Tag: چین کا سفر نامہ

  • "یہ کیسا ملک ہے!”

    "یہ کیسا ملک ہے!”

    نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا نے مزاحیہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ ساتھ اپنے سفرناموں سے بھی قارئین کو متوجہ کیا جن میں‌ وہ منفرد انداز میں‌ اپنی قوم کی عادات اور رویّوں کا موازانہ کرتے ہوئے ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اسی انداز نے ان کے سفر ناموں کو مقبول بنایا۔

    یہاں ہم چین کے سفر ناموں‌ سے چند شگفتہ اور سبک طنز میں لپٹے ہوئے اقتباسات آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کر رہے ہیں۔ چلتے ہو تو چین کو چلیے ابنِ انشا کا مشہور سفر نامہ ہے جس میں‌ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

    "پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یا بناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیرِ معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکان دار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔”

    ابنِ انشا نے دوسرے ممالک کی سیر کے دوران وہاں معاشرے میں خیر اور نیکی کی قدروں کا جو مشاہدہ اور تجربہ کیا، اور اسے اپنے تمدن اور معاشرت میں دیکھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے ہلکا پھلکا طنزیہ اور شگفتہ انداز اپنایا ہے۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضربُ الامثال میں تحریف یا ذرا سی تبدیلی سے مزاح پیدا کیا گیا ہے جس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

    "ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے، کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ چسکتے رہیے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست رہتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پر تتا پانی۔”

    "میزبانوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ رسمی کارروائی تھی۔ سنتے گئے اور ہوں ہاں کرتے گئے۔ اگلی صبح تک سب ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے۔ مہمانوں کا تعارف کرانا ہمارے ذمہ رہا۔ کیونکہ وفد کے لیڈر اراکین کے ناموں اور کاموں سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ایک آدھ جگہ البتہ شمع ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے ہمیں پاکستان کا ممتاز اور مشہور ناول نویس قرار دیا اور چونکہ تردید کرنا خلافِ ادب تھا۔ لہٰذا ایک مہمان کے اشتیاق آمیز استفسار کے جواب میں ہمیں اپنے ناولوں آگ کا دریا، خدا کی بستی، آنگن وغیرہ کی تعداد بتانی پڑی۔ وہ ان تصانیف کے نام بھی نوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے ازراہِ انکسار کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔”

    اپنے ایک سفر نامے میں‌ انہوں‌ نے یوں شگفتگی پیدا کی ہے:
    "ہم جو چین گئے تو سب سے پہلے یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ چین میں اخبار ہوتے ہیں لیکن چینی زبان میں اور وہ بھی شام کو نکلتے ہیں۔ صبح نکلتے تو کم از کم ان کی تصویریں دیکھنے کے لیے باتھ روم جایا جاسکتا تھا۔ نتیجہ اخبار نہ دیکھنے کا یہ ہوا کہ ہمارے ادیبوں کے وفد کے اکثر رکن قبض کا شکار ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کیں لیکن بے فائدہ۔ آخر ہم نے کہا۔ ان کے لیے اخبار منگوانا شروع کیجیے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔ چینی نیوز ایجنسی کا بلٹن انہوں نے بھیجنا شروع کر دیا۔ اس صورتِ حال کی پوری طرح اصلاح تو نہ ہوئی لیکن بعضوں کا ہاضمہ پہلے سے بہتر ہو گیا۔”

  • کورونا وائرس سے کئی سال پہلے کا چین

    کورونا وائرس سے کئی سال پہلے کا چین

    عمر بھر سنتا چلا آیا تھا کہ عورت و مرد، زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور اگر یہ ساتھ ساتھ چلیں تو زندگی خوش گوار و تیز رفتار ہو جاتی ہے۔ عملاََ اس کا مظاہرہ چین میں دیکھا۔ ہر شعبہ زندگی میں عورت مرد ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کرتے نظر آئے۔

    اسپتالوں اور زچہ خانوں سے لے کر بچوں کے اسکولوں، تعلیم و تدریس کے تربیتی اداروں، تیار شدہ ملبوسات و اشیا کی دکانوں، کپڑے کے بڑے بڑے اسٹوروں، گھریلو اشیا کی فروخت کے مراکز اور کتابوں کی دکانوں، غرض عورت و مرد برابر نہیں بلکہ عورتوں کی تعداد مردوں سے کچھ زیادہ ہی تھی۔

    کمال کی بات یہ ہے کہ ہوٹل میں دوسرے کاموں کے علاوہ سیکیورٹی گارڈ، ایئرپورٹ کے حفاظتی و انتظامی عملے اور شہر کے ٹریفک نظام میں زیادہ عمل دخل خواتین ہی کا نظر آیا۔ سڑک کے بڑے بڑے چوراہوں پر ٹریفک کے جو بوتھ بنے ہیں، ان میں بھی عموماَ عورتیں ہی کام کرتی دکھائی دیں۔ بڑی بڑی پبلک بسیں بھی عورتیں چلا رہی تھیں، ایسی شائستگی، مستعدی اور کردار کی پاکیزگی و استقامت کے ساتھ کہ ان کے حسنِ عمل کا قائل ہونا پڑتا ہے۔

    (ڈاکٹر فرمان فتح‌ پوری کے سفر نامہ چین سے انتخاب، یہ ٹکڑا ایک ادبی جریدے کے 1993 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

  • روحانی اقدار سے مالا مال، مادّہ پرستی سے دور چینی باشندوں کا تذکرہ!

    روحانی اقدار سے مالا مال، مادّہ پرستی سے دور چینی باشندوں کا تذکرہ!

    چین کے پندرہ، سولہ روزہ قیام میں، میں نے یہاں کے چار شہر بیجنگ، ہانچو، شنگھائی اور سوچو دیکھے۔

    چاروں ایک سے ایک اور ثقافتی مزاج و انداز میں باہم مماثلت رکھنے کے باوجود، ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد تھے۔ ان شہروں میں رہ کر کیا کیا دیکھا اس کی تفصیل بہت لمبی ہے اور ممکن ہے دوسروں کے لیے زیادہ دل چسپی کا باعث بھی نہ ہو۔ یوں سمجھ لیجیے کہ وہ ساری چیزیں اور وہ سارے مقامات دیکھے جنہیں اہم کہا جاسکتا ہے۔ ہم سیاح نہیں بلکہ ایک عظیم دوست ملک کے مہمان تھے۔ اس لیے انہوں نے ہمیں وہ ادارے اور مقامات بھی دکھائے جو ان کی نظر میں اہمیت رکھتے تھے اور وہ علاقے اور جگہیں بھی دکھائیں جنہیں ہم دیکھنے کا اشتیاق رکھتے تھے۔

    اس طرح ہم نے جو اہم چیزیں یا مقامات دیکھے ان میں مغربی طرز کے عالی شان ہوٹل، پُر رونق بازار، تھیٹر ہال، سرکس ہاﺅس، ریشم اور لوہے کے کارخانے، کنول کے پھولوں سے لدی بڑی بڑی جھیلیں، لہلہاتے ہوئے زرعی فارم، آثار قدیمہ سے متعلق اہم عمارات، محلات و نوادرات، دست کاری اور گھریلو صنعتوں کے مراکز، گوتم بدھ کے مندر و مجسمات، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشن اور بس کے اڈے، کھیل کود کے میدان، بڑے بڑے پارک، مسجدیں اور دوسری عبادت گاہیں، طباعتی و اشاعتی ادارے، شہدائے آزادی کی یادگاریں، نام ور راہ نماﺅں کی تصویریں اور آرام گاہیں، گریٹ عوامی ہال، ماﺅ کی شبیہہ، دیوار چین وغیرہ شامل ہیں۔

    یہ تو دیکھنے اور کھانے سے متعلق اشیا، مقامات کا تذکرہ تھا۔ ملاقات کن کن لوگوں سے ہوئی؟ مختصر جواب یہ ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی قومی اسمبلی کے بعض ارکان سے لے کر، چین کے صحافیوں، مترجموں، پروفیسروں، شاعروں، ناول نگاروں، افسانہ نویسوں، بچوں کے ادیبوں، رائٹر ایسوسی ایشن کے مرکزی اور ذیلی انجمنوں کے سربراہوں اور کارکنوں، یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ و طالبات، بعض بڑے صنعتی اداروں کے منتظمین، کارخانوں کے مزدوروں، کسانوں، ماہی گیروں، اخبار نویسوں، میڈیا کے نمائندوں اور پاکستانی سفارت خانے کے افسروں سمیت سبھی سے ملے۔

    شاہراہوں پر کاروں اور بسوں کے متوازی دائیں بائیں پیدل چلنے والے افراد، سائیکل سوار، پارکوں میں ٹہلتے ہوئے اور ورزش کرتے ہوئے عمر رسیدہ عورت، مرد، صبح کو فوجی انداز کی پریڈ کرتے ہوئے طلبہ و طالبات میں سے بھی بعض سے ملے، باتیں کیں اور اس طرح چینی عوامی زندگی کے وہ سارے رخ دیکھنے کو ملے جو پندرہ روزہ قیام میں ممکن تھے۔

    چینیوں کے شاداب اور مسکراتے ہوئے چہرے، ان کی رفتار و گفتار، ان کے مجلسی آداب ان کے سماجی رویّے اور ان کی تمدنی زندگی کے انداز صاف بتاتے ہیں کہ وہ مغرب کی اس مادہ پرستی سے بہت دور ہیں جس نے دولت و سرمائے کی فراوانی کے باوصف، مغرب کو جسم فروشی اور جنسی تلذذ کے جبر و عذاب میں مبتلا کردیا ہے اور جس کے سبب ان کی تہذیبی زندگی کا رخ روز بروز مسخ ہوتا جارہا ہے۔

    میرے لیے حد درجہ خوش کن اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چین جدید تر صنعتی زندگی کی سہولتوں سے آراستہ اور ہر قسم کے مذہبی عقیدے سے بے نیاز رہ کر بھی روحانی اقدار سے مالا مال ہے۔ مشرق کی بہت سی روایتوں کا امین و پاس دار ہے اور کسی مذہبی عقیدے سے منسلک نہ ہونے کے باوصف اس کی معاشرتی و سماجی زندگی اتنی ہی پاکیزہ و صاف ستھری ہے جتنی کہ انسان کو انسانیت کی سطح پر زندہ رکھنے کے لیے از بس ضروری ہے۔
    (ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے قلم سے)