Tag: چینی لوک کہانی

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    چین کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ ہر روز وہ اپنے گھر سے مٹی کے دو برتنوں میں پانی لینے قریبی نہر پر جاتی تھی۔ وہ برتنوں کو لکڑی کے نسبتاً لمبے ٹکڑے کے ساتھ لٹکا کر اس لکڑی کو کندھے پر دھر لیتی، یوں پانی کے بھرے ہوئے برتنوں کا وزن ڈھونے میں اسےآسانی ہو جاتی تھی۔

    اس بوڑھی عورت کا ایک برتن تو صحیح سلامت تھا لیکن دوسرے میں دراڑ پڑ چکی تھی جس سے پانی بہنے لگا تھا، اور نہر سے گھر تک آتے آتے اس میں پانی آدھا رہ جاتا تھا۔

    یہ سلسلہ دو برس تک یوں ہی چلتا رہا۔ گھر لوٹنے تک ایک برتن تو بھرا ہوا رہتا لیکن دوسرے میں آدھا پانی ہی بچتا تھا۔ بوڑھی عورت اتنی مشقت بھی اٹھاتی لیکن مٹی کے برتن میں‌ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے اس کی یہ محنت ضایع ہوجاتی تھی۔ جو برتن صحیح سلامت تھا وہ اس کے اندر تکبر اور رعونت کا احساس پیدا ہو گیا تھا جب کہ ٹوٹا ہوا برتن احساس کمتری کا شکار ہو کر شرمندگی محسوس کرنے لگا تھا۔

    آخر دو سال گزر گئے تو ایک روز دراڑ شدہ برتن کی برداشت جواب دے گئی، اسے بڑی ذلّت محسوس ہوئی کہ بوڑھی عورت اتنی محنت سے پانی لاتی ہے اور اس میں‌ جو شگاف پڑ چکا ہے اس کی وجہ سے اتنا سارا پانی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔

    آخر یہ شگاف والا برتن اس عورت سے کہنے لگا: "میں بہت شرم سار ہوں کہ تم جو پانی میرے اندر بھرتی ہو اس میں‌ سے آدھا راستے میں بہہ جاتا ہے اور تم اسی طرح‌ گھر پہنچ جاتی ہو، یہ کہہ کر وہ دکھ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔”

    اس کی بات سن کر وہ بوڑھی عورت مسکرائی اور بولی کہ تم نے غور نہیں‌ کیا، میرے کندھے پر رکھی ہوئی لکڑی کے جس کونے سے تم لٹک کر آتے ہو، اس طرف راستے میں سبزہ اور رنگ برنگے پھول ہیں لیکن دوسری جانب کوئی پھول نہیں ہیں۔ میں اس سے آگاہ ہوں کہ تم میں ایک نقص ہے اور اس چھوٹے شگاف سے پورے راستے پانی بہتا رہتا ہے، تم کو یاد ہو گا کہ ایک دن میں نے تمہارے والے راستے میں پھولوں کے بیج ڈال دیے تھے جن سے اگنے والے پھول آج تم دیکھ ہی سکتے ہو، پورے دو سال میں یہ پھول توڑ کر اپنے گھر کو سجاتی رہی اور اب میرا گھر پھولوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ دوسرا برتن تو بس مجھے پانی ہی دیتا رہا جب کہ تم نے تو مجھے پانی بھی پہنچایا اور پھولوں سے میری منزل اور راستہ بھی سجا دیا۔ اس لیے تم کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں‌ ہے تم تو بہت کمال کے برتن ہو۔

    یہ سن کر خود کو کم تر سمجھنے والا اور اپنے نقص پر شرم سار برتن خوشی سے جھوم اٹھا اور فخر سے سالم برتن پر ایک نگاہ ڈالی جو اب اس سے نظریں‌ چرا رہا تھا۔

  • گلِ داؤدی

    گلِ داؤدی

    مازی چھائی پئی چِنگ کا باشندہ تھا۔ اُس کا خاندان گو کئی نسلوں سے گلِ داؤدی کا پرستار چلا آرہا تھا، مگر اُس نے تو اُن پھولوں کی چاہت میں سب کو مات کر دیا تھا۔ اُس کے کان میں بھنک پڑتی کہ ہزار کوس پر گلِ داؤدی کا کوئی نایاب پودا موجود ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر اُسے خریدنے وہاں پہنچ جاتا۔

    ایک دن نانچنگ سے ایک مہمان آیا اور بتایا کہ اُس کے عم زاد کے پاس گلِ داؤدی کی ایک دو ایسی قسمیں ہیں، جو شمال میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ما زی سامانِ سفر باندھ نانچنگ جا پہنچا اور بڑی منّتوں سماجتوں کے بعد دو قلمیں لے کر ہی ٹلا۔ اُس نے قلمیں بڑی حفاظت سے لپیٹیں اور واپسی کے سفر پر ہولیا۔

    راہ میں اُسے ایک خوب صورت نوجوان ملا جو گدھے پر سوار تھا اور ایک منقّش چھکڑے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ دونوں میں گفتگو شروع ہوگئی۔ نوجوان نے اپنا نام تھاؤ بتایا۔ اُس کے انداز سے بڑی شائستگی ٹپکتی تھی۔ مازی نے اپنے مشغلے کا ذِکر کیا تو وہ کہنے لگا، ’’گلِ داؤدی بذاتِ خود تو بڑا معمولی پھول ہے۔ اصل چیز تو باغ باں ہے جو اُسے بناتا سنوارتا ہے۔‘‘ یوں گلِ داؤدی اُگانے کے طریقے بھی موضوعِ سخن رہے۔

    مازی اُس کی باتیں بڑی دل چسپی سے سنتا رہا اور باتوں باتوں میں پوچھنے لگا، ’’ آپ لوگ کدھر جارہے ہیں؟‘‘

    ’’میری بہن نانچنگ سے اُکتا گئی تھی۔ اب ہم شمال میں کہیں آباد ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔

    ’’میں گو تہی دست آدمی ہوں، پھر بھی، برُا نہ مانیں تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔ میں مکان کا ایک حصّہ آپ لوگوں کے لیے الگ کر دوں گا۔‘‘ مازی نے تجویز پیش کی۔

    نوجوان بہن سے مشورہ لینے چھکڑے کے پاس گیا اور اُس نے پردہ ہٹایا تو مازی نے دیکھا کہ وہ بیس بائیس سال کی من موہنی سی لڑکی تھی۔ وہ بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’ کمرے بے شک معمولی ہوں، پَر صحن بڑا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ چنانچہ وہ مازی کے ہمراہ پئی چِنگ آگئے۔

    مازی کے گھر کی جنوبی سمت ایک مکان اور بڑا سا احاطہ تھا۔ تھاؤ کو جگہ بھا گئی اور بہن بھائی نے وہاں ڈیرا ڈال لیا۔ تھاؤ روزانہ مازی کے صحن میں آکر اُس کے پودوں کی دیکھ بھال کرتا۔ وہ سوکھے پودوں کو جڑ سے اُکھاڑ کے دوبارہ لگاتا تو وہ دنوں میں پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے۔ بہن بھائی بہت ہاتھ کھینچ کے گزر اوقات کرتے، اپنے گھر میں پکانے کے بجائے مازی کے ہاں ہی دونوں وقت کھانا کھاتے۔

    مازی کی بیوی کو لڑکی بڑی اچھی لگی اور دونوں میں خوب گاڑی چھننے لگی۔ وہ اکثر کھانے پینے کی چیزیں اُن کے ہاں بھجوا دیتی۔ لڑکی کا نام ہوانگ ینگ تھا۔ بڑی ہنس مکھ اور چلبلی۔ وہ اکثر مازی کی بیوی کے ہاں جاتی اور سلائی کے کام میں اُس کی مدد کرتی۔
    ایک دن تھاؤ نے مازی سے کہا، ’’ دوست، آپ کا کنبہ بھی کچھ زیادہ خوش حال نہیں۔ اُدھر ہمارا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ یوں سلسلہ کب تک چلے گا۔ سوچتا ہوں گزر اوقات کے لیے گلِ داؤدی بیچنا شروع کر دوں۔‘‘

    مازی کی خود داری کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اُس نے کہا ، ’’میں تو تمہیں غریبی میں خوش رہنے والا آزاد منش عالم سمجھا تھا۔ گلِ داؤدی کو کاروبار کا وسیلہ بنانا میں اِس پھول کی توہین سمجھتا ہوں۔‘‘ مازی نے جواب دیا۔

    ’’روزی کمانے کی خاطر کوئی کام کرنا اور دولت کی حرص رکھنا، دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔‘‘ تھاؤ مسکراتے ہوئے بولا، ’’ گل فروشی میں کوئی اہانت کی بات نہیں۔ مانا کہ انسان کو حریص نہیں ہونا چاہیے، مگر مفلسی کو ذریعۂ عزت سمجھنا بھی کوئی دانائی کی بات نہیں۔‘‘

    مازی نے کوئی جواب نہ دیا اور تھاؤ اُٹھ کر چلا گیا۔ مازی نے جو قلمیں اور پودے بیکار سمجھ کر پھینک دیے تھے، تھاؤ بعد میں وہ سب اٹھا لے گیا لیکن بِن بلائے آنے جانے سے احتراز کرنے لگا۔

    گلِ داؤدی کھلنے کا موسم آپہنچا۔ ایک دن مازی تھاؤ کے دروازے پر شور شرابا سُن کر باہر نکلا اور وہاں پھول خریدنے والوں کا ہجوم دیکھ کر حیرت سے دم بخود رہ گیا۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ ایسے ایسے نایاب پھول اور پودے خرید کر لے جارہے تھے جو مازی نے کبھی دیکھے تک نہ تھے۔ تھاؤ کا کاروباری انداز دیکھ کر مازی سخت دل برداشتہ ہوا اور اُس سے قطع تعلق کا سوچنے لگا، مگر ساتھ ہی دل میں یہ خواہش بھی چٹکیاں لے رہی تھی کہ کسی صورت کچھ نایاب پھول اور پودے حاصل کر لے۔ وہ کچھ جلی کٹی سُنانے کے خیال سے تھاؤ کے دروازے پر پہنچا تو تھاؤ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا۔

    عجیب منظر تھا، سارا صحن پھولوں اور گملوں سے اَٹا پڑا تھا، تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رنگ رنگ کے پھول عجب بہار دکھا رہے تھے۔ مازی نے غور سے دیکھا تو ان میں سے بیشتر وہی قلمیں اور پودے تھے جو اس نے بیکار سمجھ کر اکھاڑ پھینکے تھے۔

    اتنے میں تھاؤ اندر سے شراب اور کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا لایا اور پھولوں کے قریب میز بچھاتے ہوئے از راہِ تفنّن بولا، ’’مفلسی نے سارے کَس بل نکال دیے تھے۔ اب دیکھیے آج میں بھی آپ کی تواضع کے قابل ہوگیا۔ پچھلے چند دنوں میں کچھ آمدنی ہوگئی ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بہن نے اُسے پکار لیا۔ وہ اندر گیا اور لپک جھپک چند نفیس اور سلیقے سے پکی ہوئی چیزیں اُٹھا لایا۔

    مازی اُس سے پوچھنے لگا، ’’ تمہاری بہن نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘

    ’’ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘ تھائو نے جواب دیا۔

    ’’وہ وقت کب آئے گا؟‘‘

    ’’آج سے ٹھیک تینتالیس مہینے بعد۔‘‘

    ’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہو؟‘‘ تھاؤ مسکراکر چپکا ہو رہا اور ہنسی خوشی کچھ وقت بتانے کے بعد مازی گھر لوٹ آیا۔

    اگلے روز مازی پھر آگیا اور یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ تھاؤ نے پچھلے روز جو قلمیں لگائی تھیں، وہ کوئی بالِشت بالشت بھر لمبی ہوچکی ہیں۔ اُس نے سبب جاننا چاہا تو تھاؤ نے جواب دیا:

    ’’یہ ایک راز ہے۔ یوں بھی آپ پھولوں کو وسیلۂ روزگار تو بنائیں گے نہیں۔ پوچھنے یا بتانے سے کیا حاصل؟‘‘

    چند دن بعد تھاؤ نے پھول چٹائیوں میں لپیٹے اور چھکڑے بھر کے سفر پر نکل گیا اور اگلے سال وسطِ بہار میں جنوب سے عجیب و غریب پھول لیے لوٹ آیا۔ اُس نے دارالحکومت میں پھولوں کی دکان کھولی اور دس روز میں سارے پھول بیچ کر پھر سے پھول اُگانے میں مشغول ہوگیا۔ اُس کے دروازے پر پھر خریداروں کا ہجوم رہنے لگا۔ جن لوگوں نے پچھلے سال پودے خریدے تھے، وہ پھر سے پھول خریدنے آئے کیوں کہ موسم بیتتے ہی پودے سوکھ گئے تھے۔ تھاؤ خوب مال کمانے لگا۔

    سال بھر بعد انہوں نے مکان میں کچھ توسیع کرائی اور اُس سے اگلے ہی سال ایک حویلی بنوا لی۔ اب انہیں مازی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صحن میں پھولوں کے تختوں سے جگہ رکنے لگی تو انہوں نے ایک اور قطعہ خرید کر اردگرد دیوار چنوائی اور اُسے بھی چمن زار بنا دیا۔ پت جھڑ میں تھاؤ نے پھر پودے چھکڑوں پر لادے اور جنوب کو چلا گیا۔

    اوائلِ بہار میں، جب وہ ہنوز جنوب ہی میں تھا، مازی کی بیوی بیمار ہوئی اور انتقال کرگئی۔ مازی تھاؤ کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے مشاطہ کو بھیجا تو لڑکی یوں مسکرائی، گویا اُسے انکار نہ تھا، تاہم جواباً کہلوا بھیجا کہ وہ بھائی کی واپسی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

    سال بھر سے زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن تھاؤ واپس نہ آیا۔ ہوانگ ینگ نوکروں کی مدد سے حسبِ معمول پھول اُگاتی رہی اور ہن برستا رہا۔ اُس نے سات سو ایکڑ زمین بھی خریدی اور حویلی کی ٹیپ ٹاپ کروا کے اُسے اور زیادہ خوب صورت بنا دیا۔ انہی دنوں کی بات ہے، مازی کا ایک دوست مشرقی کوانگ تونگ سے تھاؤ کا خط لے کر آیا۔

    خط میں اُس نے مازی کو تاکید کی تھی کہ ہوانگ ینگ سے شادی کر لے۔ خط پر تاریخ وہی تھی جس روز مازی کی بیوی کا انتقال ہوا تھا۔ ٹھیک تینتالیس مہینے! تھاؤ نے باغ میں کھانا کھاتے ہوئے تینتالیس مہینے ہی بتائے تھے! اُس نے کچھ حیرانی کی کیفیت میں خط ہوانگ ینگ کو دکھایا اور پوچھا، ’’ بری کہاں بھیجوں؟‘‘ ’’بری کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ لڑکی نے انکار کرتے ہوئے کہا اور چونکہ مازی کا مکان بھی یونہی سا تھا، لہٰذا اصرار کرنے لگی کہ وہ اُس کی حویلی میں منتقل ہو جائے۔ یہ بات مازی کو گوارا نہ تھی۔

    شادی کے بعد ہوانگ ینگ نے یہ کیا کہ اپنی حویلی اور مازی کے مکان کی سانجھی دیوار میں ایک دروازہ نکلوا لیا۔ مازی کو بیوی کے ٹکڑوں پر پڑے رہنا بہت کَھلتا تھا، چنانچہ بیوی پر زور دینے لگا کہ وہ دونوں گھروں کا حساب کتاب الگ الگ رکھے۔ لیکن وہ جب چاہتی اور جو چاہتی حویلی سے لے آتی، یوں کوئی چھ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مازی کا سارا گھر تھاؤ کی چیزوں سے بھر گیا۔ اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ساری چیزیں اُٹھا کر واپس حویلی میں رکھ آئیں اور خیال رکھیں کہ ایک بھی شے دوبارہ اِدھر نہ آنے پائے۔ مگر دس دن کے اندر اندر ہی پھر وہی کیفیت ہو گئی۔ جب کئی بار ایسا ہوچکا تو مازی جھِلّا اٹھا۔

    ہوانگ ینگ کھِلکھِلا کر ہنس دی اور چھیڑتے ہوئے بولی، ’’ تم ابھی تک اپنی غریبی اور ایمان داری سے اُوبے نہیں؟‘‘

    مازی آخر راضی برضا ہوگیا اور سارے معاملات بیوی پر چھوڑ دیے۔ ہوانگ ینگ نے کاری گر بلوائے اور مازی کا مکان ازسرِ نو بنوانا شروع کردیا اور چند ماہ کے اندر اندر حویلی اور مکان ایک ہوگئے۔ گو مازی کے کہنے پر اُس نے گُل فروشی ترک کردی، مگر وہ ہنوز امرا کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی کا یہ آرام و آسائش دیکھ کر مازی جھلا اٹھتا، ’’میں نے تیس برس فروتنی میں گزاردیے لیکن اب، اب میں تمہارا محتاج ہو کر رہ گیا ہوں۔ یہ زندگی مرد کے شایانِ شان نہیں! لوگ تو دولت مند بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن میں پھر سے مفلسی کے اُسی عالم میں جانا چاہتا ہوں!‘‘

    ’’تم ایسی باتیں نہ سوچا کرو۔‘‘ ہوانگ ینگ جواب دیتی۔ ’’ میں کچھ پیسہ جمع کرنا چاہتی ہوں، ورنہ لوگ ٹھٹھا اڑاتے رہیں گے کہ تھاؤ یوان مینگ(چوتھی صدی عیسویں کا مشہور چینی شاعر جسے گلِ دائودی سے عشق تھا) کی اولاد، سو پیڑھیوں کے بعد بھی غریب کی غریب ہی رہی۔ میں نہیں چاہتی کہ لوگ ہمارے خاندان کے اس شاعر کا مذاق اُڑائیں۔ غریب کے لیے امیر بننا مشکل ہوتا ہے لیکن امیر کے لیے مفلسی کے گڑھے میں گرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ چاہو تو ہماری ساری دولت اللّے تللّوں میں اڑا دو۔ میں حرفِ شکایت زبان پر نہ لاؤں گی۔‘‘

    ’’اِس سے زیادہ ذِلت کی بات اور کیا ہوگی کہ آدمی دوسرے کے پیسوں پر عیاشی کرے۔‘‘
    ’’ تم دولت نہیں چاہتے اور مجھے مفلسی کی خواہش نہیں۔ تو پھر کیوں نہ ہم الگ ہو جائیں؟ تم اپنے اصولوں کے ساتھ سادہ زندگی گزارو اور یہ گھٹیا عیش و آرام میرے لیے چھوڑ دو…کیا خیال ہے؟‘‘

    اب مازی کے لیے باغ میں ایک جھونپڑا بنایا گیا اور ہوانگ ینگ نے کچھ حسین و جمیل باندیاں اُس کی خدمت پر مامور کر دیں۔ شروع شروع میں تو وہ خاصا خوش رہا، لیکن چند ہی دنوں بعد تنہائی اُسے ڈسنے لگی۔ بیوی کو بلواتا تو وہ اِدھر اُدھر کے بہانے کر دیتی اور مجبوراً اُسے خود بیوی کے پاس جانا پڑتا اور ہوتے ہوتے اُس نے ہر دوسرے دن حویلی میں جانا شروع کردیا۔

    ایک دن بیوی نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی کھائے تو ایک گھر میں اور رہے دوسرے میں۔‘‘مازی کھسیانا سا ہوگیا اور دونوں پھر اکٹھے رہنے لگے۔

    پت جھڑ میں جب گلِ داؤدی کے شگوفے کھِل رہے تھے، مازی کسی کام سے نانچنگ گیا۔ ایک صبح وہ بازار سے گزرا تو پھولوں کی ایک دکان دکھائی دی۔ دکان میں پھول اِس نفاست سے سجے تھے کہ مازی کے خیال کی رو تھاؤ کی طرف بہہ نکلی۔ اگلے ہی لمحے مالک باہر آگیا۔ وہ تھاؤ ہی تھا! دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے۔ دونوں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔

    مازی نے رات اُسی کے ہاں گزاری اور اصرار کرتا رہا کہ وہ پئی چِنگ چلا چلے۔ تھاؤ نے جواب دیا، ’’نانچنگ میرا وطن ہے۔ میں یہیں شادی کرکے گھر بساؤں گا۔ میں نے کچھ رقم پس انداز کر رکھی ہے، وہ آپ لے جائیں اور میری بہن کو دے دیں۔ سال بعد آکر اُس سے ملوں گا۔‘‘

    لیکن مازی نے اُس کی ایک نہ سنی اور یہی کہتا رہا، ’’ ہمارا کنبہ اب کافی خوش حال ہے۔ زندگی کے باقی دن بڑے چین سے گزر جائیں گے ۔ تمہیں یہ دکان داری کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘ اُس نے نوکروں کو پھولوں کے دام گرانے کا حکم دیا اور دو تین دن میں ہی سارے پھول بک گئے۔ پھر تھاؤ کا اسباب بندھوایا اور وہ کشتی سے شمال کو چل دیے۔ گھر پہنچے تو ہوانگ ینگ نے کمرے، بچھونا، غرض ہر شے تیار کر رکھی تھی، گویا اُسے تھاؤ کی آمد کا پہلے ہی سے علم تھا۔

    تھاؤ نے آتے ہی باغ کو اور زیادہ خوب صورت بنایا اور پھر سارا وقت مازی کے ساتھ شطرنج اور مے نوشی میں بتانے لگا۔ مازی نے شادی پر زور دیا تو اُس نے انکار کر دیا۔ چنانچہ بہن نے دو باندیاں بھجوا دیں اور تین چار سال بعد اُس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔

    تھاؤ شراب کا رسیا تھا، ایک بار مازی کا ایک دوست زنگ جو بلا کا شرابی تھا، ملاقات کو آیا، تو مازی نے دونوں کو مقابلے پر اُکسایا۔ صبح سے رات ڈھلے تک دونوں میں سے کسی نے ہار نہ مانی۔ آخر زنگ پیتے پیتے میز پر ہی سوگیا اور تھاؤ مدہوشی کے عالم میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کو چل دیا، لیکن باہر نکلتے ہی پائوں رپٹا اور وہ گلِ داؤدی کے ایک تختے پر گر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے گل داؤدی کے قدِ آدم پیڑ کا روپ دھار گیا، جس پر دس بارہ پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہر پھول انسانی مٹھی جتنا بڑا تھا!

    یہ سارا منظر دیکھ کر مازی کے اوسان خطا ہوگئے اور ہوانگ ینگ کو بلا لایا۔ ہوانگ ینگ بھاگم بھاگ آئی اور درخت کو اکھاڑ کر زمین پر لٹاتے ہوئے بولی، ’’ تم اِس قدر نشے میں کیسے آگئے؟‘‘اُس نے درخت کو کپڑے سے ڈھانپا اور مازی کو ساتھ لیے وہاں سے ہٹ گئی۔ صبح مازی نے آکر دیکھا تو تھاؤ پھولوں کے تختے کے پاس ہی زمین پر چت لیٹا تھا۔ اُسے جب یہ علم ہوا کہ بہن بھائی گلِ داؤدی کی روحیں ہیں تو وہ انہیں اور بھی پیار اور احترام کی نظروں سے دیکھنے لگا۔

    تھاؤ کا بھید جو کھلا، تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے احتیاطی سے شراب پینے لگا۔ وہ اکثر زنگ کو بلوا بھیجتا اور دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ ’’ فصلِ گل‘‘ کے تہوار پر زنگ شراب کا بڑا سا مٹکا لیے آپہنچا، جس میں جڑی بوٹیاں بھی کشید کی ہوئی تھیں۔ دونوں میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ مٹکا خالی ہونے لگا مگر اُن کی پیاس بڑھتی گئی۔ مازی نے مٹکے میں مزید شراب ڈال دی اور دونوں وہ بھی چڑھا گئے۔ آخر زنگ مدہوش ہو گیا اور اُس کے نوکر اُسے اُٹھا کر لے گئے۔ اُدھر تھاؤ زمین پر گرا اور ایک بار پھر گلِ داؤدی کے پیڑ کا روپ دھار گیا۔ مازی کو اب کے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ اُس نے ہوانگ ینگ کی طرح درخت کو جڑ سے اُکھاڑا اور قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ آواگون کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ پتّے مرجھانے لگے تو وہ گھبرا گیا اور ہوانگ ینگ کو بلانے چلا گیا۔

    ہوانگ ینگ سارا واقعہ سُن کر شدتِ غم سے رو دی،’’تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا!‘‘ وہ بھاگم بھاگ باہر آئی تو جڑیں چرُمرانی شروع ہوچکی تھیں۔ اُس نے تنے کو کاٹا اور جڑ گملے میں دبا کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ ہر روز اُسے پانی دینے لگی۔ ادھر مازی اپنے کیے پر سخت پچھتا رہا تھا۔ اُسے زنگ پر بھی سخت غصّہ تھا، لیکن چند دن بعد ہی اطلاع مِلی کہ وہ کثرتِ شراب نوشی کے سبب مر گیا تھا۔ تھوڑے دنوں میں گملے سے کونپلیں پھوٹ نکلیں اور نویں مہینے کلیاں کھِل اٹھیں۔ اُس کا تنا چھوٹا سا تھا اور پھولوں میں شراب کی سی مہک تھی۔ لہٰذا انہوں نے پودے کا نام ’’ شرابی تھاؤ‘‘ رکھ دیا۔ اُسے پانی کے بجائے شراب دی جاتی تو خوشبو اور بھی مستانی ہوجاتی۔ وقت بیتتا گیا۔ تھاؤ کی بیٹی بیاہ کر ایک اعلیٰ نسب خاندان میں چلی گئی۔ ہوانگ ینگ نے بڑی لمبی عمر پائی۔ تاہم اُس کے بعد کوئی غیر معمولی واقعہ دیکھنے میں نہ آیا۔

    داستان گو لکھتا ہے: کوئی انسان جس کا اصل مقام شاداب پہاڑوں اور سفید اَبرپاروں میں ہو، شراب نوشی میں جان دے دے تو دنیا اُس کے لیے نوحہ گر ہو جاتی ہے، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ خود اُس شخص نے ایسی موت میں لذّت پائی ہو؟ کسی کے صحن میں ایسے پھول کا وجود اچھے دوست یا کومل حسینہ کے قرُب سے کم نہیں۔ مجھے ایسے ہی پھول کی جستجو ہے!

    (چین کی ایک خوب صورت لوک کہانی جس کے مصنّف پھُوسونگ لینگ اور اور اس کہانی کا اردو ترجمہ رشید بٹ نے کیا ہے)

  • لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    لکڑہارا اور شیر (چینی لوک کہانی)

    دوستو! کئی سال پہلے ایک گاؤں میں کوئی لکڑہارا اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ روز صبح سویرے اٹھتا اور لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف نکل جاتا۔

    اس کی گزر بسر اور معاش کا ذریعہ یہی لکڑیاں تھیں جنھیں جنگل سے لاکر شہر میں فروخت کرکے ان کے دام وصول کرلیتا تھا۔ کسی طرح تنگی ترشی سے اس کا گھر چل رہا تھا، لیکن اس کی بیوی نہایت تنک مزاج اور بدخُو تھی۔ اس کی زبان پر ہر وقت شکوہ رہتا۔

    ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ لکڑہارے کی جنگل کے ایک شیر سے دوستی ہو گئی۔ شیر جیسا درندہ اسے لکڑیاں چننے میں مدد دینے لگا تھا۔ لکڑہارا بے تکلفی سے اس کے ساتھ اپنے دل کی باتیں بھی کرنے لگا تھا۔

    ایک دن لکڑہارے نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا اور کہا کہ میں اپنے دوست کو کسی دن اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں۔ بیوی بہت چیخی چلائی کہ بھلا درندے اور انسان کی کیسی دوستی؟ لکڑہارے کے سمجھانے پر وہ خاموش تو ہو گئی، لیکن اندر سے بہت خوف زدہ تھی۔ ایک دن موقع مناسب جان کر لکڑہارا شیر کو گھر لے آیا۔ بیوی نے شیر کو دیکھتے ہی چلّانا شروع کر دیا اور خوب برا بھلا کہا۔

    اپنے دوست کی بیوی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر شیر کو بہت دکھ ہوا اور اس نے لکڑہارے سے جو بہت شرمندگی محسوس کر رہا تھا، کہا کوئی بات نہیں، بس تم ایسا کرو کہ اپنے کلہاڑے سے میرے سَر پر ایک ضرب لگا دو۔ لکڑہارے نے کہا میں اپنے دوست کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟ جب شیر نے زیادہ اصرار کیا، تو اس نے شیر کے سر پر ضرب لگا دی، جس سے خون کا فوارہ جاری ہو گیا اور شیر واپس جنگل چلا گیا۔

    لکڑہارا کئی دن تک خوف و ندامت کے باعث جنگل نہ گیا۔ گھر میں‌ نوبت فاقوں تک آگئی تو بھوک سے مجبور ہو کر ڈرتے ڈرتے جنگل کا رخ کیا۔ ابھی وہ درخت پر چڑھ کر لکڑیاں کاٹ ہی رہا تھا کہ دُور سے شیر آتا نظر آیا۔ خوف کے مارے اس کا برا حال ہو گیا۔

    شیر عین اس درخت کے نیچے آن کھڑا ہوا اور لکڑہارے سے کہا کہ گھبراؤ نہیں۔ ہم اب بھی دوست ہیں۔ تم ذرا نیچے آؤ۔ لکڑہارا ڈرتے ڈرتے درخت سے نیچے اترا۔ شیر نے کہا تم میرے سَر کے بال اٹھا کر دیکھو وہ زخم تازہ ہے یا پھر بَھر چکا ہے؟ لکڑہارے نے ہچکچاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا اور بتایا کہ زخم کا تو نشان تک نہیں ہے۔ شیر نے اس کی طرف دیکھا اور کہا، لیکن میرے دوست تمھاری بیوی کی باتوں سے جو گھاؤ میرے دل پر لگا ہے، وہ اب بھی تازہ ہے۔

    اس کہانی سے سبق ملتا ہے کہ ہمیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔