Tag: چیف جسٹس

  • ہرشخص کوفیصلے پر تنقید کا حق حاصل ہے، نوازشریف نے کوئی حد پار نہیں کی،چیف جسٹس

    ہرشخص کوفیصلے پر تنقید کا حق حاصل ہے، نوازشریف نے کوئی حد پار نہیں کی،چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، سعد رفیق اور دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کر دی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ہرشخص کو فیصلے پر تنقید کاحق حاصل ہے، نوازشریف نے حد سے تجاوز نہیں کیا مگر کہیں اور حد کراس کی توہم دیکھ لیں گے۔

    تفصیالت کے مطاطق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نوازشریف ، خواجہ سعد رفیق اور دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے اور قانون کےمطابق عدالتی فیصلوں پر ہر آدمی کو تبصرہ کرنے کاحق حاصل ہے۔

    درخواست گزار احسن الدین نے کہا کہ عدالتی تحمل کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درگزر کرنا اور عدالتی تحمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہمارےعدالتی تحمل کی حد آپ سے زیادہ ہے۔

     ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے جومواد ہمارے سامنے پیش کیا گیا وہ توہین عدالت ہے، اس معاملے میں نےکوئی حدپارنہیں کی، کہیں اور حد کراس کی توہم دیکھ لیں گے، اس لیے توہین عدالت کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق کی تقاریر دیکھ لیں ، انھوں نے کہا کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے، صادق اور امین کا تماشا لگا تو معاملہ بہت دورتک جائیگا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایسے بیانات کو ہم درگزر کررہے ہیں، کئی چیزیں اس سے بڑی ہوئی ہیں۔

    چیف جسٹس نے نواز شریف خواجہ سعد رفیق کے خلاف توہین عدالت کی تمام درخواستیں خارج کردیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان ڈیموکرٹک اینڈجسٹس پارٹی کی جانب سےنوازشریف کےخلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرا ئےاعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سےروک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا جبکہ کے پی میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایک سال کے اشتہارات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سرکاری اشتہارات ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اے جی اور سیکرٹری اطلاعات کے پی کے پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے دلچسپ مکالمہ میں کہا کہ منیر ملک اور بابر ستار طریقہ کاروضع کرکے بتائیں ، عوام کے پیسے سے سیاسی جماعتوں کو اپنی تشہیر کی اجازت نہیں دینگے، وزیراعلیٰ نے55 لاکھ روپے جمع کرانے تھے وہ کیوں جمع نہیں کرائے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چیک سائن کردیا،آپ نے تحریری حکم میں پیسے جمع کرانے کا نہیں کہاتھا، چیک سائن ہوا ہے اسکی کاپی میرے پاس موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بھی دکھائیں چیک پر ان کے دستخط کیسے ہیں۔

    ایڈیشنل اے جی نے کہا کہ یہ رقم پارٹی فنڈنگ سے اداکررہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر الیکشن کمیشن کو کہتے ہیں کہ پارٹی فنڈنگ کو دیکھے، دیکھنا ہوگا تشہیری مہم کی رپورٹ کے مطابق کس سےریکوری کرنی ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اب انشااللہ فری اینڈفیئرالیکشن کرانےہیں، 1970 میں آخری شفاف انتخابات ہوئے اور انشااللہ اب ہوں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ٹھیک ہے ٹیکس پیئر کے پیسے سے سیاسی جماعتیں تشہیر کریں، پہلےجو کچھ ہوگیا اب کسی کو بھی تصویر کیساتھ اشتہار شائع کرنےنہیں دینگے، سرکاری وسائل سے ذاتی تشہیرکی اجازت نہیں دے سکتے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کے پی کے سے استفسار کیا کہ کے پی حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کتنے اشتہارات دیئے؟بتائیں کن اشتہارات پر عمران خان اور پرویز خٹک کی تصاویر ہیں؟

    سیکرٹری اطلاعات کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری 2018تک1ارب 63کروڑ دیئے گئے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں، اشتہارات صوبائی حکومت کی تشہیر نہیں؟


    مزید پڑھیں: پہلےلوگ چھپ کرخدمت کرتے تھے اب عوامی پیسوں سےتشہیر کرتے ہیں، چیف جسٹس


    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ جن اخبارات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غیر معروف ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خواب سچ کر دکھایا،اس اشتہار میں عمران خان ساتھ کھڑے ہیں، بیان حلفی دیں، غلط بیانی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ غلط بیانی کی صورت میں آپ ذاتی طور پر ذمہ دار ہونگے،ہمیں اور بھی لوگ معلومات دے دیتے ہیں، سیاسی مہم کی اجازت نہیں دینگے، اشتہار دینا ہے اپنی جیب سے دیں۔

    چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کل تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ، جس پر سیکریٹری اطلاعات کے پی کے نے کہا کہ کل میں 3 ماہ کی تفصیل دوں گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سے روک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی سماعت کل ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے لیپ ٹاپ اسکیم، ہیلتھ کارڈز پرشہبازشریف کی تصاویرشائع کرنے پرازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ وزیراعلی ٰپنجاب کی تصویر ہر جگہ کیوں آجاتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بادی النظر میں اسحاق ڈار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں، چیف جسٹس

    بادی النظر میں اسحاق ڈار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : نومنتخب سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف کیس میں چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ بادی النظر میں اسحاق ڈارالیکشن لڑنے کے اہل نہیں، اسحاق ڈار خود یا وکیل کے ذریعے وضاحت کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نومنتخب سینیٹراسحاق ڈار کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت درخوست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ اسحاق ڈار عدالتی مفرور ہیں ،ایک مفرور شہری الیکشن نہیں لڑ سکتا، اسحاق ڈار کی بطور سینیٹر کامیابی کالعدم قرار دی جائے۔

    چیف جسٹس نے دراخوست گزار سے استفسار کیا کہ مفرورشخص الیکشن نہیں لڑسکتا، ہمیں وہ قانون بتائیں، کیا ہائیکورٹ نے میرٹ کو نہیں دیکھا؟ اشتہاری الیکشن نہیں لڑ سکتا یہ کہاں لکھا ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفرور شخص کیسے الیکشن لڑ سکتا ہے، اسحاق ڈارمفرور ہیں، ریٹرننگ افسر نے اسحاق ڈار کے کاغذات مسترد کئے تھے۔

    جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی مفرور کس قانون کے تحت الیکشن نہیں لڑ سکتا، کیا کوئی فیصلہ ہے کہ عدالتی مفرور الیکشن نہیں لڑ سکتا؟ تو پڑھ کر سنائیں،ہائیکورٹ نے حق دعویٰ نہ ہونے پر آپ کی درخواست خارج کی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت نے اشتہاری قرار دیا، اسحاق ڈار نے اشتہاری ہونے کے حکم کو چیلنج نہیں کیا، اسحاق ڈار کے خلاف اشتہاری ہونے کا حکم حتمی ہوچکا ہے، وہ اس وقت تک اشتہاری ہیں جب تک سرینڈر نہیں کرتے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا بادی النظر میں اسحاق ڈارالیکشن لڑنے کے اہل نہیں، اسحاق ڈار کو ایک عدالت نے مفرور قرار دیا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے اسحاق ڈار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی جواب کیلئے طلب کرلیا اور کہا کہ اسحاق ڈارخود یا وکیل کے ذریعے مؤقف کی وضاحت کریں۔


    مزید پڑھیں : اسحاق ڈار کو سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی


    عدالت نے سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔

    3 روز قبل سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سینیٹ الیکشن کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

    خیال رہے کہ 12 فروری کوالیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو سینیٹ الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے ریٹرننگ افسر کا اسحاق ڈار کے خلاف دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں اینکرپرسن شاہد مسعود کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ شاہد مسعود نے تحریری جواب میں معافی نہیں مانگی، قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کےقاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت ہوئی۔

    شپریم کورٹ نے ڈاکٹرشاہد مسعود کا جواب مسترد کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری جواب میں معافی کا بھی ذکر نہیں، جس پر وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ تحریری جواب میں معافی اس لئے نہیں مانگی کیونکہ ان کے مؤکل شاہد مسعودعدالت سے براہِ راست معافی مانگنا چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے جواب میں کہا پہلے بھی کہہ چکے اب بھی کہہ رہے ہیں کہ معافی کا وقت بیت گیا، اب آپ کے پروگرام کو عدالت میں دکھائیں گے، آپ نے منت کی تھی چیف جسٹس نوٹس لیں۔

    ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نےعدالت کو بتایا کہ شاہد مسعود کے پروگرام کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے لئے زینب قتل کیس میں تفتیش رک گئی تھی۔

    شاہد مسعود کے وکیل نےموقف اختیارکیا کہ ایک میڈیا پرسن کی غلطی کی سزا کیا یہ ہوگی، دوسروں سے بھی غلطی ہوتی ہے تو کیا سب کو بند کریں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قانون کی نظر میں جوغلط ہوگا اسے بند کریں گے، یہ دیکھنا ہے چینل اور پروگرام کتنی مدت کے لئے بند ہوسکتا ہے ۔


    مزید پڑھیں :  معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی


    سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کو کیس میں معاون مقرر کردیا اور اٹارنی جنرل،پراسیکیوٹرجنرل پنجاب،اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔

    اس سے قبل بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس سے متعلق اپنے لگائے گئے الزامات پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے تحریک جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔

    ڈاکٹر شاہد مسعود کے تحریری جواب میں موقف اختیار کیا تھا کہ زینب قتل کیس کے معاملے پر میں حساس ہو گیا تھا، ملزم عمران علی سے متعلق میرے الزامات سے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لیے میں اظہار ندامت کرتا ہوں، مزید مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا۔


    مزید پڑھیں :  ڈاکٹر شاہد مسعود کا عدالت کے روبرو ندامت کا اظہار، تحریری جواب جمع کرادیا


    واضح رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لاہور : پرائیویٹ میڈکل کالجز کی فیسوں کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجزکی فیس، سہولتوں سےمتعلق سماعت کی، چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیکل کالجز اسٹرکچر کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔

    چیف جسٹس کہا کہ بتایاجائےمیڈیکل کالجزمیں کیاسہولتیں دی جاتی ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں ہیں، بھائی پھیروکریسنٹ کالج کادورہ کرلیتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بہت سارے ایشوز کو اکٹھا ٹیک اپ کیا، اب ہم ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے، پی ایم ڈی سی کواپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ کسی میڈیکل کالج کو اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک مجبوری نہ بن جائے، تعلیم کاروبار ہو سکتا ہے مگر میڈیکل کی تعلیم پر اتنی فیسیں نہ لگائی جائیں کہ لوگوں کی جیبیں ہی کٹ جائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ڈاکٹرز آرہے ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا، کل 5بچے مرگئے،ان کا ذمہ دارکون ہے، انکوائری ہوگی اور آخر میں سارا ملبہ دھوپ پر ڈالا جائے گا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ تمام میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آڈٹ کروائیں جبکہ سیالکوٹ میڈیکل کالج کو فارن سٹوڈنٹس کوٹے کی مد میں لی گئی فیس واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز میں کیا سہولیات دی جا رہی ہیں، ان کا خود جائزہ لوں گا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں جو مرضی آئے تنقید کرے، عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہوں گا۔

    انہوں نے کہا کہ آج واضح کرتا ہوں کہ بابا رحمتا کا تصور کہاں سے لیا یہ خیال اشفاق احمد سے لیا اور بابا رحمتا ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

    سماعت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کا دورہ بھی کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : زینب قتل کیس میں ٹی وی اینکر کے الزامات پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کےقاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت ہوئی ، ڈاکٹر شاہد مسعود عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ آگئی بظاہر آپ کے الزامات درست نہیں، کوئی ابہام نہ رہےتوآپ کی سی ڈی دوبارہ دیکھ لیتےہیں ،آپ نےباربارکہادرخواست ہےمعاملےکانوٹس لیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نےکہابات درست نہ ہوتومجھےپھانسی دےدی جائے، جے آئی ٹی رپورٹ آگئی ذاتی رائے دینا چاہتے یا دفاع کرناچاہتےہیں، جس پر شاہدمسعود کے وکیل شاہد خاور نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں ملی، سرگودھا میں ایک واقعہ ہوا تھا اسی تناظرمیں انٹرنیشنل مافیا کی بات کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی کاپی دیتے ہیں آپ چیلنج کر رہےہیں تو اسکے نتائج بھی ہونگے، سچ تھا یا مبالغہ آرائی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

    سماعت کے دوران میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، وقت گزر چکا، عوامی سطح پرتسلیم کریں کہ آپ نےغلطی کی۔

    وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ رپورٹ کوچیلنج کررہےہیں جبکہ شاہد مسعود نے چیف جسٹس کو 4صفحات پرمشتمل دستاویز پیش کی۔

    سپریم کورٹ نے شاہد مسعود کے پروگرام کو نجی ٹی وی کونوٹس جاری کرتے ہوئے شاہد مسعود کو 2روز میں اپنا جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت 12مارچ تک ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں : زینب قتل کیس: ڈاکٹرشاہد مسعود کےالزامات بے بنیاد قرار


    یاد رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دہری شہریت کیس: سپریم کورٹ‌ نے چار نومنتخب سینیٹرز کی کامیابی کے نوٹیفکیشن روک دیے

    دہری شہریت کیس: سپریم کورٹ‌ نے چار نومنتخب سینیٹرز کی کامیابی کے نوٹیفکیشن روک دیے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے دہری شہریت کے باعث چار نومنتخب سینیٹرز کی کامیابی کے نوٹیفکشن روک دیے اور ان سے وضاحت طلب کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں دہری شہریت کیس سے متعلق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ چار سینیٹرز دہری شہریت کے حامل ہیں، جن میں سعدیہ عباسی، ہارون اختر، نزہت صادق، چوہدری سرور شامل ہیں۔

    سینیٹ انتخابات: ن لیگ کے حمایت یافتہ 15، پیپلزپارٹی کے 12، پی ٹی آئی کے 6 امیدوار کامیاب

    اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹرز کو پہلے مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ دہری شہریت ترک کر چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو چاروں سینیٹرز کے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکتے ہوئے حکم دیا کہ کیس کے فیصلے تک الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔

    خیال رہے کہ نومنتخب سینیٹرز میں سے چوہدری سرور کا تعلق پاکستان تحریک انصاف جبکہ ہارون اختر، نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور چاروں افراد پنجاب سے سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں۔

    تجزیہ کار اس نوٹیفکیشن کو مسلم لیگ ن کے لیے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ عدالتی فیصلے میں میاں نواز شریف کے بہ طور پارٹی سربراہ نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں حصہ لیا تھا۔

    الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کے نتائج جاری کردیے

    دوسری جانب چوہدری سرور کا وضاحتی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ میں نے گورنر بننے سے پہلے ہی لندن کی شہریت چھوڑ دی تھی، میرے متعلق تمام خبریں من گھڑت ہیں، میں نے دہری شہریت سے متعلق ثبوت میڈیا کو جاری کردیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت

    نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب کوئی پیش رفت یا کامیابی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ راؤ انوارابھی تک گرفتارنہیں ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب کوئی پیش رفت یا کامیابی؟ جس پر آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ نقیب اللہ محسود قتل میں ملوث ڈی ایس پی گرفتارہوگیا ہے لیکن راؤ انوارابھی تک گرفتارنہیں ہوا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نےآپ کوتمام سیکیورٹی اداروں کی مدد دی تھی، کیوں گرفتار نہیں ہوا آپ بہتر بتا سکتے ہیں، آپ نے تمام سیکیورٹی اداروں سے کیا معاونت لی۔

    اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آئی بی کی رپورٹ جمع ہوچکی ہے جس کے مطابق انٹیلی جنس بیورو کے ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم سے رابطے میں ہیں۔

    آئی بی نے مفرور ملزم راؤانوار کی فون کالز کا تکنیکی جائزہ لیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ میں تو کچھ بھی نہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ کہاں ہے؟۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ اب تک نہیں آئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اورایم آئی کی رپورٹ کیوں نہیں آئی وضاحت پیش کریں۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ راؤ انوار دہری شہریت نہیں رکھتے، چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار بھی اقامہ رکھتے ہیں۔

    اس موقع پر وکیل فیصل صدیقی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ راؤانوارکے بینک اکاؤنٹس منجمد ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں مزید کیا احکامات دے سکتے ہیں۔

    بعدازاں سپریم کورٹ نے نقیب اللہ محسود قتل ازخود نوٹس کی سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

    سپریم کورٹ میں نقیب اللہ محسود کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے سینئرجوائنٹ سیکریٹری محمد یونس عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایس آئی، ایم آئی کی رپورٹ کیوں نہیں دی گئی؟ ۔

    جوائنٹ سیکریٹری دفاع نے جواب دیا کہ ایک ہفتہ دیا جائےتفصیلی رپورٹ دے دیں گے، عدالت عظمیٰ نے آئی ایس آئی،ایم آئی ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرائیں، ایف آئی اے کل تک رپورٹ جمع کرائے اور ایف سی بھی 10 دن میں تحریری رپورٹ دے۔

    دوسری جانب نقیب اللہ محسود کے وکیل نے کہا کہ راؤانوارکی سی سی ٹی فوٹیج طلب کی جائے، ایسی اطلاعات ہیں راؤ انوار کو کوئی سہولت فراہم کررہا ہے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اے ڈی خواجہ صاحب فوٹیج لیں، ہم تحقیقات کواپنے ہاتھوں میں نہیں لینا چاہتے، ہم فوٹیج کے لیے حکم نہیں دیں گے۔


    نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیشرفت، راؤ انوار کا قریبی ساتھی گرفتار


    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 19 فروری کو نقیب اللہ قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی تھی، پولیس نے راؤ انوار کے قریبی ساتھی سابق ڈی ایس پی قمر احمد کو گرفتار کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومت کوعوام کے پیسوں سے تشہیرکا حساب دینا پڑے گا، چیف جسٹس

    حکومت کوعوام کے پیسوں سے تشہیرکا حساب دینا پڑے گا، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حکومتی تشہیر کا حساب دینا پڑے گا، الیکشن سے پہلے وزیر اعلیٰ کی تصویر کے ساتھ اشتہار قومی خزانے سے کیوں چلائے گئے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں حکومت کی اشتہاری مہم پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔

    اس موقع پر پنجاب کے سیکریٹری انفارمیشن بھی پیش ہوئے، دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریماکس دیئے کہ عوام کے ٹیکس کی رقم سے ذرائع ابلاغ پر حکومت کے کاموں کی تشہیر کاحساب دینا پڑے گا۔

    الیکشن قریب ہیں اورآپ وزیر اعلیٰ کی تصویر چلارہےہیں، انہوں نے سیکریٹری انفارمیشن سے استفسار کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویر کے ساتھ اشتہار قومی خزانے سے کیوں چلائے گئے؟ یہ قبل از انتخابات دھاندلی کے مترادف ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب تشہیر اپنے پیسوں سے کریں یا چینلز کو پارٹی فنڈ سے پیسے دیں، اپنے بیان میں پنجاب کے سیکریٹری انفارمیشن نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ٹی وی چینلز کو ایک منٹ کے ایک لاکھ اسی ہزارروپے دیئے اور ایک دن میں بارہ چینلز پراشتہارات چلوائے جن پر پچپن لاکھ روپے کے اخراجات آئے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو کس نےاشتہارات کا اختیار دیا؟ اور کس میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوتا ہے؟ چیف جسٹس نے مکمل رپورٹ نہ دینے پر برہمی ظاہرکرتے ہوئے سیکریٹری انفارمیشن کو فوری رپورٹ بنانے کا حکم دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

     

  • احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ  دے دے، چیف جسٹس

    احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے احدچیمہ کی گرفتاری پر افسران کواحتجاج سے روک دیا اور کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، جسے بلایا جائے وہ تعاون کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایل ڈی اے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام بیوروکریٹس کو احد چیمہ کی گرفتاری پر احتجاج سے روک دیا۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جس نے استعفیٰ دینا ہے دے دے، جسے بلایا جائے وہ مکمل تعاون کرے، نیب کو کوئی بھی ہراساں نہیں کرے گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے حوالے سے سوال کیا کہ اسمبلی سے کیسے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہوئی، ایسےتو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی۔

    چیف جسٹس نے احد چیمہ کے کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور سوال کیا کہ آج کل احد چیمہ کہاں ہے، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب میں کہا کہ احد چیمہ نیب کی حراست میں ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ گریڈ 19 کی کیا تنخواہ ہے اور احد چیمہ کتنی لیتے تھے،چیف سیکرٹری نے بتایا کہ تنخواہ ایک لاکھ ہو سکتی ہےلیکن مراعات کے ساتھ 14 لاکھ لے رہے ہیں۔


    مزید پڑھیں : سابق ڈی جی ایل ڈی اے کی گرفتاری: نیب اورپنجاب حکومت آمنے سامنے


    دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت نجی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ ایل ڈی اےقوانین کےتحت 6کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ قانون پڑھ کرسنائیں،کہیں نہیں لکھا نجی کمپنی سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے، ترقیاتی کام تو ایل ڈی اے نے کروانے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کمپنیوں کے مالکان ،شیئرہولڈرز کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ معاہدے کے وقت ڈی جی ایل ڈی اے کون تھا؟ ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ اُس وقت ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ تھے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس احد چیمہ کا نیا عہدہ کیا ہے،ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ احد چیمہ قائد اعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں، جس کے بعد عدالت نے احد چیمہ کی سروس پروفائل اورتنخواہوں کاریکارڈطلب کرلیا جبکہ پیراگون سٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

    بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔