماری تاریخ بوسیدہ ہے۔ کیابھٹوکیس کے فیصلےسے دونوں اداروں کے لئے ایک لکیرنہیں کھنچ جائےگی؟

    سماعت میں جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے یہ تعین کرنا ہے کہ ججزذوالفقار بھٹو کو سزا سناتے وقت دباؤ کا شکار تھے تو ثبوت کیا ہوں گے؟ ججوں کے دباؤ سے متعلق صرف انٹرویوزہیں، کیا اس بنیاد پرفیصلہ کردیں؟

    جسٹس منصور نے مزید ریمارکس میں کہا کہ کیا یہ سمجھا جائےکہ مارشل لاکی وجہ سے ججز دباؤ کا شکار تھے؟ کیا مارشل لا کے دوران سنائے گئے سارے فیصلے اٹھاکر باہر پھینک دیں؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بھٹوکیس کو خاص پیرائے میں دیکھیں تومارشل لاکےدوران باقی مقدمات دیکھنےکی ضرورت نہیں رہے گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسارکیا کہ ذوالفقاربھٹوریفرنس میں عدالت کس قسم کاانصاف دےسکتی ہے؟ کیا بلاول بھٹو اور ذوالفقار بھٹوجونیئر قصاص چاہتے ہیں؟

    جس پر عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا دنیا میں ہر کام کابدلہ نہیں لیا جاتا، کچھ لوگ عزت نفس،بےگناہی اور تقدس کی بحالی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں، بعد ازاں سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

  • لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، چیف جسٹس  قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہم

    لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، چیف جسٹس قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہم

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےایس پی اسلام آباد رخسارمہدی کو فوری طلب کر لیا، طلبی توہین مذہب کیس میں زبیرصابری کے گھر بنا وارنٹ گرفتاری پر کی گئی۔

    چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، بنا وارنٹ پولیس لوگوں کےگھروں کاتقدس کیسےپامال کر سکتی ہے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قتل، ڈکیتی کاپرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی، کیا پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے؟ ہماری اور آپ کی تنخواہ عوام دیتی ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ تفتیشی افسرکیخلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے ، اٹارنی جنرل صاحب ایسےمقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہئیں، آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اٹارنی جنرل ہمیں لا افسران سےمعاونت نہیں مل رہی، لا افسران مدعی کے وکیل بن جاتے ہیں۔

    جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ قانون کہہ رہاہےتوہین مذہب کیس کی تحقیقات ایس پی کرےگا، قانون کے ہوتے ہوئے ماتحت کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟

    چیف جسٹس مدعی کی جانب سے پیر صاحب،پیر صاحب لفظ استعمال کرنے پر بھی برہم ہوگئے اور سوال کیا کیا یہ نام قانون میں درج ہے؟ کس قانون میں دم کرنے کالکھا ہوا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے آپ کا تو ایمان ہی مضبوط نہیں؟

  • پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس:  چیف جسٹس اور نیاز اللہ نیازی  کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس: چیف جسٹس اور نیاز اللہ نیازی کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر کے بار بار بولنے پربرہمی اظہار کرتے ہوئے کہا ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    دوران سماعت پی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کے بار بار بولنے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سماعت میں وقفہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے، ہم اٹھ جاتے ہیں۔

    نیاز اللہ نیازی اور چیف جسٹس کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ آپ نےمیرےبیٹےکے لائسنس انٹرویو میں بھی پی ٹی آئی کےسوالات پوچھےتھے، آپ میری تذلیل کر رہے ہیں۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیاز اللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں،کیا ہم نیاز اللہ نیازی کو نوٹس جاری کریں؟

    وکیل علی ظفر نے نیازاللہ نیازی کے رویے پر عدالت سے معذرت کرلی۔

  • آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اور کہیں الیکشن ہوگئے، چیف جسٹس کے پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : پی ٹی آئی انتخابی نشان کیس میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ کاغذ کا ٹکڑا پیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل
    ہیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل حامد علی خان اور علی ظفرروسٹرم پر آئے، بیرسٹر علی ظفر نے دلائک دیتے ہوئے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین اورقانون الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات کی ا سکروٹنی کا اختیار نہیں دیتا، الیکشن کمیشن پارٹی انتخابات بے ضابطگی کے الزام پر انتخابی نشان واپس نہیں لے سکتا، بیرسٹر علی ظفر

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 17 کی تشریح کی ہے، ایک نشان پر انتخاب لڑنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، انتخابی نشان سے محروم کرنا سیاسی جماعت اور عوام کے بنیادی حق کی نفی کرنا ہے۔

    علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا، الیکشن کمیشن کورٹ آف لاء نہیں ہے، آرٹیکل 17 (2) سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 (2) کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، میری ایک گزارش ایک سیاسی پارٹی کے بنیادی حقوق سے متعلق بھی ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےتفریق کامظاہرہ کیااورآرٹیکل25کی نفی کی،پی ٹی آئی کےکسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، الیکشن کمیشن کےپاس سوموٹوکااختیارنہیں کہ شکایت کنندہ بھی بنے اور جج بھی۔

    بیرسٹر علی ظفر نےکہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ، پی ٹی آئی نے پہلے2022 میں انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، پی ٹی آئی کے کسی بھی ممبرنےالیکشن کوچیلنج نہیں کیا، اگرانٹراپارٹی انتخابات چیلنج بھی ہوتےتویہ سول کورٹ کاکیس بنتا۔

    علی ظفر نے مزید کہا کہ 14افرادجن کادعویٰ تھا وہ پی ٹی آئی ممبران ہیں انہوں نےالیکشن کمیشن میں درخواستیں دائرکیں، استدعاکی گئی پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کوکالعدم قراردےکردوبارہ انتخابات کاحکم دیاجائے، اس دوران الیکشن کمیشن نےبھی ساتھ ساتھ تکنیکی نقطے اٹھانےشروع کردیے،الیکشن کمیشن کی جانب سےدستخط اورتاریخوں سےمتعلق اعتراض اٹھائےگئے۔

    وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نےان 14افرادکی درخواستوں کی بنیادپی ٹی آئی کونوٹس بھیجا، سماعت ہوئی جس میں ہمارابنیادی موقف یہ تھا کہ یہ تمام 14 افراد پارٹی ممبران نہیں، ہم نےزبانی طورپران 14افرادکےبارےمیں اپناموقف دیا، سماعت ختم ہوئی توالیکشن کمیشن نے32سوالات ہمیں تھمادیے جن کاہم نےتحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیکر انتخابی نشان واپس لے لیا۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی اور کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دیں گے۔

    وکیل نے گذشتہ سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت توتھی،صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبرایس بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں،الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کرینگے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈیول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے، کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈدینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے،مخدوم علی خان کا نقطہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا، انتخابی نشان کیا ہوتا ہے اچھے سے معلوم ہے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ مسلم لیگ نے ابھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے،آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آپ یہ نہیں کرسکتےکہ کاغذکاٹکڑاپیش کریں اورکہیں الیکشن ہوگئے، آپ کم سےکم انٹراپارٹی الیکشن کی موٹی موٹی باتیں دکھادیں،کچھ توپیش کریں ، آپ دکھادیں کہ ہم نےانٹراپارٹی الیکشن میں سب کوموقع دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کاالزام ہےپی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن کاغذاکاٹکڑاہے، آپ نےنہیں بتایاکہ انٹراپارٹی الیکشن کہاں ہورہے ہیں، آپ نے پشاور کا توالیکشن کا ذکر کیا مگرالیکشن کہیں اورچمکنی میں کرادیے، انٹراپارٹی الیکشن چمکنی میں ہوئے جو پشاور نہیں کوئی اور جگہ ہے۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے جن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سے ہی کی ہیں تو علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایک بابر کو الیکشن لڑنے دیتے سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں،کل وہ باہر آ کر کہہ دیں کہ یہ عہدیدار کون ہیں تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ؟

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اسکی نشاندہی کر رہا ہوں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیاد نقطہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہو جائیں گی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقےکار سےکرائےہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں۔

    چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقہ کار سے ہوئے یا نہیں۔

  • چیف جسٹس نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے

    چیف جسٹس نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے متعدد انتظامی اختیارات رجسٹرار کو تقویض کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا جس کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلق معاملات میں مکمل با اختیار ہونگی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلقہ امور پر رجسٹرار کا فیصلہ فل کورٹ یا چیف جسٹس کی منظوری سے مشروط ہوگا، آڈٹ اور محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی سے متعلقہ امور بھی رجسٹرار چیف جسٹس کی منظوری سے انجام دینگی۔

    اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے سالانہ بجٹ پلان کو بھی رجسٹرار چیف جسٹس کی منظوری سے حتمی شکل دینگی۔

  • کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا،  چیف جسٹس  نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا

    کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا، چیف جسٹس نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا

    اسلام آباد:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباددھرنانظرثانی کیس میں حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے دھول جھونکنے کے مترادف قراردے دیا اور کہا کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

    اٹارنی جنرل سمیت دیگر وکلاروسٹرم پر آئے، چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت دفاع کی نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابصار عالم کہاں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابصار عالم راستے میں ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابصار عالم نے وزارت دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزامات عائد کیے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کر دی ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی۔

    چیف جسٹس نے حکومتی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کودھول جھونکنے کےمترادف قرار دے دیا اور کہا واضح کریں کمیٹی کی قانونی حیثیت کیا ہے، کمیٹی کے قیام کی دستاویز صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے، کاغذ کے ٹکڑوں سے پاکستان نہیں چلے گا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی فیصلے کے بعد ملک آئین پر چل رہاہے؟ کیا گارنٹی دے سکتے ہیں آج ملک آئین کے مطابق چل رہاہے؟

    جسٹس قاضی عیسی نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی فیصلے پر آج تک عمل کیوں نہیں کیا گیا، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوئے اور واپس چلے گئے، دھرنا اچانک نہیں ہوا، ماسٹر مائنڈ کون تھا؟ کمیٹی رپورٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم کے الزامات درست ثابت ہوئے تو معاملہ وزارت دفاع پرآئے گا،کیا اب بھی وزارت دفاع اپنی درخواست واپس لیناچاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت فیصلے پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا قیام اسی سلسلےکی کڑی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی قیام کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ رپورٹ کس کو دے گی؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی وزارت دفاع کورپورٹ دےگی،پہلا اجلاس26 اکتوبر کو ہوچکا، کمیٹی رپورٹ عدالت میں بھی پیش کی جائے گی، جس پر جسٹس قاضہ فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیٹی ٹی او آرز کے ذریعے ہی تمام لوگوں کو بری کر دیا گیا ہے،کمیٹی ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے تحقیقات کس چیز کی کرنی ہیں؟ کیا تحقیقات سیلاب کی کرنی ہے یا کسی اور چیز کی؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کمیٹی کی منظوری کابینہ نے دی ہے؟ کمیٹی کا قیام کس قانون کے تحت ہوا ہے؟ سپریم کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم یا کوئی کمیٹی میں پیش ہونے سے انکار کرےتو کیا ہوگا؟ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت بنتی توشائد کچھ کر بھی سکتی،حکومت نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے کچھ نہیں کیا، حکومت پھر صاف کہہ دے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کمیشن کیلئے وفاقی حکومت کی منظوری درکارہوتی ہے ، تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری ایکٹ کے تحت نیا کمیشن تشکیل دیاجائے گا، یقین دہانی کراتا ہوں حکومت فیصلے پر عملدرآمد چاہتی ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی ہرقیمت پرقائم کرناہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تاریخی ہے۔

    سپریم کورٹ نے حکومت کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فیصلے کیخلاف9نظرثانی درخواستیں آئیں پھر اچانک سب نے واپس لےلیں، کیا نظرثانی درخواست دائر کرکے واپس لینا مذاق ہے؟کونسا قانون کہتاہے نظرثانی دائر ہوتو فیصلے پر عمل نہیں کرنا؟

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا کہ کیا ہماری حکومت نےکینیڈا کی حکومت سےرابطہ کیا ہے؟ چیف جسٹس ایک شخص کینیڈا سے آتا ہے اور پورا ملک اوپرنیچےکرکے چلا جاتا ہے، کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل پر کتنا ردعمل دیاہے، کیا ہم کینیڈا میں جا کر انکے پورے ملک کو ڈسٹرب کرسکتے ہیں؟ کیا کینیڈا سے آنے والے نے ٹکٹ خودخریدی تھی؟ پاکستان کا اتنا ہی درد ہے تو یہاں آ کر کیوں نہیں رہتے؟

  • چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقررکردیا

    چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقررکردیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان قاضٰی فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقررکردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 28 ستمبر کو فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوگی چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ نے نظر ثانی کیس پر سماعت کے لیے 3 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کی سربراہی کریں گے جب کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ بھی بینچ میں شامل ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے کیس میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے خلاف آبزرویشن دی تھیں۔ فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ریفرنس کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

    پاکستان بارکونسل کی جانب سے گزشتہ روزکیس مقررکرنے کی درخواست کی گئی تھی. وزارت داخلہ سمیت متعلقہ فریقین نے 15 اپریل 2019 کو نظرثانی درخواست دائرکی تھیں.

    واضح رہے کہ اس سلسلسے میں‌ وزارت دفاع، پیمرا اور آئی بی کی جانب سے بھی نظرثانی درخواستیں دائرکی گئی تھیں.

  • چیف جسٹس نے عدالت کا وقت ضائع کرنے پر وکیل  کو جرمانہ کردیا

    چیف جسٹس نے عدالت کا وقت ضائع کرنے پر وکیل کو جرمانہ کردیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےپراپرٹی کیس میں عدالت کا وقت ضائع کرنے پر وکیل پر 5 ہزار روپے جرمانہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےپراپرٹی کیس کی سماعت کے دوران وکیل پر 5 ہزار روپے جرمانہ کردیا ، پراپرٹی کیس میں سپریم کورٹ کا وقت ضائع کرنے پر وکیل کو جرمانہ کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ وکیل نےمتعلقہ دستاویزکی طرف نشاندہی کے بجائے عدالت کاوقت ضائع کیا،درخواست گزارکے وکیل نے عدالت کو مس لیڈ کرنےکی کوشش کی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے اس عمل سے عدالت کو آپ پر اعتبار نہیں رہا ، جرمانے کی رقم مرضی کے خیراتی ادارے میں جمع کراکر رسید پیش کریں۔

  • تحریک انصاف کا چیف جسٹس سے چیئرمین پی ٹی آئی کے کیسز براہ راست دکھانے کا مطالبہ

    تحریک انصاف کا چیف جسٹس سے چیئرمین پی ٹی آئی کے کیسز براہ راست دکھانے کا مطالبہ

    اسلام آباد : تحریک انصاف نے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے چیئرمین پی ٹی آئی کے کیسز براہ راست دکھانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے درخواست کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کےکیسز کو براہ راست دکھایا جائے۔

    پی ٹی آئی شوکت بسرا نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر 70سال کی عمر تک ایک مقدمہ نہیں تھا اور آج 200مقدمےہیں، ہماری چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ انصاف کا بول بالا کریں۔

    خیال رہے جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس اپنے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرکے تاریخ رقم کی تھی۔

    بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کے معاملے پر 2 رکنی ججز کمیٹی بنائی تھی ، جسٹس محمد علی مظہر 2 رکنی کمیٹی کے سربراہ ہوں گے جبکہ جسٹس اطہر من اللّٰہ کمیٹی کے ممبر ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ کمیٹی سپریم کورٹ مقدمات کی کارروائی براہ راست دکھانے کے طریقہ کار پر رپورٹ پیش کرے گی اور ججز کمیٹی کی رپورٹ پر فل کورٹ اجلاس دوبارہ ہوگا۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے انتظامی معاملات مستعدی سے چلانے کیلئے افسران کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے معاملات کو مستعدی کے ساتھ چلانے کے لئے نئے چیف جسٹس متحرک ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے انتظامی افسران کا واٹس ایپ گروپ تشکیل دے دیا ہے ، واٹس ایپ گروپ میں سپریم کورٹ رجسٹرار جزیلہ سلیم شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ گروپ میں سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرارز،ڈپٹی رجسٹرارز کو شامل کیا گیا ہے ، واٹس ایپ گروپ سپریم کورٹ انتظامی معاملات مستعدی سےچلانے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کل اہم اجلاس طلب کرلیا ہے ، ذرائع نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نےپاکستان باراورسپریم کورٹ بارممبران کودعوت دے دی ہے ، اجلاس میں فراہمی انصاف کو بہتر کرنے کے معاملہ پر وکلا تنظیموں کی تجاویز لی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ وکلا تنظیمیں بینچز تشکیل اور مقدمات سماعت کیلئے مقرر کرنے کے معاملے پر تجاویز دیں گے اور وکلا فوری نوعیت کے مقدمات کو جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے پر تجاویز پیش کریں گے۔