Tag: چیف جسٹس

  • ہم اپنے اختیارات کا استعمال بہت محتاط ہوکر کرتے ہیں، چیف جسٹس

    ہم اپنے اختیارات کا استعمال بہت محتاط ہوکر کرتے ہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا ہے کہ عدالتیں حقائق کے حوالے سے سوالات اٹھاتی ہیں اور ہم اپنے اختیارات کااستعمال بہت محتاط ہوکر کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ایس ای سی پی کے سپموزیم تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں مصنوعی ذہانت کےشعبےمیں ماہرنہیں ہوں، ملک میں کاروبارکی ترقی کیلئے اس تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں صرف قانون کی عملداری کی بات ہوتی ہے، قانون کی بار بار تشریح کی وجہ سےتنازعات جنم لیتے ہیں، ماہرین کو قانون کی تشریح کے ذریعے تنازعات کوختم کرناچاہیے۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ایک قانون کی دو تشریح مسائل پیداکرتی ہیں، ججزآسانی سے مارکیٹ میں میسر نہیں اور کئی امتحانات دینے پڑتےہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ ٹریبونل کے نہ بننےسےعدالتوں پربوجھ میں اضافہ ہوتاہے،جو بھی ریگولیٹر ہے اس کو ایک ٹریبونل بنانا چاہیے، سروس کے معاملات پر سروس ٹریبونل بنے ہوئے ہیں لیکن قانون کا سوال ہو یا پھر عوامی اہمیت کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بیٹھ کر ہم قانون کو آئین کے مطابق دیکھتے ہیں ، کیا ہمارا قانون کاروبار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگارہے، کاروبار کےمواقع اورصنعتی ترقی سےملکی ترقی ممکن ہے۔

    جسٹس عمرعطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ کاروبار دوست اقدامات کرنا ضروری ہیں، آئین کا آرٹیکل 25 منصفانہ وسائل کی تقسیم کاہے، ہر شعبہ سبسڈی مانگ رہاہےسبسڈی حکومت دیتی ہے، سپریم کورٹ صرف یہ دیکھ سکتی ہے یہ سبسڈی بلاامتیاز ہے یا نہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ آئی پی پیزطویل مدت سرمایہ کاری کیلئےآئےانکویقین دہانی کرائی گئی تھی، طویل مدت سرمایہ کاری کیلئے ضروری ہےسرمایہ کاروں کو سہولیات دی جائیں۔

    چیف جسٹس نے روز دیا کہ ملک میں پرائیویٹ بزنس کوسپورٹ اورحوصلہ افزائی کرنےضرورت ہے، بزنس کی گروتھ سےمعاشی ترقی کوفروغ ملتا ہے، ہمیں بہترریگولیٹری سسٹم کی اور کمرشل اداروں کاوقاربھی ملحوظ خاطررکھنےکی ضرورت ہے۔

    نیب کے حوالے سے جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ نیب کو ایسی ہاؤسنگ اسٹیٹ کےخلاف کارروائی کی ضرورت ہے جن کےپاس زمین نہیں، عوام کیلئے ریگولیشنز کو آسان بنانا ضروری ہے، ہائی کورٹس کی استعدادکاربہتربنانےکی ضرورت ہے، ہائی کورٹس پربوجھ کم کرناہوگا۔

  • فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس : چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

    فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس : چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے نیا 7رکنی بینچ تشکیل دےدیا، 2 ججز نے خود کو 9 رکنی بینچ سے الگ کرلیا ہے۔

    ٓتفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ میں سے 2ججز نے خود کو الگ کرلیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔

    جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے 7رکنی بینچ تشکیل دے دیا، سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ ڈیڑھ بجے درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت ہوئی، سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پرآئیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کوسماعت کا دائرہ اختیارآئین کی شق 175دیتا ہے، صرف اورصرف آئین عدالت کودائرہ سماعت کا اختیاردیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کرے گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کوکازلسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی اور آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجربل کوقانون بننے سے پہلے8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا، کیوں کہ اس قانون پر فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دونگا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ 5 مارچ والے فیصلے31 مارچ کوایک سرکیولرکے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے،ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پھر اس سرکیولر کی تصدیق کی جاتی ہے ، پھر اس سرکیولر کو واپس لیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسی نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اس پرمعززچیف جسٹس نےمجھ سےدریافت کیاکہ کیاچیمبرورک کرنا چاہتا ہوں؟ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں؟ میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، چیمبر ورک کے بارے میں پوچھنے پرتوپانچ صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا، اس وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے ، میرے دوست مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پرفیصلہ کروں گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس عدالتی حکم کا ایک جملہ پڑھنا چاہتا ہوں،اس سے پہلے میں کسی بنچ کا حصہ نہیں،5/3/23 کو ازخود نوٹس کیس 4 لگا جس کی صدارت میں کررہا تھا، جس پر میں نے لکھا 184/3 کے مقدمات کے مقرر کرنے کےلئے قواعد نہیں اس لئے سماعت روکی، 5/3/23 کو نہ بل بنا نہ ایکٹ آیا تھا اور نہ درخواستیں، مجھے تعجب اور صدمہ ہوا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکولر ہوا،سرکولر میں عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا گیا یہ تھی سپریم کورٹ کی وقعت،4/4 کو عدالتی سرکولر کی تصدیق کرتے ہوئے میرے بنچ کا حکم واپس لیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اس چھ ممبربنچ میں اگرنظرثانی تھی تومرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟میں اس بنچ کو "بنچ” تصور نہیں کرتا،میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔

    جس کے بعد جسٹس طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں قاضی فائز عیسی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم نے ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تواس کیس اپیل اٹھ جج کیسے سنیں گے۔

    وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، جس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔

    اعتزاز احسن نے بھی مکالمے میں کہا کہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے۔ قاضی صاحب کو کیس سننا چاھیئے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے دو ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے اس کیس میں، کیا پتہ اس میں سٹے ختم ہو۔ ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کہ حق میں فیصلہ ہو۔ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔

  • ہم 184 تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے ، چیف جسٹس

    ہم 184 تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے آرٹیکل ایک سوچوراسی تین میں سپریم کورٹ مقدمہ براہ راست سنتی ہے، ایک سوچوراسی تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک فریقین کو اپنا کیس پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود رکھا ہے، آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سنتی ہے،آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار اسی وجہ سے وسیع کیا گیا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا دائرہ وسیع ہونے سے فریقین عدالت کو پوری طرح قائل کر سکیں گے،دائرہ کار محدود ہونے پر کئی متاثرہ افراد نظرثانی دائر ہی نہیں کرتے تھے، قانون میں وسیع دائرہ کار کیساتھ لارجر بنچ کی سماعت بھی اسی نظریے سے شامل کی گئی ہے، لارجر بنچ کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فیصلہ کرنے والے ججز اس میں شامل نہیں ہونگے، تین رکنی بنچ فیصلہ کرے تو نظرثانی میں ان کے ساتھ مزید دو ججز کیس سنیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دونوں نکات نوٹ کر لیے اب آگے بڑھیں تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں دس منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پر بلاتے ہیں،ہم ابھی آپ کا کیس نہیں سن رہے، اٹارنی جنرل صاحب پہلے دلائل دے رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کل سپریم کورٹ کا 184(3) پر نقطہ نظر دوبارہ منظور الہی کیس والا ہو گیا تو اس سے آج کے قانون پر فرق نہیں پڑتا۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے آگے چلیں، اٹارنی جنرل نے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں، فیصلہ میں کہا گیا کہ مکمل انصاف ہی خدائی منشاء ہے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی تو نظر ثانی ہی رہتی ہے اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی نہیں حاصل تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسابقتی ایکٹ، الیکشن کمیشن فیصلوں کے خلاف اپیل موجود ہے، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل کا حق دیا گیا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ان تمام قوانین میں فیصلہ کے خلاف اپیل کا ذکر ہے،یہاں اس قانون میں آپ نظر ثانی کو اپیل بنانے کی بات کر رہے ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے،ہم 184(3) کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت پیر کے روز ایک بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے چڑیوں کے چہچہانے پر اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آئیں، تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں، جس پراٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے ذریعے پیغام جاتے تھے، اٹارنی جنرل نے قانون کے حق میں دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا، پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا ، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا اور بھارتی سپریم کورٹ میں نظرثانی دائرہ اختیار،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ درخواست گزار کامؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نےکیوں کیا،رخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں ، عدالت مانتی ہے دائرہ کار وسیع ہوں لیکن وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے،ہم مانتے ہیں وقت کیساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ، نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا توآئینی ترمیم ہونی چاہیےتھی۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ حکومت ازخودنوٹس کےفیصلوں کیخلاف اپیل کادائرہ اختیاروسیع کرناچاہتی ہےتوموسٹ ویلکم، آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں نظر ثانی ،اپیل میں بنیادی فرق ہے، نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے نظر ثانی دائرہ کار بڑھائیں مگراپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کو مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے آئینی ترمیم سے دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی، اٹارنی جنرل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

  • بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا، چیف جسٹس

    بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ سنگین جرم ہے، معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں سے اقدامات پر جوابات طلب کرتے ہوئے بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن کے ایک نمائندے کو عدالت کی معاونت کا حکم دیتے ہوئے ایس او ایس ولیج سے بھی معاونت طلب کر لی۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے پاکستان میں بچوں کےقوانین ہیں مگر ان کا اطلاق نہیں ہے، بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے، بچوں کی اسمگلنگ کے معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ سنگین جرم ہے، انسانی اعضا کی اسمگلنگ سے بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے،افریقہ میں اعضاکی اسمگلنگ کو بےبی فارمنگ کانام دیا جاتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ اچھی طرز حکمرانی کا ہے جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے پاکستان میں اسمگلنگ ،بچوں کے تحفظ کے قوانین تو بہت اچھے ہیں ،عملدرآمد مسئلہ ہے۔

    سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس نمٹاتے ہوئے بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق درخواستیں الگ سے 2 ہفتے بعد مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

  • سپریم کورٹ نےآڈیولیکس پر کمیشن کالعدم قرارنہیں دیا ،چیف جسٹس

    سپریم کورٹ نےآڈیولیکس پر کمیشن کالعدم قرارنہیں دیا ،چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نےآڈیولیکس پر کمیشن کالعدم قرارنہیں دیا، تحقیقات کرانی ہیں توباقاعدہ طریقہ کارسےآئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا، ذہن میں رکھیں عدالت نے کمیشن کالعدم قرارنہیں دیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے، یہ تاریخی واقعہ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتاہے، ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن ،شہزاد سلیم قتل کےکمیشنزکا نوٹیفکیشن دیکھا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے جوڈیشل کمیشنزچیف جسٹس کی مرضی سے کمیشن تشکیل دیئے جاتے ہیں، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں خود پرمشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا لیکن کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، یہ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 184تھری کے دائرہ اختیار کے کسی حد تک جائزہ کی ضرورت ہے، آرٹیکل 184تھری کے حوالے سے ہمارے فیصلے بھی کچھ راستے تجویزکرتے ہیں، کیا دوسرے فریق سے اس ایکٹ کے بعد کوئی بات ہوئی ؟ اس کیس کو پھر دوسرے فریق کی موجودگی میں سنیں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس کمیشن کیس میں عدالت نے اہم نکات اٹھائے ہیں ، عدالت کسی چیز کو ختم نہیں کرنا چاہتی، ہم صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے مزید کہا کہ جو بھی ہو ایسے خفیہ یا سرپرائز اندازنہیں ہونا چاہیے، تاریخ میں چیف جسٹس کے بعد ایکٹنگ چیف جسٹس بھی ہوا ہے۔

  • آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں کی سماعت: اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست

    آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں کی سماعت: اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست

    اسلام آباد :مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیس میں اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کردی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کےمطابق بینچ میں نہیں بٹھاسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ، بینچ میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کامعاملہ ہے، بہت ہوگیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ افسوس سےکہنا پڑ رہا ہےغیر ارادی طور پر کوشش کی گئی کہ ججز میں دراڑ ڈالی جائے لیکن 9مئی کے سانحے کےبعدعدلیہ کےخلاف بیان بازی بند ہوگئی۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ہمارےانتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کوریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت ہم سےمشورہ کرتی توکوئی بہتر راستہ دکھاتے، آپ نے ضمانت اورفیملی کیسزکو بھی اس قانون سازی کاحصہ بنادیا۔

    چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ حکومت کسی جج کواپنی مرضی کےمطابق بینچ میں نہیں بٹھاسکتی ، ہم نے سوال پوچھا 184 بی میں لکھا ہےکم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سےمشورہ کیا ہوتا توہم آپ کوبتاتے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 9مئی کےواقعات کا فائدہ یہ ہوا جوڈیشری کیخلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔

    جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بہت ادب سے استدعا ہےکہ لارجر بینچ یہ کیس نہ سنے۔

    صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل میں سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حاضر سروس جج کی تعیناتی سےپہلےچیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے، یہ جوڈیشل کارروائی ہوتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کئے، اس سے پہلے 3 نوٹیفکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کئےجنہیں بعدمیں واپس لیاگیا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1956ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے اس نکتے پر بعد میں آئیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔

    سپریم چیف جسٹس نے وفاقی حکومت سے گزارش کی کہ آئین کا احترام کریں اور آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ اختیارات سےمتعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کے بینچ بنانےکا کہہ دیا، نئے قانون میں اپیل کیلئے پانچ سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا، ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جلد بازی میں عدلیہ سےمتعلق قانون سازی کی ،حکومت قانون ضرور بنائے لیکن مشاورت کرے ، حکومت بتائے سپریم کورٹ سےمتعلق قانون سازی پرکس سے مشورہ کیا ، ہم سے مشورہ کرتےتو ضرور مشورہ دیتے۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے، سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں ، تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے،
    یہ سب انا کی باتیں نہیں، آئین اختیارات تقسیم کی بات کرتا ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں۔

  • چیف جسٹس نے عمران خان کو ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کیوں کہا؟

    چیف جسٹس نے عمران خان کو ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ کیوں کہا؟

    اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے عمران خان کو” گڈ ٹو سی یو "کہنے کی وضاحت دیدی۔

    سپریم کورٹ میں سول مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے وکیل اصغر سبزواری سے مکالمہ کیا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، کافی وقت کے بعد آپ میری عدالت آئے ہیں۔

    چیف جسٹس  پاکستان نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی یہ میں ہر کسی کو کہتا ہوں، مجھے گڈ ٹو سی یو کہنے پر تنقیدکا نشانہ بنایاگیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں ہر ایک کو احترام دیتا ہوں، ادب واخلاق تو سب کیلئے ضروری ہے، ادب و اخلاق کے بغیر مزہ نہیں ہے۔

    واضح رہےکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کےبعد سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر چیف جسٹس نے عمران خان کو دیکھ کر  کہا تھا  ’ویلکم خان صاحب! آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘

    ان کے ریمارکس پر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

  • قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور

    قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے کمیٹی کے قیام کی تحریک منظور کر لی گئی۔

    تحریک رکن قومی اسمبلی شازیہ ثوبیہ نے پیش کی، تحریک میں کہا گیا تھا کہ اسپیکر کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کمیٹی ممبران کو تبدیل کر سکتے ہیں، اسپیکر نے کہا تحریک کے حق میں زیادہ ممبران نے ہاں میں ووٹ دے دیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق ریفرنس کو حتمی شکل دینے کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں مختلف جماعتوں کے ارکان شامل ہوں گے، مختلف جماعتوں کے ارکان کمیٹی کے اختیارات سے متعلق مسودہ تیار کر رہے ہیں۔

    خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تجویز اب سے کچھ دیر قبل وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی تھی۔ قبل ازیں، قومی اسمبلی میں آج کے ایجنڈے کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک بھی منظور کی گئی تھی۔

    اجلاس میں جناح ہاؤس، جی ایچ کیو اور دیگر سرکاری املاک پر حملوں کے خلاف بھی مذمتی قرارداد منظور کی گئی، قرارداد رکن پی ٹی آئی وجیہہ قمر کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

  • عدالت سے گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس کے ریمارکس

    عدالت سے گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس کے ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر ریمارکس دیئے عدالت سےگرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پرہائیکورٹ فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے درخواست پرسماعت کی، سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس محمدعلی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں، وکیل حامدخان نے بتایا کہ عمران خان قبل از گرفتاری ضمانت کیلئے عدالت آئے تھے ، گرفتاری کےوقت عمران خان سے بدسلوکی کی گئی، عمران خان بائیومیٹرک کرارہے تھے تو دروازہ توڑ کر گرفتار کیاگیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا عمران خان ہائیکورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے،،وکیل عمران خان نے کہا دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، بائیو میٹرک کرانا عدالتی عمل کاحصہ ہے، عمران خان کیساتھ بدسلوکی اور پرتشدد گرفتاری ہوئی۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق مقدمہ شاید کوئی اور مقرر تھا، خوف کی فضا بنائی گئی، کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتارکیاجاسکتاہے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں عدالت میں توڑپھوڑ پر وکلا پر توہین عدالت کی کارروائی کی گئی، کسی فرد نے عدالت میں سرنڈر کیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب، عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقررنہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا بائیومیٹرک سے پہلے درخواست دائر ہوجاتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا عمران خان کو نیب کےکتنے افراد نے گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا،جس پر چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا 90افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیاتوقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینا چاہیے تھا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ نیب اس قسم کی حرکتیں پہلے بھی کرچکا ہے، ایسے ہتھکنڈوں اور کارروائیوں کا اختتام ہوناچاہیے، اگر لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم ہوگیا تو کیا ہوگا۔

    وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہو سکتی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے
    پہلی بات یہ ہے عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہوچکے تھے، ایک مقدمےمیں عدالت نےبلایا تھا، دوسرا دائر ہورہا تھا،کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    ،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے،نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، عدالت نے گرفتاری واپس کراکرنیب کےخلاف کارروائی کی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی یقین دہانی سے9افسران توہین عدالت سےبچے تھے۔

    وکیل نے بتایا کہ عمران خان بائیومیٹرک کرا رہے تھے تورینجرز نے ہلا بولا،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
    اگررینجرزاحاطہ عدالت میں آئےگی تواحترام کہاں گیا۔

    وکیل سلیمان صفدر کا کہنا تھا کہ آئی او کی عدم موجودگی میں نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا، سپریم کورٹ کو عدالت کی توقیر کو بحال کرنا ہوگا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے،نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا،یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔

    وکیل بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا اور ہم نے اسی دن درخواست سماعت کی استدعا کی تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو ماحول پیدا کیاگیا وہ افسوسناک ہے ،یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔

    وکیل عمران خان نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ کو بھی گرفتاری کے وارنٹ کا علم نہیں تھا، رول آف لا پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ایسے حالات پیدا ہوئے ، عمران خان گھر یا عدالت کے باہر گرفتار ہوتے تو کیس دائر ہی نہ کرتے، رینجرز نے عمران خان سے بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا وارنٹ گرفتاری چیلنج کئے گئے؟ ، وکیل بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ہمیں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا پتہ نہیں چلا،سیکریٹری داخلہ نےبتایا وارنٹ گرفتاری کے اجراکا معلوم نہیں تھا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے لیڈرز عدالت میں پیشی پر لوگوں کو ساتھ لیکر مت آئیں، ہر پیشی پر عدالتوں کے باہر ہنگامے ہوتے تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اسوقت ہم گرفتاری کے طریقے اور عدالت کی توقیر کا معاملہ دیکھیں گے، ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے، ہم ابھی اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں،ہم عدالت کی توقیر کو بحال کریں گے، میانوالی کی ڈسٹرکٹ کوٹ ہر حملہ کیا گیا جو بدقسمتی ہے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت پر حملے پر آج میرا دل دکھا ہے، ایسے کیسے ہورہا ہے اور کوئی نہیں روک رہا؟ وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی یہ سب سے اہم ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہر کوئی قانون کی عملداری کی بات کرتاہے لیکن خود عمل نہیں کرتے، ہر کوئی چاہتاہے کہ دوسرا قانون پر عملدرآمد کرے، قانون پرعملدرآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں،تو انھوں نے کہاعمران خان کی رہائی کا حکم دیاجائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کانہیں اس کی تعمیل کاجائزہ لیں گے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کے عمل کو سبوتار نہیں کیا جاسکتا۔

    وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان پر حملہ کیا گیا اور سکیورٹی بھی واپس لےلی گئی، عمران خان دہشتگردوں کے ریڈار پرتھے، رینجرز نے جس انداز میں گرفتاری کی اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹ سے رجسٹرارکی اجازت کےبغیر لے جایا گیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب کئی سال سےیہ حرکتیں منتخب نمائندوں کیساتھ کررہاہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں اور استفسار کیا کیا بائیومیٹرک کا عمل مکمل ہوگیا تھا، بیرسٹر گوہر نے بتایا درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس سارے واقعے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پوچھنا چاہئے، ہم اس کیس میں اٹارنی جنرل کوطلب کرتے ہیں، باہر جو کچھ ہورہا ہے وہ فوری طور پر رک جانا چاہئے اور انصاف کےلئے ضروری ہےکہ عدالت میں تحفظ ملنا چاہئے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپ کا کیس یہ ہے کہ جب کوئی شخص عدالتی احاطےمیں داخل ہوتوگرفتارنہیں کیاجا سکتا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں، لیڈر شپ کو اپنے فالورز کو روکنا چاہئے۔

    وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ نیب کے وارنٹ کے بارے میں ہمیں علم نہیں تھا، سیکرٹری داخلہ نے بھی بتایا کہ انہیں وارنٹ کے بارے میں علم نہیں، ہائیکورٹ میں 3 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں جمع کرائیں، ان درخواستوں کی سماعت کے ساتھ جلد سماعت کی درخواست بھی دائر کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملزم عدالت میں سرینڈرکردےتواحاطہ عدالت گرفتاریوں کیلئےآسان مقام بن جائیگا،ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گے، عدالتیں تو آزاد ہوتی ہیں۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ آزاد عدلیہ کا مطلب ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے، ہم آج ہی حکم جاری کریں گے، عدالت سے گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گا۔