Tag: ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی

  • سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سیاحت سے ’اجازت‘ تک!

    سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں۔ اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل وعیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔

    سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔ اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ”اسٹاک ایکسچینج“ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ”لوٹا“ کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ”گندا انڈا“ قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:

    جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
    اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

    سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ”یوٹرنز“ قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ ’میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔‘ عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ”وی“ (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل وارڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎
    اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    (طنز و مزاح‌ پر مبنی یہ تحریر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی "تصنیف کتنے آدمی تھے؟” سے چنا گیا)

  • ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    وطن عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جان و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومتِ وقت اور برسرِ اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحتِ قلب اور روحتِ روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا، ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔

    مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔

    شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا۔ ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔“

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔ حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، کالم نویس اور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی آج اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے۔

    ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی وضع دار، بامروّت، شفیق، ملن سار، خوش مزاج مشہور تھے۔ وہ اپنے خورد معاصرین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے ساتھ زبان و بیان اور املا انشا کی درستی میں مدد دیتے اور اصلاح کرتے۔

    ان کے علمی مضامین اور کالم باقاعدگی سے پاکستان کے مؤقر جرائد اور روزناموں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

    انھوں نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے، جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری ہوئی۔

    مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام و مقام بنایا۔ مجید لاہوری جیسے نام ور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے نمکدان سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962ء میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔ اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابنِ منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔

    1983ء میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب شایع کروائی جو ایم اے کے طلبا کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اوّلین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
    انھوں نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواسِ خستہ جیسی شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین کل (21 ستمبر 2021) کی جائے گی۔