لاہور : چینی ماہرین نے بھارت کو لاہور میں بدترین اسموگ کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور کہا بھارت کے کول پلانٹ پاکستان میں اسموگ کا سبب بن رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چینی ماہرین ماحولیات نے لاہور میں اسموگ کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ جاری کردی، رپورٹ میں کہا ہے کہ نامیاتی اور غیرنامیاتی ایندھن کا غیر ضروری استعمال، زیادہ نمی، گردوغبار اور گھروں میں جلنے والی گیس بھی اسموگ کےاسباب میں شامل ہے۔
چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کےکول پلانٹ سےآنےوالی ذرات پاکستانی فضا کو زہر آلود کررہے ہیں۔
لاہورمیں چینی قونصل جنرل ژاؤ شیرین نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور اسموگ کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کو سراہا۔
چینی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ اسموگ کا مسئلہ حل ہونےمیں وقت لے گا، چین نے سات سے دس سال میں اسموگ پر قابو پایا تھا۔
چینی ماہرین نے سموگ اور تناؤ سے نمٹنے کے حل بھی تجویز کیے ہیں تاکہ اسموگ کی وجوہات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی بنائی جائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اسموگ کے چیلنج کو حل کرنے کا عہد کیا تاکہ مستقبل میں اس میں آسانی ہو سکے۔
چینی سائنس دانوں نے ایک ایسا کپڑا تیار کیا ہے جو جسم کے درجہ حرارت کو 5 درجہ سینٹی گریڈ تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یوں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے نمٹنے میں لوگوں کی مدد کر سکتا ہے۔
میٹا فیبرک بظاہر عام ٹی شرٹ کا کپڑا لگتا ہے لیکن یہ ایسی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے جو مڈ انفرا ریڈ ریڈی ایشن کو خارج کرتی ہے اور یوں پہننے والے کا درجہ حرارت گھٹاتی ہے۔
جریدے سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ٹیسٹ میں ظاہر ہوا کہ عام سوتی کپڑے پہننے والے شخص کے مقابلے میں میٹا فیبرک پہننے والا شخص اپنے درجہ حرارت کو 4.8 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔ محققین کے مطابق میٹا فیبرک کی کم لاگت اور اعلیٰ کارکردگی اسے ملبوسات اور کولنگ ایپلی کیشنز کے لیے کارآمد بناتی ہے۔
انسانی جلد ایم آئی آر خارج کرتی ہے، جو دوسری انفرا ریڈ تابکاری کی طرح آنکھوں سے نظر نہیں آتی لیکن گرمی کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔ گو کہ جلد کا عام درجہ حرارت تقریباً 37 درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے، لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ میٹا فیبرک پہننے سے یہ 31 سے 32 ڈگری تک ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایسا کپڑا ایجاد کیا ہے جسے مختلف رنگوں میں پیش کیا جا سکتا ہے، تاکہ دنیا بھر میں لوگوں کو ایسے وقت میں اپنے جسم کا درجہ حرارت کم رکھنے میں مدد ملے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ ہواچونگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ووہان ٹیکسٹائل انڈسٹری، چنگ ڈاؤ کے انٹیلی جنٹ ویئریبل انجینئرنگ ریسرچ سینٹر اور بیجنگ کے چائنا ٹیکنالوجی اکیڈمی کے محققین کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
ووہان: چینی ماہرین نے کہا ہے کہ کولیسٹرول کو کم کرنے والی عام دوائیں کو وِڈ 19 کے اسپتال داخل مریضوں میں اموات کی شرح کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق امریکی جریدے سیل میٹابولزم میں شایع ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹن (statin) ادویات کے جانوروں پر ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ کولیسٹرول کم کرنے والی ادویات قوت مدافعت کی خلیات کے رد عمل کو بہتر کر سکتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق یہ ادویات کرونا وائرس انفیکشن کے مریضوں میں سوزش میں کمی لا کر پھیپھڑوں کے زخم بڑھنے کی رفتار کو کم کر سکتی ہیں، تاہم یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کرونا کے مریضوں میں ان ادویات کا استعمال دوسری ادویات کے ساتھ یا صرف یہ اکیلے ہی نتیجہ خیز ہوں گی۔
جوابات کی تلاش میں ووہان یونی ورسٹی کے رنمن اسپتال میں محققین نے ہوبائی صوبے کے 21 اسپتالوں سے کرونا کے 13,981 مریضوں پر تحقیق کی، جن میں 1,219 مریضوں نے اسٹیٹن یعنی کولسٹرول کم کرنے والی ادویات لی تھیں۔ 28 دن کے بعد محققین نے دیکھا کہ اسٹیٹن گروپ میں اموات کی شرح 5.2 فی صد تھی، جب کہ دوسرے گروپ میں یہ شرح 9.4 تھی۔
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ اسٹیٹن ادویات کے استعمال سے کرونا مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں منتقلی کے کیسز میں کمی آ گئی، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ کولیسٹرول کم کرنے والی ادویات کے استعمال سے کرونا انفیکشن کو شدید ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض مریضوں کو کولیسٹرول کم کرنے والی ادویات کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کی دیگر دوائیں بھی دی گئیں، لیکن ان سے ان میں اموات کا خطرہ نہیں بڑھا۔ ریسرچر لی ہانگ لیانگ کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ کرونا کے اسپتال داخل مریضوں میں اسٹیٹن ادویات کا استعمال مفید اور محفوظ ہے۔
بیجنگ: ایک اہم چینی ماہر نے کرونا وائرس کے بارے میں نیا انکشاف کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس منفی 20 ڈگری سیلسئس میں 20 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کو وِڈ 19 کی اہم چینی ماہر پروفیسر لی لنجوان نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے اندر سرد موسموں میں برداشت کی غیر معمولی صلاحیت ہے، اس لیے یہ بہت آسانی سے ایک سے دوسرے ملک منتقل ہو سکتا ہے۔
پروفیسر لی کا تعلق چین کی کو وِڈ نائنٹین ایکسپرٹ ٹیم سے ہے، انھوں نے چینی حکام کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ وائرس کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دیگر ممالک سے درآمد شدہ فروزن فوڈ پروڈکٹس خصوصاً سالمن مچھلی کے معائنے کو مزید سخت کریں۔
مشرقی چین کے شہر ہانگجاؤ میں دو روز قبل ہونے والی اہم میٹنگ میں خاتون پروفیسر نے کہا کہ نیا وائرس خاص طور سے سردی سے بالکل خوف زدہ نہیں، یہ منفی 4 ڈگری میں بھی چند مہینوں تک زندہ رہ سکتا ہے جب کہ منفی 20 ڈگری میں تو بیس سال تک برقرار رہ سکتا ہے، یہی وجہ ہے متعدد بار سی فوڈ مارکیٹوں میں کرونا وائرس کا انکشاف ہوا۔
پروفیسر لی لنجوان، چین کی کو وِڈ 19 ایکسپرٹ ٹیم کی اہم رکن
واضح رہے کہ چین نے آٹھ دنوں کے اندر بیجنگ میں 200 افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے لیے یورپی کرونا وائرس کو ذمہ دار قرار دیا ہے، اس سلسلے میں حکام نے جینوم ڈیٹا دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ کرونا کی یہ قسم یورپ سے آئی ہے لیکن یورپ میں فی الوقت پھیلنے والے وائرس سے مختلف ہے اور یہ وائرس فروزن فوڈ میں چھپا ہوا تھا۔
ادھر شنفادی فوڈ مارکیٹ میں جن چاپنگ بورڈز پر سالمن مچھلی کے قتلے بنائے جاتے ہیں، ریاستی میڈیا نے انھیں کرونا وائرس سے منسلک کیا، تاہم یورپی سالمن پروڈیوسرز نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول ادارے نے کہا ہے کہ بیجنگ میں وائرس کی جو قسم اس وقت پھیل رہی ہے وہ یورپ میں پھیلنے والے وائرس سے زیادہ پرانی ہے، یہ امکان ہے کہ یہ ہول سیل مارکیٹ میں درآمد شدہ فروزن فوڈ میں چھپی رہی ہو جس سے یہ پرانی قسم سے مشابہ بن گئی ہو، تاہم سائنس دانوں نے جلد کوئی نتیجہ نکالنے سے خبردار کیا ہے۔
ہانگ کانگ یونی ورسٹی کے پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ بین کاؤلنگ کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ بیجنگ میں جو وائرس اس وقت وبا پھیلا رہا ہے وہ چینی شہر ووہان سے یورپ گیا ہو اور پھر وہاں سے واپس چین آیا ہو۔
واضح رہے کہ شنفادی مارکیٹ میں کرونا وائرس کے انکشاف کے بعد بیجنگ کو 70 فی صد تازہ خوراک فراہم کرنے والی یہ مارکیٹ عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے۔
بیجنگ: چینی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ کروناوائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں بیماری کے خلاف لڑنے میں قوت مدافعت 3سال تک زیادہ رہتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں پاکستان اور چین کے طبی ماہرین کی ویڈیو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں چینی ماہرین نے کروناوائرس کی موجودہ صورت حال سمیت اس پر قابو پانے سے متعلق حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا کو شکست دینے والوں کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
چینی ماہرین نے کہا کہ صحت یاب افراد میں اینٹی باڈیز 4 ماہ تک زیادہ مقدار میں رہتے ہیں۔
ویڈیو کانفرنس سے صدر کنگ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر لی مونگ نے خطاب کیا۔ جبکہ وی سی یوایچ ایس جاوید اکرم اور ڈپٹی ڈین شنگھائی یونیورسٹی پروفیسر ہو یی کن نے بھی اجلاس میں اپنا مؤقف سامنے رکھا۔
اس دوران چینی ماہرین نے اپنے تجربات سے بھی پاکستانی طبی ماہرین کو آگاہ کیا۔
دوسری جانب ترجمان چینی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ویکسین کی تیاری میں چین اور امریکا میں مقابلہ نہیں ہے، ویکسین انسان اور وائرس میں لڑائی پر قابو پانے کا ذریعہ ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے مطابق وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے۔
بیجنگ: چین کے ماہرین نے جنوبی صوبے میں بلند ترین ایکسپریس وے تیار کرلیا جس پر گاڑیاں بادلوں سے اوپر چلتی ہیں۔
چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان میں تعمیر کیے جانے والے 240 کلومیٹر طویل ایکسپریس وے بلند و بالا پہاڑی راستے پر بنایا گیا جس پر کثیر لاگت آئی۔
چین کے یاآن اور شی چانگ کے شہروں کو ملانے والے ایکسپریس وے کی یہ سڑک ہر ایک کلومیٹر کے بعد ساڑھے 24 فٹ بلند ہوجاتی ہے، اس شاہراہ کو یاشی ایکسپریس وے کا نام دیا گیا۔
ماہرین کے مطابق ایکسپریس وے پر تین ارب ڈالر کی لاگت آئی جبکہ تعمیر میں پانچ سال کا وقت اور انجینیئرز کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چینی ماہرین نے ایکسپریس وے کو زلزلہ پروف بنایا۔
چینی حکومت نے سڑک کو پہلی بار 2012 میں کھولا تھا مگر بعد میں اس کو جدید تعمیر کے لیے بند کردیا تھا۔
قبل ازیں ماہرین گزشتہ برس نے چین اور ہانگ کانگ کے درمیان واقع سمندری راستے پر دنیا کا طویل ترین پُل تعمیر کیا تھا جسے آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
دو ممالک (چین اور ہانگ کانگ) کی حکومتوں نے آمد و رفت کو مزید آسان بنانے کے لیے اس پروجیکٹ پر کام 9 برس قبل شروع کیا تھا پُل کو 2016 میں مکمل ہونا تھا مگر کئی تنازعات کی وجہ سے اس کی تعمیر کے دورانیہ اور بجٹ میں اضافہ ہوا۔
پُل کی تعمیر پر پندرہ کھرب امریکی ڈالر کے اخراجات آئے تھے جبکہ اس کو 9 برس کے عرصے میں مکمل کیا گیا، پروجیکٹ کی تعمیر کے دوران چین اور ہانگ کانگ کے 9 مزدور سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
پُل کی تعمیر کے بعد چین کا صوبہ مکاؤ اور ہانگ کانگ کے دو مخصوص انتظامی علاقے چین کے مین لینڈ سے جڑ گئی، ماہرین کے مطابق پل کو قانونی اور سیاسی حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ حکام کے مطابق پُل پر کمرشل گاڑیاں اور مسافر بردار بسیں چلانے کی اجازت ہوگی جبکہ چھوٹی گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی پرمٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ہانگ کانگ یا چین سے پُل کا استعمال کرنے والے افراد کے لیے راستے میں دو امیگریشن مراکز بھی قائم کیے گئے جہاں مسافر اپنی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرواتے ہیں۔
اس سے قبل دونوں ممالک کے شہری سمندری راستے کے ذریعے آمدورفت کرتے تھے جس کی مسافت طے کرنے میں تقریباً چار گھنٹے کا وقت لگتا تھا مگر پُل کی تعمیر کے بعد یہ راستہ 30 منٹ میں طے کرلیا جاتا ہے۔
کراچی : چینی ماہرین امراض چشم پاکستان آئی بینک سوسائٹی اسپتال میں آئندہ سال موتیے کے 500 مفت آپریشن کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق پی ایم اے ہاوٴس پی ایم اے سینٹرکے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد، انٹرنیشنل ہیلتھ ایکسچینج کواپریشن سینٹرکی ڈپٹی, ڈائریکٹر ہو می چی ، پی ایم اے کراچی کے صدر ڈاکٹر شوکت ملک ، پی ایم اے سینٹر کے خازن ڈاکٹر قاضی ایم واثق اور پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر احمد بھیمانی نے اپنے خیالات کے اظہار کرتے ہوئے کہ کہ چینی ماہرین امراض چشم پاکستان آئی بینک سوسائٹی اسپتال میں آئندہ سال موتیے کے 500 مفت آپریشن کریں گے۔
کراچی میں یہ آپریشن روشنی کا سفر پاکستان پراجیکٹ کا حصہ ہیں، جو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور چائینز میڈیکل ایسوسی ایشن کے اشتراک کا تسلسل ہے تاکہ پاک-چائنا میڈیکل کوریڈور کو مضبوط اور فعال بنا یا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن 10جنوری سے 24جنوری تک ہوں گے اس سلسلے میں انٹرنیشنل ہیلتھ ایکسچینج کواپریشن سینٹر ،چائنا کا ایک وفد پاکستان آیا ہے تاکہ آئی کیمپ کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے۔یہ اپنی نوعیت کی پہلی سرگرمی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید مضبوط ہونگے۔
انہوں نے بتایا کہ چار افراد پر مشتمل اس وفد کی قیادت ہومی چی کررہی ہیں جو آئی ایچ ای سی سی کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں، جنہوں نے پی ایم اے کے ساتھ ایک یاداشت پر دستخط کیے ہیں اور اس فری آئی کیمپ کے انعقاد کے لئے تمام مالی اخراجات برداشت کرنے کی پیشکش کی ہے جو چین کی جانب سے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند مریضوں کے لئے ایک تحفہ ہوگا۔
چینی وفد نے پاکستان آئی بینک سوسائٹی اسپتال کا دورہ بھی کیا ہے اور وہاں فری آئی کیمپ کے لئے دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اْمید کرتے ہیں کہ میڈیسن کے دیگر شعبہ جات کے حوالے سے بھی اسطرح کی سرگرمیاں پورے پاکستان میں منعقد کی جائیں گی۔
پی ایم اے ، سی ایم اے ، آئی ایچ ای سی سی اور او ایس پی کراچی غریب مریضوں کے مفاد میں اس پروگرام کی کامیابی کے لئے ملکر کام کر رہی ہیں، مزید برآں دو ممالک کے ڈاکٹروں کے لئے شعبہ چشم میں اپنی مہارت اور علم ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہوگا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
بیجنگ :چینی ماہرین نے ایسی بائیک واشنگ مشین تیار کرلی جو نہ صرف آپ کے کپڑے دھوئے گی بلکہ آپ کا وزن بھی کم کریں گی۔
اب خواتین کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ اپنا وزن بھی گھٹا سکتی ہے، چینی ماہرین نے ایسی جدید سائیکل نما واشنگ مشین تیار کرلی ہے جوخواتین میں بے حد مقبول ہونے جارہی ہے۔
اس سائیکل نما واشنگ مشین میں ایک ڈرم لگایا گیا ہے، جس میں کپڑے سرف اور پانی ڈال دیں اور پیڈل چلائیں تو ڈرم حرکت میں آجائے گا۔
یوں ورزش کے ساتھ ساتھ آپ کے کپڑے بھی دھل جائیں گے۔ اس سائیکل میں ایک جنریٹر بھی لگایا گیا ہے، جو بجلی پیدا کرے گا۔
چین: چینی ماہرین نے بارش اور دھوپ سے بچنے کیلئے طلسماتی چہتری تیار کرلی ہے۔
ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے جدید چھتریاں بنانے کے کاموں میں دن رات جُتے ہوئے ہیں، اسی سلسلے میں چینی ماہرین نے طلسماتی چہتری تیار کر کے سب کو حیران کر ڈالا۔
اس نایاب چہتری کو ’’ایئر ایمبریلا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔جو ہوائی مدد سے آپریٹ ہوتی ہے ، چہتری کی کی راڈ موٹر سے چلتی ہے،جسمیں لیتھیم بیٹری نصب ہے۔
چہتری میں نصب پنکھا برستی بارش کی رم جھم کو بیس سے پچیس منٹ تک روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چہتری تین ماڈل میں دستیاب ہیں جن کی قیمت ایک سو اٹھارہ ڈالر مقرر کی گئی ہے۔