Tag: ڈاؤ یونیورسٹی

  • سندھ: جگر کے 50 ٹرانسپلانٹ مفت کرنے کا اعلان

    سندھ: جگر کے 50 ٹرانسپلانٹ مفت کرنے کا اعلان

    کراچی: سندھ میں جگر کی 50 پیوندکاریاں مفت کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے ڈاؤ یونیورسٹی میں بلا معاوضہ جگر کی پیوندکاری شروع کرنے کی منظوری دے دی۔

    صوبائی محکمہ صحت کے حکام نے کہا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے ساڑھے 14 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، یونیورسٹی میں اس مالی سال کے دوران پچاس لیور ٹرانسپلانٹ بلا معاوضہ کیے جائیں گے۔

    وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے بتایا کہ لیور ٹرانسپلانٹ ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا اسپتال میں نامور ڈاکٹر فیصل مسعود ڈار کی نگرانی میں کیے جا رہے ہیں۔

    جگر کے 200 ٹرانسپلانٹ بالکل مفت، سندھ کے سرکاری اسپتال کا منفرد ریکارڈ

    انھوں نے کہا ڈاؤ یونیورسٹی میں ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کی زیر نگرانی اب تک 17 کامیاب لیور ٹرانسپلانٹ ہو چکے ہیں، لیور ٹرانسپلانٹ ٹیم ڈاکٹر جہانزیب حیدر، ڈاکٹر کرن ناز اور ڈاکٹر محمد اقبال پر مشتمل ہے۔

    صحت حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بعد ڈاؤ یونیورسٹی بھی بلا معاوضہ جگر کی پیوند کاری شروع کر رہی ہے، پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں جگر کی پیوند کاری کے اخراجات 35 سے 50 لاکھ کے درمیان ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم 8 ہزار افراد کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت پیش آتی ہے۔

  • پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    کراچی: پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم اٹھایا گیا ہے، کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور مقامی دواساز ادارے گیٹس فارما کے مابین سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں اعصابی بیماریوں پر تحقیق کے سلسلے میں منعقدہ ایک دستخطی تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نیورو سائنسز کا شعبہ نظر انداز ہوا ہے، اور اب اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

    پروفیسر سعید قریشی کے مطابق پاکستان میں مرگی کے مریضوں کی شرح کا تخمینہ ایک ہزار افراد میں سے9 اعشاریہ 99 لگایا گیا ہے، اور ایک مطالعے میں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پارکنسنز سے متاثر افراد کی تعداد لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) ہے، خدشہ ہے کہ یہ تعداد اگلے دس برس یعنی 2030 تک بڑھ کر 12 لاکھ سے زائد ہو سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا ان دو امراض کی روک تھام کے لیے ریسرچ اہم ہے، دنیا بھر میں تعلیمی و تحقیقی اداروں کی معاونت سے عالمگیر نظامِ صحت میں حیرت انگیز طور پر بہتری لائی جا چکی ہے، پاکستان میں بھی اس جانب توجہ دی جا رہی ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

    پاکستان نیورولوجی سوسائٹی کے صدر پروفیسر سلیم بڑیچ نے کہا پاکستان میں نیورولوجی کے شعبے میں مصدقہ اعداد و شمار اور مستند ریسرچ کا بہت بڑا خلا ہے، یہ شعبہ ہماری پہلی ترجیح ہے، نیورو سائنسز میں ریسرچ کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

    گیٹس فارما کے چیف ایگزیکٹو اور ایم ڈی خالد محمود نے کہا تحقیق اور منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان میں بیماریوں کے علاج کے جس سطح کی تحقیق کی ضرورت ہے، ہم اس عروج کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، تاکہ ایک دن ہم عالمگیر سطح پر پاکستان کی پہچان بنا سکیں۔

    قبل ازیں گیٹس فارما کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جہانزیب کمال نے پروجیکٹ کی تفصیلی بریفنگ میں بتایا کہ نیورولوجی (صرف پارکنسنز اور مرگی ) میں نوجوان محققین کے لیے سالانہ 25 لاکھ روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، جس سے میڈیکل سائنس کے اس نظر انداز شدہ شعبے یعنی نیورو سائنسز میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی جا سکے گی۔

    انھوں نے کہا یہ رقم مجوزہ ریسرچ کے لیے کوالٹی کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی، اس طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لیے نیورو سائنسز کے ماہرین کی اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جا رہی ہے، جو تمام تجاویز کا آن لائن جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔

  • وبائی امراض کے کنٹرول، کم قیمت معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے ڈاؤ یونی ورسٹی کا بڑا قدم

    وبائی امراض کے کنٹرول، کم قیمت معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے ڈاؤ یونی ورسٹی کا بڑا قدم

    کراچی: ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں وبائی امراض پر قابو پانے، کم قیمت میں معیاری ادویات کی فراہمی کے لیے پاکستان کا پہلا جدید بائیو اسٹڈی سینٹر اور صوبائی پبلک ہیلتھ لیبارٹری قائم کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بائیو ایکوی وِلینس اسٹڈی سینٹر قائم کیا گیا ہے، جو بین الاقوامی معیار کے آلات سے مزین پاکستان کا واحد سینٹر ہے، جس کے ساتھ مکمل سہولتوں سے آراستہ اسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔

    بائیو ایکویوِلینس سینٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بائیو اویلیبلٹی اسٹڈی سینٹر میں یہ تجزیہ کیا جاتا ہے کہ مریض کو دی گئی دوا کی کتنی مقدار خون میں شامل ہوئی ہے تاکہ کسی بھی دوا کی افادیت کا تعین کیا جا سکے، جب کہ بائیو ایکویوِلینس اسٹڈی میں یہ تعین کیا جاتا ہے کہ بنائی گئی دوا اصل مالیکیول کے کس قدر قریب ہے۔

    ڈی یو ایچ ایس کے مطابق پاکستان سے دواؤں کی برآمد محض 200 ملین ڈالرز ہے، بائیو ایکویولینس سینٹر کے قیام سے ادویہ کی برآمدات بھی بڑھ سکتی ہے، کیوں کہ اس سے پہلے بین الاقوامی معیار کی اسٹڈی کے لیے ہماری مقامی دوا کی صنعت سے وابستہ افراد کو بیرون ملک جانا پڑتا تھا، جس کے نتیجے میں اخراجات بڑھنے سے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اس سینٹر کی ایف ڈی اے (امریکی ادارہ) سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے منظوری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ایکویوِلینس سینٹر کے قیام سے کم قیمت پر معیاری دوائیں ملنے کا امکان ہے، جب کہ یقینی طور پر جعلی دواؤں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔

    دریں اثنا، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے وبائی امراض پر قابو پانے کے لیے صوبائی پبلک ہیلتھ لیبارٹری کا بھی افتتاح کیا، یہ صوبہ سندھ کی پہلی پراوینشل پبلک ہیلتھ لیبارٹری ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو بتایا گیا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں وبائی امراض پھوٹنے کی صورت میں امراض پر قابو پانے میں یہ لیبارٹری مکمل معاونت کرے گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ بین الاقومی معیار کے لحاظ سے سندھ میں ایسی کوئی لیبارٹری قائم نہیں تھی، گزشتہ برسوں کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ، چکن گونیا، ڈینگی وغیرہ پھیلتے رہے ہیں، اب خدانخواستہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو یہ لیبارٹری فعال کردار ادا کرے گی اور صوبے بھر کے عوام کو یہ سہولت مفت فراہم کی جائے گی۔

    افتتاح کے موقع پر صوبائی سیکریٹری صحت ڈاکٹر کاظم جتوئی، وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی و دیگر بھی موجود تھے۔

  • بڑی پیش رفت،  پاکستان میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل

    بڑی پیش رفت، پاکستان میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل

    کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل ہوگئی، ٹرائل کے دوران آئی سی یو میں انتہائی بیمار مریضوں کی ریکوری 60 فیصد جبکہ شدید بیمار افراد کی ریکوری 100 فیصد رہی۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی میں کورونا کےعلاج کی دوا کی تیاری اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ، کورونا میں جان بچانے والی دوا کے کامیاب کلینکل ٹرائل جاری ہے۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ٹرائل کے دوران آئی سی یو میں انتہائی بیمار مریضوں کی ریکوری 60 فیصد رہی جبکہ کورونا کےشدید بیمار مریضوں میں سی آئی وی آئی جی سےریکوری 100 فیصد رہی۔

    سی آئی وی آئی جی پر کام کاآغاز وی سی محمد سعید قریشی کی ہدایت پر مارچ میں شروع ہوا ، سی آئی وی آئی جی کورونا سے صحتیاب مریضوں کے پلازما سے اینٹی باڈیز کشید کر کےتیار کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کہ کلینیکل ٹرائل کے لیے ڈریپ کا تعاون حاصل رہا۔

    مزید پڑھیں : ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے کرونا وائرس کی دوا کس طرح تیار کی

    خیال رہے رواں سال اپریل میں پاکستانی ماہرین نے کورونا کےعلاج کیلئے دوا انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کرنے کا اعلان کیا تھا ، وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا تھا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی اور ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔

    ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا تھا۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

    بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی نے ڈاکٹرز سمیت عملے کی تنخواہیں آدھی کر دیں

    ڈاؤ یونیورسٹی نے ڈاکٹرز سمیت عملے کی تنخواہیں آدھی کر دیں

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے اپنے تمام عملے بشمول ڈاکٹرز کی تنخواہیں آدھی کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے اپنے تمام عملے بشمول ڈاکٹروں کی تنخواہیں آدھی کر دیں۔یونیورسٹی کے پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز، ڈاکٹرز اور عملے کو جون کی آدھی تنخواہ ادا کی گئی ہے۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے زیادہ تر پروفیسرز اسپتال میں کووڈ 19 کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں۔یونیورسٹی کے عملے کو جون کی تنخواہ 7 دن کی تاخیر سے بھی ادا کی گئی ہے۔

    وائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے ابھی تک فنڈز فراہم نہیں کیے ہیں،پیسے نہیں ہیں تو تنخواہیں کہاں سے ادا کریں گے۔

    پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے فنڈز ملتے ہی باقی تنخواہ کر دیں گے۔

  • پاکستان میں کرونا وائرس کیسز 13 تا 16 اگست عروج پر پہنچ سکتے ہیں: ماہرین

    پاکستان میں کرونا وائرس کیسز 13 تا 16 اگست عروج پر پہنچ سکتے ہیں: ماہرین

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتا ہے، پاکستان میں کرونا وائرس کی پیک 13 تا 16 اگست ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلامک میڈیکل لرنرز ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور ہماری ذمہ داری کے عنوان سے آن لائن سیشن منعقد ہوا، سیشن سے ممتاز علمائے کرام مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی خطاب کیا۔

    سیشن سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ماہرین نے پاکستان میں کرونا وائرس کی پیک 13 تا 16 اگست کو قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا اس عرصے کے دوران 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے، ہم اس تباہ کن وبا کے نقصانات کو روک نہیں سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کر کے یہ نقصانات کم کیے جاسکتے ہیں، ویت نام کے عوام نے فروری کے اوائل میں ماسک لگانا شروع کیے تھے جس کی وجہ سے وائرس نے صرف 7 سے 8 سو افراد کو متاثر کیا۔

    پروفیسر محمد سعید قریشی کا کہنا تھا کہ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وائرس 40 فیصد آبادی کو متاثر کرچکا ہے۔ ملک کی مجموعی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو زیادہ محتاط ہونا پڑے گا، کرونا وارڈ میں فرائض انجام دیتے ہوئے کسی وقفے کے بغیر حفاظتی لباس اور ماسک نہیں اتارنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر میں بھی حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

    مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں، انہیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجد نبوی اور عالم اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عملدر آمد کروایا جا رہا ہے۔

    مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، ان کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، کرونا وائرس ایک حقیقت ہے، یہ کوئی سازش نہیں۔ اب علما اور ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں اور احتیاطی تدابیر کی طرف راغب کریں۔

  • کورونا کے علاج کیلئے انجیکشن کی تیاری، ڈاؤ یونیورسٹی کو پلازمہ جمع کرنے کی اجازت مل گئی

    کورونا کے علاج کیلئے انجیکشن کی تیاری، ڈاؤ یونیورسٹی کو پلازمہ جمع کرنے کی اجازت مل گئی

    کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی کو کورونا کے علاج کے انجیکشن کے لیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت مل گئی، انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) کو کورونا کےخلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے ڈاؤ یونیورسٹی کو پلازمہ جمع کرنے کی اجازت دے دی، پلازمہ امیونوگلوبیولن (آئی وی آئی جی ) کی تیاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کو کورونا کے علاج کے انجیکشن کے لیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

    ڈرگ ریگولر اتھارٹی آف پاکستان پہلے ہی کلینیکل ٹرائل کی منظوری دے چکی ہے جبکہ نیشنل بائیو ایتھکس کمیٹی نے گزشتہ مہینے کلینکل ٹرائل کی منظوری دی تھی۔

    انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) کو کورونا کےخلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی قرار دیا جارہا ہے جبکہ پروفیسر محمدسعید قریشی نے کہا کہ آئی وی آئی جی کوروناکے خلاف جنگ میں اہم پیش رفت ہے۔

    یاد رہے اپریل کےاوائل میں ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعوی کیا تھا کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔

    ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا تھا۔

    خیال رہے امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظور شدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لو رسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے، اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے۔

    واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے کرونا وائرس کی دوا کس طرح تیار کی؟ ویڈیو دیکھیں

    ڈاؤ یونیورسٹی کی ٹیم نے کرونا وائرس کی دوا کس طرح تیار کی؟ ویڈیو دیکھیں

    کراچی: ڈاؤ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے علاج کے لیے جو دوا تیار کی گئی ہے اس کا چوہوں پر ٹرائل کامیاب رہا ہے اور اب ہم نے ڈریپ سے انسانوں پر ٹرائل کی اجازت مانگی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے آج وی سی ڈاؤ یونی ورسٹی نے کہا کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہیں، یہ امیونولوجیکل رسپانس ہوتا ہے جسم کا کسی بھی حملہ آور آرگینزم کے خلاف، اس طریقہ کار میں ہم کو وِڈ نائنٹین کے اینٹی باڈیز کو نیوٹرلائز کریں گے جس کے استعمال سے بیماری کے اینٹی جن ختم ہو جائیں گے، اسے طبی اصطلاح میں پیسیو (غیر فعال) امیونائزیشن کہا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس ویکسی نیشن ایکٹو (متحرک) امیونائزیشن کا طریقہ کار ہے، ہمارے طریقہ کار میں ایکٹو امیونائزیشن نہیں ہو رہی یہ پیسیو امیونائزیشن ہے، ہم نے ڈریپ سے انسانوں پر ٹرائل کرنے کی اجازت مانگی ہے، جب ہماری یونیورسٹی کا انسٹی ٹیوشنل ریویو بورڈ اور ڈریپ اجازت دیں گے تو پھر انسانوں پر اس کا استعمال کیا جائے گا۔ جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کرونا کے مریضوں میں اس کا کیا اثر ہو رہا ہے۔

    بڑی کامیابی ، پاکستانی ماہرین کا کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

    ڈاؤ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سعید قریشی اے آر وائی نیوز پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے

    پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ اب تک ہم نے چوہوں پر اس کے ٹرائل کیے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ زہریلی تو نہیں ہے، اور اس حوالے سے ہماری تحقیق صحیح نکلی ہے۔ یہ ابھی ٹرائل کے مراحل میں ہے اس لیے مارکیٹ میں آنے کے لیے اس میں وقت تو لگے گا، کیوں کہ اس سے قبل ہمیں 5 سے 10 مریضوں میں یہ استعمال کر کے دیکھنا ہوگا۔ پہلے تو ہماری اس پر توجہ ہوگی کہ جن مریضوں کو کو وِڈ نائنٹین ہو چکا ہے ان کے جسم سے اینٹی باڈیز نکالیں، پھر اسے تیار کر کے دوسرے لوگوں کو دی جائے گی۔

    اسسٹنٹ پروفیسر انفیکشس ڈیزیز ڈاؤ یونی ورسٹی ڈاکٹر شوبا لکشمی

    پروگرام میں اسسٹنٹ پروفیسر انفیکشس ڈیزیز ڈاکٹر شوبا لکشمی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا جب وائرل انفیکشن ہوتا ہے تو ایک تو آپ کا اپنا امیون سسٹم خود اسے کلیئر کرنے میں جسم کی مدد کرتا ہے، دوم ہم اس کو بڑھانے کے لیے امیونوگلوبیولن دیتے ہیں، یہ بہت ساری بیماریوں میں پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے، جیسے ایبولا، چکن پاکس وغیرہ۔

    انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کے جو مریض آ رہے ہیں ان کی علامتیں جو ہیں، وہ امیون سسٹم کی ری ایکشن پر مبنی سرگرمی سے متعلق ہیں جس کے لیے ہم مریض کو اندرونی طور پر امیونوگلوبیولن دیتے ہیں تاکہ خون میں جو وائرس گردش کر رہا ہے یہ اسے نیوٹرلائز کر سکے اور بیماری کی شدت کم ہو جائے۔ یہی تصور اس دوا کے پیچھے کارفرما ہے۔

    ڈاکٹر شوبا لکشمی نے کہا یہ ویکیسن نہیں ہے، بلکہ یہ پیسیو امیونائزیشن ہے، ویکسین یہ ہے کہ کسی کو کوئی بیماری نہ ہو اور اسے کوئی ایسا اینٹی جن دیا جائے جس کے بعد جسم خود اس بیماری کو رسپانس کرے۔ کرونا اور فلو کے وائرس الگ ہیں، کرونا پھیپھڑوں پر اثر کرتا ہے، کرونا میں اموات کی شرح فلو سے بہت زیادہ ہے۔ ہم اس پر بھی کام کر رہے ہیں کہ اس گلوبیولن کی کتنی ڈوز دی جائے گی۔

  • بڑی کامیابی ، پاکستانی ماہرین کا کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

    بڑی کامیابی ، پاکستانی ماہرین کا کورونا کا علاج دریافت کرنے کا دعویٰ

    کراچی : پاکستانی ماہرین نے کورونا کےعلاج کیلئے دوا تیار کرنے کا دعویٰ کردیا ، یہ دوا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسے تیار کی گئی، ماہرین نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کورونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ، ڈاؤ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن( آئی وی آئی جی ) تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔

    ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کےلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے، ریسرچ ٹیم سربراہ پروفیسر شوکت علی نے کورونا بحران میں گلوبیولن کی تیاری کو امید کی کرن قرار دیا ہے۔

    وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا صحت یاب مریضوں کے جسم سے حاصل شفاف اینٹی باڈیزسےگلوبیولن تیار کی ،ماہرین نے تیار گلوبیولن کی ٹیسٹنگ اور اینمل سیفٹی ٹرائل بھی کامیابی سے کیا۔

    پروفیسر سعید قریشی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس میں علاج کیلئے تیار کی گئی دوا کو کورونا کے شدید بیمار مریضوں کو استعمال کیا جاسکے گا، اس دوا کا جانوروں پر علاج کا کامیاب تجربہ کرچکے ہیں اور انسانوں پر دوا کے استعمال کی اجازت کیلئے درخواست دیدی ہے، اجازت ملنے کےبعد کمرشل تیاری کی جائے گی اور علاج میں 2سے3ہفتے لگیں گے۔

    ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ٹیم نے محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن( آ ئی وی آئی جی تیار کی ، ٹیم نے ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

    بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوئی، اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔

    یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے ، جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جارہی ہے۔

    ان ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج،انفلوئنزا اور رےبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کےلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

    ریسرچ ٹیم نے کوووڈ نائینٹین کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے، ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز) میں محفوظ کرلیا۔

    یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی نے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے ٹرائل کے لیے اخلاقی اور قانونی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیا ہے، مشترکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی،سید منیب الدین،میر راشد علی،عائشہ علی ،مجتبی خان،فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔

    یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے۔

    خیال رہے امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظور شدہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لو رسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے، اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے۔

    واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کےلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے۔

    یاد رہے ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تھا تاہم ڈاؤ یونیورسٹی نے اس عمل میں سبقت لیتے ہوئے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کر لی ہے۔

    حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت موثر اور مفید ثابت ہوگی۔

    ڈاؤ یونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کرنے والے جینیاتی سیکوینس بھی معلوم کیا اور انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگایا، جو کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں۔

  • ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کے ایڈمٹ کارڈ ردی میں فروخت کردیئے

    ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کے ایڈمٹ کارڈ ردی میں فروخت کردیئے

    کراچی : ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے طالبات کےایڈمٹ کارڈ ردی میں بیچ ڈالے، طالبات کی تصویروں اورفون نمبرز والےکارڈ لوگوں کے ہاتھ لگ گئے، نامعلوم نمبروں سے فون اورمیسجز آنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی انتظامیہ کی سنگین انتظامی غلطی سامنے آگئی، انتظامیہ نے انٹری ٹیسٹ کے ایڈمٹ کارڈز ردی میں فروخت کردیئے، طالبات کو نامعلوم نمبروں سے فون آنا شروع ہوگئے۔

     یونیورسٹی انتظامیہ نے سنگین غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے سال2015 میں جاری کیے جانے والے طالبات کے ایڈمٹ کارڈز ردی میں فروخت کردیئے۔

    ردی میں فروخت کئے گئے ایڈمٹ کارڈز کی پان فروشوں نے پڑیاں بنا ڈالیں، ان کارڈز پردرج ذاتی معلومات میں طالبات کے فون نمبرز بھی موجود ہیں۔

    ایک طالبہ کے ایڈمٹ کارڈ پر ٹھٹھہ میں پان بیچا گیا جس کی اطلاع پان خریدنے والے شخص نے ایک طالبہ کو فون کرکے دی، مذکورہ شخص نے طالبہ کی درخواست پرمزید ایڈمٹ کارڈز کی تصاویر بھی واٹس ایپ پربھیج دیں۔

    ان ایڈمٹ کارڈز پر طالبات کی تصاویر، نام، پتہ اور فون نمبر سب موجود ہے، جس کے بعد طالبہ نے سوشل میڈیا پریونیورسٹی کی غفلت بے نقاب کی۔

    اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وائس چانسلرڈاؤ یونیورسٹی ڈاکٹر سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ردی میں ملنے والے ایڈمٹ کارڈز2015کے ہیں۔

    ایڈمٹ کارڈز کی ردی میں فروخت کی تحقیقات کررہےہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال بعد ایڈمٹ کارڈز خود ضائع کرتے ہیں، انہیں فروخت نہیں جاتا۔