Tag: ڈارون

  • حسن کا وجود اور اس کی اثر آفرینی

    حسن کا وجود اور اس کی اثر آفرینی

    مارکس اور اس کے ہم خیالوں کا یہ تصور بہت صحیح ہے کہ ایک خارجی دنیا کی عملی تشکیل و تخلیق، ایک غیرنامیاتی بے جان عالمِ عناصر کو حسبِ مراد صورت دینا اور اس میں نئی زندگی پیدا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نوعِ حیوانی کا ایک ذی ارادہ ارتقائی رکن ہے۔

    وہ (انسان) حیوانات میں ایک ایسی مخلوق ہے جس کی تخیل یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کیا جائے جیسا کہ خود اپنی ذات کے ساتھ اور اپنی ضرورتوں کی طرح اپنے تمام ہم جنسوں کی ضرورتوں کا رفیقانہ احساس رکھا جائے۔ یہ شرف کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں اور اگر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جا سکتا ہے تو اسی بنا پر دنیا میں اور بہت سے جانور ہیں، مثلا شہد کی مکھیاں، مٹے، دیمک اور بھڑ اور چڑیوں میں بیا وغیرہ جو کافی تخلیقی یا تعمیری قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت بے ساختہ اس سے کام لیتے ہیں۔ وہ چھتے، اور گھونسلے ایسی فن کارانہ خوش اسلوبی کے ساتھ بناتے ہیں کہ انسان ان کی نقل بھی نہیں اتار سکتا۔

    لیکن یہ ادنی درجے کے جانور جو کچھ کرتے ہیں اپنی ذاتی یا زیادہ سے زیادہ اپنی اولاد کی فوری ضرورتوں کو رفع کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ ان کی کوششیں یک طرفہ ہوتی ہیں۔ انسان کے مساعی اجتماعی قدر لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حیوانات جو کچھ کرتے ہیں، اپنی قدرتی جسمانی ضرورتوں کے تقاضوں سے مجبور ہو کر کرتے ہیں اور انسان یعنی مہذب انسان اپنی جسمانی ضرورتوں سے آزاد ہو کر تخلیقی فن کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بہترین تخلیق اس وقت کر سکتا ہے جب کہ اس کی ادنی حیوانی ضرورتیں آسودہ ہو چکی ہوں اور وہ ان کے ترددات سے فراغت پا چکا ہو، غیرانسانی مخلوقات اپنی اپنی ذاتوں میں کھوئی ہوئی ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے کو پھر سے پیدا کرسکتی ہیں اور انسان سائرِ کائنات کو پھر سے پیدا کر سکتا ہے۔

    دوسرے جانوروں کی تخلیقی کوششیں ان کی جسمانی خواہشوں اور ضرورتوں سے براہِ راست متعلق ہوتی ہیں، یعنی وہ اپنے فطری مطالبات کے غلام ہوتے ہیں، برخلاف اس کے انسان اپنی تخلیقات کا پورے احساس و فکر اور مکمل آزادی کے ساتھ سامنا کر سکتا ہے اور ان پر نگاہِ بازگشت ڈال سکتا ہے جو خود اپنی جگہ ایک نئی تخلیقی حرکت ہے۔ جانور صرف اپنی نوع کی ضرورت کو اپنی تخلیقات کا پیمانہ بناتے ہیں، انسان ہر نوع کی ضرورت کے مطابق اور ہر وقت ہر موقع پر موضوع کے اعتبار سے نئے پیمانے مہیا یا ایجاد کر سکتا ہے۔ دوسرے حیوانات کی فنی تخلیق میں جو حسن ملتا ہے وہ اضطراری طور پر اس کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ انسان کو اس حسن کا نہ صرف شعور بلکہ درک بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے ارادے اور اپنی قوت سے اس حسن کو اور زیادہ حسین و جمیل بنا سکتا ہے۔ انسان کی فن کاری نہ صرف ایک مفروضۂ حسن کا اظہار ہوتی ہے بلکہ حسن کے اندرونی ناموس کے مطابق خوب سے خوب تر کی جستجو اور اسے پانے کا نام انسانی لغت میں فن کاری ہے۔

    حسن کے وجود اور اس کی اثر آفرینی سے آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا ہے۔ لیکن یہ حسن ہے کیا؟ اس سوال نے بڑے بڑے اہل فکر و بصیرت کو حیران رکھا ہے۔ شہرۂ آفاق سائنس داں اور نظریۂ ارتقا کا مبلغ ڈارون مور کی دُم کا راز نہ سمجھ سکا۔ مور کی دم پر اس قرینے کے ساتھ گل کاریاں ہوتی ہیں؟ اس سوال نے ڈارون کی عقل کو چکر میں ڈال رکھا تھا، وہ زندگی کے ہر مظہر کو جہدُالبقا، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح کی روشنی میں سمجھنا چاہتا تھا لیکن محض حیاتیاتی مقصد کے ماتحت حسن یعنی قرینہ یا آہنگ کی تاویل نہیں کی جا سکتی۔

    مور کی دُم میں اس توازن اور تناسب کے ساتھ خطوط و الوان کا التزام نہ ہوتا تو بھی حیاتیاتی غرض یعنی نسل کی افزائش اور اس کی بقا کا مقصد تو پوراہی ہوتا رہتا۔ قدرت نے اپنے تخلیقی نظام میں یہ جمالیاتی اسلوب کیوں ملحوظ رکھا؟ اس کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے تاوقتیکہ ہم یہ نہ تسلیم کر لیں کہ قدرت کے اندر وہ آہنگ طبیعی طور پر موجود ہے جسے ہم حسن کہتے ہیں۔ نہ صرف انسان بلکہ حیوانی اور نباتاتی اور بہ ظاہر بے جان جماداتی دنیا بھی ایک جمالیاتی رخ رکھتی ہے۔ جہاں کہیں بھی زندگی کی قوت ہے وہاں یہ حسن بھی موجود ہے اور زندگی کی بقا اور فروغ کا ضامن ہے۔

    متقدمین سے لے کر آج تک لوگ حسن کو بلاوجہ ایک غیر ارضی چیز سمجھتے رہے ہیں اور جو چیز کہ سر بسر انسانی دنیا کی پیداوار ہے اس کو خواہ مخواہ ایک دیو لوک سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ اس ماورائیت نے حسن کو ایک سدیمی (Nebulous) شکل بنا کر رکھ دیا ہے۔ افلاطون نے حقیقت، خیر اور حسن کی سہ گانہ تقسیم کر کے ایک عرصہ تک دنیا کو مبہوت رکھا، لیکن وہ خود بڑی الجھن میں تھا۔ اگر ہم غور سے مطالعہ کریں تو اس کے بیان سے زیادہ اس کے بعض وقت کے سکوت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نظریۂ تصورات کی وجہ سے اپنے نظامِ فکر میں بہت سے تناقصات محسوس کرتا ہے۔ حسن کے بارے میں بھی اس کو اپنی عدم وضاحت کا احساس تھا۔ اس نے عالمِ مثال یا عالمِ تصورات میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس عالمِ اجسام سے باہر ایک عالم ہے، جہاں ہر شے کا ایک ازلی تصور یا نمونہ موجود ہے۔ عالم موجودات کی ہر شے اپنے تصور کی ایک ناقص نقل ہوتی ہے۔ پھر ان تصورات سے بلند اور سب پر احاطہ کئے ہوئے تصورات کا تصور، یا تصورِ اعلیٰ ہے۔ حسن اور خیر اور حقیقت اس تصور اعلیٰ کے تین مختلف رخ ہیں جو عالم اجسام میں الگ پائے جاتے ہیں۔

    افلاطون کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرشد سقراط کی طرح حسن کو حقیقت اور خیر کے ماتحت تصور کرتا تھا۔ اس جگہ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ ہم سقراط اور افلاطون اور ان کے متبعین کے نظریہ تصورات سے آج ہرگز اتفاق نہیں کر سکتے۔ لیکن ان لوگوں کے بعض متفرق اقوال ایسے ہیں جو حقیقت کے راستے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جنہیں آج بھی ہم تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے، مثلاً حسن کے بارے میں سقراط کے دو اقوال ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ حسن وہ چیز ہے جو لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو، دوسرا یہ ہے کہ حسن اس چیز کا نام ہے جو کسی غرض کو پورا کرے اور غرض سے مراد عملی مفاد ہے۔ آج ہم حیرت کر سکتے ہیں کہ جس مفکر نے حیات اور کائنات کے سارے نظام کی بنیاد مادی اور عملی دنیا سے الگ تصورات پر رکھی ہو وہ حسن کا ایسا افادی نظریہ کیسے پیش کر سکا۔

    بعد کے اشراقیوں اور صوفیوں نے اسی تصور یا عالمِ مثال کے نظریہ کو اور زیادہ وسعت دی اور ہر ترقی یافتہ زبان کے بڑے بڑے شاعروں اور مفکروں نے اس سرابی بنیاد پر رنگ برنگ کی نازک اور دل پذیر عمارتیں تیار کیں اور ان لوگوں نے لافانی حسن، ازلی حسن، لاہوتی حسن، حسن مطلق، حسن حقیقی وغیرہ جیسے بت تراشے جن کے آگے سر جھکانے والوں کی آج بھی کمی نہیں۔ کیٹس نے حسن کو حقیقت اور حقیقت کو حسن بتایا اور اسی کے اظہار کو شاعری کہا۔ بیدل بھی حسنِ حقیقت کے قائل ہیں یعنی حسن اور حقیقت کو ایک سمجھتے ہیں اور ہر وقت اور ہر جگہ اسے سامنے موجود مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی جستجو نہ کرنا ہی اس کو پانا ہے۔

    حسن کے اس پراسرار تصور نے فکر و احساس کی دنیا میں بڑی بڑی نزاکتیں پیدا کیں اور اس کی بدولت شاعری اور دوسرے فنونِ لطیفہ کے ایسے ناقابلِ فراموش کارنامے وجود میں آئے جن کی تواریخی قدر ہمیشہ مسلّم رہے گی۔

    (معروف ادیب، نقاد اور مترجم مجنوں گورکھپوری کے مضمون حسن اور فن کاری سے اقتباسات)

  • سب سے لمبی زبان والے کیڑے سے متعلق ایک صدی بعد انکشاف

    سب سے لمبی زبان والے کیڑے سے متعلق ایک صدی بعد انکشاف

    سب سے لمبی زبان والے ایک کیڑے ہاک موتھ (hawkmoth) سے متعلق ایک صدی بعد یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ کیڑوں کی ایک نوع کی ذیلی قسم نہیں بلکہ خود ایک الگ نوع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا میں سب سے لمبی زبان والا پتنگا اب نئی نوع قرار دے دیا گیا ہے، چارلس ڈارون نے انیسویں صدی میں اپنے سائنسی سفر کے دوران ایک پتنگے (موتھ) کا ذکر کیا تھا، جس کی وجہ سے اسے ڈاروِن موتھ بھی کہا جاتا تھا۔

    دراصل 1862 میں چارلس ڈارون نے مڈغاسکر میں ایک خاص قسم کے پھول کا مشاہدہ کیا، اسٹار آرچڈ نامی اس پھول کی ساخت بالکل الگ ہے، یہ ایک لمبی پتلی نلکی نما پھول ہے، اسے دیکھ کر ڈاروِن نے کہا اس پھول کا رس بھی کوئی نہ کوئی کیڑا ضرور چوستا ہوگا لیکن وہ کون سا جان دار ہے؟

    دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ چارلس ڈارون نے اپنے مشاہدے کی بنا پر اس کیڑے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔

    اس کے کئی عشرے بعد 1903 میں کارل جورڈن اور والٹر روٹسچائلڈ نامی حیاتیات دانوں نے یہ کیڑا دریافت کیا، لیکن اس وقت اسے ایک طرح کے پتنگے، مورگنز اسپنکس موتھ (Morgan’s sphinx moth) کی ذیلی قسم (سب اسپیشیز) قرار دیا گیا۔

    لیکن اب لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم کے ماہر ڈیوڈ لیس اور ان کے ساتھیوں نے جینیاتی اور ظاہری شکل کی بنا پر اسے پتنگوں کی ایک بالکل نئی قسم قرار دیا ہے، اور اب اسے زینتھوپان پریڈکٹا (Xanthopan praedicta) کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جس کی پیش گوئی کی گئی۔

    اس پتنگے کا سائنسی نام اب زینتھوپان پریڈکٹا ہے جس کی زبان 30 سینٹی میٹر تک لمبی ہوتی ہے، یہ مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے اور صرف خاص پھول اسٹار آرچڈ کا رس چوستا ہے، جس کے لیے قدرت نے اسے غیر معمولی طور پر لمبی زبان دی ہے، جو عام حالت میں اس کے منہ کے پاس کوائل کی طرح رول رہتی ہے، دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کیڑے کی زبان آرچڈ پھول جتنی ہی طویل ہوتی ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ‘ہاک موتھ’ کی سیکڑوں ذیلی اقسام دریافت ہو چکی ہیں، جن میں ڈارون ہاک موتھ صرف مڈغاسکر کے جزائر میں پائی جاتی ہے، اور اس کی زندگی کا دارومدار اسٹار آرچڈ پر ہوتا ہے۔

  • نظریہ ارتقا پیش کرنے والے چارلس ڈارون کے ہاتھ سے لکھی کتابیں چوری

    نظریہ ارتقا پیش کرنے والے چارلس ڈارون کے ہاتھ سے لکھی کتابیں چوری

    برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری نے اعلان کیا ہے کہ نظریہ ارتقا پیش کرنے والے معروف ماہر حیاتیات چارلس ڈارون کی 2 کتابیں گزشتہ 20 برس سے گمشدہ ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق چوری ہونے والی کتابیں ڈارون کے مشہور زمانہ نظریہ ارتقا سے متعلق ان کے اہم خیالات اور ان کے معروف ٹری آف لائف کے خاکوں پر مشتمل تھیں۔

    ڈارون نے سنہ 1837 میں ایک سفر سے واپس آنے کے بعد چمڑے کی یہ نوٹ بکس لکھی تھیں۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی لائبریری کے مطابق ان کتابوں کی مالیت لاکھوں پاؤنڈز تھی، قوی امکان ہے کہ یہ چوری ہوچکی ہیں۔

    لائبریری انتظامیہ کے مطابق ان نوٹ بکس کو نومبر سنہ 2000 میں فوٹوگرافی کے لیے اسپیشل مینو اسکرپٹس اسٹور روم سے باہر منتقل کیا گیا۔ تصاویر کھینچنے کے لیے ان کتابوں کو اسی عمارت میں ایک عارضی اسٹوڈیو میں لے جایا گیا جہاں تعمیراتی کام جاری تھا۔

    اس کے 2 ماہ بعد جب کتابوں کی ایک روٹین کی چیکنگ ہوئی تب انکشاف ہوا کہ یہ قیمتی نوٹ بکس غائب ہیں۔

    لائبریرین ڈاکٹر جیسیکا گارڈنر کا کہنا ہے کہ ہم قطعی طور پر لاعلم ہیں کہ ان 2 ماہ میں یہ کتابیں کس طرح غائب ہوئیں، یقینی طور پر انہیں درست انداز میں حفاظت سے نہیں رکھا گیا جس کے باعث یہ افسوسناک صورتحال پیش آئی۔

    اس سے قبل رواں برس لائبریری میں بڑے پیمانے پر تلاشی کی گئی تاہم منتظمین گمشدہ کتابیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔

    مذکورہ عمارت میں تقریباً ایک کروڑ کتابیں، نقشے اور مسودے شامل ہیں اور اس میں دنیا کی اہم ترین ڈارون آرکائیوز بھی شامل ہے۔

    لائبریری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مقامی پولیس کو آگاہ کردیا گیا ہے جبکہ کتابوں کو چوری شدہ آرٹ ورکس سے متعلق انٹرپول کے ڈیٹا بیس میں بھی شامل کردیا گیا ہے۔

    علاوہ ازیں لوگوں سے بھی اس کی تلاش میں مدد کی اپیل کی گئی ہے۔

  • مشہور شخصیات کے بسترِ مرگ پر آخری الفاظ

    مشہور شخصیات کے بسترِ مرگ پر آخری الفاظ

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس سے نظریں تو چرائی جاسکتی ہیں، لیکن اس سے مفر ممکن نہیں۔ ہر خاص و عام، ادنیٰ و اعلیٰ، طاقت ور اور کم زور ایک روز اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گا اور کوئی ان کا نام لیوا بھی نہ ہو گا، لیکن کچھ لوگ اپنی ہمّت، عزم و استقلال اور اپنے نمایاں‌ کاموں اور کارناموں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

    یہاں‌ ہم ان مشہور اور نہایت قابل شخصیات کا ذکر کررہے ہیں‌ جنھوں نے بسترِ مرگ پر بھی ہمّت کا ثبوت دیا اور اپنی مضبوط قوتِ ارادی ظاہر کرتے ہوئے دوسرے انسانوں‌ کو اپنے آخری الفاظ کی صورت ایک سبق اور نصیحت کرگئے۔

    معروف جرمن فلسفی، ماہرِ اقتصادیات اور عمرانیات کے لیے مشہور کارل مارکس سے فلسفے، سیاسی اور سماجی علوم کا ہر ادنیٰ طالبِ علم واقف ہے۔

    مشہور ہے کہ بسترِ مرگ پر تھا اس کے ایک گھریلو ملازم نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے سوچا کہ شاید اس کے دل میں کوئی بات ہو، وہ اپنی کوئی آخری خواہش بیان کرنا چاہتا ہو اور اسی غرض سے اس نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر کارل مارکس نے غصؑے سے کہا۔

    "دفع ہوجاؤ! آخری الفاظ وہ احمق ادا کرتے ہیں، جو زندگی میں اپنی بات پوری طرح نہ سنا پائے ہوں۔”

    اس کے چند لمحات بعد ہی کارل مارکس ہمیشہ کے لیے سو گیا۔ یہ 1883 کی بات ہے۔

    کارل مارکس سے ایک سال پہلے موت کا ذائقہ چکھنے والے چارلس ڈارون کو اس کے نظریہ ارتقا کی وجہ سے شہرت بھی ملی، اسے سراہا بھی گیا اور اس نے طنز اور طعنے بھی سنے۔ 19 ویں صدی کے برطانوی سائنس دان چارلس ڈارون کی کتاب ‘اوریجن آف اسپیشیز’ کی اشاعت نے دنیا کو انسان سے متعلق ایک مختلف رائے اور موضوعِ بحث دیا اور آج بھی اس پر مباحث کا سلسلہ جاری ہے۔

    ڈارون طبیعیات اور ارضیات کے علم کا ماہر تھا جس نے 1882 میں اپنی موت سے قبل کہا تھا:

    "مجھے مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔”

  • زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    ہم نے اسکول میں پڑھا ہے کہ دنیا کا لمبا ترین اور لمبی گردن رکھنے والا جانور زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔ درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    زرافہ دنیا کا لمبا ترین ممالیہ ہے۔ نر زرافوں کی لمبائی عموماً 5.5 میٹر ہوتی ہے جبکہ مادہ زرافہ اس سے ذرا سی ہی چھوٹی ہوتی ہے۔

    g3

    ڈارون کے نظریہ ارتقا کے تحت زرافے کی لمبی گردن کا نظریہ یوں پیش کیا گیا کہ دیگر جانوروں سے غذا کے حصول کے لیے لڑائی کے باعث زرافوں نے ان جگہوں پر پہنچنے کی کوشش کی جہاں دوسرے جانور نہیں پہنچ سکتے تھے یعنی درختوں کی اونچی شاخوں تک۔

    جب زرافوں نے اس عادت کو اپنا معمول بنا لیا تو ان کے جسم نے آہستہ آہستہ اس عادت سے مطابقت شروع کردی۔

    ہر نئے پیدا ہونے والے زرافے میں گردن اور ٹانگوں کی لمبائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس سے قبل زرافے دیگر جانداروں کی طرح اوسط قد کے تھے اور ان کی ٹانگیں اور گردن بھی عام لمبائی کی حامل تھی۔

    یہ ارتقا کئی نسلوں (اندازاً 10 لاکھ سال) تک چلا یہاں تک یہ خصوصیات زرافے کی نسل میں مستقلاً آگئیں۔ یوں کئی نسلوں کا فرق رکھنے والوں زرافوں میں زمین آسمان کا فرق آگیا اور زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔

    g2

    مگر ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق زرافے کے جسمانی ارتقا کی وجہ یہ نہیں ہے۔

    اس رپورٹ میں ایک ماہر حیوانیات رابرٹ سمنز کا ذکر کیا گیا جس نے 1996 میں ایک تحقیق پیش کی تھی۔ تحقیق کے مطابق زرافے تمام وقت اونچی شاخوں سے نہیں کھاتے تھے۔ جب موسم خشک ہوتا تھا اس دوران وہ زمین پر لگے نباتات سے اپنی بھوک مٹاتے تھے۔

    اس تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    g1

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ممکن ہے جن زرافوں کی گردن لمبی ہوتی ہو وہ لڑائی میں جیت جاتے ہوں۔ ایک مشاہدہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مادہ زرافہ بھی ان زرافوں کی جانب زیادہ متوجہ ہوتی ہیں جن کی گردن دوسرے زرافوں سے لمبی ہوتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔