Tag: ڈاکٹر اجمل ساوند

  • ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چوتھے روز بھی آپریشن

    ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چوتھے روز بھی آپریشن

    کندھ کوٹ: آرٹیفشل انٹیلیجنس کے پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے چوتھے روز بھی آپریشن جاری رہا، اور ضلع بھر کی پولیس نے سندرانی قبائل کے مختلف دیہاتوں پر چھاپے مارے۔

    تفصیلات کے مطابق ایس ایس پی عرفان سموں کی قیادت میں فرانس میں کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے آپریشن چار روز سے جاری ہے، تاہم قاتل تاحال گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔

    چوتھے روز سندرانی قبائل کے مختلف دیہاتوں میں چھاپوں کے دوران ملزمان نے پولیس پر جدید اسلحے سے فائرنگ بھی کی اور پھر کچے کی طرف فرار ہو گئے۔

    پولیس نے گاؤں سردار خان سندرانی اور احمد علی سندرانی میں پولیس کیمپ قائم کر دیا ہے، ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ جب تک ملزمان گرفتار نہیں ہوتے آپریشن جاری رہے گا۔

    ایس ایس پی کے مطابق ملزمان کو سہولت دینے کے الزام میں مختلف دیہاتوں میں گھر مسمار کیے گئے ہیں اور ملزمان نے جو مورچے قائم کیے تھے انھیں بھی مسمار کر دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو جمعرات کی صبح کندھ کوٹ کے گھٹ تھانے کی حدود میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا کیا گیا، وہ فرانس کی یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، جہاں سے وہ کچھ عرصہ قبل اس لیے وطن واپس آ گئے تھے کیوں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔

    کندھ کوٹ کشمور پولیس نے ڈاکٹر اجمل کے قتل کو قبائلی تنازعے کا شاخسانہ قرار دیا ہے، ایس ایس پی کشمور عرفان سموں کے مطابق قتل سندرانی اور ساوند قبائل میں تصادم کا نتیجہ ہے، جس میں اس وقت تک 7 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ساوند قبیلے نے سندرانی قبیلے کے ایک شخص پر کاروکاری کا الزام عائد کیا تھا۔

  • ملک کا قیمتی سرمایہ ‘ قبائلی جھگڑے’ کی بھینٹ چڑھ گیا

    ملک کا قیمتی سرمایہ ‘ قبائلی جھگڑے’ کی بھینٹ چڑھ گیا

    اپنوں کا پڑھانے کا عزم لئے بیرون ملک سے وطن لوٹنے والا پی ایچ ڈی ڈاکٹر قبائلی جھگڑے کی بھینٹ چڑھ گیا۔

    میں مڈل کلاس کا طالب علم تھا۔ ان ہی کپڑوں (شلوار قمیض) میں انگریزوں کو فرنچ میں پڑھاتا تھا۔ ایک گھنٹے کے 30 ہزار روپے پاکستانی ملتے تھے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے ملک جا کر اپنوں کو پڑھاؤں گا۔‘

    ڈاکٹر اجمل ساوند کی یہ ویڈیو گزشتہ روز سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ طالب علموں کو لیکچر دے رہے ہیں۔Image

    فرانس سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کو دو روز قبل کندھ کوٹ میں فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا،المیہ یہ ہے کہ یہ قتل قبائلی جھگڑے کا شاخسانہ تھا۔

    کشمور پولیس کے مطابق کندھ کوٹ میں عرصہ دراز سے سندرانی اور ساوند قبائل میں تصادم کا سلسلہ جاری ہے اس خونریز جھگڑے میں اب تک دونوں قبائل کے سات افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔Image

    اے آر وائی نیوز کے چیف رپورٹرز لالہ اسد پٹھان نے واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک منظم منصوبے کے تحت اندورن سندھ میں قبائلی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے اس کا آغاز ضیاالحق دور سے ہوا تھا اور تمام تر کوششوں کے باوجود آج تک اس کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔

    لالہ اسد پٹھان نے نہایت اہم نقطہ بیان کیا کہ ایک مذموم مقصد کے تحت فساد زدہ علاقوں میں مخالفین اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے، بچوں کی خطرناک ذہن سازی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہ بچے بالکل الگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور وقت آنے پر اسلحہ اٹھالیتے ہیں اگر یوں کہا جائے کہ یہ جنگلی بن جاتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے چیف رپورٹرز نے بتایا کہ ’ساوند قبیلے نے سندرانی قبیلے کے شخص پر کاروکاری کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے قبائلی تنازعے کی شکل اختیار کی جس میں ایک عورت اور اجمل ساوند سمیت سات افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔‘Image

    ایس ایس پی کشمور عرفان سموں نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک نہایت قابل استاد اقبال ساوند مارا گیا۔

    ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق واقعے کے بعد مشتبہ ملزمان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے لیکن وہ فرار ہو چکے ہیں، پولیس جیو فینسنگ بھی کر رہی ہے تاکہ ملزمان تک پہنچا جا سکے۔

    ایس ایس پی عرفان سموں نے بتایا کہ واقعے کے بعد ملزمان کے کچے گھر گرادئیے گئے ہیں ان میں وہ گھر شامل ہوتے ہیں جن کو مورچے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

    کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اجمل ساوند کی بنیادی تعلیم کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں ہوئی۔ ادب سے لگاؤ کی وجہ سے وہ وہاں ادبی رسالے اور سووینئر میگزین کے سب ایڈیٹر رہے۔

    ان کی پیشہ ورانہ تحقیقی دلچسپیوں میں وائرلیس میڈیکل سینسر نیٹ ورکس، وائرلیس باڈی ایریا نیٹ ورکس، وائرلیس سینسر نیٹ ورکس میں سیکورٹی اور وسائل کا انتظام تھا۔

    سکھر میں انھوں نے آئی بی اے میں ملازمت اختیار کی، جہاں وہ کمپیوٹر سائنس فیکلٹی سے وابستہ رہے۔