Tag: ڈائنوسار

  • ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟ نئی تحقیق

    ہماری زمین کے سب سے قوی الجثہ جاندار ڈائنا سور تو معدوم ہوچکے ہیں، تاہم مختلف مقامات سے ملنے والے ان کے فوسلز یا رکازیات پر تحقیق جاری رہتی ہے، اب حال ہی میں ایک تحقیق نے ماہرین کے اس خیال کو مزید تقویت دی ہے کہ ڈائناسورز کی ارتقائی شکل پرندوں کی صورت میں موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈائنا سور اور پرندوں کے درمیان جینیاتی تعلق کے معمے میں اہم پیش رفت ہوئی کیونکہ ایک عجیب جاندار کے فوسل کا تجزیہ کرنے پر کچھ نئی تفصیلات ایک تحقیق میں سامنے آئی ہیں۔

    یہ فوسل ایک ایسے عجیب جانور کے ہیں جس کا جسم تو پرندے جیسا تھا مگر کھوپڑی ڈائنا سور کی تھی اور سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ فوسل 12 کروڑ سال پرانے ہیں۔

    ماہرین پہلے ہی کافی حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کے پرندے بنیادی طور پر بڑے گوشت خور ڈائنا سور کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔

    یہ ڈائنا سور زمین پر کروڑوں سال پہلے گھوما کرتے تھے، مگر سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں کہ آخر اس عظیم الجثہ جاندار نے پرندوں کی شکل کیسے اختیار کرلی۔

    اب تک جو فوسل ملے وہ یا تو ڈائنا سورز کے تھے یا پرندوں کے، اس لیے ڈائنا سور کی کھوپڑی والا پرندہ بہت اہم خیال کیا جارہا ہے۔

    اس کا نام Cratonavis zhui رکھا گیا ہے اور یہ عجیب جاندار لمبی دم والے Archaeopteryx اور موجودہ عہد کے پرندوں کے اجداد سمجھے جانے والے Ornithothoraces کے درمیان کے سمجھے جاسکتے ہیں۔

    ان کو عرصے تک پرندوں اور ڈائنا سورز کے درمیان واحد تعلق سمجھا جاتا تھا کیونکہ ان کے پر کسی پرندے جیسے تھے مگر بڑی دم اور کمر کسی ڈائنا سور کی طرح تھی۔

    مگر وقت کے ساتھ زمانہ قدیم کے پرندوں جیسے کئی جانداروں کے فوسل سامنے آئے اور 90 کی دہائی میں سائنسدانوں نے Ornithothoraces کو موجودہ عہد کے پرندوں کا جد امجد قرار دیا۔

    چین کی اکیڈمی آف سائنس نے Cratonavis کا فوسل دریافت کیا تھا جس کی جانچ پڑتال سی ٹی اسکینز سے کی گئی، اس سے انہیں جاندار کی ہڈیوں اور کھوپڑی کی اصل شکل کو دوبارہ بنانے میں مدد ملی۔

    تمام تر تجزیے کے بعد ماہرین نے تصدیق کی کہ اس جاندار کی کھوپڑی ٹی ریکس جیسے ڈائنا سور سے ہو بہو ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ کندھوں کے اسکین سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ جاندار فضا میں خود کو مستحکم رکھ سکتا تھا اور بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ بھی کرسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولوشن میں شائع ہوئے۔

    اگرچہ نتائج سے یہ سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملے گی کہ کس زمانے میں عظیم الجثہ ٹی ریکس نے موجودہ عہد کی مرغی یا دیگر پرندوں کی شکل اختیار کرنا شروع کی مگر اب بھی اس حوالے سے کافی کچھ جاننا باقی ہے۔

  • بالکونی میں ’اڑنے والے ڈائنوسارز‘ دیکھ کر شہری پریشان

    بالکونی میں ’اڑنے والے ڈائنوسارز‘ دیکھ کر شہری پریشان

    نئی دہلی: بھارت میں ایک بالکونی میں بیٹھے پرندوں کو لوگوں نے اڑنے والے ڈائنو سارز سے تشبیہہ دینی شروع کردی۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو ایک بھارتی ڈاکٹر نے شیئر کی ہے جو ان کے پڑوس میں بالکونی پر بیٹھے پرندوں کی ہے۔

    ڈاکٹر راہول نے لکھا کہ صبح بخیر، ان پرندوں کو پہچانیں جو ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر کے گھر کی بالکونی میں بیٹھے ہیں۔

    سوشل میڈیا صارفین نے انہیں معدوم ہوجانے والے ڈائنو سارز سے تشبیہہ دی جو اڑ سکتے تھے۔

    بعض صارفین نے ان کا درست نام بتایا جو گرے ہورنبلز ہے۔

  • سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا، اس شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے شمالی امریکی ملک گرین لینڈ میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا۔

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈائنو سار کے کچھ لاکھ سال بعد ایک شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا، سائنس دانوں نے آخر کار گرین لینڈ میں ہیاواتھا سیارچے کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے کے وقت کا تعین کر لیا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق گرین لینڈ میں جو شہاب ثاقب گرا تھا وہ 58 ملین سال پہلے گرا تھا، یعنی صرف 8 ملین (80 لاکھ) سال بعد جب ایک شہاب ثاقب نے زمین پر ڈائنوسارز کے وجود کو مٹا دیا تھا۔یہ گڑھا 2015 میں دریافت ہوا تھا جو برف کی تہہ کے نیچے دبا ہوا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ تعین کردہ وقت اس دور سے کافی پہلے کا ہے جو اس سے قبل سمجھا جاتا تھا، درست وقت معلوم کرنے کے لیے یونیورسٹی آف کوپین ہیگن کے گلوب انسٹیٹیوٹ اور ڈنمارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ایک ٹیم نے تصادم کی جگہ کی مٹی کے ذرّات پر لیزر شعاؤں کی بمباری کی تھی۔

    یہ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جس میں لیزر شعاعوں سے مٹی کو اس وقت تک گرم کیا گیا جب تک اس سے آرگن گیس خارج ہونا شروع نہیں ہوگئی، اور پھر اس کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے گڑھے کے 5.8 کروڑ سال پُرانے ہونے کا تعین کیا۔

    سوئیڈش میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جب یورینیم – لیڈ ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے چٹان کے زِکرون کرسٹل کا تجزیہ کیا گیا تو اس سے بھی یہی دور سامنے آیا۔ گلوب انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نِکولج کروگ لارسن کا کہنا تھا کہ گڑھے کی عمر کا علم ہونا بہت شان دار ہے، ہم اس کی عمر کا تعین کرنے میں 7 سال سے محنت کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا تو اس تصادم کے نتیجے میں ایٹم بم کی نسبت کئی لاکھ گُنا زیادہ توانائی خارج ہوئی تھی اور 19 میل چوڑا اور 0.6 میل گہرا گڑھا پڑ گیا تھا۔

  • انڈے سے نکلنے کے لیے تیار ڈائنوسار کا کروڑوں سال قدیم فوسل دریافت

    انڈے سے نکلنے کے لیے تیار ڈائنوسار کا کروڑوں سال قدیم فوسل دریافت

    بیجنگ: چین میں چھ کروڑ 60 لاکھ سال قدیم انڈے میں موجود ڈائنوسار کا فوسل دریافت ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے اعلان کیا ہے کہ کم از کم 66 ملین سال قدیم ایک شان دار طور پر محفوظ شدہ ڈائنوسار ایمبریو دریافت ہوا ہے جو مرغی کی طرح اپنے انڈے سے نکلنے کی تیاری کر رہا تھا۔

    یہ دریافت چین کے شہر گینژو میں ہوئی ہے، ڈائنوسار کا بچہ انڈے سے نکلنے کے لیے تیار تھا، لیکن شاید دنیا میں آنے کی اس کی قسمت نہیں تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے انھیں ڈائنوسارز اور آج کے پرندوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا، یہ ایک ایسا فوسل ہے جسے پرندوں میں انڈے سے نکلنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے، یہ ایک بغیر دانتوں والا تھیروپوڈ ہے، جسے بے بی ینگلیانگ کا نام دیا گیا ہے۔

    برمنگھم یونیورسٹی کے محقق فیون واسیم ما نے منگل کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تاریخ میں پائے جانے والے بہترین ڈائنوسار ایمبریو میں سے ایک ہے۔

    انڈے میں بے بی ینگلیانگ کی پوزیشن یوں تھی کہ اس کا سر اس کے جسم کے نیچے دبا پڑا تھا، دونوں اطراف میں پاؤں پڑے تھے، اور پیٹھ مڑی ہوئی تھی، یہ ایسی پوزیشن ہے جو اس سے قبل ڈائنوسار میں نظر نہیں آئی تھی، تاہم یہ جدید پرندوں کی طرح کی پوزیشن ہے۔

    معدوم ہو چکی حیاتیات کے ماہر پروفیسر اسٹیو بروسیٹ نے ٹوئٹ میں کہا کہ یہ سب سے حیران کُن ڈائنوسار فوسلز میں سے ایک ہے، اگر بے بی ینگلیانگ پرورش پا جاتا تو دو سے تین میٹر لمبا ہوتا اور ممکنہ طور پر پودے کھاتا۔

    بے بی ینگلیانگ 10.6 انچ لمبا ہے اور یہ 6.7 انچ لمبے انڈے کے اندر موجود ہے، اسے چین کے ینگلیانگ سٹون نیچرل ہسٹری میوزیم میں رکھا گیا ہے، ڈائنوسار کے جسم کا کچھ حصہ اب بھی پتھر سے ڈھکا ہوا ہے اور اب جدید سکیننگ ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا مکمل ڈھانچا بنایا جائے گا۔

  • برازیل: ڈائنوسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت

    برازیل: ڈائنوسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت

    ساؤپالو: برازیل میں ڈائناسار کی 7 کروڑ سال قدیم نئی نسل دریافت ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک چونکا دینے والی دریافت میں سائنس دانوں نے حال ہی میں برازیل میں ڈائنوسار کی ایک نئی نسل دریافت کی ہے، جو غالباً 70 ملین سال پہلے امریکا کے جنوب مشرقی حصے میں گھومتی تھی۔

    ماہرین رکازیات کی ٹیم نے برازیل کے علاقے مونٹے آلٹو میں دریافت شدہ اس نئی نسل کے فوسلز کو کوروپی ایٹاٹا باقیات کا نام دیا ہے، یہ مقام ڈائنوسار کی دریافتوں کے لیے اب تک کے سب سے بھرپور علاقوں میں سے ایک رہا ہے۔

    ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فابیانو وِڈائی نے میڈیا کو بتایا کہ کوروپی ایٹاٹا نسل دراصل ٹیٹراپوڈ ڈائنوسار کی نمائندگی کرتی ہے، اس نئی نسل کو جرنل آف ساؤتھ امریکن ارتھ سائنسز میں ابیلیسورِڈ ڈائنوسار کی ایک قِسم کہا گیا ہے، جو دو پایہ شکاریوں کا ایک گروہ ہے، جو قدیم جنوبی سپر براعظم گونڈوان پر پروان چڑھا تھا۔

    ڈائنوسار کا شکار کرنے والا مینڈک

    جو باقیات دریافت کی گئی ہیں، انھیں دیکھ کر ماہرین رکازیات کا کہنا ہے کہ یہ ڈائنوسار 16 فٹ لمبا تھا۔

    محققین نے ان باقیات میں ریڑھ کی ہڈی اور اس سے جڑے نچلے حصے کے ڈھانچے کا تجزیہ کیا، اس کے پٹھوں کے منسلکات اور ہڈیوں کی اناٹومی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا جسم دوڑنے کے لیے اچھی طرح سے ڈھالا گیا تھا۔

    رپورٹس کے مطابق کوروپی ایٹاٹا کی ان باقیات کا ایک ماڈل مونٹے آلٹو میں واقع رکازیات کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا جائے گا۔

  • ڈائنوسار کا شکار کرنے والا مینڈک

    ڈائنوسار کا شکار کرنے والا مینڈک

    ماہرین رکازیات نے ایسے مینڈک کے بارے میں بتایا ہے جو زمین پر اب تک دستیاب علم کے مطابق سب سے بڑے جان دار ڈائنوسار کا بھی شکار کرتا ہے۔

    2008 میں مڈغاسکر میں ایک بہت بڑے مینڈک کے فوسلز دریافت ہوئے تھے، ماہرین رکازیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے ان فوسلز کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا ہے کہ اس کے جبڑے غیر معمولی طور پر طاقت ور تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مینڈک اپنے نوکیلے دانتوں کی مدد سے ڈائنوسار کی کھال تک پھاڑ سکتا تھا، اور شاید چھوٹے ڈائنوسارز کا شکار بھی کیا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ مینڈک آج سے 7 کروڑ سال پہلے، ڈائنوسار کے زمانے میں موجود تھا، جب کہ جسامت میں یہ بہت بڑا تھا، یہ دریافت امریکی، برطانوی اور آسٹریلوی سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی ہے، جس کی تفصیلات ’سائنٹفک رپورٹس‘ نامی تحقیقی مجلے میں آن لائن شائع ہو چکی ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق ’بیلزیبوفو‘ (Beelzebufo ampinga) نامی یہ معدوم مینڈک اپنی ساخت اور خدوخال کے اعتبار سے موجودہ زمانے کے ’سیراٹوفرائس‘ (Ceratophrys) قسم کے مینڈکوں جیسا تھا، لیکن اپنی 41 سینٹی میٹر لمبائی اور تقریباً 10 پونڈ وزن کے ساتھ یہ ان سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔

    یہ جاننے کے لیے کہ بیلزیبوفو مینڈکوں کے جبڑے کتنے طاقت ور تھے، ماہرین نے سیراٹوفرائس مینڈکوں کا جائزہ لیا، جس سے پتا چلا کہ 4.5 سینٹی میٹر جسامت والے سیراٹوفرائس مینڈک اپنے شکار پر 6.6 پاؤنڈ جتنی قوت لگا سکتے ہیں۔

    موجودہ مینڈکوں کے حساب سے یہ قوت اگرچہ بہت زیادہ ہے لیکن جب بیلزیبوفو مینڈک کے جبڑوں کی 15.4 سینٹی میٹر چوڑائی اور جسم کی 41 سینٹی میٹر لمبائی کو مد نظر رکھتے ہوئے حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ صرف جبڑوں کی مدد سے اپنے شکار پر 494 پونڈ جتنی زبردست قوت لگا سکتے تھے۔

    ماہرین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوکیلے اور مضبوط دانتوں کی بدولت یہ مینڈک اپنے شکار کی کھال پھاڑ سکتے تھے، جب کہ انڈے سے نکلنے والے نوزائیدہ ڈائنوسار بھی ان کی غذا میں شامل رہے ہوں گے، اس لیے انھیں Devil Frog کہا گیا ہے۔

  • ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ہوائی جہاز جتنے پرندے کی باقیات دریافت

    ماہرین نے ڈائنوسار کے زمانے میں موجود سب سے بڑے پرندے کی رکازیات دریافت کرلیں، یہ پرندہ ایک ہوائی جہاز جتنا ہے۔

    یہ پٹیرو سارس (ڈائنو سار کے زمانے کے وہ رینگنے والے جانوار جو اڑ سکتے تھے) کی نئی قسم ہے جو اب سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی۔

    اس سے قبل ’کوئٹزالکوٹلس‘ کو اب تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا پرندہ سمجھا جاتا تھا، تاہم اب اس نئی دریافت نے ماہرین کو حیران کردیا ہے۔

    کرائیو ڈریکن بوریس نامی یہ پرندہ آج کے ہوائی جہاز جتنی جسامت رکھتا ہے، اس کے پروں کا پھیلاؤ 10 میٹر تھا جبکہ اس کا وزن ڈھائی سو کلو تھا۔

    7 کروڑ 70 لاکھ سال قبل فضاؤں میں اڑنے والا یہ پرندہ گوشت خور تھا اور یہ چھپکلیاں، چھوٹے ممالیہ جانور حتیٰ کہ ڈائنو سار کے بچے بھی کھا لیتا تھا۔

    اس پرندے کی دریافت 30 سال قبل البرٹا کینیڈا میں ہوئی تھی تاہم اس وقت اس کی درجہ بندی غلط کی گئی تھی۔ اب اس کی بغور جانچ کے بعد علم ہوسکا ہے کہ یہ قدیم پرندوں کی نئی قسم ہے جو آج سے قبل سامنے نہیں آئی۔

    لندن کی کوئین میری یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق پرندہ اپنی بڑی جسامت کی وجہ سے اس قابل تھا کہ وہ سمندر پار دور دراز علاقوں میں بھی جاسکتا تھا، تاہم اس نے مخصوص جگہوں کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔

    ماہرین نے اس دریافت کو نہایت خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح کے دوسرے جانوروں کی دریافت بھی سامنے آسکتی ہے۔

  • کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    ہم جانتے ہیں کہ کروڑوں سال قبل ہماری زمین پر قوی الجثہ ڈائنو سارز رہا کرتے تھے، پھر ایک شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے نتیجے میں زمین پر ہولناک تباہی رونما ہوئی جس میں ڈائنو سار کی نسل بھی ختم ہوگئی۔

    لیکن کچھ ڈائنو سارز آج بھی ہماری زمین پر موجود ہیں، گو کہ ان کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اور وہ خاصی حد تک ہمارے لیے بے ضرر بن چکے ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کی بدلی ہوئی شکل کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے آسمانوں پر پرواز کرنے والے پرندے ہیں۔

    خیال رہے کہ ہماری زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    مزید پڑھیں: کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    آخری معدومی اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنو سارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    یہ معدومی اس وقت رونما ہوئی جب 10 سے 15 کلومیٹر قطر کا ایک شہاب ثاقب زمین سے آٹکریا اور پوری زمین درہم برہم ہوگئی۔


    ڈائنو سار سکڑ کر پرندے بن گئے

    شہاب ثاقب کے زمین سے اس تصادم کے بعد ڈائنو سار کی ایک نسل ایسی بھی تھی جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئی۔

    جریدہ ’کرنٹ بائیولوجی‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق وہ ڈائنو سار جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، وہ کروڑوں سال کے ارتقا کے بعد پرندے بن گئے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ڈائنو سار کی یہ نسل تھیرو پوڈ تھی جو زندہ رہی اور اس عرصے کے دوران مسلسل سکڑتی رہی۔ اس نسل کے ڈائنو ساروں میں ٹی ریکس اور ویلوسی ریپٹر جیسے معروف ڈائنوسار شامل ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کے ڈھانچے 4 گنا زیادہ تیزی سے تبدیل ہوئے جس سے انہیں اپنی نسل کی بقا میں مدد ملی۔

    ڈائنو ساروں اور قدیم پرندوں کی 120 نسلوں کے جسموں کی 1500 سے زیادہ خصوصیات کے مطالعے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ زندہ رہ جانے والے ڈائنو ساروں کا جسم سکڑتا گیا، ان کے جسم پر بال اور پر اگ آئے اور سینے پر وہ مخصوص ہڈی بھی ابھر آئی جو صرف پرندوں کے سینوں پر پائی جاتی ہے۔

    جسم پر اگنے والے بالوں اور پروں نے پہلے جسم کو گرم رکھنے اور بعد ازاں اڑنے میں مدد فراہم کی۔ یہ پورا ارتقائی عمل کئی کروڑ سال میں مکمل ہوا۔

    مزید پڑھیں: ڈائنو سار کے خاندان کی آخری زندہ مخلوق

    ماہرین اس عمل کو ان ڈائنو سارز کی ارتقائی لچک کا نام دیتے ہیں اور اسی لچک نے ان ڈائنو سارز کو ختم ہونے سے بچایا۔

    اس کے برعکس وہ ڈائنو سار جو اس لچک سے محروم تھے ان کا خاتمہ ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ہماری زمین پر موجود تمام پرندوں کے آباؤ اجداد ڈائنو سارز ہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آسٹریلیا میں سر کٹے ڈائنوسارز

    آسٹریلیا میں سر کٹے ڈائنوسارز

    سڈنی: آسٹریلیا کے نیشنل میوزیم میں اس وقت انتظامیہ اور عام افراد میں سراسیمگی پھیل گئی جب وہاں موجود ڈائنوسارز کے 3 مجسموں کے سر کٹے ہوئے پائے گئے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات چند نقب زنوں نے میوزیم کے اندر گھسنے کی کوشش میں داخلی باڑھ کو کاٹ دیا، اس کے بعد نہایت صفائی سے ان مجسموں کا سر کاٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

    یہ مجسمے میوزیم کے مرکزی دروازے کے ساتھ داخلی حصے میں نصب تھے۔

    انتظامیہ کے مطابق ڈائنوسارز کو اس بری حالت میں سب سے پہلے وہاں آنے والے بچوں نے دیکھا جس کے بعد وہ خوفزدہ ہوگئے۔ وہ اپنے والدین سے پوچھنے لگے کہ ان ڈائنوسارز کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

    پولیس کے مطابق اس میوزیم سے سنہ 2013 میں بھی ڈائنوسار کا ایک مجسمہ چوری ہوچکا ہے جو بعد ازاں قریب میں رہائش پذیر ایک شخص کے گھر سے برآمد ہوا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔