Tag: چینی ثقافت

  • چین بیجنگ کا سمر پیلس

    چین بیجنگ کا سمر پیلس

    بیجنگ کے نواح میں واقع سمر پیلس گرمیوں کی شدت سے بچنے کے لئے شاہی خاندان کا ایک بے مثال تفریحی مقام تھا جہاں شہزادے، شہزادیاں اپنے بے شمار خادموں اور کنیزوں کے ہمراہ سخت گرمی کا موسم نسبتاً بلندی پر واقع اس پر فضا مقام پر گزارتے۔

    بیجنگ چین کے شمال میں ہونے کے باعث سردیوں میں بے انتہا سرد ہو جاتا ہے جہاں درجۂ حرارت منفی آٹھ دس ڈگری تک چلا جاتا ہے لیکن یہاں کی گرمی بھی کم ستم نہیں ڈھاتی۔ بس اسی گرمی سے بچاؤ کے لئے شاہی خاندان شہر کے مرکزی محلات سے اٹھ کر اپنا پڑاؤ یہاں پر ڈال لیتے۔ اس مقام کی تعمیر چینی بادشاہت کے مشہور سلسلے چھنگ (Qing) کے بادشاہ چھیان لونگ نے سن 1750ء سے 1764ء کے دوران کی۔ چھنگ بادشاہوں کو آپ چین کے مغل حکمران سمجھ سکتے ہیں۔ سمر پیلس کے نام سے ہم نے یہی تاثر لیا تھا کہ ایک بڑا سا محل ہو گا جو دیو قامت فصیلوں اور دیواروں میں گھرا ہوا ہو گا اور ان سب روایتی چیزوں کو دیکھنے کے لئے دو سے تین گھنٹے کافی ہوں گے لیکن یہ تاثر غلط اور دو تین گھنٹوں کا وقت ناکافی تھا۔

    پیلس کے ٹکٹ خریدنے کے بعد محل کے در و دیوار دیکھنے کے لئے اندر داخل ہو کر جو نظر دوڑائی تو یہ انکشاف ہوا کہ انتہائی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ عجوبہ چند محلات نہیں بلکہ ایک خوب صورت جھیل اور اس کے اردگرد چھوٹے بڑے پلوں، روایتی عمارات اور عبادت گاہوں پر مشتمل ایک پوری بستی ہے۔

    آپ چین کے کسی بھی تاریخی اہمیت کے مقام یا قدیم گھروں کو دیکھیں تو ان کی تعمیر کو فطرت سے بہت ہم آہنگ پاتے ہیں۔ عمارتوں کے اطراف میں قدرتی حسن کو ایک خاص توازن سے رکھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کھلے صحن تالابوں، درختوں اور فواروں سے مزین ہوتے ہیں۔ راہداریوں کے ذریعے ہوا کے گزرنے کا قدرتی انتظام موجود ہوتا ہے۔ ان گھروں، عمارتوں اور باغات میں ایک خاص انداز کا ربط ہوتا ہے جو حیرت انگیز طور پر اعصاب کو بہت سکون پہنچاتا ہے۔ اس طرز تعمیر کے پیچھے مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات کا اہم کردار ہے جو فطرت سے ہم آہنگی پر بہت زرو دیتا تھا۔ سمر پیلس میں داخلے کے بعد شروع میں ہی بیٹھے مختلف اشیاء اور سوینیئرز فروخت کرنے والے اسٹالز کے رش سے گزر کر آپ جونہی آگے بڑھتے ہیں فطرت سے ہم آہنگ چینی فلسفہ اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سمر پیلس کو چینی زبان میں ای ہایوآن (Yihe Yuan) کے نام سے جان جاتا ہے جس کا مطلب ہی آرام و سکون والا باغ ہے۔ تین کلو میٹر پر محیط مصنوعی جھیل اس مقام کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے اطراف میں چھوٹے بڑے پل اور راہداریاں ہیں جو ہرے بھرے درختوں اور بکھری ہوئی خوبصورت روایتی عمارات سے سجی ہوئی ہیں۔ سمر پیلس کا مرکزی مقام ایک پہاڑی ہے جسے Longevity Hill کے نام سے جانا جاتا ہے بتدریج بلند ہوتے اس حصے کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں اور بالآخر جب آپ کا سانس پھول جائے اور فوراً پانی کی طلب ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ اس کے سب سے بلند حصے اور مرکزی بدھ ٹیمپل کے سامنے پہنچ چکے ہیں۔ اس ٹیمپل کے اندر بدھ مت کے انتہائی خوبصورت اور دیو ہیکل سنہری مجسمے ہیں جہاں اگر بتیاں جلاتے ہوئے سیکڑوں عقیدت مند نظرآتے ہیں۔ یہ اس پیلس کا سب سے بلند مقام ہے جہاں سے کھڑے ہو کر آپ ارد گرد کے مناظر اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے شکر پڑیاں سے اسلام آباد کا نظارہ کیا جاتا ہے۔

    جہاں شاہی خاندانوں کی حیرت انگیز تعمیرات اور باغات کا ذکر ہو وہاں ان کی شاہانہ زندگی سے متعلق رنگین قصے نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔ مشہور ہے کہ سمر پیلس کی خوبصورت جھیل (Kunming Lake) میں روایتی کشتیوں پر سوار بادشاہ اور ان کے حرم کی کنیزیں جھیل کے کناروں پر خصوصی دکانوں سے قیمتی اشیاء خریدتی تھیں۔ یہ خریداری محض ایک دکھاوا ہوتی کیونکہ پوری مارکیٹ ہی شاہی خاندان کی ملکیت تھی یعنی مفت کی شاپنگ محض تفریح طبع کے لئے ہوتی۔ پیلس کی اونچی نیچی راہداریوں، سر سبز اطراف میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو داد دینی پڑتی ہے۔ جگہ جگہ بکھری عمارتوں میں شاہی خاندان کی رہائش گاہوں کے علاوہ دفتری امور سے متعلق بھی جگہیں موجود تھیں جہاں بادشاہ سلامت یا ملکۂ عالیہ سرکاری امور بھی سر انجام دیتے۔

    جس طرح بعض لوگ بھلی صورت پر صرف بری نگاہ ہی ڈالتے ہیں اسی طرح یہ خوبصورت مقام بھی چینی بادشاہوں اور مغربی اقوام کے درمیان ہونے والی جنگوں میں تاراج ہوا۔ برطانوی اور فرانسیسی دستوں نے کمزور پڑتی چینی بادشاہت سے مقابلے کے دوران اس جگہ کا گھیراؤ جلاؤ اور لوٹ مار کی۔ بادشاہت کے زوال کے دنوں میں اس کی تعمیر نو مشہور چینی ملکہ سی شی (Ci Xi) کے عہد میں ہوئی جس نے ایک طویل عرصے چین پر حکمرانی کی۔ ملکہ نے اس مقام پر نہ صرف مستقل ڈیرے ڈال لیے تھے بلکہ سرکاری معاملات بھی یہیں سے دیکھتی جس کے باعث یہاں ملکہ کی تفریح و طبع کے لئے روایتی تھیٹر کی عمارت سے لے کر ہر طرح کی آسائش کا انتظام موجود تھا۔ زوال کے ان دنوں میں بھی اس جگہ کی دیکھ بھال پر بھاری اخراجات جاری رہے جو بالآخر ملکہ کی موت اور اس کے چند برس بعد ہی 1912ء میں بادشاہت کے مکمل خاتمے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے۔

    سمر پیلس کی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت نے اسے دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک کا درجہ دلا دیا ہے۔ بادشاہتیں جہاں کی بھی رہی ہوں شان و شوکت کے اظہار کے لئے بادشاہوں نے کئی عجوبۂ عالم تعمیرات کیں اور اس معاملے میں چینی بادشاہوں نے تو اس فن کو کمال تک پہنچا دیا۔ اپنے عروج کے زمانوں میں انہوں نے اپنے لا محدود اختیارات کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا اور رعایا سے ایسے ایسے کام کروا لئے کہ آج بھی ان کی نشانیاں حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔

    (منصور خالد کے ایک کالم سے اقتباسات)

  • سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    کراچی: جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی 4 سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دیے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی یونی ورسٹی میں ڈگری پروگرام کے لیے پہلے 2 سال کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری 2 سال کی کلاسز سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں ہوں گی۔

    یہ پروگرام جامعہ کراچی اور چین کی سچوان نارمل یونی ورسٹی کے اشتراک اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے، جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب بدھ کے روز وائس چانسلر سیکریٹریٹ جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔

    جامعہ کراچی کی جانب سے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جب کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے چینی ڈائریکٹر شاؤپنگ نے معاہدے پر دستخط کیے، دستخط کے سلسلے میں ڈائریکٹر شاؤپنگ نے سچوان نارمل یونی ورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر وانگ مینگی (Professor Dr Wang Mingyi) اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ماجیانفی (Professor Dr Ma Jianfei) کی نمائندگی کی۔

    پاکستان اور چین کے درمیان ایک اور بڑا معاہدہ طے پاگیا

    مفاہمتی یادداشت کے مطابق جامعہ کراچی کے طلبہ پہلے دو سال کی کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری دو سال کا تدریسی عمل سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں مکمل کریں گے، یہ پروگرام شروع کر کے جامعہ کراچی پاکستان کی پہلی جامعہ بن گئی ہے۔

    اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کا بنیادی مقصد پاکستانی طلبہ کو چینی زبان اور ثقافت سے روشناس کرانا ہے، عصر حاضر میں چین ایک بڑی عالمی معیشت بن کر ابھرا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی نئے سنگ میل عبور کر رہا ہے اس ضمن میں چینی زبان اور کلچر سے آگاہی انتہائی ناگزیر ہے۔

    انھوں نے کہا اس ضمن میں طلبہ اور اساتذہ کے ایکس چینج پروگرامز اور ریجنل اسٹڈی پروگرامز بھی منعقد کیے جائیں گے، چین میں دوران تدریس سینٹر فار لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن طلبہ کو اسکالر شپ فراہم کرے گا جس میں ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات شامل ہیں۔

    چینی ڈائریکٹر پروفیسر ژانگ شاؤپنگ (Zhang Xiaoping) نے کہا کہ جامعہ کراچی میں قائم کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ ملک کا سب سے بڑا انسٹی ٹیوٹ بن چکا ہے جس میں 30 چینی اساتذہ، 2 مقامی اساتذہ اور جامعہ کراچی سمیت 6 ٹیچنگ سائٹز ہیں جس میں 7 ہزارسے زائد طلبہ انرولڈ ہیں۔

    دستخط تقریب میں رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر سلیم شہزاد، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے پاکستانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین خان، ممبر سنڈیکیٹ جامعہ کراچی صاحب زادہ معظم قریشی، ناظم امتحانات ڈاکٹر سید ظفر حسین، ناظم مالیات طارق کلیم، مشیر امور طلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی، فارن اسٹوڈنٹس ایڈوائزر ڈاکٹر شمائلہ شفقت اور چائنیز فیکلٹی ممبران اور دیگر بھی موجود تھے۔