Tag: ڈائنو سار

  • ویڈیو : ہانگ کانگ میں پہلے دیو قامت ڈائنو سار کے باقیات کی حیرت انگیز نمائش

    ویڈیو : ہانگ کانگ میں پہلے دیو قامت ڈائنو سار کے باقیات کی حیرت انگیز نمائش

    ہانگ کانگ : چین کے ہیریٹیج ڈسکوری سینٹر میں پہلے دیو قامت ڈائنو سار کی باقیات (فوسلز) نمائش کے لیے پیش کر دی گئیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کے شہر ہانگ کانگ میں گزشتہ روز پہلے دریافت ہونے والے ڈائنو سار کی یہ باقیات (فوسلز) غالباً کسی بہت بڑے ڈائنو سار کی ہیں۔

    ایک چھوٹے اور غیرآباد جزیرے پر پائے جانے والی ڈائنو سار کی یہ باقیات عوامی نمائش کیلیے پیش کی گئیں۔ یہ دریافت مالیاتی مرکز میں پالیوا ایکولوجی پر محققین کے لیے نئے شواہد فراہم کرتی ہے۔

    dinosaur bone

    اس حوالے سے ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ یہ فوسلز اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ تقریباً 14 کروڑ 50 لاکھ سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل کا زمانہ ہے۔

    حکام کے مطابق مزید تحقیق سے ڈائنو سار کی خاص اقسام کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ یہ بہت بڑی ریڑھ کی ہڈی والے جاندار تھے۔

    Hong Kong

    ڈائنو سار کی یہ باقیات (فوسلز) پورٹ آئس لینڈ پر پائی گئی ہیں جو ہانگ کانگ کے شمال مشرقی علاقے میں واقع ہے اور اپنی سرخ چٹانی تشکیل کے لیے مشہور ہے۔

    ہانگ کانگ کے ایگریکلچر، فشریز اور کنزرویشن ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین نے رواں سال مارچ میں بتایا تھا کہ پورٹ آئس لینڈ کی تہہ دار چٹانیں فوسلز پر مشتمل ہو سکتی ہیں۔

    dinosaur go on display

    چین کے انسٹیٹیوٹ آف ورٹیبریٹ پیلیونٹولوجی اینڈ پیلیوانتھروپولوجی (آئی وی پی پی ) نے اس ہفتے مزید تحقیق کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

    ہانگ کانگ کی چائنیز یونیورسٹی کے اسکول آف لائف سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر مائیکل پٹ مین کا کہنا ہے کہ چین دنیا کے ان چار اہم ممالک میں شامل ہے جہاں ارجنٹائن، کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ ساتھ ڈائنو سار فوسلز کی تلاش اور ان پر تحقیق کی جاتی ہے۔

    large dinosaur

    پروفیسر مائیکل پٹ مین کے مطابق یہ انتہائی دلچسپ دریافت ہانگ کانگ کے ڈائنو سار پر تحقیق کے حوالے سے مضبوط ریکارڈ اور معلومات فراہم کرتی ہے، مجھے امید ہے کہ یہ ہماری کمیونٹی میں سائنسی تحقیق اور قدرت کی تخلیقات میں مزید دلچسپی پیدا کرے گی اور قابل ذکر سائنسی نتائج کا سبب بنے گی۔

    ہانگ کانگ کے کولون پارک میں واقع ہیریٹیج ڈسکوری سینٹر میں عوام کی بہت بڑی تعداد فوسلز کی جھلک دیکھنے کے لیے پہنچی۔

    dinosaur fossils

    اس موقع پر وہاں موجود 66 سالہ شہری چونگ گوٹ نے کہا کہ یہ نمائش انتہائی حیران کن ہے کیونکہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہانگ کانگ میں ڈائنو سار فوسلز بھی ہوں گے۔

  • بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارت میں ڈائنو سار کا نایاب ترین انڈہ دریافت

    بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ڈائنو سار کا نہایت نایاب انڈہ دریافت کیا گیا جس کی خاص بات یہ ہے کہ انڈے کے اندر انڈہ موجود ہے۔

    بھارت کی دہلی یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے کی جانے والی یہ دریافت نہایت نایاب اور اہم ہے اور آج سے پہلے اس نوعیت کی دریافت نہیں کی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انڈے کی مدد سے ڈائنو سارز کے تولیدی نظام کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی، یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ آیا ان کا تولیدی نظام کچھوؤں اور چھپکلیوں جیسا ہے یا مگر مچھ اور پرندوں جیسا۔

    دوسری جانب چند روز قبل ڈائنو سارز کی انتہائی نایاب قسم اور ٹرائنو سارز ریکس سے بھی بڑے سپائنو سارز کے کچھ ڈھانچے برطانوی علاقے آئزل آف وائٹ سے دریافت ہوئے ہیں۔

    مگر مچھ سے ملتے جلتے ڈھانچے جیسے لیکن حجم میں انتہائی بڑے سپائنو سارز ڈائنو سارز سے کئی گنا بڑے اور طاقت ور ہوتے ہیں۔

    سائنسی جریدے پیئر جے لائف اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ملنے والے یہ نئے ڈھانچے 125 ملین برس پرانے ہیں۔

    برطانوی یونیورسٹی آف ساؤتھ ایمپٹن سے وابستہ اور اس مطالعاتی ٹیم کے قائد کرِس بیکر کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا جانور تھا جس کی قامت 10 میٹر سے بھی زیادہ تھی، ہم نے اس کی جہتیں ناپی ہیں اور ممکن ہے کہ یورپ میں دریافت ہونے والے یہ آج تک کا سب سے بڑا شکاری جانور ہو۔

  • سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    سنہ 2025 تک ڈائنو سار واپس آجائیں گے؟

    ڈائنو سارز کا زمین پر ہونا خاصا خوفناک خیال ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈائنو سار زمین پر واپس بھی آسکتے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جراسک پارک سے متاثر سائنس دان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں 2025 تک دنیا میں ڈائنو سار کی واپسی ممکن ہے۔

    سال 1993 کی مشہورِ زمانہ فلم جراسک پارک اب تک کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے، جس کی کہانی کروڑوں سال پہلے ختم ہونے والے ڈائنو سار کی دوبارہ تخلیق پر مبنی ہے۔

    فلم میں ایک ماہر حیاتیات وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر تقریباً مکمل تھیم پارک کا دورہ کرتا ہے جہاں اسے کچھ بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے، لیکن بجلی کی خرابی کے باعث پارک کے کلون شدہ ڈائنو سار چھوٹ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ انتہائی تباہ کن نکلتا ہے۔

    اس سلسلے کی پانچ بلاک بسٹرز کے بعد چھٹی اور آخری قسط جراسک ورلڈ ڈومینین 10 جون کو ریلیز ہونے والی ہے۔

    ایک ماہر حیاتیات جن سے جراسک ورلڈ کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ نے مشورہ کیا اور فرنچائز کے تکنیکی مشیر کے طور پر خدمات حاصل کیں، کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر یہ کہانیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

    سال 2015 میں ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹر جیک ہورنر نے ان معدوم ہوچکی مخلوقات کی ممکنہ واپسی کے بارے میں تبصرے کیے۔

    ہارنر کے کام نے ڈاکٹر ایلن گرانٹ کو ہٹ فلم سیریز بنانے کے لیے متاثر کیا، اب انہوں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی 2025 تک ڈائنو سار کو وجود میں لانے کے قابل ہو سکتی ہے۔

    ایسا کرنے کے لیے، انہوں نے مرغیوں (ڈائنوسارز کے زندہ آباؤ اجداد) میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے ان کی آبائی خصلتوں کو دوبارہ فعال کرنے کا منصوبہ بنایا۔

    دوسرے لفظوں میں کہیں تو، انہیں اتنا ہی خوفناک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ جراسک پارک میں ڈائنو سار دکھائے گئے ہیں۔

    انہوں نے وضاحت کی کہ بلاشبہ یہ پرندے ڈائنو سار ہیں، لہٰذا ہمیں صرف انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ زیادہ ہی ڈائنوسار کی طرح نظر آئیں۔ ڈائنوسار کی دم، بازو اور ہاتھ تھے، اور ارتقا کے ذریعے وہ اپنی دم کھو چکے ہیں، اور ان کے بازو اور ہاتھ پروں میں بدل گئے ہیں۔

    ہارنر نے مزید کہا کہ دراصل، پروں اور ہاتھ کو دوبارہ بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، چکنو سارس حقیقت کا روپ دھارنے کے راستے پر ہے۔ دراصل دم دوبارہ تخلیق کرنا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، ہم حال ہی میں کچھ چیزیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نے ہمیں امید دلائی ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پرندے زندہ ڈائنو سار ہیں۔

  • ڈائنو سار کے زمانے سے موجود مچھلی

    ڈائنو سار کے زمانے سے موجود مچھلی

    ڈائنو سار کے زمانے سے تاحال زمین پر موجود ایک مچھلی نے ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔ یہ مچھلی 40 کروڑ سال قبل زمین پر نمودار ہوئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ڈائنوسار کے عہد سے اب تک زمین پر موجود مچھلی سی لا کینتھ کے بارے میں ایک زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے معدوم ہوچکی ہے۔

    مگر 1938 میں اسے جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقے میں غیر متوقع طور پر زندہ دریافت کیا گیا اور اب اس نے ایک بار پھر سائنسدانوں کو حیران کردیا ہے۔

    سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق میں بتایا کہ یہ بڑی اور گہرے سمندر میں رہنے والی مچھلی توقعات سے 5 گنا زیادہ وقت تک یعنی لگ بھگ ایک صدی تک زندہ رہتی ہے، اسی طرح دنیا کے کسی بھی جاندار کے مقابلے میں اس مچھلی کے حمل کی مدت 5 سال تک ہوتی ہے۔

    اس کی دو میں سے ایک قسم پر تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے یہ بھی جانا کہ اس مچھلی کی نشوونما کسی بھی مچھلی کے مقابلے میں سست روی سے ہوتی ہے اور جنسی طور پر باشعور ہونے کی عمر 55 سال ہے۔

    فرانس کے آئی فریمر انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مچھلی ممکنہ طور پر پہلی بار 40 کروڑ سال پہلے زمین پر نمودار ہوئی تھی۔ فوسل ریکارڈ کے مطابق عرصے تک خیال کیا جاتا تھا کہ اس مچھلی کی نسل کا خاتمہ ڈائنو سار کے ساتھ ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے ہوگیا تھا۔

    تاہم اسے زندہ دریافت کرنے کے بعد اسے لیونگ فوسل قرار دیا گیا تھا، اس کے فنز کی ساخت کے باعث اسے لوب فنڈ مچھلی کہا جاتا ہے جو دیگر مچھلیوں سے مختلف ہے۔

    یہ مچھلی گہرے سمندر میں 800 میٹر گہرائی میں پائی جاتی ہے جبکہ دن کے وقت یہ آتش فشانی غاروں میں اکیلے یا چھوٹے گروپس کے ساتھ قیام کرتی ہے۔ اس مچھلی کی لمبائی 7 فٹ جبکہ وزن 110 کلوگرام تک ہوسکتا ہے۔

    اس وقت اس کی دونوں اقسام کے معدم ہونے کا خطرہ ہے جن میں سے ایک افریقہ اور ایک انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے اور تحقیق میں افریقن قسم پر کام کیا گیا تھا۔

  • کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    کیا 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار چاند تک پہنچ گئے تھے؟

    سنہ 1967 میں نیل آرم اسٹرونگ چاند پر قدم رکھنے والا پہلا شخص تھا لیکن حال ہی میں پیش کیے گئے ایک مفروضے کے مطابق آج سے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سار بھی چاند تک پہنچ چکے تھے۔

    ایک ایوارڈ یافتہ امریکی سائنس جرنلسٹ پیٹر برینن کی سنہ 2017 میں شائع شدہ کتاب دی اینڈز آف دا ورلڈ کا ایک اقتباس، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بے حد وائرل ہورہا ہے۔

    اس اقتباس میں کہا گیا ہے کہ اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل جب ایک شہاب ثاقب زمین سے پوری قوت سے ٹکرایا (جس نے ڈائنو سارز کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا)، تو زمین میں ایک گہرا گڑھا پڑا اور یہاں سے اٹھنے والا ملبہ پوری قوت سے فضا میں اتنی دور تک گیا، کہ چاند تک پہنچ گیا۔

    کتاب میں شامل ایک جغرافیائی سائنسدان کی رائے کے مطابق اس ملبے میں ممکنہ طور پر ڈائنو سارز کے جسم کی باقیات یا ہڈیاں بھی شامل تھیں جو شہاب ثاقب کے ٹکراتے ہی جل کر بھسم ہوگئے تھے۔

    پیٹر نے لکھا ہے کہ زمین سے ٹکرانے والا یہ شہاب ثاقب زمین پر موجود بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کے برابر تھا، اور یہ گولی کی رفتار سے 20 گنا زیادہ تیزی سے زمین سے ٹکرایا۔

    ماہرین کے مطابق اس شہاب ثاقب کے ٹکراؤ کے بعد زمین پر 120 میل طویل گڑھا پڑ گیا جبکہ کئی سو میل تک موجود جاندار لمحوں میں جل کر خاک ہوگئے۔

    اس تصادم سے گرد و غبار کا جو طوفان اٹھا اس نے زمین کو ڈھانپ لیا اور سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا، جس کے نتیجے میں زمین پر طویل اور شدید موسم سرما شروع ہوگیا۔

    یہ وہی موسم سرما ہے جو زمین پر کسی بھی ممکنہ ایٹمی / جوہری جنگ کے بعد رونما ہوسکتا ہے لہٰذا اسے جوہری سرما کا نام دیا جاتا ہے۔

    اس دوران زمین پر تیزابی بارشیں بھی ہوتی رہیں اور ان تمام عوامل کے نتیجے میں زمین پر موجود 75 فیصد زندگی یا جاندار ختم ہوگئے۔

    ڈائنو سارز کی ہڈیوں کے چاند تک پہنچ جانے کے مفروضے کے کوئی سائنسی ثبوت تو نہیں تاہم اسے نہایت دلچسپی سے پڑھا جارہا ہے۔

  • بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    بھارت: "ڈائنو سار کے انڈوں” کی وائرل تصاویر، حقیقت کیا ہے؟

    نئی دہلی: بھارت میں سوشل میڈیا پر وائرل "ڈائنو سار کے انڈوں "کی تصاویر اور کہانیوں کی حقیقت سامنے آگئی، ماہرین نے مذکورہ شے کو ایک قدیم آبی جاندار کی رکازیات قرار دے دیا۔

    بھارتی ریاست تامل ناڈو میں دریافت ہونے والی مذکورہ شے کو ڈائنو سار کے انڈے کہا جارہا تھا اور اس کی تصاویر اور اس سے جڑی مختلف کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل تھیں۔

    بیضوی شکل کی یہ شے تامل ناڈو کے ایک قصبے میں زیر زمین ٹینک سے برآمد ہوئی تھی۔ بعد ازاں چند مقامی ماہرین ارضیات اور آثار قدیمہ نے مذکورہ جگہ کا دورہ کیا۔

    ماہرین نے اس بیضوی شے کو ایک قدیم آبی جاندار امونائٹ کی باقیات قرار دے دیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ امونائٹ کی باقیات اکثر جگہوں پر جمع ہوجاتی ہے اور اس کے بننے کی وجہ کسی مقام پر اس کا لاکھوں سال تک موجود رہنا ہے۔

    اسے اکثر ڈائنو سار کے انڈے سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ آبی جانور امونائٹ 41 کروڑ سال قبل ہماری زمین پر موجود ہوا کرتا تھا۔

    اسی مقام سے ماہرین نے ایک قدیم درخت کی رکازیات بھی دریافت کیں، ان رکازیات کی لمبائی 7 فٹ تھی اور ماہرین کے مطابق درخت اپنی اصل حالت میں 20 فٹ تک اونچا رہا ہوگا۔

    اس سے قبل بھی ریاست اتر کھنڈ میں ایک بندر نما جاندار کی 1 کروڑ 30 لاکھ سال قدیم رکازیات دریافت ہوئی تھیں۔

  • کیا آپ ڈائنوسار کا سر کھانا چاہیں گے؟

    کیا آپ ڈائنوسار کا سر کھانا چاہیں گے؟

    کیا آپ زمین سے معدوم ہوجانے والی نسل ڈائنو سار کا سر کھانا چاہتے ہیں؟

    سننے میں تو یہ بہت عجیب سا لگتا ہے تاہم یہ بہت آسان ہے۔

    ڈائنو سار کے سر جنہیں لوگ بہت شوق سے کھا رہے ہیں دراصل کیک ہیں جنہیں ایک چینی نژاد امریکی شیف نے تیار کیا ہے۔

    مے لن میجا نامی یہ شیف نہ صرف ڈائنو سار بلکہ دیگر جانوروں کی شکل کے کیکس بھی بناتی ہے جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے ہیں۔

    ان کیکس کو بغیر کسی سانچے کے ہاتھ سے بنایا جاتا ہے۔

    سب سے بڑا کیک ڈائنو سار کے سر جیسا ہے جس کی تیاری میں 60 گھنٹے لگتے ہیں۔

    کیا آپ یہ کیک کھانا چاہیں گے؟

  • زمین کے سب سے بڑے ڈائنو سار کا پاؤں دریافت

    زمین کے سب سے بڑے ڈائنو سار کا پاؤں دریافت

    امریکی ریاست وومنگ میں ایک بڑے ڈائنو سار کا پاؤں دریافت کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا ڈائنو سار تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈائنو سار بریچیو سارز کی نسل سے تعلق رکھتا تھا اور سبزی خور ہوا کرتا تھا۔ یہ ہماری زمین پر 15 کروڑ سال قبل موجود ہوتا تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ کو ملنے والے پاؤں کا پنجہ 3 فٹ لمبا جبکہ اس کی ران کی ہڈی 6.8 فٹ طویل ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک سینکڑوں ڈائنو سارز کے جسم کے اعضا ملے ہیں اور یہ اب تک ملنے والے تمام اعضا میں سب سے بڑا عضو ہے۔

    ڈائنو سارز پر کی جانے والی تحقیق میں شامل پروفیسر انتھونی میلٹیز کا کہنا ہے کہ میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ سب سے طویل القامت ڈائنو سار کون سا ہوسکتا ہے، اور اب مجھے اس کا جواب مل گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر اس سے زیادہ بڑے جانور بھی موجود ہیں لیکن یہ سب سے بڑے جانور کی موجودگی کا پہلا مصدقہ ثبوت ہے۔

    مزید پڑھیں: 5 سال بعد ہماری زمین پر ڈائنو سار بھی ہوں گے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 5 سال بعد ہماری زمین پر ڈائنو سار بھی ہوں گے

    5 سال بعد ہماری زمین پر ڈائنو سار بھی ہوں گے

    ڈائنو سار ہماری زمین پر ساڑھے 6 کروڑ سال قبل پائے جانے والے جاندار تھے جو معدوم ہوگئے۔

    گو کہ اس وقت زمین ان کے رہنے کے لیے نہایت موزوں مقام تھا تاہم اب اگر ڈائنو سار دوبارہ آ موجود ہوں تو عمارتوں سے بھرے ہمارے شہر ان کا وزن نہیں سہار سکیں گے اور یوں لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن جائیں گے۔

    ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگلے 5 سے 10 سال میں ڈائنو سار پھر سے ہماری زمین پر آسکتے ہیں اور اس کے لیے ماہرین کی کوششیں جاری ہیں۔

    ماہر رکازیات اور جینیات پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیک ہارنر کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر موجود جانوروں کی جینیات میں کچھ تبدیلیاں کردی جائیں تو صرف ڈائنو سار ہی کیا زمین سے معدوم ہوجانے والے تمام جاندار پھر سے پیدا ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر جیک نے جراسک پارک سیریز کی تمام فلموں میں کام کرنے والی ٹیم کی بھی مدد کی ہے جس سے وہ خاصی حد تک درست ڈائنو سار پردہ اسکرین پر پیش کرسکے۔

    ان کی ٹیم کچھ عرصے قبل ایسا ہی ایک کامیاب تجربہ بھی کرچکی ہے جس کے بعد برفانی دور کے معدوم ہوجانے والے میمتھ کے پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔

    میمتھ

    ہاتھی سے ملتا جلتا یہ اونی جانور برفانی دور کا تھا اور ہاتھی سے ملتے جلتے نوکیلے دانت بھی رکھتا تھا تاہم ان دانتوں کا حجم موجودہ دور کے ہاتھی سے بھی بڑا تھا۔

    ٹیم نے رکازیات سے ملنے والے اس جانور کے جینز کو ہاتھی میں منتقل کیا جس کے بعد اس جانور کی پیدائش کے امکانات پیدا ہوگئے۔

    ڈاکٹر جیک کے مطابق زمین پر اس وقت موجود پرندے دراصل ڈائنو سار ہی ہیں چنانچہ یہ کام زیادہ مشکل نہیں، بس ان کے ارتقا کا پہیہ پیچھے چلانا ہوگا۔

    ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے جینز میں تبدیلی سے یہ باآسانی پھر سے ڈائنو سار بن جائیں گے۔

    ڈاکٹر جیک اپنے اس دعوے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اس پر کام بھی شروع کرچکے ہیں۔

    ان کی ٹیم نے کچھ عرصہ قبل ایک پرندے کے انڈے میں جینیاتی تبدیلیاں کیں جس کے انڈے سے نکلنے والے پرندہ چونچ کے بجائے ڈائنو سار سے ملتا جلتا منہ رکھتا تھا۔

    ڈاکٹر جیک اپنے اس پروجیکٹ میں کتنے کامیاب ہوں گے، اور آیا ان کے منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا یا تعریف ملے گی، یہ وقت ہی بتا سکے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چین میں اڑنے والے ڈائنوسار کی باقیات دریافت

    چین میں اڑنے والے ڈائنوسار کی باقیات دریافت

    بیجنگ: وسطی چین کے ایک علاقے سے قوی الجثہ پرندوں سے مشابہت رکھنے والے ڈائنو سارز کی نئی قسم دریافت کی گئی ہے۔ ان ڈائنو سارز کے پر بھی موجود ہیں۔

    ماہرین کو ان ڈائنو سارز کی زیر رہائش گھونسلوں کچھ ٹکڑے بھی ملے ہیں جو کسی ٹرک کے پہیے جتنے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اس پرندے کے گھونسلے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کے گھونسلے بہت بڑے ہوا کرتے تھے۔

    تحقیق میں شامل چینی و غیر ملکی ماہرین کے مطابق ان ڈائنو سار کے پر نمائشی نہیں تھے۔ یہ انہیں اڑنے میں بھی مدد دیتے تھے۔

    ڈائنو سارز کی یہ نئی قسم 36 فٹ طویل تھی جبکہ ان کا وزن 3 ہزار کلو گرام ہوتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ ڈائنو سار ممکنہ طور پر 9 کروڑ سال قبل اس مقام پر رہا کرتے تھے جو اب چین کا وسطی حصہ ہے۔

    چین میں اس سے قبل بھی ایک اڑنے والے ڈائنو سار کی باقیات دریافت کی گئی تھیں اور وہ جس حالت میں ملا تھا وہ نہایت حیرت انگیز تھی۔

    مزید پڑھیں: موت سے بھاگتا ڈائنو سار

    اس ڈائنو سار کا ڈھانچہ اس حالت میں تھا جیسے وہ کسی شے سے خوفزدہ ہو کر بھاگنے یا اڑنے کی کوشش کررہا ہو لیکن اس کا پاؤں کیچڑ میں پھسل گیا اور بھاگنے کی ناکام جدوجہد کے بعد وہ وہیں ہلاک ہوگیا۔

    اس ڈائنو سار کا ڈھانچہ 6 سے 7 کروڑ سال قدیم بتایا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔