Tag: چین

  • امتحان میں ناکام طالب علم پر جنون سوار، چاقو زنی سے 8 افراد ہلاک 17 زخمی

    امتحان میں ناکام طالب علم پر جنون سوار، چاقو زنی سے 8 افراد ہلاک 17 زخمی

    بیجنگ: چین میں چاقو زنی کا ہفتے بھر میں دوسرا بڑا واقعہ پیش آیا ہے جس میں 8 ہلاک ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین میں امتحان میں ناکامی کے بعد طالب علم پر جنون سوار ہو گیا، اور اس نے چاقو کے حملے کر کے 8 افراد کو جان سے مار دیا جب کہ 17 زخمی ہو گئے۔

    یہ افسوس ناک واقعہ صوبے جیانگ زو کے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ ٹیکنالوجی میں پیش آیا، پولیس نے 21 سالہ حملہ آور کو جائے وقوعہ سے حراست میں لے لیا، جس نے اعتراف جرم بھی کر لیا۔

    ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ آور کا تعلق اسی کالج سے ہے اور اس نے امتحان میں ناکامی پر تعلیمی ادارے کے لوگوں کو نشانہ بنایا، واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔

    اس سے چند ہی دن قبل، ہفتے کے روز چین میں دس سال کے عرصے میں سب سے مہلک حملہ ہوا تھا جس میں جنوبی چین کے شہر زوہائی میں ایک 62 سالہ شخص نے اپنی کار اسپورٹس اسٹیڈیم کے باہر ایک ہجوم پر چڑھا دی تھی، جس سے پیر کی رات 35 افراد ہلاک اور 43 زخمی ہوئے تھے۔

    ’امریکی میڈیا نے ایلون مسک سے ایرانی مندوب کی ملاقات کی جھوٹی خبر پھیلائی‘

    ووشی میں پولیس نے بتایا کہ چاقو مارنے والا طالب علم اپنا گریجویشن سرٹیفکیٹ نہ ملنے اور امتحان میں ناکام ہونے پر ناراض تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی سے اس کی طلاق ہو رہی تھی جس کے تصفیے کی شرائط پر بھی وہ ناراض تھا۔ واضح رہے کہ اس سال پورے چین میں کم از کم 6 دیگر ہائی پروفائل چاقو کے حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

  • ملکہ ڈاؤجر کا تذکرہ جس کی پالیسیاں قنگ خاندان کے زوال کا سبب بنیں

    ملکہ ڈاؤجر کا تذکرہ جس کی پالیسیاں قنگ خاندان کے زوال کا سبب بنیں

    ملکہ ڈاؤجر سی شی چین کی ایسی شخصیت تھیں جس نے تقریباً نصف صدی تک چین پر حکومت کی اور کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کیا۔ تاہم ایک طرف تو ملکہ ایک طاقتور اور بہادر حکم راں کہلاتی ہیں اور دوسری طرف ظالم اور قدامت پسند بھی مشہور ہیں۔

    ملکہ المعروف سی شی نے اقتدار کے حصول کے لیے کئی سازشیں اور سیاسی داؤ پیچ آزمائے اور اپنے راستے میں رکاوٹ بننے والوں کو قتل کرکے ایک مضبوط حکومت قائم کی۔ اقتدار تو ہمیشہ سی شی نے اپنے ہاتھ میں رکھا، لیکن عوام اور امراء کو مطمئن کرنے کے لیے دو نوجوان بادشاہوں کو آگے رکھا۔

    سی کی کے دور کے اہم واقعات میں تائپنگ بغاوت، باکسر بغاوت اور سو دن کی اصلاحات شامل ہیں جن کا سی شی‌ نے اپنی ذہانت اور حامیوں کی مدد سے خوب مقابلہ کیا۔ تاہم بعض اقدامات کی وجہ سے چین میں اندرونی انتشار کے ساتھ بیرونی دباؤ میں بھی اضافہ ہوا اور چین کو کئی علاقے گنوانے پڑے۔ وہ قنگ خاندان کی ایسی ملکہ ثابت ہوئی جس کی وجہ سے قنگ خاندان کمزور ہوتا گیا اور آخر کار 1912ء میں ختم ہو گیا۔ اس کے دور میں معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی حالات کا جائزہ لیں تو یہ چین کے لیے ایک انتہائی اہم اور پیچیدہ دور تھا جس میں معاشرتی حالات میں عدم مساوات، عورتوں کی حالت ابتر، تعلیم کی سہولیات بہت کم تھیں۔ جب کہ زراعت اور زمین داری نظام میں بڑی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ کرپشن بڑھ چکی تھی۔

    اس کی قدامت پرستی کا حال یہ تھا کہ جب 1900ء میں سی شی کو پیکنگ سے فرار ہو کر جان بچانی پڑی تو اسے بھی بیل گاڑی استعمال کرنا پڑی۔ کیوں کہ ملکہ کے ذہن میں چین کی قدیم روایات اور کلچر کا اتنا احترام تھا کہ وہ سمجھتی تھی کہ ریلوے انجن کے شور سے ہزاروں مقبروں میں ابدی نیند سونے والے پریشان ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے کا نظام متعارف کرانے کی اجازت دینا ملکہ کے لیے کڑوا گھونٹ پینے کے مترادف تھا۔ اس کی سنگ دلی کا عالم یہ تھا کہ وہ خود بسترِ مرگ پر تھی لیکن اپنے منہ بولے بیٹے کو زہر دے کر مروا دینے سے دریغ نہ کیا۔

    مشہور ہے کہ کسی نجومی نے پیش گوئی تھی کہ جب چین پر کوئی عورت حکم راں ہوگی تو پھر چین میں شاہی خاندان برقرار نہیں رہ سکتا، ملک میں ایک نیا نظام رائج ہوجائے گا جو شاہی نظام کا مخالف ہو گا۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی اور ملکہ ڈاویجر کے بعد شاہی خاندان بکھر گیا اور چین کی ہزاروں سال کی بادشاہی ختم ہوگئی۔ ڈاویجر المعروف ملکہ سی شی کے بارے میں قطعیت سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں پیدا ہوئی، لیکن بعض مؤرخین صوبہ جونان یا انوئی کے کسی مقام کو اس کی جائے پیدائش قرار دیتے ہیں اور سن 1835ء بتاتے ہیں۔ ملکہ کا انتقال 15 نومبر 1908ء کو ہوا۔

    بعض محققین کہتے ہیں‌ کہ ملکہ اپنی طاقت اور تدبّر میں بے مثل تھی۔ میر عابد علی خان اپنی کتاب مشاہیرِ چین میں لکھتے ہیں: چین جب ملوکیت اور جمہوریت کی کشمکش میں گرفتار تھا تو ملکہ ہی تھی جو ایک وسیع گروہ کی قیادت کر رہی تھی۔ اُس کی زندگی ایک ایسی داستان ہے جس میں تخت و تاج کی ریشہ دوانیاں، ملوکیت کا عروج و زوال اور ملک کے سیاسی فتنے بپا ہیں، جو ہر شاہی خاندان کا ایک لوازمہ ہے۔

    ڈاویجر المعروف ملکہ سِی شی کی زندگی بے ربطگی اور افراتفری کے اُس عہد کی آئینہ دار تھی جس میں وہ زندہ تھی۔ اُس کی بے سکون زندگی وطن اور قوم کے اضطراب کی ترجمان رہی۔ چین کی 5 ہزار سالہ تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا کہ ایک خاتون جس کی حیثیت ایک خواص سے زیادہ نہ تھی، ملک چین کے سیاہ و سپید کی مالک و مختار بن بیٹھی اور اِس جلال سے حکومت کی کہ شہنشاہ، امرا، عوام اور بیرونی باشندے سبھی سہم جاتے تھے۔

    ملک کی بے چارگی اور عرصے سے پیدا شدہ زوال نے اس قدر نہ مہلت دی کہ وہ کام یاب حکومت کرسکتی۔ وہ غربت اور نامرادی کے عالم میں پیدا ہوئی تھی لیکن ایک عارضی خوش حال زندگی گزار کر بربادی اور بے کَسی کے عالم میں اس دنیا سے کوچ کرگئی اور اپنے ساتھ ہمیشہ کے لیے چین کا نظامِ ملوکیت بھی لیتی چلی گئی۔ وہ 1861ء سے اپنی موت تک حکم راں رہی۔

    چینی تمدّن میں لڑکی کی پیدائش کو نیک بخت اور مبارک تصوّر نہیں کیا جاتا تھا، اِسی لیے سی شی کی کوئی خاص تربیت نہ ہو سکی۔ سی شی کے والد ہیوئی چینگ چین کی شاہی افواج کے کمان دار تھے۔ مانچو شہنشاہوں کا یہ حکم تھا کہ شاہی افواج کی کمان وہی شخص کرسکتا ہے جو نسلاً مانچو ہو۔ اِس لحاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سی شی بھی نسلاً مانچو تھی۔

    وہ سِی شی کو نہنی چاؤ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ وہ ابھی کمسن تھی کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ اس کی والدہ پیکنگ چلی آئی جہاں وہ ایک رشتے دار کے ہاں مقیم ہوئی۔ اُس رشتہ دار نے سِی شی کی تعلیم و تربیت پر توجہ کی اور جہاں تک بن پڑا اُس کی تربیت کی گئی۔ سی شی نے کنفیوشس کی تعلیمات کو حفظ کیا اور ادبیاتِ عالیہ کا مختصر سا مطالعہ بھی کیا۔ وہ شروع ہی سے ذہین تھی اور بعد میں معزّز اور مہذّب خواتین میں شمار کی جانے لگی۔

    جب سی شی نے منزلِ شباب میں قدم رکھا تو عوام اُسے یوہانالا کے نام سے پکارنے لگے۔ یوہا اور نالا شمالی چین کے جو دیوار چین کے اُس پار شمال مشرقی سمت میں واقع ہے، دو مختلف قبیلے تھے۔ اِن دو قبیلوں کو نوراچو نامی ایک فوجی عہدے دار نے متحد کیا اور اِس اتحاد کے بعد نوراچو نے دیوارِ چین کو عبور کر لیا اور چین پر لشکر کشی کی۔ حکم ران شہنشاہ کو شکست دے کر خود چین کا شہنشاہ بن گیا۔ نوراچو اور اُس کے بعد کے حکم ران چنگ یا مانچو کا لقب اختیار کرکے چین پر حکومت کرنے لگے اور یوں تاریخ میں چنگ خاندان مشہور ہوا۔ یوہا نالا اِس خاندان کا قدیم اور ابتدائی نام تھا۔ چناں چہ اِسی نام سے وہ سی شی مشہور ہوئی۔

    چینی رسوم کے مطابق ہر شہنشاہ کو کئی خواص رکھنے کی اجازت تھی۔ اِن خواصوں کو شہنشاہ کی والدہ منتخب کیا کرتی تھی۔ چنانچہ جب شہنشاہ شُن فنگ کے لیے خواصوں کا انتخاب ہو رہا تھا تو سِی شی کی والدہ نے اُسے مجبور کیا کہ وہ اِس انتخاب میں شریک ہوکر اپنی قسمت آزمائی کرے۔

    سِی شی کے حسین خدوخال اور اُس کا حُسن اِس قابل تھے کہ وہ منتخب کرلی گئی۔ اس کے جمال نے شہنشاہ شُن فنگ کو مسحور کر دیا۔ بیٹے کی پیدائش پر چینی رواج کے مطابق سی شی کو چین کی حقیقی ملکہ تصوّر کر لیا گیا۔

    ملکہ ڈاویجر شہنشاہ کی منظورِ نظر ہوچکی تھی اور وہ امورِ سلطنت پر حاوی ہوتی گئی۔ سلطنت کا نظم و نسق، اس کے صلاح و مشورے کے بغیر سَر انجام نہیں پاسکتا تھا۔ چناں چہ کچھ عرصہ بعد شہنشاہ بھی ملکہ کے اِس طرزِ عمل سے بیزار ہو گیا اور جب 1860ء میں بیرونی باشندوں اور چینیوں میں جنگ ہوئی تو سارے اقتدار کی مالک و مختار سِی شی ہی تھی۔ اِس کی بدقسمتی کا آغاز اُس لمحے سے شروع ہوا کہ جب اِس جنگ میں چینیوں کو شکست ہوئی۔

    ملکہ ڈاویجر کے مخالفین نے اِس شکست کا سارا الزام اس کے سر تھوپا اور خصوصاً سُوشن نے جو ملکہ کا سخت ترین دشمن تھا، نے شہنشاہ کو مجبور کر دیا کہ وہ خود کو ملکہ سے الگ کرلے اور فوراً پیکنگ سے جنیہول (چین کا ایک علاقہ) چلا جائے تاکہ ملکہ سی شی کو دور رکھا جاسکے۔ شہنشاہ شین فینگ نے ملکہ سے مخالف اختیار کی اور خود جنیہول چلا گیا۔ یہ ملکہ کی ایسی شکست تھی کہ اُس کی طاقت و اقتدار کا شیرازہ برہم ہونے لگا اور یہیں سے اُس کا زوال شروع ہوا۔

    چینیوں کی شکست سے ملک میں بیرونی اقتدار دن بدن پھیلتا جا رہا تھا اور عوام کی پریشانیاں مخالفانہ رنگ اختیار کر رہی تھیں۔ اِس بدقسمتی میں مزید اضافہ ہوتا گیا اور 1861ء کو شہنشاہ کا انتقال ہو گیا۔

    شہنشاہ کے انتقال کے بعد چین کی سلطنت و تخت کے دو دعوے دار تھے۔ ایک پانچ سالہ شہزادہ کوانگ سُو جو سِی شی کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور دوسرا شہزادہ یائی تھا جسے خود شہنشاہ نے نام زد کیا تھا۔ تخت و تاج کے حصول کے لیے دونوں میں کشمکش اور جنگ ہوئی۔ ملکہ سِی شی نے اپنے پرانے چہیتے دوست جُنگ لُو کی مدد سے شہزادہ یائی کو شکست دی اور خود کمسن شہزادے وانگ سُو کی نائبُ السّلطنت کی حیثیت سے تخت نشین ہو گئی۔

    اِن اندرونی تنازعات کے زمانے میں بیرونی باشندوں نے اپنے مفادات کو مستحکم کرنا شروع کیا۔ اُس وقت چین میں دو سیاسی جماعتیں تھیں، ایک قدامت پسند جماعت تھی جس میں شاہی خاندان کے افراد، امرا اور کنفیوشس کے پیروکار شامل تھے اور یہ جماعت ملکہ سی شی کو اپنا قائد سمجھتی تھی۔ دوسری بڑی جماعت اصلاح پسندوں کی تھی جس میں چین کے تمام ترقی پسند عناصر شریک تھے اور اِس جماعت کا اثر جنوبی چین میں پھیلا ہوا تھا۔ اصلاح پسندوں نے شہنشاہ کو اپنے زیرِ اثر کر لیا اور شہنشاہ خود چاہتا تھا کہ ملکہ سے چھٹکارا پاسکے۔ شہنشاہ نے چین میں اصلاحات کا نفاذ کر دیا اور اِس کوشش میں لگا رہا کہ ملکہ کے حاشیہ برداروں کو چُن چُن کر قتل کر دیا جائے۔ شہنشاہ کی پہلی نظر ملکہ سی شی کے منظورِ نظر جُنگ لُو پر پڑی، لیکن اس کی خبر ملکہ کو ہوگئی اور وہ یوں بپھری کہ اصلاح پسندوں اور شہنشاہ پر لشکرکشی کردی۔

    اِس تصادم میں کو شہنشاہ قید کر لیا گیا اور اصلاح پسندوں کو شکست ہوئی۔ چین میں ملکہ ڈاویجر یعنی سِی شی کی نگرانی میں دوبارہ قدامت پسندوں کا دور شروع ہو گیا۔ کچھ دِنوں تک اِس بحران میں سکون تو رہا مگر بہت جلد ہی یہ دور ختم ہو گیا۔

    1900ء میں جب چینی عوام نے بیرونی باشندوں کے خلاف صف آرائی شروع کی تو اولاً ملکہ نے عوام کا ساتھ دینے سے اِنکار کر دیا مگر اسے ایک جعلی دستاویز دکھائی گئی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ بیرونی باشندے ملکہ کو تخت سے معزول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اِس نئی مصیبت کے خوف سے سہم کر عوام کے ساتھ مل گئی۔ اُس نے شاہی افواج کو حکم دیا کہ وہ بیرونی دشمن باشندوں پر حملہ کریں۔ یہ دشمن طاقتیں دراصل مغربی ممالک کے اتحاد پر مبنی تھا اور برطانیہ، فرانس، امریکا، اطالیہ، جرمنی، روس اور جاپان نے متحد ہوکر چینیوں کو شکست دی۔ یہ تصادم تاریخ چین میں بغاوتِ باکسر کے نام سے مشہور ہے۔

    یہ دراصل چینیوں کی جنگِ آزادی کی شروعات تھی جس پر بغاوت کا لیبل لگا دیا گیا۔ اس ہنگامے کی ناکامی مانچو خاندان اور ملکہ کی ناکامی تھی۔ بغاوت کے بعد ملکہ نے کوشش کی کہ بیمار ملک میں پھر جان ڈالی جائے مگر عوام اس کے لیے تیّآر نہ تھے اور انھیں ملکہ کی اصلاحات میں اپنے مسائل کا حل نہیں نظر آتا تھا۔ ان کے شعور میں انقلاب رچ بس گیا تھا۔ یوں ان کا اتحاد جمہوری نظامِ حکومت کی طرف پھر گیا۔ اِن مخالف قوّتوں کے باعث ملکہ کا رہا سہا زور اور اقتدار دَم توڑنے لگا۔ خود ملکہ بھی زندگی کی آخری منزل پر تھی۔ اس کی وفات کے تین برس بعد رہی سہی بادشاہت نے بھی دَم توڑ دیا۔

  • ویزا فری انٹری : چین جانے والے غیر ملکیوں کیلیے بڑی خبر

    ویزا فری انٹری : چین جانے والے غیر ملکیوں کیلیے بڑی خبر

    چین نے ملک میں سیاحت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات کرتے ہوئے دنیا کے نو ممالک کیلئے ویزا فری انٹری کا اعلان کیا ہے۔

    ان ممالک میں ویزا فری انٹری کیلئے جنوبی کوریا، ناروے، فن لینڈ اور سلوواکیہ سمیت 9 ممالک شامل ہیں۔

    عالمی برادری میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے چین زیادہ سے زیادہ سیاحوں کی آمد و رفت میں اضافہ چاہتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سیاحوں کو بہت سی سہولیات فراہم کرنے کی پالیسی بھی مرتب کی گئی ہے۔

    china

    ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق اب جنوبی کوریا، ناروے، فن لینڈ، سلواکیا، ڈنمارک، آئس لینڈ، اَندورا، موناکو اور لیکٹنسٹائن کے شہری چین میں بغیر ویزا کے داخل ہو سکیں گے۔

    چین کی وزارت خارجہ کے مطابق 8 نومبر سے ان ممالک کے شہری کاروبار، سیاحت، خاندان کے لوگوں سے ملاقات یا ٹرانزٹ کے لیے چین میں ویزا کے بغیر داخل ہو سکیں گے اور پندرہ دن رہ سکیں گے۔

    واضح رہے کہ چین نے ملک میں سیاحوں کی تعداد کو بڑھانے کے لیے مجموعی طور پر اب تک 25 ممالک کے باشندوں کو ویزا فری انٹری کی سہولت فراہم کی ہے۔

  • چین کی کمپنی کا افغانستان میں تانبے کی سب سے بڑی کان میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان

    چین کی کمپنی کا افغانستان میں تانبے کی سب سے بڑی کان میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان

    کابل: چین کی کمپنی نے افغانستان کے صوبے لوگر میں واقع تانبے کی سب سے بڑی کان میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مِس عینک پروجیکٹ کی چینی کنٹریکٹنگ کمپنی کے ڈائریکٹر سونگ ون بنگ نے نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر سے ملاقات میں کہا کہ امارت اسلامیہ کے اقدامات سے ان کے بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں اور انھیں اب بھی افغان حکومت کے تعاون کی ضرورت ہے۔

    سونگ ون بنگ نے کہا کہ مس عینک کے پہلے حصے میں 5 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری سے 3 ہزار افغانوں کو براہ راست روزگار ملے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ افغان نوجوانوں کے ایک گروپ کو پیشہ ورانہ تربیت کے لیے چین بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    اس ملاقات میں مولوی عبدالکبیر نے افغانستان اور چین کے تعلقات کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ مس عینک کے عملی امور اور کام کے آغاز پر توجہ دی جائے گی اور وقت کے ضیاع سے گریز کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ مس عینک کان پر عملی کام کا آغاز کان تک جانے والی سڑک کی تعمیر کے ساتھ شروع ہو گیا ہے، جس کی تکمیل کے بعد استخراج کا عمل شروع ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ افغانستان کی سب سے بڑی تانبے کی کان ہے جب کہ دنیا کی دوسری بڑی کان ہے۔

  • چین میں طاقتور ترین سمندری طوفان سے تباہی

    چین میں طاقتور ترین سمندری طوفان سے تباہی

    چین کے شہر شنگھائی میں طاقتور ترین سمندری طوفان نے تباہی مچادی، جس کے باعث لاکھوں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 151 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی طوفانی ہواؤں سے درخت، عمارتوں کی کھڑکیاں اور اشتہاری بورڈز اُڑگئے۔

    تیز رفتار طوفانی ہواؤں کے سبب سڑک پر چلتا ٹرک بھی اُلٹ گیا، راہ گیروں نے درختوں اور کھمبوں کا سہارا لے کر اپنے آپ کو محفوظ کیا۔

    چین کے شہر شنگھائی میں طوفان کے باعث 4 لاکھ سے زیادہ افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے جبکہ 14 سو پروازیں منسوخ کردی گئیں، متاثرہ علاقوں میں 12 انچ تک بارش رکارڈ کی گئی۔

    اس سے قبل طاقت ور سمندری طوفان یاگی نے تھائی لینڈ و میانمار میں بھی تباہی مچادی۔

    رپورٹ کے مطابق طاقت ور طوفان یاگی نے چین، فلپائن اور ویتنام کے بعد اب تھائی لینڈ، لاؤس اور میانمار میں بھی تباہی مچائی ہے۔

    سمندری طوفان سے جنوب مشرقی ایشیاء میں شدید بارشیں، خطرناک لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے پورے خطے میں لاکھوں افراد متاثر ہیں۔

    میلاد النبیؐ میں شرکت کیلئے جانے والی بس حادثے کا شکار، 26 بچے جاں بحق

    طوفان کے باعث لاکھوں لوگ بجلی سے محروم ہیں، طوفان نے انفرااسٹرکچر بھی تباہ کر دیا ہے، ہزاروں افراد کے گھر سیلاب میں بہہ گئے جس کے سبب لوگ اسکول کی عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

  • چین نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا، مگر کیوں؟

    چین نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا، مگر کیوں؟

    بیجنگ: چین نے 1950 کے بعد پہلی بار ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کر دیا۔

    چین کے وزیر انسانی وسائل اور سماجی تحفظ نے اعلان کیا ہے کہ مردوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 63 سال کر دی گئی، جب کہ خواتین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سے بڑھا کر 58 سال کر دی گئی۔

    چین میں چوہتر سال میں پہلی بار ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا گیا ہے، چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ معاشی اور سماجی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔

    چین کے ریاستی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے جمعہ کو یہ نئی پالیسی منظور کر لی ہے، اس پالیسی پر عمل درآمد اگلے برس 2025 سے شروع ہوگا۔

    چین اپنی سکڑتی ہوئی آبادی اور عمر رسیدہ افرادی قوت کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ پالیسی اسی سلسلے میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے، ویسے بھی چین میں ریٹائرمنٹ کی عمر دنیا کی بڑی معیشتوں کے مقابلے میں سب سے کم رہی ہے۔

    بلیو کالر ملازمتوں (محنت مزدوری والے مینول کام) میں خواتین کے لیے قانونی ریٹائرمنٹ کی عمر 50 سے بڑھا کر 55 اور وائٹ کالر ملازمتوں (دفتری کام) میں خواتین کے لیے 55 سے بڑھا کر 58 کر دی گئی ہے۔

    چینی سرکاری میڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ جمعہ کو منظور کیے گئے منصوبے کے مطابق یہ تبدیلی یکم جنوری 2025 سے رو بہ عمل ہو جائے گی، اور ریٹائرمنٹ کی ان عمروں میں اگلے 15 برسوں تک ہر چند ماہ بعد اضافہ کیا جاتا رہے گا۔

  • ڈپلومہ پروگرام : آئی ٹی طلبا کے لئے اچھی خبر

    ڈپلومہ پروگرام : آئی ٹی طلبا کے لئے اچھی خبر

    اسلام آباد: نیو ٹیک یونیورسٹی اور چین کے تعاون سے ڈپلومہ پروگرام کا آغاز کردیا گیا، طلبا 2 سال یونیورسٹی اور ایک سال چین میں تعلیم حاصل کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق جدیدٹیکنالوجی میں پاک چین تعاون کا ایک اور سنگ میل عبور ہوگیا ، نیو ٹیک یونیورسٹی اور چین کا مشترکہ منصوبے کے حوالے سے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے رجسٹرار نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بگ ڈیٹا، میکا ٹرانکس اور سافٹ ویئر انجینئرنگ کے ڈپلومہ پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔

    جس کے تحت طلبا 2 سال یونیورسٹی اور ایک سال چین میں تعلیم حاصل کریں گے ، ڈپلومہ مکمل کرنے کےبعد چین کی انڈسٹری میں ملازمت کےمواقع ہیں۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ سی پیک میں بھی ان کو ملازمت دی جا سکتی ہے، چین کیساتھ ملکر ہم نے قومی ترقی کیلئےیہ پروگرام ترتیب دیا۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ نینو ٹیکنالوجی میں بھی ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام زیر غور ہے، پاکستان میں بگ ڈیٹا ،میکا ٹرانکس اور سافٹ وئیر ڈپلومہ پروگرام نہیں۔

  • بغیر چھٹی مسلسل کام کرنے والے شہری کی اچانک موت واقع ہو گئی

    بغیر چھٹی مسلسل کام کرنے والے شہری کی اچانک موت واقع ہو گئی

    ژیجیانگ: بغیر چھٹی مسلسل کام کرنے والے چین کے شہری کے جسمانی اعضا فیل ہونے کے سبب اچانک موت واقع ہو گئی۔

    چینی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کے صوبے ژیجیانگ میں آباؤ نامی 30 سالہ پینٹر ’کام کی زیادتی‘ کے باعث ہلاک ہو گیا، آباؤ نے 104 دن مسلسل کام کیا اور اس دوران صرف ایک چھٹی کی۔

    شہری کی موت کے بعد زیادہ کام کرنے کے چینی ورک کلچر کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، کیوں کہ اس واقعے نے چین میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کو جنم دیا ہے اور اس پر بحث ہو رہی ہے کہ ملک میں کارکنوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

    گوانگژو ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ ژیجیانگ کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ کمپنی اس شخص کی موت کے لیے 20 فی صد ذمہ دار ہے۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے مطابق آباؤ ایک پینٹر کے طور پر کام کرتا تھا، جون 2023 میں وہ نیوموکوکل انفیکشن کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔

    آباؤ نے گزشتہ سال فروری میں ایک کمپنی کے لیے پینٹر کے طور پر کام کرنے کا معاہدہ کیا تھا، معاہدہ اس سال جنوری تک جاری رہنا تھا، اس کے بعد اسے مشرقی چین کے صوبہ ژیجیانگ کے شہر زاؤشان میں ایک پروجیکٹ پر مامور کیا گیا۔ معاہدے پر دستخط کے بعد اس نے پچھلے سال فروری سے مئی تک 104 دن روزانہ کام کیا، اور صرف 6 اپریل کو ایک دن آرام کیا تھا۔ لیکن پھر 25 مئی کو اس نے بیمار محسوس ہونے پر چھٹی لی اور اپنے کمرے میں آرام کیا۔

    28 مئی کو آباؤ کی حالت بگڑ گئی، جس پر اس کے ساتھی اسے اسپتال لے گئے، جہاں اسے پھیپھڑوں میں انفیکشن اور نظام تنفس کی مکمل ناکامی کی تشخیص ہوئی، اور پھریکم جون کو ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔

    آباؤ کی فیملی نے کمپنی پر سنگین غفلت کا مقدمہ دائر کر دیا، تاہم سماجی تحفظ کے حکام نے کہا کہ آباؤ کی بیماری اور اس کی موت کے درمیان 48 گھنٹے سے زیادہ گزر چکے ہیں، اس لیے اسے کام سے متعلق چوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیملی کا مؤقف تھا کہ ضرورت سے زیادہ کام اور آرام کی کمی نے آباؤ کی موت میں براہ راست کردار ادا کیا ہے۔ دوسری جانب کمپنی نے دعویٰ کیا کہ آباؤ کا کام کا بوجھ مناسب تھا اور کام کرنے والے اضافی گھنٹے رضاکارانہ تھے۔

    تاہم ژیجیانگ کی عدالت نے آباؤ کے اہل خانہ کے حق میں فیصلہ سنایا، جس میں آباؤ کی کمپنی کو اس کی موت کا 20 فیصد ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ عدالت نے پایا کہ آباؤ کی موت ایک سے زیادہ اعضا کی ناکامی سے نیوموکوکل انفیکشن کی وجہ سے ہوئی، جو اکثر کمزور مدافعتی نظام سے منسلک ہوتا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ آباؤ کا مسلسل 104 دنوں تک کام کرنے کا دورانیہ چینی لیبر قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، جس میں واضح طور پر زیادہ سے زیادہ 8 کام کے گھنٹے فی دن اور اوسطاً 44 گھنٹے فی ہفتہ مقرر کیا گیا ہے۔ عدالت نے کمپنی کو آباؤ کے خاندان کو 4 لاکھ یوآن ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

  • چینی بچے گود لینے کے خواہش مند خاندانوں کے لیے اہم خبر

    چینی بچے گود لینے کے خواہش مند خاندانوں کے لیے اہم خبر

    بیجنگ: چین کی حکومت نے غیر ملکیوں کے لیے چینی بچے گود لینے کی پالیسی ختم کر دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غیر ملکیوں کے لیے چینی بچوں کو گود لینے کی پالیسی ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے، چینی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ چینی بچوں کو گود لینے کے لیے بیرون ملک نہیں بھیجا جائے گا۔

    وزارت خارجہ کے مطابق صرف وہی غیر ملکی چینی بچے گود لیے سکیں گے جن کا بچوں کے ساتھ خون کا رشتہ ہوگا۔

    چین نے 1992 میں غیر ملکیوں کے لیے چینی بچوں کے گود لینے کی پالیسی شروع کی تھی، اس پالیسی کے تحت دنیا بھر میں اب تک 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد چینی بچوں کو غیر ملکی جوڑوں نے گود لیا۔ چائنا چلڈرن انٹرنیشنل (سی سی آئی) کے مطابق ان میں سے تقریباً 82 ہزار بچوں کو، جن میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں، کو امریکا میں گود لیا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چین میں بچوں کی پیدائش میں مسلسل کمی کے باعث اٹھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے چینی پالیسی ساز نوجوان جوڑوں کو شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ چین عالمی سطح پر سب سے کم شرح پیدائش والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    روئٹرز کے مطابق چین نے اپنی آبادی کو کم کرنے کے لیے 1979 سے 2015 تک ایک بچے کی سخت پالیسی نافذ کی تھی۔ جب خاندانوں کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے تک محدود رکھا گیا تھا، تو بہت سے لوگوں نے مرد بچوں کو رکھنے کا انتخاب کیا، جب کہ لڑکیوں کو گود لینے کے لیے دے دیا جاتا تھا۔

  • چین میں اسکول بس سے کچل کر 11 بچے ہلاک، متعدد زخمی

    چین میں اسکول بس سے کچل کر 11 بچے ہلاک، متعدد زخمی

    بیجنگ: چین میں پیش آنے والے انتہائی افسوسناک واقعے میں اسکول بس نے قطار بنا کر اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں 11 بچے ہلاک، متعدد زخمی ہوگئے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق افسوسناک واقعہ صوبے شینڈونگ کے شہر تائی آن میں صبح 7 بجے اُس وقت پیش آیا جب بچے قطار بناکر مرکزی دروازے سے اسکول میں داخل ہو رہے تھے۔

    اسی اثناء میں ایک تیز رفتار اسکول بس نے درجن کے قریب بچوں کو روند دیا۔ بچوں کوفوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا مگر ڈاکٹروں نے 11 بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کردی، زخمیوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک دردناک تصویر وائرل ہورہی ہے، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بس کے قریب سڑک پر خون میں لتھڑے ہوئے یونی فارم میں ملبوس بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں سڑک پر پڑی ہوئی ہیں اور والدین ان کے نزدیک بیٹھے رو رہے ہیں۔

    اسمگلنگ کے شبہ میں فائرنگ سے نوجوان طالب علم جاں بحق

    واضح رہے کہ چین میں کئی سرکاری اسکول اس ہفتے نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر کھولے گئے ہیں، بے ہنگم ٹریفک اور حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے باعث جان لیوا حادثات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔