Tag: چیف جسٹس

  • عوام کے حقوق غصب نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس

    عوام کے حقوق غصب نہیں ہونے دیں گے، چیف جسٹس

    کوئٹہ: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ عدالت آزادی سے اپنا کام کرتی رہے گی، عوام کے حقوق غصب نہیں ہونے دیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے جلد حل کرنے کی کوشش کریں گے، کورونا کی وجہ سے کچھ کام سست ہوا، کوشش ہے بلوچستان کے کیسز کو جلد نمٹایا جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ویڈیو لنک سے کیسز کو سنتے ہیں، سپریم کورٹ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، عوام کے حقوق غصب نہیں ہونے دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ بار اور بینچ کو ایک ہی سمجھتے ہیں، بلوچستان کے آئینی حقوق ہمیشہ عزیز ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہرقسم کے حالات میں قانون کی بالادستی اور انصاف فراہم کیا جائے گا ، چیف جسٹس

    واضح رہے کہ چند روز قبل چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ انصاف معاشرےکا نہیں اسلام اورقرآن پاک کا بھی بنیادی اصول ہے، قانون کی نظر میں امیر غریب، طاقتور اور کمزور سب برابر ہیں ، ججز کے آزاد اور دباؤ میں نہ ہونے پر ہی بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا، ہر جج نے ایمانداری اور بلا خوف وخطرانصاف کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی عدالتی سال کی تقریب کارکردگی جانچنے کا موقع دیتی ہے، ججزکی خود مختاری کے بغیر عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن نہیں۔

  • ہفتہ اوراتوار مارکیٹیں کھولنے کا حکم ، چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کی وضاحت کردی

    ہفتہ اوراتوار مارکیٹیں کھولنے کا حکم ، چیف جسٹس نے اپنے فیصلے کی وضاحت کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کی دوٹوک الفاظ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ہفتہ اور اتوار کو شاپنگ سینٹرز کھولنے کا حکم عید کے تناظر  میں ہے، چیف جسٹس نے کہا عید کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں گے،ملک میں کورونا ہے، احتیاط نہ کی گئی تو کورونا شدت سے پھیل سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کورونااز خود نوٹس کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش
    ہوئے اور بتایا چیئرمین این ڈی ایم اےعدالت میں حاضرہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا ہمارامسئلہ اخراجات کانہیں ہے،ہم لوگوں کوبہترسروس دلاناچاہتےہیں، لوگوں کیلئےہیومن ریسورس متعین ہیں وہ بہترکام نہیں کررہیں، جب مریض ان کےپاس پہنچتا ہے وہ پھنس جاتاہے، سرکاری لیبارٹریزمیں ٹیسٹ مثبت آئےاورنجی کلینک سےوہ منفی آگیا، سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں بھی ایساہی ہوا، نیشنل اسپتال لاہورسےایک آدمی کی ویڈیو دیکھی وہ رورہاہے۔

    جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا ڈاکٹراور طبی عملےکوسلام پیش کرتےہیں، اس عملےمیں جوخراب لوگ ہیں وہ تشویش کی وجہ ہیں، ہرچیزپیسہ نہیں ہوتی،پیسوں کیلئےکھیل نہ کھیلیں، پیسہ اہم نہیں ہےبلکہ انسان اہم ہیں، ملکی معیشت کاموازنہ افغانستان،صومالیہ،یمن سے کیا جاتا ہے، پاکستانی غریب سےغریب ترین قوم ہے، اس طرف کسی کودھیان نہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ لاہورایکسپوسینٹر،اسلام آبادقرنطینہ سےلوگوں کی ویڈیوزدیکھنےکومل رہی ہیں، لوگ غصےمیں کہہ رہے ہیں کہ باہرمرجاؤلیکن پاکستان نہ آؤ، 10، 10 لوگ قرنطینہ مراکزمیں ایک ساتھ بیٹھےہیں یہ کیساقرنطینہ ہے؟ ان قرنطینہ سینٹرزمیں کوئی صفائی کاخیال نہیں رکھا جارہا، کوروناکےمریض کودنیاجہان کی ادویات لگادی جاتی ہیں۔

    جسٹس گلزار نے کہا کہ ایک شخص رورہاتھااسکی بیوی کوکورونانہیں لیکن ڈاکٹرچھوڑنہیں رہےتھے، قرنطینہ سینٹرز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے،پانی نہیں ہوتا، سوشل میڈیا پر قرنطینہ سینٹرزکی حالت زارکی ویڈیوزچل رہی ہیں، مشتبہ مریض ویڈیوزمیں تارکین وطن کوکہہ رہےہیں پاکستان نہ آئیں، ہم پیسےسےکھیل رہےہیں لوگوں کااحساس نہیں۔

    کوروناازخودنوٹس کیس میں سماعت کے دوران چیئرمین این ڈی ایم اےعدات میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے کہا ہمارے لوگوں کو جانوروں سے بدتر رکھا جارہا ہے، سرکارکےتمام وسائل کو لوگوں کے اوپر خرچ ہونا چاہیے، کسی مخصوص کلاس کیلئے سرکار کے وسائل استعمال نہیں ہونے چاہئیں، مخصوص کلاس تو صرف2فیصدہے، این ڈی ایم اےشہروں میں کام کر رہا ہے ، دیہاتوں تک توگیاہی نہیں، جتنےقرنطینہ سینٹرزقائم ہوئےوہ صرف شہروں میں ہوئے، دیہاتوں میں لوگ پیروں کےپاس جاکردم کرارہےہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہماری تشویش اخراجات سےمتعلق نہیں ہے، ہماری تشویش سروسزکےمعیار پرہے، مشتبہ مریض کاسرکاری لیب سےٹیسٹ مثبت،نجی سے منفی آتا ہے، سپریم کورٹ کے لاہور رجسٹری ملازمین سے بھی ایساہی ہوا، ہمارےملازمین کاٹیسٹ سرکاری لیب سےمثبت،نجی سےمنفی آیا۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ چین سےآنےوالےمال کی کوالٹی چیک نہیں ہوتی، ہم کم کوالٹی کامال مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں، دنیابارڈرزپردرآمدسامان کی کوالٹی چیک کرتی ہے یہاں ایسا نہیں، سب لوگ صرف پیسےسےکھیل رہےہیں کسی کوانسان کی فکرنہیں، پاکستان کےپاس خرچ کرنےکیلئےلامحدودرقم نہیں ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ این ڈی ایم اےساراسامان چین سےمنگوارہاہے، چین میں ایک ہی پارٹی این ڈی ایم اےکوسامان بھجوارہی ، مقامی سطح پرسامان کی تیاری کیلئے ایک ہی مشین منگوائی گئی اور چیئرمین این ڈی ایم اےسے استفسار کیا یہ ڈیسٹوپاکستان آرمی کیاچیزہے؟ یہ مشین کسی پرائیویٹ آرمی پرسنل کی ہے یاپاکستان آرمی کی، جومشین باہر سے منگوارہےتھےوہ کسی پرائیویٹ آدمی کومنگوانےدیتے، آپ نےمشین کسی دوسرےآدمی کومنگوانےہی نہیں دی۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ پرائیویٹ لوگ بھی مشینیں اورسامان منگوارہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کوہرچیزاپنےملک میں بنانی چاہیے، باہرسےنہ کوئی آپ کو دے گا اور نہ آپ سے لے گا، کھانےپینےکی اشیا،ادویات اوردیگرسامان اپنےملک میں تیارکریں، کوئی آپ سےسامان خریدےگانہ آپ کسی سےخریدسکیں گے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا آپ یونیورسٹی گریجویٹس کواستعمال کریں، آپ اداروں کوچلا سکتےہیں نہ ہی مینج کرسکتےہیں، آپ نےسب کچھ سیاست زدہ کردیا، آپ نےاسٹیل ملزکوتباہ کر دیا، اسٹیل ملزمیں ٹینک اوردیگرسامان تیارہوتاتھا، بہت سی کمپنیوں کالیگل ایڈوائزررہاوہ غلط پالیسیوں کی وجہ سےبندہوگئیں، آپ پبلک یاپرائیویٹ سطح پرکام کریں لوگوں کونوکریاں ملنی چاہئیں۔

    جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ آپ صومالیہ سے بھی نیچے چلے جائیں گے، آپ غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں، ملک کے وسائل عوام کےلیے ہیں، صرف 2فیصد کے لیےنہیں، باقی 98 فیصد عوام پر بھی وسائل خرچ کریں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نےکروڑوں روپےلگادیئےلیکن کچھ ہوتانظرنہیں آرہا،حاجی کیمپ پرپیسہ لگادیااب صرف حاجیوں کوکچھ فائدہ ہوجائےگا، ورنہ توحاجی بھی بدترین حالات میں وہاں گزاراکرتےتھے، جس پر چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ این ڈی ایم اےدیگراداروں کوبھی مددفراہم کررہاہے، ہمارےتعاون سے ملک میں 10لاکھ پی پی ایزبن رہی ہیں۔

    جسٹس گلزار نے چیئرمین این ڈی ایم اےسےمکالمے میں کہا آپ رقم کےحساب کتاب کوچھوڑیں، ہرچیزچین سےمنگوائی جا رہی ہے،نپاکستان میں چین سے گھٹیا مال منگوایا جاتا ہے ، جو 10کالے کر 1000 کا بکتا ہے، امریکامیں کھلونے کا رنگ بھی چیک ہوتاہےکہ بچےکوالرجی تونہیں ہوگی، یہاں سب کچھ بارڈر سےبغیرچیکنگ آجاتاہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا تمام طبی آلات پاکستان میں ہی تیارہوسکتے ہیں ، وقت آرہا ہے ادویات سمیت کچھ بھی باہر سے نہیں ملےگا ،پاکستان کو ہر چیزمیں خودمختار ہونا ہوگا، اسٹیل مل چل پڑے تو جہازاورٹینک بھی یہاں بن سکتےہیں، تمام پی آئی ڈی سی فیکٹریاں اب بند ہوچکی ہیں، اسٹیل ملز کو سیاسی وجوہات پر چلنے نہیں دیا جاتا۔

    ہمارےلوگوں کوجانوروں سےبدتررکھاجارہاہے، سرکار کےتمام وسائل کولوگوں کےاوپرخرچ ہوناچاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹرکےحالات آپ کےسامنےہیں، ایک دفعہ جوبندہ قرنطینہ پہنچ گیاوہ پیسےدیےبغیرباہرواپس نہیں آسکتا، چاہےوہ شخص نیگٹوہی کیوں نہ ہو۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ 10 ملین پی پی ایزکٹ تیارہورہی ہیں، 1187 وینٹی لیٹرزکاآرڈردیاتھاجس میں سے300آچکےہیں، 20اپریل کےبعداب تک کوئی پی پی ایزکٹ نہیں منگوائی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے امریکامیں ہرچیزکامعیاردیکھاجاتاہے، ہمارےیہاں جوسامان منگوایاجاتاہےاس میں معیار نہیں دیکھاجاتا، ہمیں معیاری سامان چاہیے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی ریمارکس سےعوام سمجھ رہےہیں کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا ٹی وی پر سنا ایک شخص کہہ رہا تھا صبح کے وقت طارق روڈ پر پارکنگ تھی، اس وقت تک ہم نے نہ کوئی آرڈر اورنہ کوئی ریمارکس دیے تھے۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا یہ نہیں کہہ رہا بازاروں میں رش چیف جسٹس کی وجہ سے لگ گیاہے، عوام سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بہت سنجیدگی سےلیتےہیں،عدالت کےحکم کے باعث انتظامیہ کواقدامات میں مشکلات ہیں، استدعا ہےریمارکس اور فیصلے دیتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھا جائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کورونا وائرس کے خلاف نبردآزما ہے، چیئرمین این ڈی ایم اےکی رپورٹ بڑی مفیدہے، پی پی ایز پاکستان میں تیار ہو رہے ہیں، وینٹی لیٹرزکی پیداوار بھی شروع ہوچکی ہے، 1187وینٹی لیٹرزحکومت بیرون ملک سے منگوانے کا آرڈر دے چکی ہے، 300وینٹی لیٹر آچکےہیں۔

    جسٹس گلزار نے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا شاپنگ سینٹر ہفتہ اوراتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا، عید کے بعد صورتحال کا جائزہ لیں گے، احتیاط نہ کی گئی تو کورونا شدت سے پھیل سکتا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اےنےتسلی بخش رپورٹ دی ہے، لوگ اس سےبڑی تعدادمیں متاثرہورہےہیں، ہم جانتےہیں کوروناملک میں موجودہے، سرکاری دفاتر کھول کر نجی ادارے بند کررہے ہیں، سندھ حکومت کے فیصلوں میں بڑا تضاد ہے، جس پر اے جی سندھ نے کہا وفاقی حکومت طبی ماہرین کی رائےکے برخلاف جارہی ہے جبکہ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت کےہفتہ اتوارلاک ڈاؤن کے حکم سے ممکن ہےحکومت مطمئن نہ ، حکومت نے اس کے باوجود اس پرعمل کیا۔

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ ہماری پورے پاکستان پر نظر ہے، آنکھ، کان اورمنہ بند نہیں کرسکتے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا عدالت ہماری گزارشات بھی سن لے، عدالت ماہرین کی کمیٹی بنا کر رپورٹ طلب کرلے، لاک ڈاؤن ختم ہوگیا ،اس کا نتیجہ کیا ہوگا، ہفتے میں 2دن لوگ مارکیٹ نہیں آئیں گے تو وبا کا پھیلاؤ زیادہ نہیں ہوگا۔

    جسٹس سردارطارق نے کہا مالز محدود جگہ پر ہوتے ہیں جہاں احتیاط ممکن ہے،راجہ بازار،موتی بازار،طارق روڈپررش زیادہ ہوتا ہے، مالزکھولنے کا الزام عدالت پر نہ لگائیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ٹڈی دل کا بڑا ریلا ایتھوپیا سے پاکستان کی جانب بڑھ رہاہے، ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جارہےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹڈی دل کو قابو نہ کیا تو آئندہ سال فصلیں نہیں ہوں گی، پہلے بھی ٹڈی دل آتا تھا لیکن2ہفتے میں اسے ختم کردیا جاتا تھا، فصلوں کے تحفظ کے ادارے کے پاس جہاز تھے، جو ٹڈیوں سے نمٹتے تھے۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے محمدافضل نے کہا اس وقت 20میں سےصرف ایک جہاز فعال ہے، مزید ایک جہاز بھی خرید لیا ہے، پاک فوج کے 5ہیلی کاپٹرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، توقع ہےٹڈی دل سے جلدنمٹ لیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ نے سینٹری ورکرزکوتنخواہیں اورحفاظتی سامان مہیا کرنے کا حکم دیتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی کوروناخطرات پر ماہرین کی ٹیم بنانے کی استدعامسترد کردی اور وفاق اور صوبائی حکومتوں سے پیشرفت رپورٹس طلب کرلیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا وضاحت کردیں ہفتہ اتوار کا لاک ڈاؤن عید تک ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8جون کو ہونے والی سماعت میں وضاحت کردیں گے۔

  • تاجر برادری مارکیٹس کھولنے سے متعلق حکم پر چیف جسٹس کے شکر گزار

    کراچی : تاجربرادری نے مارکیٹس کھولنے سے متعلق حکم پر چیف جسٹس پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا آج اللہ تعالیٰ نے تاجروں کی مدد سپریم کورٹ کے ذریعے کرائی۔

    تفصیلات کے مطابق تاجربرادری کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا مارکیٹس سےمتعلق حکم پرچیف جسٹس کے شکر گزار ہیں ہیں۔

    تاجر رہنما شرجیل گوپلانی نے کہا کہ چیف جسٹس نے دکانیں کھولنے کی اجازت دےکرقانونی اقدام اٹھایا، تاجر آئین وقانون کے دائرے میں اجازت مانگ رہے تھے، آج تاجروں کی مدد اللہ تعالیٰ نےسپریم کورٹ کے ذریعےکرائی، چاندرات تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر من وعن عمل کریں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ کاکراچی کی تمام مارکیٹس کھولنےکاحکم دیتے ہوئے ہفتہ،اتوارکوکاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم کالعدم قرار دے دیا ، عدالت نے کہا کہ ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند کرانے کا حکومتی حکم غیر آئینی ہے، 2دن کاروبار بند رکھنے کاحکم آئین کے آرٹیکل 18،4اور 25کی خلاف ورزی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ پنجاب میں شاپنگ مال فوری طور پر آج ہی سےکھلیں گے اور سندھ شاپنگ مال کھولنے کیلئےوزارت صحت سے منظوری لے گا، دالت توقع کرتی ہے وزارت صحت غیرضروری رکاوٹ پیدانہیں کرےگی۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تمام مارکیٹوں،شاپنگ مالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمہ دارہوں گی۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ: چیف جسٹس کے سیکریٹری میں کرونا وائرس کی تشخیص

    اسلام آباد ہائیکورٹ: چیف جسٹس کے سیکریٹری میں کرونا وائرس کی تشخیص

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سیکریٹری اسد کھوکھر کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آگیا، چیف جسٹس کے سیکریٹری بلاک کو سیل کر دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈاکٹر عامر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سیکریٹری اسد کھوکھر کا کرونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، اسد کھوکھر کا چیک اپ ہائیکورٹ ڈسپنسری میں کیا گیا۔

    ڈاکٹر کے مطابق اسد کھوکھر کو کرونا وائرس ٹیسٹ کے لیے شفا انٹرنیشل اسپتال بھجوا دیا تھا، اسد کھوکھر میں کرونا وائرس کی علامات دیکھی گئیں جس کے بعد ان کا ٹیسٹ کروانے کے لیے شفا انٹرنیشل اسپتال میں اپوائنمنٹ طے کروایا گیا۔

    ان کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ کرونا وائرس کا دوسرا کیس ہے۔

    دوسری جانب رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے سیکریٹری برانچ کو سیل کر دیا ہے۔ رجسٹرار کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی کرونا وائرس کے حوالے سے ایس او پیز ہیں پر عمل ہوگا۔

    رجسٹرار کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اس وقت کورٹ روم میں سماعت کر رہے ہیں، سماعت کے بعد معاملہ ان کے نوٹس میں لایا جائے گا جس کے بعد چیف جسٹس اور رجسٹرار آفس کے تمام ملازمین کے بھی کرونا وائرس کے ٹیسٹ کروائے جائیں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ 48 گھنٹے کے لیے چیف جسٹس کے سیکریٹری بلاک کو سیل کر دیا گیا ہے، بلاک کو سینی ٹائزر واش کے بعد اور ڈاکٹروں کی اجازت سے پھر کھولا جا سکتا ہے۔

  • کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کراچی: چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں تجاوزات سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے بلڈنگ گرگئی، آپ سب سکون سےسوئےہیں ، کس کے کان پر جوں تک رینگی ؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری چیف جسٹس گلزار احمد کی سر براہی میں3رکنی بینچ کراچی میں تجاوزات سے  متعلق کیسز کی سماعت کررہا ہے ، اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل صاحب سرکلرریلوےپرپیشرفت سےآگاہ کریں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نےسرکلرریلوے سے متعلق سپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا بتانا چاہتا ہوں کہ پیش رفت ہوئی ہے۔

    سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دےدیا گیاہے، گرین لائن،اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں، ورلڈ بینک ،بینکوں کی مددسےدیگرمنصوبوں پربھی کام جاری ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا، جس طرح کا نقشہ ہے اسی طرح کے کام ہیں، کوئی کام نہیں ہو رہا، جو کام کیا وہ بھی پیسےکی خواہش کی وجہ سےکیاگیا۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمے میں کہا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے کراچی کو کس طرح کام کی ضرورت ہے، کراچی کو مربوط منصوبے کی ضرورت ہے، ٹرانسپورٹ نہیں اسی لیے لاکھوں موٹر سائیکل ہیں، اےجی صاحب، معذرت کےساتھ کوئی کام نہیں ہو رہا، گرین، اورنج لائن پر سٹرک تیار ہے تو پھر بسیں چلا دیں، چیف جسٹس

    جسٹس سجاد علی نے کہا آپ شام کو گاڑی میں جائیں دیکھیں ناظم آباد کاکیا حال ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1955 والی بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، سارے پاکستان کی کچرا بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، جنگ اول کے زمانے کی بسیں کراچی میں چلا رہے ہیں۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین نے کہا 2سال میں کام کر کے دکھائیں گے، تسلیم کرتاہوں، افسران کے اپنےایجنڈا ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سلمان صاحب،اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ بہت بڑا چور ڈیپارٹمنٹ ہے، ایس بی سی اے، کے ایم سی،واٹربورڈ کس کس کی بات کریں، سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کا اظہار افسوس

    دوران سماعت کراچی میں عمارت گرنے کاواقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کل عمارت گری 14لوگ مرے، سب آرام سےسوئےرہے، کسی پر کوئی جو تک نہیں رینگی، آپ سمجھتے ہیں نا کہ جو رینگنا کسے کہتے ہیں، ،ابھی تومرنے کی گنتی شروع ہو ئی ہے، جس طرح کراچی میں تعمیرات ہوئیں بہت بڑا رسک بنا دیا گیا، خدانخواستہ کراچی پورا ہی نہ گر جائے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے،کسی کو احساس بھی ہے لوگ مر رہے ہیں، نیوزی لینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا ، نیوزی لینڈکی وزیراعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں ، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا ہم نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا یہ سب دکھاوے کیلئے کارروائی کی گئی ہے ، ہم نے کہا تھا غیرقانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کاکیاہوا ،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ رپورٹ تیار کرلی ہے ۔

    چیف جسٹس کا حکام پر برہمی پر اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا جب تک اوپر سے ڈنڈا نہ ہو کوئی کام نہیں کرتا، آپ لوگوں کو کراچی کاکچھ پتہ ہی نہیں، کیماڑی کا پل گرنے والا ہے، کچھ احساس ہے، اگر کیماڑی پل گر گیا تو کراچی سے تعلق ہی ختم ہو جائے گا۔

    اے جی سندھ نے بتایا کراچی ماس ٹرانزٹ سے ٹرانسپورٹ مسائل حل ہوجائیں گے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا بتائیں، گرین لائن پر کا م کب شروع کیا، حکام نے عدالت کو بتایا 3سال پہلے شروع کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا 3سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں، یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر نہیں ہوتا۔

    حکام کا کہنا تھا کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی، چیف جسٹس نے پوچھا اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں، ابھی چلے جائیں ،کوئی کام نہیں ہورہا، ٹھیکیدار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کاکمیشن ملتا ہے، ابھی جائیں ناظم آباد دیکھیں کوئی کام نہیں ہورہا، سب سمجھتے ہیں آپ کے معاملات ٹھیک نہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں، دھول مٹی ہےہر جگہ، کوئی انسانیت والاعمل ہے،کیا ملک سےمحبت ہےآپ لوگوں کو، آپ بین اور بانسری بجارہے ہیں، سلمان صاحب آپ ایماندار آدمی ہیں، مگرکام نہیں لےسکتے، یہ پورا گینگ کام کر رہاہے،کام صرف پیپرزمیں ہے، چشہید ملت روڈ، کشمیر روڑ، ناظم آباد کا کیا حال کر دیا، یونیورسٹی روڈتباہ کر دیا،خوبصورت ترین روڑ تباہ کر دیے۔

    سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں وفاقی حکومت کیاکر رہی ہے، اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاقی حکومت چاہتی ہے کچھ وقت دیا جائے، ایک منصوبہ مکمل ہوا توباقی بھی ہو جائیں گے، میری درخواست ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیاجائے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا چیف سیکریٹری کہاں ہیں، بہت اچھےایماندارآدمی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سبھی اچھے افسران ہیں۔

    دوران سماعت سرکلرے ریلوے کی زمین سے متعلق وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا سرکلرے ریلوے کی زمین پرکسی کو متبادل جگہ نہیں دی گئی سیکڑوں لوگوں کوہٹایا گیا مگر متبادل کچھ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں جن کو ہٹایا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے،یہ تو حکومت کا کام ہے کہ متاثرین کو کیسے آباد کرنا ہے۔

    فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا صرف غریبوں کےگھروں کومسمار کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 90 فیصد لوگ غریب ہیں، عدالت نےتوسب کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کاحکم دےرکھا ہے، آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کتنے ظالم لوگ ہیں، لوگوں نے اپنے ابا کی زمین سمجھ کرعمارتیں بنادیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے غیرقانونی تعمیرات کرنیوالوں کو معلوم ہوتاہے کہ غیر قانونی ہے، بطوروکیل ریلوے زمین پر قابضین کا مقدمہ لینےسےانکار کلرتاتھا، ہم تو غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کو بھگا دیتے تھے، آپ لوگ تو ریلوے کی پٹڑی پر بیٹھے ہیں، کسی کونہیں چھوڑیں گے،سبھی کیخلاف کارروائی ہوگی، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہناتھا کہ 10 منزلہ عمارت کے برابر میں جھگی ہوتوپہلےکسے ختم کریں، تو چیف جسٹس نے کہا آپ تسلی رکھیں کوئی نہیں بچے گا، سب کو گرائیں گے۔

    رائل پارک کیس : ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد

    سپریم کورٹ میں الہ دین پارک کے برابرعمارت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، رائل پارک اپارٹمنٹس کے وکیل نے دلائل میں کہا ناصر حسین لوتھا دبئی کے حکمران طبقے سےہیں، ناصرحسین لوتھااب تک پانچ ارب روپے لگاچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی دبئی کا حکمران ہے تو ہم کیاکریں،ہمیں تو قانون دیکھنا ہے، قانونی حیثیت ثابت کردیں ہمیں کسی سےکیا لینادینا۔ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، بلڈرزکیاکھیل کھیلتےہیں،معلوم ہے۔

    رائل پارک متاثرین کے وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بلڈرز نے ہم سے اربوں روپے کما لیے، متاثرین کہاں جائیں ، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا بلڈرز سے پیسے کماتے ہیں تو وکیل صلاح الدین کا مزید کہنا تھا کہ یہی ہم کہہ رہے ہیں بلڈرزنےکمالیا،ہم کہاں جائیں۔

    وکیل رائل پارک نے کہا رائل پارک کی منظوری قانون کے مطابق ہوئی، ناصر حسین لوتھا نے قانون کے مطابق زمین خریدی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پڑھیں دستاویز، سروے نمبرہےہی نہیں آپ کےپاس، 2010 میں زمین ایک دم سےآپکومل گئی،سروےنمبربھی نہیں

    عدالت نے ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد کردی اور کہا متاثرین کی درخواست وقفے کے بعد سنیں گے۔

  • چیف جسٹس کا اندرون سندھ میں بینکنگ کورٹ قائم کرنے کا اعلان

    چیف جسٹس کا اندرون سندھ میں بینکنگ کورٹ قائم کرنے کا اعلان

    میرپورخاص: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کسی کو بھی قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، عوام کے حقوق کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ میرپورخاص میں بینکنگ کورٹ کا قیام عمل میں لائیں گے، اس شہر کی ایک ہزار سال پرانی تاریخ ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو بھی قانون شکنی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

    حالیہ دنوں لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا تھا کہ وکلا نےعہد کرلیا آئندہ ہڑتالیں نہیں کریں گے، وکلا سمجھ گئے ہڑتال ان کے حق میں نہیں اس لیے آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔

    آج وکلا نےعہد کرلیا آئندہ ہڑتالیں نہیں کریں گے،چیف جسٹس

    اس سے قبل چیف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کا غلط استعمال روکنا ہوگا، حکومت کو سنجیدگی سے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • چیف جسٹس کا یونیورسٹی روڈ پر قائم شادی ہال آج ہی گرانے کا حکم

    چیف جسٹس کا یونیورسٹی روڈ پر قائم شادی ہال آج ہی گرانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ نے یونیورسٹی روڈپرپی آئی اےکی زمین پرقائم شادی ہال آج ہی گرانے کا حکم دے دیا اور پی آئی اے سے کل تک عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری کراچی میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پی آئی اے کی زمین پر شادی ہالز بنانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا پی آئی اے کی طرف سے کون آیا ہے، جنرل منیجر لیگل سروسز پی آئی اے عدالت میں پیش ہوئے، پی آئی اے نمائندہ نے بتایا ہم نے شادی ہالز گرا دیئے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیاکہہ رہےہیں کل ہی شادی ہال دیکھ کر آیاہوں، یونیورسٹی روڈپرکل گیا تو وہاں ہال موجودتھا، جس پر نمائندہ نے بتایا اسٹرکچرہوسکتا ہے، استعمال نہیں کررہے۔

    چیف جسٹس نے پی آئی اے سے اپنے تمام شادی ہالز سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا بتایا جائے پی آئی اے کے رفاعی پلاٹس کی کیا صورتحال ہے۔

    سپریم کورٹ نے یونیورسٹی روڈپرپی آئی اےکی زمین پرقائم شادی ہال آج ہی گرانے کا حکم دیتے ہوئے پی آئی اے سے کل تک عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی۔

  • چِکلک سے چِک تک

    چِکلک سے چِک تک

    فخرالدین جی ابراہیم کا نام پاکستان میں ایک قانون داں کے طور پر ہی نہیں لیا جاتا بلکہ جمہوری قوتوں کے حامی اور ایک اصول پسند شخصیت کے طور پر بھی انھیں‌ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    مختلف اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے فخر الدین جی ابراہیم رواں سال کے آغاز پر ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے۔

    قریبی لوگ اور ان سے بے تکلف احباب انھیں ان کی عرفیت فخرو بھائی سے مخاطب کرتے تھے۔ بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ زمانۂ طالبِ علمی میں وہ ہم جماعتوں میں "چکلک” کے نام سے مشہور تھے۔ یہ دل چسپ انکشاف مرحوم نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران کیا تھا۔

    فخرالدین جی ابراہیم نے بتایا کہ اسکول کے نصاب میں شامل ایک مضمون کا عنوان "چِکلک” تھا اور چوں کہ وہ بہت دبلے پتلے تھے تو ساتھیوں نے انھیں "چِکلک” پکارنا شروع کر دیا۔

    بعد میں یہی نام سکڑ کر "چِک” ہوگیا۔ یہ فخر الدین جی ابراہیم کے لندن میں قیام دوران ہوا۔ وہ بتاتے ہیں جب لندن گیا تو ممبئی کے ایک صاحب بھی وہاں آگئے (پرانے دوست) جو مجھے "چِکلک” کہتے رہے۔ میں نے کہا بھی کہ مجھے میرے نام سے پکارو، مگر وہ نہ مانے۔ ان سے یہ نام سن کر لندن میں مجھے دیگر احباب نے "چِک” کہنا شروع کر دیا۔

    فخر الدین جی ابراہیم 1928 میں ہندوستان کی ریاست گجرات کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    عدم تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والے فخرو بھائی کا نام پاکستان میں جمہوریت پسند اور جمہوری قوتوں کا ساتھ دینے والوں کے لیے ایک روشن حوالہ ہے۔

  • چیف جسٹس کی مزار قائد پر حاضری

    چیف جسٹس کی مزار قائد پر حاضری

    کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے مزار قائد پر حاضری دی جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی کی اور مزار پر پھول رکھے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس گلزار احمد صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی پہنچے جہاں انہوں نے مزار قائد پر حاضری دی۔

    چیف جسٹس نے مزار قائد پر حاضری کے دوران فاتحہ خوانی کی اور مزار پر پھول رکھے۔ چیف جسٹس نے مہمانوں کی کتاب میں تاثرات بھی قلمبند کیے۔

    خیال رہے کہ جسٹس گلزار نے چیف جسٹس بننے کے بعد کراچی کا پہلا دورہ کیا ہے۔ انہوں نے 21 دسمبر کو بطور چیف جسٹس اپنے ہعدے کا حلف اٹھایا تھا۔

    جسٹس گلزار یکم فروری 2022 تک پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان رہیں گے۔

    جسٹس گلزار کو دیوانی، بینکنگ اور کمپنی قوانین میں مہارت حاصل ہے۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جسٹس گلزار احمد کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر سے جوڈیشل ایکٹو ازم نظر آئے گا۔

    بطور چیف جسٹس اپنی نامزدگی کے بعد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گلزار نے کہا تھا کہ وکلا اور عدالتی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا، ڈسٹرکٹ کورٹ کے حالات دیکھ کر افسوس اور شرمندگی ہوئی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ ایک چیمبر میں چار سے پانچ ججز بیٹھے ہیں، اپنے وقت میں ایسی ڈسٹرکٹ کورٹس کی حالت نہیں دیکھی تھی۔ بار سے منسلک تمام مسائل کو 21 دسمبر کے بعد سے حل کرنا شروع کروں گا۔

  • جسٹس مامون الرشید نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ حلف اٹھا لیا

    جسٹس مامون الرشید نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ حلف اٹھا لیا

    لاہور: جسٹس مامون الرشید نے لاہور ہائیکورٹ کے 49 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئی۔ جسٹس مامون الرشید نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔

    گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے جسٹس مامون الرشید سے حلف لیا۔ تقریب حلف برداری میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، لاہور ہائیکورٹ کے ججز، صوبائی وزرا اور اٹارنی جنرل پاکستان نے شرکت کی۔

    چیف جسٹس حلف برداری کے بعد لاہور ہائیکورٹ پہنچے تو عدالتی افسران نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ پولیس کے چاق و چوبند دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔

    خیال رہے کہ جسٹس مامون الرشید لاہور ہائیکورٹ کے 49 ویں چیف جسٹس ہیں۔ وہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار محمد شمیم خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔

    جسٹس مامون الرشید صرف 2 ماہ 18 دن تک لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہیں گے۔

    2 ماہ 18 دن بعد جسٹس قاسم خان ان کی جگہ لیں گے، جسٹس قاسم خان 18 مارچ سنہ 2020 میں بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور وہ اگلے ایک سال 4 ماہ تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔