Tag: چیف جسٹس

  • عمران خان آج پیش نہ ہوئے تو عبوری ضمانت خارج کردینگے، چیف جسٹس

    عمران خان آج پیش نہ ہوئے تو عبوری ضمانت خارج کردینگے، چیف جسٹس

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عسکری اداروں کے خلاف بیان پر تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو آج ہی عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں  عسکری اداروں کے خلاف بیان پر عمران خان کی تھانہ رمنا میں درج مقدمے کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق عمران خان کی عدم پیشی  پر برہم ہوگئے اور سوال کیا کہ کہاں ہیں درخواست گزار؟

    عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے بتایا کہ وہ نہیں آئے، استثنیٰ کی درخواست دائر کی ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کہاں ہے استثنیٰ کی درخواست؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ درخواست دائر ہو گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یا ہم نیچے آگئے ہیں یا وہ اوپر آ گئے ہیں۔

    چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالتوں کو مزاق بنا کر رکھ دیا ہے، ہائیکورٹ کو سول کورٹ سمجھ رکھا ہےکیا۔

    چیف جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ عدالتی وقت ختم ہونے تک عمران خان پیش نہ ہوئے تو عبوری ضمانت خارج کردیں گے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست ضمانت کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔

  • سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

    سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے عدالتی اصلاحات بل کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے، سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ‌ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ آزاد عدلیہ آئین کابنیادی جزو ہے،الزام ہے پہلی بارآئین کے بنیادی جزو کی قانون سازی کے ذریعےخلاف ورزی کی گئی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 7سینئر ججز اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے،افتخار چوہدری کیس میں عدالت نےقرار دیاریفرنس صرف صدر دائرکرسکتے ہیں، کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کوکام سےنہیں روکا جاسکتا۔

    جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا، شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں، مجھ سمیت سپریم کورٹ کےاکثر ججز کیخلاف شکایات آتی رہتی ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کردیا ہے، سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں،انتخابات کےمقدمےمیں بھی کچھ ججزکونکال کرفل کورٹ کامطالبہ کیا گیا تھا۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے، ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہے،ججز اور عدلیہ کو احترام نہ دیا گیا تو انصاف کا مطالبہ نہیں ہوگا۔

    انھوں نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے، ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت 8مئی تک ملتوی کردی۔

  • اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط عدلیہ کی خود مختاری پرحملہ ہے، شیخ رشید

    اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط عدلیہ کی خود مختاری پرحملہ ہے، شیخ رشید

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط عدلیہ کی خود مختاری پرحملہ ہے اس کے نتائج بہت بھیانک ہونگے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے ٹوئٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ پر دباؤ، فیصلوں کو نہ ماننا سیاسی موت کو دعوت دینا ہے، قانون پارلیمنٹ کا کام ہے اور اس کی تشریح سپریم کورٹ کرتی ہے۔

    سابق وزیر کا کہنا تھا کہ آئین میں 90 دن کے اندر الیکشن لازمی ہیں، من پسند کے فیصلوں کی گنجائش نہیں، صرف آئین کا احترام ہے، سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بحال بھی کیا تھا اور گھر بھی بھیجا تھا۔

    شیخ رشید کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں سپریم کورٹ کا جو مقام ہے پاکستان میں اسکی توہین کی جارہی ہے، آج جنگل کے قانون کا یا قانون کی بالادستی کا فیصلہ ہوجائے گا، قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے اور ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے تابع ہیں۔

    انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ غریب مہنگائی بیروزگاری سے مر رہا ہے اور حکمران نیرو کی بانسری بجا رہے ہیں، اسپیکر کا چیف جسٹس کو خط عدلیہ کی خود مختاری پرحملہ ہے، استحقاق کمیٹی میں ججز کو بلانےکی بات کرنا ٹکراؤ کی علامت ہے، میرے نزدیک اسکے نتائج بہت بھیانک ہونگے۔

  • چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بینچ اچانک ڈی لسٹ کر دیا گیا

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا بینچ اچانک ڈی لسٹ کر دیا گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا بینچ اچانک ڈی لسٹ کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا بینچ خرابی صحت کے باعث ڈی لسٹ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا بینچ اچانک ڈی لسٹ کر دیا گیا، بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر تمام مقدمات بھی ڈی لسٹ کردیے گئے۔

    رجسٹرار سپریم کورٹ نے مقدمات ڈی لسٹ ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    چیف جسٹس پاکستان کے بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔

    بینچ کے سامنے آج 12 مقدمات سماعت کے لیے مقرر کیے گئے تھے، سپریم کورٹ کے بینچ نمبر 2 کے مقدمات کی فہرست بھی منسوخ کردی گئی۔

    جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل بینچ کی کاز لسٹ بھی منسوخ کردی گئی ہے۔

    بینچ نمبر 2 کے مقدمات کی سماعت کے لیے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے نئے بینچ نمبر 2 کے مقدمات کی فہرست جاری کردی۔

    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا بینچ خرابی صحت کے باعث ڈی لسٹ ہوا، چیف جسٹس بخار، جسم درد اور فلو میں مبتلا ہیں۔

    ذرائع کے مطابق چیف جسٹس گزشتہ روز اپنے گاؤں میں تھے، چیف جسٹس صحت یاب ہونے پر دوبارہ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

  • چیف جسٹس کے ریمارکس پر جماعت اسلامی پاکستان کا رد عمل

    چیف جسٹس کے ریمارکس پر جماعت اسلامی پاکستان کا رد عمل

    لاہور: جماعت اسلامی پاکستان نے ملک میں ایک تاریخ کو انتخابات کرانے کے سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کا خیر مقدم کیا ہے، اس سے قبل ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مشورے کا خیر مقدم کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو کچھ وقت دے، چیف جسٹس کے ریمارکس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

    رہنما جماعت اسلامی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے لیے سراج الحق کی قیادت میں اخلاص کے ساتھ کوشش جاری ہے، جماعت اسلامی نے دیگر جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ پہلے ہی شروع کر دیا ہے۔

    سیکریٹری اطلاعات نے کہا "ہم پر امید ہیں کہ جماعت اسلامی کی کوششوں کا مثبت نتیجہ نکلے گا، تمام جماعتیں ایک ہی دن الیکشن کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کر لیں گی، اب تک کے رابطوں اور ملاقاتوں میں تمام لیڈرز کے اشارے مثبت ہیں۔”

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں بہ یک وقت الیکشن کرانے کے کیس میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک مؤقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، درخواست پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کی گئی ہے۔

    چیف جسٹس تھوڑا وقت دے دیں، ہم نے آپس میں مذاکرات شروع کر دیے ہیں، آصف زرداری

    عدالت نے تحریری حکم میں کہا کہ بادی النظر میں سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا موقع دینے کی رائے درست ہے، لیکن مذاکرات کا موقع دینے کا ہرگز مطلب نہیں کہ 14 مئی کو انتخابات کا حکم ختم ہو گیا، الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کے تحفظات معقول نہیں ہیں۔

  • چیف جسٹس  سمیت سپریم کورٹ کے 8ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

    چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے 8ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے 8ججز کیخلاف آئین کے آرٹیکل 209 اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے 8ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکر دیا گیا ہے،

    معروف قانون دان میاں دائود ایڈووکیٹ کی طرف سے دائر ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 209 اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعات تین تا چھ اور نو کی خلاف ورزی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

    سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں چیف جسٹس بندیال کے علاوہ 8ججز جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کو بطور فریق شامل کیا گیا ہے۔

    ریفرنس کے متن میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس بندیال نے پارلیمنٹ کے منظورکردہ بل کو سماعت کیلئے مقرر کرکے اختیارات سے تجاوز کیاہے، چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کے بل کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں غیرآئینی طور پر8 رکنی بنچ تشکیل دیا ، چیف جسٹس درخواستوں کی سماعت کیلئے بنچ کی خود سربراہی کر کےمس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے جبکہ باقی سات ججز بھی پارلیمنٹ کے بل پر سماعت اور اسے معطل کر کے آئین ، قانون اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

    ریفرنس کے متن میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کیس میں 17رکنی فل کورٹ اور اعتزاز احسن کیس میں 12 رکنی بنچ بل کیخلاف حکم امتناعی جاری نہ کرنے کا اصول طے کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود کم تعداد کے حامل 8 ججز نے پارلیمنٹ کے بل کیخلاف حکم امتناعی جاری کرکے ڈاکٹر مبشر حسن اور اعتزاز احسن کیس کی بطور اکثریتی ججز کے فیصلے کی پابندی نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی۔

    ریفرنس میں مزید الزام عائد کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس بندیال نےاپنے ذاتی، سیاسی اور مفادات کا تحفظ کر کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ مستقبل کے ممکنہ چیف جسٹس صاحبان جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب، جسٹس عائشہ اور جسٹس شاہد وحید نے آٹھ رکنی بنچ میں شامل ہو کر کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

    ریفرنس میں کہا گیا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جہاں ججز کا مفاد سامنے آجائے، وہاں لازمی پابندی عائد کی گئی ہے کہ ججز اس کیس سے خود کو الگ کر لیں گے لیکن چیف جسٹس بندیال سمیت مستقبل کے مذکورہ بالا تینوں جج صاحبان نے اس لازمی آئینی پابندی کو نظرانداز کر کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔

    ریفرنس میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس پاکستان بندیال نے کرپشن الزامات کا سامنا کرنیوالے جسٹس مظاہر نقوی کو تحفظ فراہم کے آئین اور مس کنڈکٹ کیا اور اوپن کورٹ میں بیان دیا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو ساتھ بٹھا کر کسی کو پیغام دیا گیا کہ وہ اپنے جج کے ساتھ کھڑے ہیں، ٹیکس تنازع پر جج کیخلاف ٹرائل نہیں کر سکتے، چیف جسٹس بندیال کا یہ بیان عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف صرف ٹیکس تنازع کا نہیں بلکہ باقی سنگین بدعنوانیوں کے الزامات بھی ثبوتوں کے ساتھ ریفرنس میں شامل تھے۔

    میاں دائود ایڈووکیٹ نے اپنے ریفرنس میں مزید الزام عائد کیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب، جسٹس مظاہر نقوی نے غیرقانونی طور پر خود کو غلام محمود ڈوگر کیس میں اسمبلیوں کے الیکشن تنازع میں بھی ملوث کیا اورچیف جسٹس بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے الیکشن ازخود نوٹس کیس کا اکثریتی فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کیا جو مس کنڈکٹ کےزمرے میں آتا ہے۔

    ریفرنس میں کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال انتظامی اختیارات کے بدترین ناجائز استعمال کےمرتکب ہوئے ہیں جبکہ تمام متنازع بنچوں کی تشکیل کے مرکزی ذمہ دار چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہی ہیں، چیف جسٹس بندیال جونیئر ججز کی سپریم کورٹ تعیناتی کرکے الجہاد ٹرسٹ اور ملک اسد کیس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

    میاں دائود ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس بندیال سمیت8 ججز اعلی معیار پر مبنی ایماندار کردار برقرار رکھنے اورمفادات کے ٹکراؤ کے اصول پر عملدرآمد میں بھی ناکام رہے، چیف جسٹس بندیال سمیت8 ججزذاتی سیاسی دلچسپی کے مقدمات کی سماعت کے مرتکب ہوئے۔

    دائر ریفرنس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے 8ججز خود کو مقدمات پر اثرورسوخ استعمال کرنے کیلئے اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرتکب ہوئے، چیف جسٹس بندیال سمیت8 ججزباقی ججز کے ساتھ باہمی تعلقات بہتررکھنے میں ناکام ہوئے اور اس طرح چیف جسٹس بندیال سمیت 8ججز سپریم کورٹ کی عوام میں بدنامی کا باعث بنے ہیں۔

    ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال سمیت 8ججز کو انکوائری کے بعد برطرف کرنے کا حکم دے اور ریفرنس کے حتمی فیصلے تک انہیں فوری کام سے روکا جائے۔

    آٹھ ججز کیخلاف ریفرنس کی کاپی جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ کو بھجوائی گئی ہے۔

    چیف جسٹس بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کیخلاف ریفرنس آنے کے بعد ان کی جگہ ممکنہ اگلے ممبر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے، ریفرنس کی کاپی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہے۔

  • مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ کردیا

    مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ کردیا

    جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے چیف جسٹس آف پاکستان کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

    پاکستان ڈیمو کریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ متنازع فیصلوں سے سپریم کورٹ جیسے معزز ادارے کو تقسیم کیا گیا۔

    پی ڈی ایم کے سربراہ ٹوئٹ میں لکھتے ہیں سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ سے محاذ آرائی کی پوزیشن پر لاکر ملک کو بحران میں مبتلا کیا گیا۔

     مولانافضل الرحمان نے ٹوئٹ میں مزدید لکھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا استعفیٰ واحد حل ہے، ان کو بغیر کسی تاخیر کے مستعفی ہوجانا چاہیے۔

  • موجودہ بینچ کا فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے 100 فی صد منافی ہے: وزیر اعظم

    موجودہ بینچ کا فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے 100 فی صد منافی ہے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے موجودہ بینچ کا فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے 100 فی صد منافی قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پوری موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کے اس بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے، چیف جسٹس فل کورٹ تشکیل دے دیں، جن ججز نے خود کو الگ کیا انھیں شامل نہ کریں تو ایسا فیصلہ پوری قوم کو قبول ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن خود پہلے بینچ سے الگ ہو چکے تھے، وہ کیسے بینچ میں بیٹھ سکتے ہیں؟

    وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ کئی لوگ جیلیں کاٹ کر اسمبلی میں تقریریں کر رہے ہیں، چیف جسٹس سے پوچھتا ہوں کہ ہمارے خلاف جو بے بنیاد کیسز بنائے گئے تھے کیا ہم ضمانت لے کر سرخرو ہوئے یا بےعزت ہوئے؟

    انھوں نے کہا ایک جج جن کے خلاف سخت الزامات لگے ہیں، اپنے ساتھ بٹھا کر قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، ٹھیک ہے ہم جیلیں کاٹ کر آئے ہیں لیکن میرٹ پر ضمانتیں لے کر آئے ہیں، آپ نے تو ایسے شخص کو ساتھ بٹھایا جس کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں، مجھے اگر بات کرنی ہے تو پہلے میں اپنے گریبان میں جھانکوں گا۔

    پنجاب، کے پی انتخابات کیس کا فیصلہ محفوظ، سپریم کورٹ سے براہ راست

    شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پچھلے دور حکومت میں عمران نیازی کے پاس دن میں کوئی کام کرنے کو نہیں تھا، ان کی ایک ہی سوچ تھی کہ کسی طرح اپوزیشن لیڈرز کو جیل بھجوایا جائے، ایک بار نہیں مجھے عمران نیازی نے دو بار جیل بھجوایا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ پہلی بار جیل گیا تو ہائیکورٹ بینچ نے میرٹ پر مجھے ضمانت دی، سپریم کورٹ میں عمران نیازی نے میری ضمانت کو چیلنج کرایا، نعیم بخاری عمران نیازی کی طرف سے پیش ہوتے تھے، جب سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تو نعیم بخاری نے پٹیشن واپس لی اور دم دبا کر بھاگ گئے۔

    انھوں نے کہا کہ دوبارہ بار جیل سے ضمانت ملنے پر ان کو دوبارہ چیلنج کرنے کی جرات نہیں ہوئی، میراجرم یہ تھا کہ بطور اپوزیشن لیڈر حکومت کے غلط کاموں پر آواز اٹھاتا تھا۔

  • عوام نے آئین کا ساتھ نہ دیا تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا، عمران خان

    عوام نے آئین کا ساتھ نہ دیا تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا، عمران خان

    لاہور: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوام آئین کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہےگا۔

    تفصیلات کے مطابق زمان پارک سے ویڈیو نیوز کانفرنس میں عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کہہ رہی ہےکہ وہ سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ نہیں مانےگی،جب یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانیں گے تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟

    انہوں نے کہا کہ جو فیصلہ حق میں آئے انہیں مانیں جو حق میں نہ آئے اس کو نہیں مانیں گے؟، پی ڈٖی ایم کو خدشہ ہے کہ الیکشن ہار جائیں گے اس لیے فیصلہ نہیں مان رہی۔

    عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام ہی آئین پر عمل درآمد کرانا ہے، الیکشن کرالیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں وہ کس کو چاہتےہیں؟۔

    اپنی ویڈیو نیوز کانفرنس میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے اگر عوام آئین کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہےگا، اس طرح کے طاقتور مفرور لوگ اوپر بیٹھ کر فیصلے کریں گے،عوام کو آئین کےلیے باہرنکلنا پڑے گا،یہ حقیقی آزادی کا جہاد ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ان کو اندازہ نہیں نوے دن میں الیکشن نہ ہوئے تو ملک کس طرف جائےگا؟ نوے روز میں الیکشن نہ ہوئے تو قانون کسی کی حفاظت نہیں کرپائےگا۔

    عمران خان نے کہا کہ میرا سوال ہےکیااکتوبرمیں ملک کےحالات ٹھیک ہوجائیں گے؟اس وقت فنڈز کی کمی ہے تو اکتوبر میں بھی فنڈز کی کمی ہوگی، یاد رکھیں انصاف نہیں ہوگا ملک میں جنگل کا قانون ہوجائےگا۔

    سابق وزیراعظم نواز شریف کی گذشتہ روز کی جانے والے نیوز کانفرنس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ لندن میں بیٹھا مفرور برملا کہ رہا ہے کہ وہ تین ججز کا فیصلہ نہیں مانیں گے، میں قوم کے سامنے سوال رکھتا ہوں کہ نواز شریف کون ہوتے ہیں فیصلہ ماننے اور نہ ماننے والے۔

    انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پوری زندگی لوگوں کوخریدا،نوازشریف مافیا کی طرح کام کرکے لوگوں کودھمکاتے ہیں، اسی نوازشریف کو عدالت نے بھی ‘سسلین مافیا’ کہا، جان لیں کہ نوازشریف کا مفاد پاکستان نہیں بلکہ ان کا پیسا ہے۔

  • چیف جسٹس ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے، حکومت کا فوری قانون سازی کا فیصلہ

    چیف جسٹس ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے، حکومت کا فوری قانون سازی کا فیصلہ

    اسلام آباد: حکومت نے عدالتی اصلاحات کے لیے فوری قانون سازی کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان ازخود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کر سکیں گے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے فوری طور پر ایسے عدالتی اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہ پائے گا، اور وہ تنہا ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کر سکیں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ازخود نوٹس کے خلاف اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کی جا رہی ہے، اور اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کا اختیار فل کورٹ کو دیا جائے۔

    سپریم کورٹ کے بینچ تشکیل دینے کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔