Tag: چیف جسٹس

  • ایک سال نیک نیتی اور نیک جذبے کے ساتھ ملک کودےدیں،دیکھیں گے ملک کانقشہ بدل جائے گا، چیف جسٹس

    ایک سال نیک نیتی اور نیک جذبے کے ساتھ ملک کودےدیں،دیکھیں گے ملک کانقشہ بدل جائے گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ کہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے، ایک سال نیک نیتی اورنیک جذبےکےساتھ ملک کودےدیں، ایک سال بعد دیکھیں گے ملک کانقشہ بدل جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی پالیسی سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف فراہم کرناہماری ذمہ داری ہےمزدوری نہیں، میں آپ سےمزدوری نہیں کرانا چاہتا اپنی ذمہ داری پوری کریں، لوگوں کوشکایت ہے اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، آپ لوگوں سے درخواست ہے بڑے بھائی کو شرمندگی سے بچانا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کاحصہ ہیں کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ہوتا ہے، عدلیہ اپنی کارکردگی نہیں دکھائے تو ریاست بیٹھ جاتی ہے، چیف جسٹس پشاوراورسندھ ہائی کورٹ نے کہا ٹارگٹس دےدیں، مجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کمرہ جیسےمعاملات انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنناچاہیے، گاڑی نہیں ملی کمرہ نہیں اسٹاف نہیں یہ مسائل ہیں، مسائل کو راستے کی رکاوٹ نہ بننے دیں،ان میں رہ کر کام کرنا ہے، منصفی نوکری سمجھ کر کرینگے تو جذبے سے کام نہیں کرپائیں گے۔

    انکا کہنا تھا مسائل کے حل کیلئےاےٹی سی میں ججز کو تعینات کیا گیا، ججز کو اسپیشل ٹاسک دیا گیا ہے، احتساب عدالت میں موجودججزکوکوئی عام کام نہیں دیا، بڑے بڑے مگر مچھوں کو قانون کے کٹہرےمیں لاناہے، مین اسٹریم سیٹ اپ میں آپ 2قدم آگے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بہت بدنصیب لوگ ہوتےہیں جو بے وطن ہوتےہیں، فخر ہوتا ہے میں بھی پاکستان کا ایک شہری ہوں، جس وطن کیلئے قربانیاں دیں کیا اس ماں کاحق اداکر رہے ہیں۔

    انکا کہنا تھا کہ چینی چیف جسٹس نےکہاترقی کاراز صرف خدمت کاجذبہ ہے، آئندہ نسلوں کویہ ملک اچھانہیں دےکرگئےتوپھرکچھ نہیں دیا ایک سال نیک نیتی اورنیک جذبےکےساتھ ملک کودےدیں، ایک سال بعد دیکھیں گےملک کانقشہ بدل جائےگا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قوم کی خدمت نہیں کرسکتےتوآپ لوگ اپناوقت ضائع نہ کریں، ہائیکورٹ کےجج کی تنخواہ 40سے45ہزار روپے ہے، ہمیں اتنی مراعات ملتی ہیں ہمارا فرض نہیں قوم کی خدمت کریں، ججزکودرپیش چیلنجزانصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننےچاہئیں، ایسے ججز کو بھی دیکھا جن کے روم میں پنکھے بھی نہیں تھے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں موجودہ حالات اورقانون کےمطابق انصاف دیناہے، انصاف میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتنا، ایک ریاست کے3ستون ہوتے ہیں، ایک پارلیمنٹ ہے جو آئین کی رو سے سپریم ہے، جو آئین اور قانون بنے ہم ان پرعمل کرتے ہیں، ان ہی قوانین پر عمل کرنا اور انصاف فراہم کرنا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ججزسےامیدرکھتاہوں انہیں قانون پرمکمل گرفت ہو، ججزسب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنےوالےسرکاری ملازم ہیں ججز 22گریڈ کے سرکاری افسر سے زیادہ تنخواہ حاصل کرتےہیں، پارلیمنٹ کاکام قانون بناناہے عدلیہ کاکام اس قانون پرعمل کرناہے، کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کیسز کو ایک ماہ میں نمٹایا کریں۔

    جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ خدا کے واسطےاس ملک میں انصاف کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں کر جائیں، یہ کہہ کہہ کرتھک گیا ہوں کہ ایک مہینے میں فیصلہ دیا کریں، کیسز آرہے ہیں جس میں ایک ایک سال بعد فیصلے لکھے گئے، میں اورآپ کل ججز نہیں ہوں گے تو کوئی پہچانے گا بھی نہیں، نظام کودرست کرکے چلے جائیں گے تو خود بخود بہتری آتی جائےگی۔

    انھوں نے کہا کہ عہد کریں ہمارے لئےپیسےکی کوئی اہمیت نہیں ہے، بچوں کو کوٹھی اورپراڈو دے کر جاؤ گے تو اس کا کچھ نہیں بنےگا، انصاف کابول بالا کرکےجائیں گےتومعاشرے میں بہتری آئے گی، لوگوں کےبنیادی حقوق کوبحال کرناہےیہ ہماری ذمہ داری ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ واحدعدالت ہےجسےسوموٹوایکشن کااختیارہے، عوامی حقوق کیلئے سو موٹو ایکشن لئے اور آگے بھی لیتے رہیں گے، ججزکوکسی خوف یامصلحت کےتحت ڈیوٹی سےگریز نہیں کرنا، اس ملک کوایک بہترملک بنانے کے لئے جدوجہد کرنی ہے، کیا موجودہ حالات کے تحت قانون اپ ڈیٹ ہوا ہے؟

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ججزکی مراعات ان کاحق ہے، مراعات میں کوئی کمی بیشی ہےتوبذریعہ رجسٹراربتادیں، مسائل حل کرنےکی پوری کوشش کریں گے، تجویز ہے عدلیہ کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول چیف جسٹس کے پاس ہوناچاہیے، ایک جج صاحب کہتے ہیں بے سکون ہو کر کوئی جج انصاف کر سکتا ہے؟

    انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کوڈی ریل ہونےنہیں دینگے، غلطیاں سب سےہوئیں ہم سےبھی ہوئیں ہوں گی، ہم نے اچھے کام بھی کئے، ان کےحوالےکیوں نہیں دیئےجاتے، مفاد عامہ کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہے، کبھی کبھی ایسے کیسز آجاتےہیں ازخودنوٹس لینے پڑتے ہیں،چیف جسٹس

    انھوں نے کہا کہ کوئی بتا دے بنیادی حقوق کے نوٹس لے کرخلاف ورزی کی، تعلیم،صحت،صاف پانی پر ازخودنوٹس لے کر کیا غلط کیا؟ آج تہیہ کریں کہ چیف جسٹس کی مہم کاحصہ بنناہے، سازشوں کی باتیں کرنےوالوں کیلئےپیغام ہےعدلیہ آزادہے، میرےکسی جج کےاوپردباؤ نہیں اس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • بددیانت شخص کواپنی ایمانداری ثابت کرنا ہوگی‘ چیف جسٹس

    بددیانت شخص کواپنی ایمانداری ثابت کرنا ہوگی‘ چیف جسٹس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بددیانت شخص کوکنڈکٹ سے ثابت کرنا ہوگا کہ بدیانتی ایمانداری میں تبدیل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس دائردرخواستوں پرسماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا آج دلائل نہیں دے سکوں گا، نہال ہاشمی کوسزا ہونے پربطور وکیل پریشان ہوں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نہال ہاشمی کیس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے آپ دلائل جاری رکھیں۔

    کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 اور63 کوملا کرپرکھا جائے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی ایک ٹرم کے لیے ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ نا اہل شخص اگلا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گا بددیانتی بھی رہے گی۔

    وکیل کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈیکلریشن کاغذات نامزدگی کے وقت کردار سے متعلق ہوگا جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہی جائزہ لینا ہے ڈیکلریشن کا اطلاق کب تک ہوگا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی کہے کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو سب سے پہلےڈیکلریشن کو تسلیم کیا جائے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کسی کوبددیانت قراردیا گیا تو5 روز بعد وہ دیانتدارکیسے ہوگا جس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ توبہ کا تصور بھی موجود ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ نا اہلی کے مقدمات میں توبہ گالیاں دے کرہوگی، کیا سرعام برا بھلا کہہ کرتوبہ ہوسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نا اہل شخص کو پہلے غلطی اور گناہ کا اعتراف کرنا ہوگا، غلطی تسلیم کریں گے تومعافی ہوگی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ طے یہ کرنا ہے کہ نااہلی کی مدت کیا ہوگی جس پروکیل درخواست نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں دائمی نااہلی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18 ویں ترمیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا۔

    وکیل کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ پارلمینٹ نے تبدیلی اس لیے نہیں کی کیونکہ مذہبی عناصر کا خوف تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مطلب ہے کہ پارلیمنٹ ڈرگئی تھی؟۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے جس پردرخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آپ دیکھ لیں فیض آباد میں کیا ہوا۔

    بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی جبکہ آئندہ سماعت پر وکلاء اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز آرٹیکل62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت میں نواز شریف کے وکیل کو ایک ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناماکیس میں 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نوازشریف کو نا اہل قرار دیا تھا جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔


    نا اہلی کیس: عمران خان بری/ جہانگیر ترین نا اہل قرار، تفصیلی فیصلہ


    عدالت عظمیٰ کی جانب گزشتہ برس 15 دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نا اہل قرار دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر ضرور شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ: شاہد مسعود کے دعوے پر کمیٹی کی تشکیل کا حکم نامہ جاری

    سپریم کورٹ: شاہد مسعود کے دعوے پر کمیٹی کی تشکیل کا حکم نامہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے سے متعلق کمیٹی کی تشکیل کا حکم جاری کردیا، کمیٹی کے سربراہ ڈی جی ایف آئی اے ہوں گے.

    تفصیلات کے مطابق اعلیٰ عدلیہ نے سینئر اینکر پرسن کے الزامات کے تحقیقات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا حکم دیا ہے، کمیٹی 30 دن میں رپورٹ پیش کرے گی.

    اس کمیٹی کی سربراہی ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کریں گے، کمیٹی میں جوائنٹ ڈائریکٹر آئی بی انورعلی اور اے آئی جی عصمت اللہ جونیجو بھی شامل ہوں‌ گے.

    سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کمیٹی معاونت کے لیے اسٹیٹ بینک کے سینئرافسرکی خدمات لےسکتی ہے. ساتھ ہی ملزم عمران کےمبینہ اکاؤنٹس کی چھان بین کے لئے اسٹیٹ بینک سےمددلی جائے۔

    کمیٹی ڈاکٹرشاہدمسعود کا بیان بھی ریکارڈ کرے گی، کورٹ کے مطابق شاہد مسعود چاہیں تو اپنے دعوے کے پیش نظر ریکارڈ فراہم کرسکتے ہیں. حکم نامے کے مطابق کمیٹی شاہد مسعود کےدعوے پرانکوائری کے لیے ماہرافسرکی خدمات بھی لےسکتی ہے، کمیٹی الزامات کے درست یاغلط ہونے کا تعین کرکے حتمی رپورٹ دے گی.

    ڈی جی ایف آئی اےبشیرمیمن کی سربراہی میں‌ کام کرنے والے یہ کمیٹی 30 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔

    شاہد مسعود کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں: رانا ثنا اللہ

    یاد رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں خصوصی بینچ نے زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کی تھی، جس کے بعد نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا گیا تھا.

    سپریم کورٹ نےشاہد مسعود کےانکشافات پرنئی جےآئی ٹی تشکیل دے دی

    واضح رہے کہ آج وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں‌ کہا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں ملک میں‌ انتشار پھیلانا چاہتی ہیں، قصور واقعے کا رخ موڑنے کے لیے 37 اکاؤنٹس کی بات کی جارہی ہے.


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس نےعاصمہ قتل کیس کا ازخود نوٹس لےلیا

    چیف جسٹس نےعاصمہ قتل کیس کا ازخود نوٹس لےلیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے مردان میں 4 سالہ عاصمہ کے قتل کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخواہ سے 24 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عاصمہ کے قتل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے اور آئی جی خیبرپختونخواہ سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

    دوسری جانب ڈی جی پنجاب فرانزک لیب کا کہنا ہے کہ عاصمہ کے ڈی این اے میں بچی سے زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔

    پنجاب فرانزک لیب کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والی اشیا کے نمونے بھی لیے گئے تھے،عاصمہ کےجسم سے لیے گئے نمونوں سے زیادتی ثابت ہوئی۔

    ڈی جی پنجاب فرانزک لیب کا کہنا ہے کہ عاصمہ سے زیاتی ثابت ہونے کی رپورٹ خیبرپختونخواہ پولیس کوبھجوا دی گئی ہے۔


    مردان میں 4 سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل


    خیال رہے کہ 4 سالہ عاصمہ 14 جنوری کو اپنے گھر سے لاپتہ ہوئی تھی، 15جنوری کوعاصمہ کی لاش گھر کےقریب کھیتوں سے ملی تھی۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل قصور سے اغوا ہونے والی ننھی زینب کو ملزم عمران نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • راؤانوارکا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا

    راؤانوارکا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا

    اسلام آباد : وزارت داخلہ نےسپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر نقیب اللہ محسود کے مبینہ مقابلے میں ملوث عہدے سے معطل ہونے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا۔

    تفصیلات کےمطابق سابق ایس ایس پی ملیرراؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو تحریری احکامات موصول ہوگئے جس کے بعد راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے آج نقیب اللہ محسود کے مبینہ مقابلے میں ملوث عہدے سے معطل ہونے والے ایس ایس پی ملیرراؤانوارکا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے 27 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیراؤانوارکوبھی ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا ہے۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ راؤ انواربیرون ملک جانے کی کوشش کررہے ہیں، وزارت داخلہ فوری طورپرراؤ انوارکا نام ای سی ایل میں ڈالے۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سنا ہے جےآئی ٹی بنی لیکن راؤانوارپیش نہیں ہورہے، کیا راؤانوارابھی بھی ایس ایس پی ہیں؟۔

    عدالت عظمیٰ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ممبران کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت 27 جنوری تک ملتوی کردی تھی۔


    راؤانوارکی دبئی فرارہونے کی کوشش ناکام


    یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نقیب اللہ محسود کے مبینہ مقابلے میں ملوث عہدے سے معطل ہونے والے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی آج صبح دبئی فرارہونےکی کوشش ناکام بنادی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حمزہ شہباز کے گھرکے باہرسے رکاوٹیں فوری ہٹائی جائیں:چیف جسٹس

    حمزہ شہباز کے گھرکے باہرسے رکاوٹیں فوری ہٹائی جائیں:چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان نے حمزہ شہباز کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انھیں جان کا خطرہ ہے، تو وہ کہیں‌ اور منتقل ہوجائیں.

    چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سیکیورٹی بیریئرز کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہے.

    چیف جسٹس نے دوران سماعت سوال کیا کہ یہ حمزہ شریف کون ہیں، ان کی جان کو کس سے خطرہ ہے، ان کے گھر سے فوری بیریئر ہٹائے جائیں، میں‌ خود چیک کروں گا.

    تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے سیکریٹری پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بیریئرز کیوں نہیں ہٹائے۔ چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ حمزہ شہباز کی جان کو خطرہ ہے۔

    قانون کی تعلیم کا ایسامعیارچاہتےہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں‘ چیف جسٹس

    اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے گھرسے رکاوٹیں فوری ہٹانے کا حکم دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جان کو خطرہ ہے، تو حمزہ شہبازشریف وہاں‌ چلے جائیں، جہاں انہیں تحفظ مل سکے، لیکن عوام کو پریشان مت کریں۔

    رانا ثناء کا ردعمل

    وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے عدالتی حکم پرتنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دانوں سے متعلق ہتک آمیزریمارکس پرافسوس ہوتا ہے، سرزنش سے ادارے مضبوط نہیں ہوتے۔

    رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کی جان کو خطرہ ہو، توپولیس رکاوٹیں کھڑی کرسکتی ہے اور اس وقت شریف خاندان کے ہرفرد کوخطرہ ہے۔

    انتظامیہ کی کارروائی

     چیف جسٹس کے حکم پر ابتدا میں پنجاب انتظامیہ روایتی ٹال مٹول سے کام لیتی نظر آئی، البتہ اے آر وائی سے خبر نشر ہونے کے بعد فوری ایکشن لیا گیا  اور چیف جسٹس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے گھر کے باہر کھڑی رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قانون کی تعلیم کا ایسامعیارچاہتےہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں‘ چیف جسٹس

    قانون کی تعلیم کا ایسامعیارچاہتےہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں‘ چیف جسٹس

    لاہور: غیرمعیاری لاء کالجزسے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جائزے کے لیے کمیٹی قائم کرتے ہوئے تعلیمی اصلاحات پررپورٹ 5 ہفتے میں مرکزی کمیشن کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیرمعیاری لاء کالجز سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

    سپریم کورٹ نے کمیشن کو7ہفتے میں لاء کالجز، قانون کی تعلیم میں ریفارمزپررپورٹ دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی کمیشن تعلیمی اصلاحات پر5 ہفتے میں رپورٹ مرکزی کمیشن کو دے۔

    عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ مرکزی کمیشن اصلاحاتی رپورٹ متعلقہ اسٹیک ہولڈرزکو فراہم کریں اور ساتھ ہی تمام صوبائی چیف سیکریٹریزکو بھی کمیشن کی معاونت کرنے کا حکم دیا گیا۔


    قانون پرعملدر آمد کا وعدہ پورا نہ کیا تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا: چیف جسٹس


    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ قانون کا معیار تعلیم بہتر کرنا چاہتے ہیں، رات ایک تصویر دیکھی کہ ایک رات میں بی اے پاس کریں۔

    انہوں نے کہا کہ تعلیمی نظام ایسے نہیں چلے گا، قانون کی تعلیم کا ایسا معیار چاہتے ہیں کہ اچھے وکیل پیدا ہوں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرائیویٹ لاء کالجزخلا ضرور مکمل کریں مگرکاروبار نہ کریں۔

    سپریم کورٹ نےغیرمعیاری لاء سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت 7ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روزچیف جسٹس نے ملکی جامعات کو کسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک دیا تھا اور یونیوسٹیوں کے وائس چانسلرز کو لاکالجز کی انسپکشن کا حکم دیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قانون پر عملدر آمد کا وعدہ پورا نہ کیا تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا: چیف جسٹس

    قانون پر عملدر آمد کا وعدہ پورا نہ کیا تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا: چیف جسٹس

    لاہور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ قانون پر عملدر آمد کا وعدہ پورا نہ کیا تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا۔ ہم نے فیصلہ کرلیا اس ملک میں آئین اور قانونی کی حکمرانی رہے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے لاہور میں تقریب سےخطاب کیا۔

    اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ کے بغیر نا مکمل ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ میرے بینچ کا اہم حصہ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آزاد ادارہ ہے۔ عدلیہ آزاد ہے اور اس پر سب کو فخر ہونا چاہیئے۔ ’ججز اور وکلا اپنی ڈیوٹی دیانت داری سے کریں۔ ہم اس قوم کے مقروض ہیں، انصاف کرنا احسان میں شامل نہیں۔ کسی جج کو کوئی اختیار نہیں اپنی مرضی اور منشا کا فیصلہ کرے۔ ہم نے مظلوم کی داد رسی کرنی ہے مرضی کے فیصلے نہیں کرنے ہیں‘۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل خوشحال بی بی کا کیس سن کر شرم آئی جسے 433 روپے پنشن مل رہی تھی۔ ’عجیب انصاف ہو رہا ہے ایل ڈی اے کا اہلکار ریٹائرڈ ہوتا ہے پنشن پر افسر بیٹھ جاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ آپ سب سے ایک سال کا تحفہ مانگ رہا ہوں۔ اس ایک سال کے تحفے سے ہمارا مستقبل سنور جائے گا۔ ’ایک سال دیانت داری سے کام کریں پھر آپ مزہ بھی دیکھیں۔ ایک سال دیانت داری سے کام کرنے پر آپ کو اس کا چسکہ لگ جائے گا‘۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ منافقت نہیں کرنی سب سے پہلے حضرت عمرؓ کی طرح خود پر عمل کرنا ہے۔ جس دن حضرت عمرؓ جیسی قیادت مل گئی تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا اس ملک میں آئین اور قانونی کی حکمرانی رہے گی۔ ’آئین اور قانون پر عملدر آمد کا وعدہ پورا نہ کیا تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس نے ملکی جامعات کوکسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک  دیا

    چیف جسٹس نے ملکی جامعات کوکسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک دیا

    لاہور : چیف جسٹس نے ملکی جامعات کو کسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سےروک دیا اور یونیوسٹیوں کے وائس چانسلرز کو لاکالجز کی انسپکشن کا حکم دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیر معیاری لاکالجز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کی سماعت ہوئی،دوران سماعت ملک بھرکی یونیورسٹیوں کے وی سیزعدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلرز کی عدم تعیناتی پر برہمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس پنجاب کو فوری طلب کر لیا۔

    چیف جسٹس  نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ مستقل تعیناتیاں ابھی تک کیوں نہیں کی گئیں، جس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ سرچ کمیٹی بنادی گئی ہے جلد تعیناتیاں کر دی جائیں گی۔

    عدالت نے سرکاری یونیورسٹیوں کو نئے لاکالجز کے الحاق سے روک دیا اور وی سیز کو انسپکشن کا حکم دے دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ وکالت کیلئے انٹری ٹیسٹ ختم کردیں،اگرنقل مار کر وکیل بنناہے توایسے سسٹم کوختم کردیں۔

    چیف جسٹس نے سینئر وکیل حامد خان کی سر براہی میں کمیٹی قائم کردی اور کہا کہ کمیٹی قانون کی تعلیم میں اصلاحات،لا کالجز میں بہتری کے لئے کام کرے ، وہ وکیل نہیں چاہتے جو پان ،دودھ بیچیں اور انہیں ڈگری مل جائے۔

    سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس کو لاء کالجز سے متعلق کیسز کی سماعت سے روک دیا ہے۔


    مزید پڑھیں : سرکاری جامعات کے غیرمعیاری نجی کالجز سے الحاق کا مقدمہ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو طلب


    چیف جسٹس نے لاء کالجز سے متعلق وائس چانسلرز کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ سمجھ نہیں آتی اتنی پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھل کیسےگئیں۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سرکاری جامعات کے غیرمعیاری نجی لاء کالجز سے الحاق کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یونیورسٹیوں کےوائس چانسلرز کو طلب کر لیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے ہفتے اور اتوار کو بھی عدالت لگےگی، چھ ماہ میں سب کچھ ٹھیک کریں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس کا نقیب اللہ محسود کے قتل  کا ازخود نوٹس

    چیف جسٹس کا نقیب اللہ محسود کے قتل کا ازخود نوٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس نے مبینہ مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا ازخودنوٹس لے لیا اور آئی جی سندھ سے7دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب ںثار شاہ لطیف ٹاؤن میں مبینہ مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا نوٹس لے لیا اورآئی جی سندھ سے7دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    گزشتہ روز ایس ایس پی ملیر راؤ انور نے دعویٰ کیا تھا کہ دہشتگردی کی درجنوں وارداتوں میں ملوث نقیب اللہ کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور کراچی میں نیٹ ورک چلا رہا تھا جبکہ 2004 سے 2009 تک بیت اللہ محسود کا گن مین رہا جبکہ دہشتگری کی کئی واردتوں سمیت ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنےمیں بھی ملوث تھا۔

    نوجوان کی ہلاکت کے تین روز بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نقیب کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا۔


    مزید پڑھیں :  نقیب اللہ کراچی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیٹ ورک چلا رہاتھا ، راؤ انوار کا دعویٰ


    نوجوان نقیب اللہ محسود کے والد کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا بے گناہ تھا اس بات کی گواہی پورا پاکستان دے رہا ہے، آرمی چیف اور وزیر اعظم انصاف دلوائیں۔

    صوبائی وزیر داخلہ سہیل سیال بلاول بھٹو کے حکم پر نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت پر تحقیقات کمیٹی بناتے ہوئے ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاون امان اللہ مروت کو معطل کردیا ہے، انکوائری کمیٹی نے راؤ انوار کو طلب کرلیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  آرمی چیف انصاف دلوائیں، نقیب کے والد کی اپیل


    مقتول وستوں اور قریبی رشتے داروں نے دعویٰ کیا کہ ’نقیب کپڑے کا کاروبار کرنے کی غرض سے کراچی آیا اور اُسے سی ڈی ٹی نے سہراب گوٹھ سے 7 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔

    واضح رہے 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں خطرناک ملزمان کی گرفتاری کے لیے شاہ لطیف ٹاؤن جانے والی پولیس پارٹی پر دہشت گردوں نے فائرنگ کردی تھی جس پر پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے 4 دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔