Tag: چیف جسٹس

  • ’’گڈ ٹوسی یو آل مائی فرینڈز ‘‘ چیف جسٹس کی آخری دن وکلا سے گفتگو

    ’’گڈ ٹوسی یو آل مائی فرینڈز ‘‘ چیف جسٹس کی آخری دن وکلا سے گفتگو

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمرعطاء بندیال نے آخری دن وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’گڈ ٹوسی یو آل مائی فرینڈز‘‘، شکر گزار ہوں اللہ نے مجھ سے ملک اور انصاف کی خدمت لی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کورٹ روم میں آخری دن تھا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے آج 8مقدمات کی سماعت کی ، ان کیساتھ بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل تھیں۔

    مقدمات میں پیش ہونے والے وکلا نے چیف جسٹس کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا شکریہ، میں آپ کے لئے دعا گو ہوں ، ’گڈ ٹوسی یو آل مائی فرینڈز’۔

    جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا ہے شکر گزار ہوں اللہ نے مجھ سے ملک اور انصاف کی خدمت لی، میڈیا نے مجھے متحرک رکھا۔

    چیف جسٹس نے وکلا اور صحافیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا فیصلوں پر تنقید ضرور کرے لیکن ججوں پر نہ کرے۔

    وکیل میاں بلال نے کہا جب ہائی کورٹ میں آپ کا پہلا کیس تھا تو بھی میں ہی آپ کے سامنے پیش ہوا، آج سپریم کورٹ میں آپ کا آخری کیس ہے تب بھی پیش ہو رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا آپ کا کیس تو غیرمؤثر ہوگیا ہے، اگردلائل دیں گے تو دل کوخوش رکھنے کوغالب یہ خیال اچھاہے۔

    جس پر میاں بلال کا کہنا تھا کہ آپ نے ہمیشہ تحمل سے ہمیں سنا تو چیف جسٹس نےکہا ہمارا فرض ہے سب کو تحمل سےسنیں، بار کی جانب سے ہمیشہ تعاون اور سیکھنے کو ملا۔

    خیال رہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کل اپنی آئینی مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔

  • جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے، چیف جسٹس کا جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار

    جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے، چیف جسٹس کا جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا قاضی فائزعیسیٰ بہت اچھے انسان ہیں لیکن میری اور ان کی اپروچ الگ ہے، جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئےنیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ساتھی ججز کا میرے ساتھ برتاؤبہت اچھارہا، جہاں آزاد دماغ موجودہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے، قاضی فائزعیسیٰ بہت اچھے انسان ہیں،میری اور ان کی اپروچ الگ ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ صحافی معاشرےکی کان اور آنکھ ہوتے ہیں، صحافیوں سے توقع ہےوہ درست رپورٹنگ کریں گے، جہاں پرکوئی غلطی ہوئی اسے ہم نے اگنور کیا۔

    انھوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کیا گیا ، ڈیمز فنڈ میں اگست 2023 میں 4لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ،اگست میں بھی فنڈزمیں رقم آنے کا مطلب عوام کاسپریم کورٹ پراعتماد ہے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ڈیمز فنڈ کے 18.6 ارب روپےنیشنل بینک کےذریعے اسٹیٹ بنک میں انویسٹ کئےگئے ، ڈیمز فنڈ کی نگرانی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کر رہا ہے۔

  • چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے مواقع دیئے گئے؟ انہیں تو سنا ہی نہیں گیا، چیف جسٹس وکیل الیکشن کمیشن پر برہم

    چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے مواقع دیئے گئے؟ انہیں تو سنا ہی نہیں گیا، چیف جسٹس وکیل الیکشن کمیشن پر برہم

    اسلام آباد : توشہ خانہ کیس میں چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے وکیل الیکشن کمیشن کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے موقع دیئے گئےہیں؟ انھیں توسنا ہی نہیں گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر سماعت چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا چیئرمین پی ٹی آئی کوانصاف کےمواقع دستیاب ہیں ، الیکشن کمیشن کےوکیل کے بیان پرچیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا چیئرمین پی ٹی آئی یہاں کہیں موجود ہے؟ مجھےتوملزم یہاں نظر نہیں آرہا۔ کیا ملزم عدالت میں ہےیاجیل میں قیدہے؟ ایسامذاق نہ کریں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کوکون سےانصاف کے موقع دیئےگئےہیں ؟ تین دفعہ کیس کال کرکےٹرائل کورٹ نے ملزم کوسزاسنا کرجیل بھیج دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو توسنا ہی نہیں گیا۔

    چیف جسٹس نے استفسارکیا کیا فوجداری مقدمات کی سماعت ایسے ہوتی ہے ایک ہی دن میں سزا ہوجائے؟ جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کیا قانون میں حق دفاع ملزم کا حق نہیں؟ جس پروکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ دفاع کا حق دینا قانونی طور پرلازمی ہے۔

    جسٹس مظاہرنقوی نے کہا سات دن کاوقت کو قانون میں استغاثہ کو بھی دیا جاتا ہے، جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ 5اگست کوملزم کی جانب سےکوئی پیش نہیں ہوا توسزاسنائی گئی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا ملزم نےگواہ پیش کرنےکاکہا تھا؟ امجد پرویز نے بتایا کہ ملزم کےگواہان کو عدالت نےغیرمتعلقہ قراردیاتھا، جس پر چیف جسٹس نےاستفسارکیا کہ فوجداری کیس میں گواہ کوغیرمتعلقہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو ری کردیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا ٹرائل کورٹ کو اتنی کیا جلدی تھی جوصفائی کا موقع ہی نہ دیا ؟ ٹرائل کورٹ نے اپنے کالعدم فیصلےکی بنیاد پرکیسے فیصلہ کردیا؟

    جس پر چیف جسٹس نے ریماکس دیئے اس طرح توفیصلےمیں غلطیاں ثابت ہوگئی ہیں تو وکیل الیکشن کمیشن نےکہا غلطیوں کےباوجود عمران خان کےپاس دادرسی کا فورم ہے۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے ریماکس دیئے ٹرائل کورٹ نے سپریم کورٹ،ہائیکورٹ احکامات کی خلاف ورزی کی، کیا ہر کیس میں اس طرح فیصلے ہوتے ہیں؟ وکیل الیکشن کمیشن نےکہا ہرمقدمےمیں فیصلے اس طرح نہیں ہوتے، بعد ازاں عدالت نےسماعت کل تک ملتوی کردی

  • جولائی میں ہونیوالی نیب ترامیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں، چیف جسٹس

    جولائی میں ہونیوالی نیب ترامیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے گرفتاری سے قبل ملزم کو آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب کی اپیل خارج کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جولائی میں ہونیوالی نیب ترامیم مشکوک اور عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں‌ لیگی رہنما جاوید لطیف کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب اپیل پر سماعت ہوئی ،نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم کو گرفتاری سے پہلے مطلع کرنے کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے جاوید لطیف کا مقدمہ انکوائری کی سطح پر تھا جس میں گرفتاری نہیں ہوسکتی تو نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 3 جولائی 2023 کی ترمیم کے بعد انکوائری کے دوران بھی گرفتاری ہوسکتی ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جولائی میں ہونے والی نیب ترمیم مشکوک ہے اور عدالتی فیصلوں کے متصادم ہیں، سوال جواب کیلئے بلائے گئے بندے کو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ نیب قانون میں ریمانڈ کا دورانیہ کم کرنے اور ضمانت دینے کی ترامیم اچھی ہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کی تشریح عدالتی فیصلوں اور آئین کے تناظر میں ہی ہوسکتی ہے۔

    عدالت نے گرفتاری سے قبل ملزم کو آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب کی اپیل خارج کر دی اور کہا کہ ہائی کورٹ کا حکم تین جولائی کی ترمیم سے پہلے کا ہے، جس پر پراسیکیوٹر رضوان ستی نے بتایا کہ نیب ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیا گیا ہے۔

  • عام انتخابات کا معاملہ ،  چیف جسٹس سے چیف الیکشن کمشنر کی اہم  ملاقات

    عام انتخابات کا معاملہ ، چیف جسٹس سے چیف الیکشن کمشنر کی اہم ملاقات

    اسلام آباد: چیف جسٹس عمرعطابندیال سے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ کی ملاقات ہوئی ، جس میں ملک میں عام انتخابات کےمعاملے پر گفتگو کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے ملاقات کی، ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونے والی ملاقات دوگھنٹے جاری رہی ۔

    ذرائع کے مطابق ملاقات میں چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر نے ملک میں عام انتخابات کےمعاملے پر گفتگو کی۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو آئینی طور پر منظور شدہ مدت کے اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے چیلنج کی راہ میں درپیش قانونی مسائل سے متعلق متعدد سوالات کے جوابات طلب کرنے کی ضرورت ہے۔

    گذشتہ روز الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کی زیر صدارت اجلاس میں عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں کا حتمی فیصلہ کرنے میں ناکام رہا۔

    الیکشن کمیشن نے اب تک نئی حد بندیوں کو حتمی شکل دینے کے لیے تین اجلاسوں کی صدارت کی ہے، جس میں قانونی ٹیم نے ای سی پی کے اعلیٰ حکام کو عام انتخابات سے قبل نئی حد بندیوں کو لازمی مکمل کرنے کی سفارش کی۔

    ذرائع نے مزید بتایا کہ قانونی ٹیم نے آئین کے آرٹیکل 51 اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 17 کا حوالہ دیا، الیکشن کمیشنکو تین ماہ کی مقررہ مدت میں منصفانہ انتخابات کرانے کے لیے ایک زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔

  • سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف کیس میں چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نو مئی سے متعلق فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔

    لارجربینچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کیس میں جو بھی ہوگاوہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، آپ کے مطابق ابھی ٹرائل شروع نہیں ہوا تفتیش چل رہی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی ملزم کا ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا تو جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نوٹ کر رہے ہیں کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کئےجائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہلخانہ اور وکلاکو آنے کی اجازت ہوگی۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشتگردوں کی طرح نہیں، تمام گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولتیں دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہئے، ہم کسی ریٹائرڈ جج کو102افراد سےملاقات کیلئےفوکل پرسن مقرر کرسکتےہیں، جس پر اتارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس اس حوالے سے میں آپ کوان چیمبر بتاؤں گا، ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ زیر حراست افراد کو اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے، تو لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ دور کا ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں ، اگر ملک میں مارشل لا لگا تو ہم مداخلت کریں گے۔

  • اگر ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوا تو شاید سزائیں زیادہ سخت ہوں، چیف جسٹس کے ملٹری ٹرائل کیس میں ریمارکس

    اگر ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوا تو شاید سزائیں زیادہ سخت ہوں، چیف جسٹس کے ملٹری ٹرائل کیس میں ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف کیس میں ریمارکس دیے نو مئی کے واقعات میں سنگینی کا پہلو موجود ہے، اگر ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوا تو شاید سزائیں زیادہ سخت ہوں، درخواست گزار بھی ٹرائل چاہتے ہیں لیکن مسئلہ شفافیت کا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ درخواستوں پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ فوج کی تحویل میں 102 ملزمان ہیں جبکہ حملےدرجنوں تنصیبات پرہوئے، جو دفعات عائدکی گئی ہیں ان میں سزا دو سال ہے،تنصیبات کوجس نوعیت کا نقصان ہوا سول قانون میں سزا زیادہ ہے، ملزمان کا ٹرائل سول عدالتوں میں ہوا تو سزائیں شاید زیادہ سخت ہوں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاہور کے مقدمےمیں 302 کی دفعہ بھی شامل ہے، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا 9مئی واقعات میں کتنے افراد جاں بحق ہوئے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9مئی واقعہ میں کوئی فوجی اہلکار شہید نہیں ہوا تو جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ کوئی شہادت نہیں ہوئی تو 302 کی دفعہ کیسے لگ گئی؟ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اس بات کاجواب پنجاب ،کے پی ایڈووکیٹ جنرل دے سکتے ہیں۔

    دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ممنوعہ علاقوں میں داخلے پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعہ3کا اطلاق بھی ہوتاہے،ملزمان پر ممنوعہ علاقے میں داخلے کی دفعہ کیوں نہیں لگائی گئی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے ہدایات لے کر آگاہ کروں گا، ممنوعہ علاقوں میں جرم کی نیت سے داخلہ جرم ہے، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے جو کچھ تنصیبات میں کیا وہ بھی تو جرم ہی ہے۔

    منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا ، لیاقت حسین کیس میں جرم سویلین نوعیت کا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نے کچھ حقائق سامنے رکھے ہیں تو ،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں بھی جرم سویلین نوعیت کا تھا۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ وہاں صورتحال باکل مختلف تھی ، آئینی ترمیم کرکے فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کہہ رہے ہیں ایسا پہلی بار ہوا کہ عوام نےفوجی تنصیبات پر حملے کئے، درخواست گزاروں نے جو نکات اٹھائے ان پر بھی بات کریں، سیکشن 7 کے تحت ملٹری کورٹس میں سزا کتنی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکشن 7 اور 9 کے تحت ملٹری عدالتوں میں سزا دو سال قید ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا یہی سزا زیادہ سے زیادہ بنتی ہے تو انھوں نے بتایا کہ جی یہی سزا بنتی ہے ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پھر عام عدالتوں میں تو پھر سزا زیادہ بنتی ہے، سول قوانین کے تحت زیادہ سنگین سزائیں موجود ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے جو مواد ریکارڈ پررکھا ہے وہ تفتش ہی بنیاد بنے گا، آپ نے جو ڈیٹا پیش کیا اس کے حقائق، الزامات کی نوعیت بہت سنگین ہے، کسی ممنوعہ علاقے میں داخل ہونا بھی جرم ہے، ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے پر سکیشن 3 لاگو ہوتا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سیکشن 3 کے معاملے پر حکومت سے ہدایت لیکرعدالت کو آگاہ کرونگا۔ میں نے ٹرائل سے پہلے شواہد کی سمری پیش کی ہے، ٹراٹل کے لیے اگرعدالت بہتر تجویز دے تو اس پر عمل کریں گے، یقینی طور پر عدالت غیر آئینی چیز کی اجازت نہیں دے گی، آپ شفاف ٹرائل اور پراسیس کی یقین دہانی کروائیں توپھر آئینی سوال پر آتے ہیں۔

    جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ فیصلوں میں ملٹری کورٹس صرف اتنا ہی لکھتی ہیں کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا فوجی عدالتوں میں تفصیلی وجوہات ہوں گی، 9 مئی کے واقعات مین سنگینی کا پہلو موجود ہے، میری یاداشت میں ماضی کا ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں جب ملک بھر میں اداروں ہر حملہ ہوا ہو۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگرعدالتی حکم ہو تو وہ وجوہات بھی فوجی عدالتوں کے فیصلے میں شامل ہوں گی، ایک ایف آئی آر میں سیکشن 302 بھی موجود تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا یہ ہم نے نہیں دیکھا۔

    جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں اپیل کا حق دینا ہے تو قانون سازی سے دیں، آپ یہ چیز عدالت سے کیوں مانگ رہے ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ٹرائل کے بعد اپیل کاحق ہے، جاسوسی کے الزام میں گرفتار کلبھوشن کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا تھا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون سازی کے ذریعے وہ ایک “ایلین ” کو حق دیا گیا تھا۔

    جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وہ “ایلین ” ہے یا انڈین؟ لفظ “ایلین’ کی تو کچھ اور تشریحات ہیں، آئین کے تحت بنی کسی عدالت میں اپیل کا حق ملے گا یا نہیں سوال یہ ہے، ہم آپ کو ایک تجویز دیتے ہیں آپ ہدایات لے کر آئیں، آپ ہدایات لیکر بتائیں اپیل کاحق ملنا ہے یا نہیں، آپ کب تک ہدایات لیکر بتا سکتے ہیں؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے پرسوں تک کا وقت دے دیں، اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2 دن کی مہلت دیتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی۔

  • سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ سویلنز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سےمتعلق کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ بنایا جو اب 6 رکنی بینچ ہو چکا ہے، خوشی ہے حکومت نے گرفتار افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کرائی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اٹارنی جنرل کو آئینی نکات پر سننا چاہتی ہے، اس مرحلے پر فل کورٹ بنانا ممکن نہیں، اٹارنی جنرل کے موقف کو مکمل سنا جائے گا کیونکہ ملک کے ہر شہری کو تشویش ہے کہ سختی سے نہیں نمٹنا چاہیے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فوج کا قانون سخت قانون ہے ، درخواست گزاران کا مؤقف ہے ملزمان کو اےٹی سی میں پیش کیا جاسکتاہے، 9مئی کےواقعات کو ہر کوئی سنجیدہ جرم تسلیم کرتا ہے، کوئی بھی ملزمان کوچھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ سویلینز کو کچھ آئینی تحفظ حاصل ہیں ، فل کورٹ کے حوالے سے عدالت مشاورت کرے گی ، کل کیس کو دوبارہ سنتے ہیں ، سویلنز کو آئین کے برخلاف ٹرائل میں نہیں بھیجاجا سکتا۔

  • توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی، چیف جسٹس

    توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیئے توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ یہ تفریق کیسےہوئی ایک الزام پرکچھ لوگ عام کورٹس جبکہ کچھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیلئے جائیں، جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا وہ کہیں کچھ کاملٹری کورٹس میں ٹرائل،باقی گھر جائیں گےتوآپ کوپھرمسئلہ نہیں؟

    وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسی عدالت لےجایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تواعتراض نہیں ، جس کے بعد درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ کےدلائل مکمل ہوگئے۔

    چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے ، استدعا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

    چیف جسٹس نے وکیل عزیربھنڈاری کو ہدایت کی آپ صرف قانون کی بات کریں ، سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔

    دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ افسران جوڈیشل اختیار کا استعمال کرینگے تو فئیر ٹرائل کا حق ملنے کا امکان نہیں، ہمارا قانون سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کاحق نہیں دیتا، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل تفریقی ہے، درخواست گزار کا بیٹا مقدمہ میں ملزم ہے ، نہیں معلوم ملزم پر الزامات کیا ہیں؟

    جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے استفسار کیا کہ 50میں سے 18افراد کا ٹرائل کیا جائےتو کیاکوئی اعتراض ہوگا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسی عدالت بھیجا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تواعتراض نہیں ہوگا، افراد کی تعداد کےبجائے ملزمان کے نام معلوم ہونےچاہئیں، بہت سے افراد کے بارےمیں معلوم نہیں، فوجی عدالتوں میں عدالتی معاونین ہونے چاہئیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے مجھے توقع ہے کہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور زیر سماعت مقدمے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ ملزمان کو اہلخانہ سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا ؟ اٹارنی جنرل صاحب ہمیں کچھ یقین دہانیاں چاہئیں، ملٹری ٹرائلز کا کیا بنا ،کیا کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ممکن ہے تحقیقات کے دوران 102 میں سےکئی افراد کو چھوڑ دیا جائے، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب پک اینڈ چوز کے پیچھے کیاوجوہات ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن افراد نےممنوعہ مقامات پرحملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ یہ بیان موکل کے ہدایات پر دے رہے ہیں یا آپ کا ذاتی بیان ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں کوئی بھی بات عدالت میں ہدایات کے بغیر نہیں کرتا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ آپ بغیر اعداد و شمار کے بات کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امید ہے دوران سماعت کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کل صبح ساڑھے9بجےتک ملتوی کردی۔

  • فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، لطیف کھوسہ

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔

    ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے الگ ہونے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ آسان ہے کہ چیف جسٹس دوبارہ بینچ بنا سکتے ہیں لیکن وفاقی حکومت جو کر رہی ہے وہ غلط ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے استدعا کرنا شرمناک اور افسوسناک ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ہی کہا تھا اگر کسی کو اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔

    ممتاز قانون دان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور سرکار کی جانب سے وکلا نےکہا کوئی اعتراض نہیں، آج ملک جس اذیت اور کرب سے گزر رہا ہے اسکا حل پٹیشن کا فیصلہ کرنا ہے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اعتزازاحسن سپریم کورٹ اپنی ذاتی رنجش لیکر نہیں آئے تھے، اعتزازاحسن انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ آئے تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے انتہائی تحمل اور برداشت کا ثبوت دیا، چیف جسٹس نے کہا آپ  نے 90 دن والا فیصلہ بھی نہیں مانا، عدلیہ، ملکی تاریخ میں اسے سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اور اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض نہیں، اس کے باوجود جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض سمجھ سے بالا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام آئین سے متصادم ہے حکومت نے اپنی شکست مانی ہے، ہم  نے تو فل کورٹ کی استدعا کی تھی کہ 15 مکمل ججز بیٹھیں، آج حکومت کو الحام ہوا کہ منصور علی شاہ پر اعتراض کیا جائے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ اپنے خلاف فیصلہ آنے کی نوشتہ دیوار سمجھتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے، بے چینی کی کیفیت اس لئے ہے کہ یہ عدالتوں کی عزت نہیں کرتے۔

    سینیئر سیاستدان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نےکہا ججز کے پاس مورل اتھارٹی ہوتی ہے، چیف جسٹس نےکہا ہمارے پاس ڈنڈا نہیں ہوتا، چیف جسٹس نے کہا ہم آئین پر عمل درآمد کرتے ہیں، حکومت ہوش کے ناخن لے خدارا اسے سر زمین بے آئین نہ بنائیں۔