Tag: ڈارک ویب

  • ڈارک ویب کے خوفناک کھیل کا پردہ فاش

    ڈارک ویب کے خوفناک کھیل کا پردہ فاش

    ڈارک ویب پر لڑکیوں کی برہنہ ویڈیوز بیچنے والے درندے کو گرفتار کرلیا گیا، آن لائن خوفناک دنیا کی مکروہ کہانی سامنے آگئی۔

    اے آر وائی نیوز کی ٹیم سرعام نے ایک چونکا دینے والی کارروائی کی ہے، پیسوں کا لالچ دے کر لڑکیوں‌ کو ورغلانے والا جنسی درندہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، ملزم کے حیران کن انکشافات نے سب کے ہوش اڑا دیے، فحش ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کےلیے ملزم لڑکیوں کی ویڈیوز بناتا تھا۔

    آج کے دور میں‌ اکثر لوگوں نے موبائل اور موبائل میں موجود کیمرے کو اپنے لیے مصیبت بنالیا ہے جو کہ اکثر موت سے بھی زیادہ خوفناک ثابت ہوتی ہے۔

    موبائل فون اب تک ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں زندگیاں اجاڑ چکا ہے، آئے دن کسی نہ کسی کی فحش اور نامناسب ویڈیوز لیک ہوجاتی ہیں جس کے بعد اس عورت/ مرد کی زندگی وبال جان بن جاتی ہے۔

    میاں بیوی ہوں، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ ہوں یا پھر گاہک اور جسم فرش عورتیں ہوں، ہر تعلق میں موبائل فون سے بنی ہوئی نجی لمحات کی ویڈیوز اور تصاویر ایک خوفناک انجام پر ختم ہوتی ہیں۔

    فحش ویڈیوز یا جنسی استحصال کی ویڈیوز کا ڈارک ویب سے گہرا تعلق ہے، ٹیم سرعام کی کارروائی میں بھی پکڑے گئے شخص کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اس طرح کی ویڈیوز بنا کر اور ان میں لڑکیوں کا چہرہ چھپا کر ڈارک ویب پر اپ لوڈ کرتا ہے۔

    سرعام کی ویڈیو میں ملزم کو لڑکیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ اس میں پیمنٹ بہت زیادہ ہے 50 ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کما سکتے ہیں۔

    ملزم لڑکیوں کو ایسی ویڈیوز بنانے کے عوض ایک لاکھ روپے دینے کی پیشکش کرتا تھا اور انھیں یقین دلاتا ہے لڑکیوں کا چہرہ چھپا کر انھیں انٹرنیٹ کی خفیہ ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیا جائے گا جسے ڈارک ویب کہتے ہیں۔

    انٹرنیٹ کی ظاہری تہہ کے نیچے ایک گندی اور خوفناک تہہ موجود ہے، جہاں دنیا کا ہر قبیح جرم سرانجام دیا جاتا ہے۔

    مختلف لڑکیوں کو لاکھوں روپے کا لالچ دے کر ملزم ان کی ویڈیوز ڈارک ویب پر اپ لوڈ کرنے کی ڈیل کرتا تھا، پھر اس کے بعد ان لڑکیوں کا جنسی استحصال کرتے ہوئے ویڈیو ریکارڈنگ کرتا۔

    منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والے ملزم کا نشانہ نجی اور سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی غیرب لڑکیاں تھیں، وی انھیں بڑی رقم کے عوض برہنہ ویڈیوز بنانے کی ترغیب دیتا اور کہتا کہ اس میں ان کے چہرے کو چھپا دیا جائے گا۔

    ملز لڑکیوں کو اس بات کا یقین دلانے کےلیے کلمے اور قرآن کی قسمیں بھی کھاتا، وہ کہنا ہم کیمرہ زوم کرکے کیمرے سے چہرہ نکال دیتے ہیں۔

    اپنے اڈے پر لڑکی کو لے جاکر وہ وہاں پہلے آنے والی لڑکیوں کی تصویر دکھاتا اور اکثر لڑکیوں کو پسٹل دکھا کر ان کے ساتھ غلیظ حرکتیں کرتا، ٹیم سرعام کی خاتون انفارمر کے ذریعے اس درندہ صفت ملزم کا راز فاش کیا گیا اور اسے گرفتار کیا گیا۔

  • ڈارک ویب نیٹ ورک کمسن بچوں کو کیسے اپنے جال میں‌ پھنساتا تھا؟ سنسنی خیز انکشافات (ویڈیو رپورٹ)

    ڈارک ویب نیٹ ورک کمسن بچوں کو کیسے اپنے جال میں‌ پھنساتا تھا؟ سنسنی خیز انکشافات (ویڈیو رپورٹ)

    نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے گزشتہ روز بڑی کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والے عالمی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا۔

    نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے مظفر گڑھ میں بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والا گینگ پکڑا تھا اور اس کارروائی میں دو ملزمان گرفتار اور 10 متاثرہ بچوں کو بازیاب کرایا گیا تھا۔

    اس سارے گھناؤنے دھندے کا سرغنہ ایک جرمن باشندہ نکلا، جس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستانی حکام نے اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرانے کے لیے نہ صرف انٹرپول سے رجوع کیا ہے بلکہ فارن آفس اور جرمن حکام سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔

    چھاپے کے دوران پورنو گرافی اسٹوڈیو سے 800 سے زائد شرمناک ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ گینگ نے 6 سے 10 سال کی عمر کے 50 بچوں کو شکار بنایا۔ یہ اخلاق باختہ ویڈیوز ڈارک ویب پر 100 سے 500 ڈالرز میں فروخت کی گئیں۔

    اس مکروہ دھندے کے گروہ کا سرغنہ جرمن باشندہ پاکستان کیسے آیا؟ کون کون یہاں سہولت کار تھا؟ اتنے عرصہ خاموشی سےکیسے یہ سب گندا کام چلتا رہا اور کم سن بچوں کو کیسے یہ گروپ اپنے جال میں پھنساتا تھا۔ اس حوالے سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز ملتان کے بیورو چیف یاسر شیخ اس حوالے سےسنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عالمی چائلڈ پورنو گرافی گینگ کا سربراہ جرمن باشندہ پاکستان میں ایک سیاح کے طور پر آیا اور گزشتہ روز جو دو مرکزی ملزمنا جنید اور عرفان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جرمن شہری جنید کے گھر میں آ کر رہتا تھا۔ اس نے یہاں آکر اس مکروہ کام کے لے اسٹوڈیو تیار کرایا اور مقامی افراد کو ٹریننگ دے کر واپس چلا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پورنو گرافی کے لیے اسٹوڈیو مظفر گڑھ کے نواحی علاقے کوٹ ادو میں بنایا گیا تھا اور ملزمان نے اپنی رہائشگاہ سے متصل ایک بڑے ہال نما کمرے کو جدید اسٹوڈیو میں تبدیل کیا تھا۔ وہاں ڈیجیٹل وائرلیس راؤٹرز، جدید کیمرے، لیپ ٹاپ سمیت ہر وہ سہولت موجود تھی جو کسی بھی بہترین اسٹوڈیو میں ہوتے ہیں۔

    یاسر شیخ نے اس حوالے سے آج ہونے والی اپ ڈیٹ سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ آج مزید 6 بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے والدین کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ جس کے بعد ان بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے جب کہ اس گروپ کے مزید چار معاونین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ سارا کام انتہائی محفوظ طریقے سے انڈر کارپٹ ہوتا تھا۔ ساری ٹرانزیکشن گرفتار ملزم جنید کے بھائی کے اکاؤنٹ کے ذریعہ ہوتی تھی، جو بیرون ملک مقیم ہے۔

    ڈارک ویب نیٹ ورک نے اس مکروہ دھندے کے لیے 6 سے 10 سال کی عمر کے بچوں کا استعمال کیا۔ اس گروپ نے یو ٹیوب پر کڈز گیمنگ چینل بنائے ہوئے تھے اور ان ایپس کے ذریعہ بچوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے۔

    اس کے علاوہ یہ گروہ ایسے بڑے گھروں سے ملازم بچوں کو اپنے مکروہ کام کے لیے استعمال کرتا تھا، جن کے والدین بچوں کو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے اور پھر مہینوں رابطہ نہیں کرتے تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ کچھ ایسے بھی واقعات ہوئے کہ گروپ کے لوگ خود غریب والدین کو پیسے دے کر بچے اپنے ساتھ لے گئے لیکن انہیں گھروں میں نوکری دلانے کا جھانسہ دلایا اور وہاں لے جا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

    یاسر شیخ نے بتایا کہ یہ پورا آپریشن ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار کی قیادت میں ہوا اور این سی سی آئی نے مزید 11 کے قریب فحاشی کے مراکز تلاش کر لیے ہیں جہاں سرجیکل آپریشن کیے جا رہے ہیں۔

     

  • ڈارک ویب جرائم کا گڑھ : اسے کن مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے؟

    ڈارک ویب جرائم کا گڑھ : اسے کن مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے؟

    انٹرنیٹ ایک وسیع اور پیچیدہ نیٹ ورک ہے اور اس کا ایک بڑا حصہ عام صارف کی نظر سے اوجھل رہتا ہے جسے ڈارک ویب کہتے ہیں۔

    "ڈارک ویب” انٹرنیٹ کے ایک مخصوص حصے کا نام ہے جو "ڈیپ ویب” کا ذیلی حصہ ہے۔ ڈیپ ویب میں وہ تمام مواد شامل ہے جو معیاری سرچ انجنز (جیسے گوگل) کے ذریعے انڈیکس نہیں کیا جاتا۔

    ڈارک ویب تک رسائی کے لیے خاص سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں ایسی سائٹس شامل ہیں جو گوگل سرچز پر نظر نہیں آتیں۔

    ڈارک ویب سائٹس تک رسائی کے لیے ٹور براؤزر نامی سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف ٹور نیٹ ورک پر دستیاب ہوتے ہیں۔

    دی اونین راؤٹر ٹور صارف کے انٹرنیٹ ٹریفک کو انکرپٹ کرتا ہے اور اسے رضا کاروں کے زیرِ انتظام سرورز کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے روٹ کرتا ہے، جس سے صارف کا مقام اور شناخت چھپ جاتی ہے۔ یہ پرائیویسی کی تہہ اُن لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے جو نگرانی یا سینسر شپ سے بچنا چاہتے ہیں۔

    ڈارک ویب کھلنے کے بعد بالکل عام ویب سائٹ جیسی نظر آتی ہے، اس میں ڈارک نیٹ مارکیٹس ہوتی ہیں جہاں غیر قانونی کاروبار ہوتا ہے جس میں غیر اخلاقی مواد، اسلحہ، کسی بھی ویب سائیٹ یا شخصیات کا ہیک کیا گیا ڈیٹا اور جھوٹا آرٹ اور پینٹگز بیچی جاتی ہیں، یہاں پر خرید و فروخت کے لیے خصوصی کرنسی مثلاً بٹ کوائن کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    منشیات، جعلی پاسپورٹ یا فحش مواد کی خرید و فروخت بٹ کوائن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یہ انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والی کیٹیگری ہے۔ کریڈٹ کارڈز کی معلومات ہیک کر کے یہاں بہت سستے داموں بیچی جاتی ہے۔

    ڈارک ویب پر مختلف قسم کا مواد پایا جاتا ہے، جس میں قانونی اور غیر قانونی دونوں شامل ہیں، وکی لیکس اور پروجیکٹ ویریٹاس جیسے پلیٹ فارمز ڈارک ویب کا استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے ذرائع کو محفوظ رکھا جاسکے اور معلومات شائع کی جا سکیں۔

    جو صارفین آن لائن نگرانی سے پریشان ہوں، وہ گمنام رابطے کے لیے ڈارک ویب استعمال کر سکتے ہیں۔ سلک روڈ” جیسی آن لائن مارکیٹس غیر قانونی منشیات کی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

    صرف وہی افراد ان ویب سائٹس تک پہنچ سکتے ہیں جن کا تعلق انٹرنیٹ جرائم کی اس دنیا سے ہو یا پھر وہ اس کمیونٹی کا حصہ ہوں۔ یہ ویب سائٹس فائر والز کے پیچھے چھپی ہوتی ہیں۔

    اس کے علاوہ ڈارک ویب بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کا بڑا مرکز ہے۔ یہاں سے کرائے کے قاتلوں کا ملنا بھی ممکن ہے۔

    ڈارک ویب کے نقصانات و خطرات

    ڈارک ویب کی گمنامی کے ساتھ کئی خطرات بھی جڑے ہیں، ڈارک ویب کی گمنامی دھوکہ دہی کرنے والوں کو پہچاننا اور سزا دینا مشکل بناتی ہے، یہاں پر بدنیتی پر مبنی سافٹ ویئر اور ہیکنگ کی سرگرمیاں عام ہیں۔ ڈارک ویب پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا سنگین قانونی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

  • ڈارک ویب پر لیک ویڈیوز کا کاروبار کیسے ہوتا ہے؟ اہم انکشافات

    ڈارک ویب پر لیک ویڈیوز کا کاروبار کیسے ہوتا ہے؟ اہم انکشافات

    آج کل لوگ بہت سارے ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے اور کئی طرح کے فلٹرز کا بھی استعمال کرتے ہیں تاہم یہ ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

    جب صارف کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کررہا ہوتا ہے تو اس سے اس کی گیلری اور موبائل کے دیگر کنٹرولنگ آپشن تک رسائی مانگی جاتی ہے جو چارو ناچار صارف کو ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کےلیے دینی ہی پڑتی ہے اس سے صارف کے موبائل کی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

    اے آر وائی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن اقرار الحسن نے ڈارک ویب کے رول کے حوالے سے انکشافات کیے اور بتایا کہ لوگوں کے موبائل تک رسائی حاصل کرکے کیسے ان کی پرسنل تصاویر نکال لی جاتی ہیں اور ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

    اقرار الحسن نے کہا کہ غیر ضروی ایپس کا استعمال خطرے سے خالی نہیں اگر گیلری میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو تو آپ نے نقصان کے امکان کو کم کردیا ہے۔

    اینکرپرسن نے بتایا کہ صارف اپنے فون کے کیمرے اور گیلری کو احتیاط سے استعمال کرنا شروع کرے تو اس کے نقصان کا اندیشہ کم ہوجائے گا، مطلب یہ کہ اگر کوئی اس طرح کی قابل اعتراض چیز موجود ہوگی ہی نہیں تو اگر کوئی ایپ صارف کے موبائل ڈیٹا تک رسائی حاصل کربھی لے تو وہ اسے لیک نہیں کرے گی۔

    میں ڈرتا ہوں اس وقت سے کوئی ایسی لیک سامنے آئے جس میں لوگوں کے ذاتی نوعیت کا ڈیٹا لیک ہو، ایک دھماکہ خیز چیز کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ صارف کے موبائل سے عام تصاویر نکال کر اسے ڈیپ فیک ویڈیو کی مدد سے ایڈٹ کرکے بھی اس کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    اقرار نے کہا کہ اگر ہمیں مدد کے حوالے سے روزانہ ہزار پیغامات آتے ہیں تو ان میں سے 980 کا تعلق اس موبائل فون اور اس سے بنی ویڈیوز سے ہوتا ہے، اس میں بلیک میلنگ اور اس طرح کے دیگر معاملات کا بتایا جاتا ہے۔

    اینکر نے لرزہ خیز انکشاف کیا کہ 98 فیصد کال لڑکیوں اور خواتین کی آرہی ہوتی ہیں کہ ہم بلیک میل ہورہے ہیں خدا کا واسطہ ہمیں بچا لیں ہماری زندگی چلی جائیگی، بہت سارے کیسز میں مرد حضرات بھی بلیک میل ہورہے ہوتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ قرضے دینے والی مختلف ایپس بھی لوگوں کے لیے کافی مشکالت کا باعث بنی ہوئی ہیں اسٹیٹ بینک کے ایکشن لینے کے باوجود ان ایپس کا کاروبار جاری ہے، یہ کال سینٹرز کا پوراد دھندہ ہے جس میں پہلے قرض لینے والے کو کال کیا جاتا ہے۔

    پھر اس کے اہلخانہ اور بہنوں اور رشتہ داروں تک کو کال کی جاتی ہے، قرض ایپس کی وجہ سے بھی خودکشی کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔

    اقرار الحسن نے کہا کہ لوگ جو آئی ڈی کارڈز کی فوٹو کاپی بینک یا کورٹ وغیرہ میں جاکر دیتے ہیں باقاعدہ انھیں بھی بیچا جارہا ہے، لوگ دوسرے لوگوں کے واٹس نمبر کو بیچ رہے ہیں، مثلاً میں کہوں کہ مجھے اس نمبر کا واٹس ایپ نمبر چاہیے تو وہ چاہے آپ کے استعمال میں ہو وہ مجھے بھی بنا کردے دیں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ سیلیکون کے ایک پیڈ کے اوپر فراڈیے لوگوں کے انگوٹھے کا پرنٹ لے لیتے ہیں اور اسے بعد میں فراڈ کرنے والے حضرات کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں اس نے بینکنگ نظام کو کافی متاثر کیا تھا۔

  • بھارتی ریلوے کی اب تک کی سب سے بڑی ڈیٹا ہیکنگ واردات، معلومات ڈارک ویب پر اپ لوڈ

    نئی دہلی: بھارتی ریلوے کی اب تک کی سب سے بڑی ڈیٹا ہیکنگ واردات ہوئی ہے، چوری شدہ معلومات ڈارک ویب پر اپ لوڈ کر دی گئیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی ریلوے کے تقریباً تین کروڑ رجسٹرڈ مسافروں کا ڈیٹا ہیک کر لیا گیا ہے، جسے مبینہ طور پر ڈارک ویب پر فروخت کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔

    ہیکرز کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی ریلوے کی اب تک کی یہ سب سے بڑی ڈیٹا ہیکنگ ہے، سائبر کرمنلز نے اپنے ایک فورم پر یہ ڈیٹا فروخت کے لیے اپ لوڈ کیا ہے۔

    ہیک کیے گئے ڈیٹا میں صارفین کے نام، ای میل، موبائل نمبر، جنس، مکمل پتہ اور ان کی زبان کی ترجیحات شامل ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق ڈیٹا ان صارفین کا ہے جو انڈین ریلوے پورٹل سے ٹکٹ بک کرتے ہیں، ہیکر نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس سرکاری ای میل آئی ڈیز اور ان کے سیل فون نمبرز سمیت سرکاری افراد کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔

    بھارتی ریلوے نے اب تک اس معاملے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے، 2020 میں بھی بھارتی ریلوے کے ٹکٹ خریداروں کا ڈیٹا ہیک کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل چین کے ایک ہیکر نے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دہلی کے تکنیکی نظام کو ہیک کیا تھا، اس نے پورے سرور کو کنٹرول کر لیا تھا، اور 200 کروڑ روپے کی کرپٹو کرنسی کا مطالبہ کیا، تاہم بعد میں سرور کو ہیکر کے قبضے سے واپس لے لیا گیا۔

  • بھارت اپنے شہریوں کے کرونا ڈیٹا کی حفاظت بھی نہ کر سکا

    بھارت اپنے شہریوں کے کرونا ڈیٹا کی حفاظت بھی نہ کر سکا

    نئی دہلی: بھارت اپنے شہریوں کے کرونا ڈیٹا کی حفاظت بھی نہ کر سکا، کرونا سے متعلق ہزاروں بھارتی شہریوں کا ڈیٹا آن لائن لیک ہو گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں ہزاروں لوگوں کا ذاتی ڈیٹا ایک سرکاری سرور سے لیک ہو گیا ہے جس میں ان کے نام، موبائل نمبر، پتے اور کووِڈ ٹیسٹ کے نتیجے شامل ہیں، اور ان معلومات تک آن لائن سرچ کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

    لیک ہونے والے ڈیٹا کو ریڈ فورمز کی ویب سائٹ پر فروخت کے لیے رکھا گیا ہے جہاں ایک سائبر مجرم نے 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کا ذاتی ڈیٹا رکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ریڈ فورمز پر ڈالے گئے ڈیٹا میں ان لوگوں کا نام، عمر، جنس، موبائل نمبر، پتا، تاریخ اور کرونا رپورٹ کا نتیجہ لیک کیا گیا ہے۔

    سائبر سیکیورٹی کے محقق راج شیکھر راجہریا نے بھی ٹویٹ کیا کہ ذاتی طور پر قابل شناخت معلومات (PII) بشمول نام اور کرونا ٹیسٹنگ کے نتائج کو کنٹینٹ ڈیلیوری نیٹ ورک (CDN) کے ذریعے عام کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گوگل نے متاثرہ سسٹم سے لاکھوں ڈیٹا کو انڈیکس کیا ہے۔

    راجہریا نے ڈارک ویب پر دستیاب دستاویزات کے جو اسکرین شاٹس شیئر کیے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ لیک ہونے والا ڈیٹا Co-WIN پورٹل پر اپ لوڈ کرنے کے لیے تھا۔

    اس سلسلے میں بھارتی وزارت الیکٹرانکس اور آئی ٹی کو بھیجے گئے ایک ای میل سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔

  • 70 لاکھ بینک صارفین کا حساس ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک

    70 لاکھ بینک صارفین کا حساس ڈیٹا ڈارک ویب پر لیک

    نئی دہلی: 70 لاکھ بھارتی بینک صارفین کا حساس ڈیٹا لیک ہو گیا جس میں ای میل آئی ڈیز سمیت صارفین کی نجی معلومات شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیٹ سیکورٹی ریسرچ نے انکشاف کیا ہے کہ ستر لاکھ بھارتی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ ہولڈرز کے فون نمبرز، ای میل آئی ڈیز سمیت نجی معلومات ڈارک ویب پر گردش کر رہی ہیں۔

    آن لائن بینکنگ نے لاکھوں صارفین کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے، یہ ڈیجیٹل بینکنگ سے متعلق بڑا انکشاف قرار دیا جا رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ لیک ہونے والی معلومات میں صارفین کے نام، فون نمبرز، ای میل آئی ڈیز سمیت ان کی سالانہ آمدنی وغیرہ شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں سیکورٹی کے ریسرچر راجیش کھیر راجا ہریا نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈارک ویب پر تقریباً 2 جی بی کا ڈیٹا بیس لیک ہوا ہے جس میں صارفین کے اکاؤنٹ کی تفصیلات سمیت تمام معلومات موجود تھیں۔

    مزید بتایا گیا کہ مذکورہ ڈیٹا 2010 سے 2019 کے درمیان کا ہے، جو کہ ہیکرز اور اسمگلرز کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، کیوں کہ ڈیٹا مالی اعداد و شمار پر مبنی ہے، جس کی مدد سے وہ صارفین کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ڈیٹا لیک کرنے میں کوئی تیسری پارٹی ملوث ہے، جس سے بینک نے کریڈٹ ڈیبٹ کارڈ فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔

    بتایا گیا کہ لیک ہونے والے ڈیٹا میں تقریباً 5 لاکھ کارڈ ہولڈرز کے پین نمبر بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ فنانشل ڈیٹا انٹرنیٹ کا سب سے مہنگا ڈیٹا ہوتا ہے، اس سلسلے میں راجا ہریا کا کہنا تھا کہ مذکورہ ڈیٹا حقیقی تھا یا نہیں، ابھی یہ واضح نہیں ہوا، تاہم خدشہ ہے کہ کسی نے یہ ڈارک ویب پر فروخت کیا اور پھر یہ پبلک ہو گیا۔

  • کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    کرونا کا مقابلہ سیاست، کاروبار اور کرپشن سے!

    تحریر: عمیر حبیب

    اسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا سے لڑتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کررہے ہیں اور گویا حالتِ جنگ میں ہیں۔

    ڈاکٹروں نے حکومت سے حفاظتی لباس اور ضروری اسباب و وسائل کی فراہمی یقینی بنانے کی درخواست اور عوام سے اپیل کی ہے کہ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل کریں، لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں گنجائش گھٹ رہی ہے اور کیسز بڑھ گئے تو متاثرہ افراد کو طبی سہولیات فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا اور انھیں مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑے گا۔

    موجودہ حالات میں اگر پاکستان کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تو حکومتیں لاک ڈاؤن کے علاوہ میڈیکل سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر وینٹیلیٹروں کی تیاری اور خریداری سمیت بڑی تعداد میں ماسک اور دستانے وغیرہ اسپتالوں میں پہنچائے جارہے ہیں۔پرتگال کی حکومت نے چین سے 500 وینٹیلیٹروں کا معاہدہ کیا ہے، لندن نے یورپ اور چین سے میڈیکل آلات کا معاہدہ کیا ہے۔ غرض کہ دنیا اس وبا کے ممکنہ پھیلاؤ اور انسانی جانوں کے ضیاع کے خدشات کے پیشِ نظر ایسے معاہدوں اور خریداری کا سلسلہ تیز کررہی ہے، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سنگین معاملہ بھی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔

    صوبوں کے پاس صحت اور علاج معالجے کے لیے بجٹ موجود ہے، مگر اس کا استعمال نجانے کہاں اور کیسے ہورہا ہے۔ صوبہ سندھ کی بات کریں تو حکومت اپنے فرائض کی انجام دہی سے قاصر نظر آتی ہے، کبھی خبر ملتی ہے لاکھوں ٹن گندم راستے سے غائب ہوگئی ہے تو کبھی معلوم ہوتا ہے کہ راشن کی تقسیم میں خورد برد کی گئی ہے۔ لوگوں‌ نے سنا کہ ناقص اور زائد المیعاد اشیائے خورد و نوش غریب اور راشن سے محروم افراد تک پہنچا کر "نیکیاں” کمانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان حالات میں‌ بھی اگر ہم ایسی لوٹ مار اور اپنے اکاؤنٹ بھرنے سے باز نہیں‌ آئے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔

    دوسری طرف آسٹریلیا کے تحقیقاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ دنیا بھر میں کرونا سے صحت یاب مریضوں کا خون ڈارک ویب پر منہگے داموں فروخت ہورہا ہے کیوں کہ ایسے افراد کا خون (پلازما) متاثرہ مریض کی قوتِ مدافعت بڑھا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت پلازما تھراپی کی جارہی ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ فوری اور مؤثر طریقہ علاج نہیں ہے۔ البتہ ڈارک ویب پر صحت یاب مریضوں کے خون کی فی بوتل قیمت 2500 ڈالر وصول کی جارہی ہے۔ یہ خرید و فروخت قانونی طور پر جرم اور طبی نقطہ نگاہ سے خطرناک بھی ہے۔

    غرض کہ جہاں اس وبا پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں اس پر دھندا بھی عروج پر ہے اور اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں بھی اس سے کچھ مختلف ہی سہی مگر ایسے جرائم ہورہے ہوں گے جن پر بَروقت گرفت، تحقیق اور ثبوت ملنے کی صورت میں تفتیش ضروری ہے۔ اس حوالے سے ایک عام جرم غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کا کرونا ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرنا ہے۔

    پچھلے دنوں قرنطینہ مراکز میں صفائی ستھرائی کے فقدان اور متاثرہ مریضوں کو سہولیات کی عدم فراہمی کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب خصوصی طور پر بنائے گئے ان مراکز کا یہ حال ہے تو سرکاری اسپتالوں میں انتظامات کیسے ہوں گے اور کیا اس طرح صوبائی حکومتیں کرونا پر قابو پاسکتی ہیں؟

    وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے، صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ کا شفاف طریقے سے ضروری استعمال کریں اور ڈاکٹروں سمیت پیرا میڈیکل اسٹاف کی درخواستوں اور ان کی اپیلوں پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ساتھ ہی لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے ایسی تجاویز زیرِ بحث لائی جائیں جن سے عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • لاک ڈاؤن میں ’زوم‘ ایپ استعمال کرنے والوں کے لیے چونکا دینے والی خبر

    لاک ڈاؤن میں ’زوم‘ ایپ استعمال کرنے والوں کے لیے چونکا دینے والی خبر

    ویڈیو کمیونیکیشنز کے سافٹ ویئر زوم سے متعلق دل دہلا دینے والی خبر سامنے آگئی، زوم کے 5 لاکھ سے زائد صارفین کا ڈیٹا بدنام زمانہ ڈارک ویب پر فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    زوم پر اس حملے کا انکشاف ایک سائبر سیکیورٹی فرم نے کیا ہے، فرم کا کہنا ہے کہ ایک ہیکر فورم پر زوم صارفین کے اکاؤنٹس کو خریداری کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

    ان اکاؤنٹس کی قیمت اعشاریہ 1 یا 2 ڈالر رکھی گئی جبکہ اکاؤنٹس مفت میں بھی دیے جارہے ہیں، فرم کا کہنا ہے کہ ان اکاؤنٹس کی تعداد 5 لاکھ 30 ہزار ہے۔

    فرم کے مطابق فروخت کیے جانے والے ڈیٹا میں پرسنل میٹنگز کے یو آر ایلز، ای میل ایڈریسز، پاسورڈز اور وہ ہوسٹ کیز شامل ہیں جن کے ذریعے ہیکر کسی بھی میٹنگ میں کسی بھی وقت شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔

    مذکورہ انکشاف کے بعد زوم کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مختلف ویب سائٹس پر اس طرح کی کارروائیاں عام بات ہیں، اس سے وہ صارفین متاثر نہیں ہوں گے جو سنگل سائن ان کے اصول پر چلتے ہیں۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ البتہ ان صارفین کو خطرہ ہوسکتا ہے جو بہت سے پلیٹ فارمز کے اکاؤنٹس کے لیے ایک ہی ای میل اور پاسورڈ استعمال کرتے ہیں۔

    اس حوالے سے اس سے قبل امریکا کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی بھی خبردار کر چکی ہے کہ مختلف پلیٹ فارمز کے علیحدہ اکاؤنٹس کے لیے ایک جیسی معلومات استعمال نہ کی جائیں۔

    سنہ 2108 میں ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، کہ اگر کسی ایک پلیٹ فارم پر آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہوگیا ہو، اور آپ نے اسی اکاؤنٹ والا ای میل اور پاسورڈ دوسرے اکاؤنٹس کے لیے بھی مختص کر رکھا ہو، تو آپ کے تمام اکاؤنٹس اور ان کے ذریعے تمام معلومات خطرے میں ہیں۔

    زوم کا کہنا ہے کہ کمپنی نے اس طرح کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے متعدد انٹیلی جنس فرمز کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں، علاوہ ازیں صارفین کو احتیاطاً اپنے پاسورڈز تبدیل کرنے کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔

    دوسری جانب سائبر سیکیورٹی فرم کا کہنا ہے کہ ہیک کیے جانے والے اکاؤنٹس میں نہ صرف انفرادی اکاؤنٹس شامل ہیں، بلکہ بڑی کمپنیز کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں جن میں سے ایک امریکا کا مالیاتی ادارہ سٹی بینک بھی ہے۔

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے بعد جب نصف سے زائد کاروبار زندگی گھروں سے کیا جارہا ہے، ایسے میں زوم پیشہ وارانہ رابطوں کا مؤثر ترین ذریعہ ثابت ہورہا ہے تاہم اس کے ذریعے ڈیٹا چوری، ہیکنگ اور دیگر خدشات بھی سامنے آرہے ہیں۔

    زوم کے وسیع استعمال کو دیکھتے ہوئے ہیکرز نے اب اسے اپنے حملوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے، ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جب اداروں کے ملازمین کی ویڈیو کانفرنس کے درمیان کوئی ہیکر بیچ میں گھس آیا اور پورنو گرافی اور نسل پرستانہ مواد ڈسپلے کردیا۔

    اس طرح کی مداخلت کو ’زوم بومبنگ‘ کا نام دیا جارہا ہے۔

    زوم کی سیکیورٹی کو پرخطر سمجھتے ہوئے کئی اداروں نے اس کے استعمال پر پابندی بھی عائد کی ہے جس کے بعد کمپنی اپنے سافٹ ویئر کو محفوظ بنانے پر کام کر رہی ہے۔

  • ڈارک ویب پر غیر قانونی کاروبار میں ملوث 38 ممالک سے سینکڑوں ملزمان گرفتار

    ڈارک ویب پر غیر قانونی کاروبار میں ملوث 38 ممالک سے سینکڑوں ملزمان گرفتار

    لندن : برطانیہ اور امریکہ کے تفتیش کاروں نے ڈارک ویب پر موجود بچوں سے بد فعلی پر مبنی ویڈیوز کی ویب سائٹ پر تحقیق کر کے مختلف ممالک سے 337 افراد کو گرفتار کر لیا ہے ۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی سرکاری ایجنسی این سی اے نے بتایا کہ ویب سائٹ پر 2 لاکھ 50 ہزار ویڈیو موجود تھیں جن کو پوری دنیا سے مختلف افراد نے10 لاکھ بار ڈاون لوڈ کیا تھا۔

    ویب سائٹ پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والوں کو ڈیجیٹل کرنسی میں ادائیگی کی جاتی تھی۔

    تفتیش کاروں نے 38 ممالک سے 337 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں برطانیہ، آئرلینڈ، امریکہ،جنوبی کوریا، جرمنی، اسپین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کینیڈ اور چیک ری پبلک کے باشندے شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ ویب سائٹ جنوبی کوریا سے چلائی جا رہی تھی اس لیے مقامی پولیس سے بھی مدد لی گئی تھی۔

    امریکا کے محکمہ انصاف کے مطابق یہ بچوں سے بد فعلی پر مبنی ویڈیوز کی سب سے بڑی ویب سائٹ تھی جس کو بند کردیا گیا ہے۔

    دنیا کا سب سے بڑا پورنوگرافی نیٹ ورک بے نقاب

    برطانوی حکام کا کہنا ہے اس نوعیت کے کیس میں پہلے مجرم کو 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا اس کو تین سالہ بچی کے ساتھ بد فعلی کے جرم میں 22 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ ڈارک ویب پر جانے کے لیے مخصوص سوفٹ ویئر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ ویب غیرقانونی سرگرمیوں کے لیے مقبول ہے۔