Tag: ڈاکٹر حسن ظفر عارف

  • علم کا ظفرِ موج … پروفیسر حسن ظفرعارف …. ابتدا سے اختتام تک

    علم کا ظفرِ موج … پروفیسر حسن ظفرعارف …. ابتدا سے اختتام تک

    ایم کیو ایم لندن کے ڈپٹی کنونیر اور شہرِ کراچی کے معروف استاد پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف اتوار کی صبح کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں اپنی کار کی عقبی نشست پر مردہ حالت میں پائے گئے۔

    فلسفے میں ڈاکٹریٹ کرنے والے پروفیسر حسن ظفر عارف جامعہ کراچی میں شعبہ فلسفہ کے استاد رہے ہیں وہ دوران تدریس ہی ایک متحرک ترقی پسند نظریاتی کارکن اور سرمایہ درانہ نظام و آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھے جانے لگے تھے جس کی پاداش میں انہیں اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

    دوران تدریس جہاں وہ طالب علموں کی نصابی ضرورتوں کو پورا کرتے وہیں ان کی نظریاتی ذہن سازی بھی کرتے اور ایک روشن خیال معاشرہ کی ترویج میں طالب علموں کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرتے رہے چنانچہ طالب علموں کے ساتھ اُن کا رویہ محض ایک مشفق استاد کا ہی نہیں بلکہ ایک لیڈر بھی کا تھا جو نوجوان ذہنوں کی مثبت سوچ کے ساتھ آبیاری کیا کرتا تھا۔

    انہوں نے جامعہ کراچی کے اساتذہ کی ایک انجمن کے سیکریٹری اور صدر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے اور اس دوران نہ صرف یہ کہ کنٹریکٹ اساتذہ کو مستقل کرایا بلکہ اساتذہ کے دیگر مسائل کو حل کرانے میں کامیاب رہے۔

    جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں انہیں پیپلز پارٹی کے حق میں آواز اُٹھانے کی پاداش میں اُس وقت کے گورنر سندھ جنرل جہانداد کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں آمریت مخالف تحریک چلانے کے جرم میں انہیں ملازمت سے برطرف کرکے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کسی قسم کی سودے بازی سے انکار کردیا تھا۔

    کہا جاتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کلیدی کردار ادا کیا اور 80 کی دہائی میں جب اُس وقت کے آمر حکمراں کے خلاف ریگل چوک پر مظاہرہ کرنے کے دوران ڈی ایس پی پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بول کر پروفیسر صاحب کو گریبان سے پکڑ کر پولیس موبائل میں ڈالا تو اگلے روز یہ تصویر مقامی اخبار میں ’’ ڈی ایس پی بمقابلہ پی ایچ ڈی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے بائیں بازو کی تحریک سے تعلق رکھنے والے دیگر دانشوروں جیسے سبط حسن ، ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر فیروز احمد کے ساتھ مل کر ہم خیال دانشوروں کی انجمن کی داغ بیل ڈالی جس کے تحت ‘پاکستان فورم’ کے نام سے ایک تحقیقی جریدہ شائع کرنے کا آغاز کیا جو پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات کی پرچار کرتا تھا.

    اس تحقیقی جریدے نے ضیاء الحق کے دور حکمرانی کی رجعت و بنیاد پرستی، متوسط طبقے کی نمائندگی، علم دوستی اور آمریت کے خلاف جدوجہد میں پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر جمہوری قوتوں کی حمایت میں مضامین شائع کیے جس کے باعث اس جریدے کو جاری رکھنے میں سخت پریشانی کا سامنا بھی رہا۔

    پروفیسر حسن ظفر عارف آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد میں ایم آر ڈی کا حصہ بھی بنے علاوہ ازیں وہ اس وقت کی پیپلزپارٹی میں محنت کشوں، کسانوں اور طالب علموں اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند سیکشن کی نمائندگی کے خواہاں تھے جس کے لیے انہوں نے پی ایس ایف کو جامعہ کراچی میں منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

    کراچی یونیورسٹی میں ملازمت سے برطرفی کے بعد بیگم نصرت بھٹو کی تجویز پر وہ باقاعدہ پی ایس ایف کو منظم کرنے اور ترقی پسند طلبہ تنظیم این ایس ایف کی رہنمائی میں کل وقتی طور پہ مصروف ہوگئے اُسی زمانے میں انھوں نے روس سے شائع ہونے والے مارکسی لٹریچر کا بھی بڑے پیمانے پہ ترجمہ کیا۔ ‘ملکیت کیا ہے؟’ ‘ سرمایہ کیا ہے؟’ اور اس جیسے کئی مقبول کتابچوں میں سے  چند ایک ہیں۔

    پروفیسر حسن ظفر عارف نے اُس زمانے میں نوجوانوں کی بڑی رہنمائی کی اور قومی سوال اور قومی تضادات پر ایک شہرہ آفاق مقالہ تحریر کیا جو 80 کی دہائی میں ان کی سرپرستی میں نکلنے والا جریدے پاکستان فورم ہی میں شائع ہوا تھا اور جس نے قبولیت عام کی سند پائی تھی۔

    تاہم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد اور دو بار وزیر اعظم بننے کے باوجود سرمایہ داری کے خلاف موثر اقدام نہ اُٹھانے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث مایوس ہوکر گوشہ نشین ہو گئے تاہم جب مسلم لیگ (ن) پر بُرا وقت آیا تو حسن ظفر عارف نے شمولیت حاصل کر کے آمریت کے خلاف کام کیا۔

    میاں صاحب کے دوبارہ اقتدار میں براجمان ہونے کے بعد بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو حسن ظفر عارف ایک بار پھر گوشہ نشین ہوئے تاہم 15 مئی 2016 میں اپنے دیگر کامریڈ ساتھیوں مومن خان مومن اور ساتھی اسحاق کے مشورے سے ایم کیو ایم میں شمولیت میں حاصل کی اور بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر کے بعد لگنے والی پابندی کے بعد بھی ایم کیو ایم لندن سے جڑے رہے۔

    بانی ایم کیو ایم نے  فاروق ستار سمیت اپنی جماعت کے تقریبآ تمام ہی رہنماؤں کی جانب سے اعلان لاتعلقی کے بعد 17 اکتوبر 2016 کو ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو ڈپٹی کنونیر نامزد کیا گیا تاہم 22 اکتوبر 2016 کو اپنی دوسری پریس کانفرنس کے وقت ڈاکٹر صاحب کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ رینجرز اہلکاروں نے حراست میں لے لیا تھا بعد ازاں انہیں 18 اپریل 2017 کو ضمانت پر سینٹرل کراچی سے رہا کردیا گیا۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف اپنی رہائی کے بعد بھی ایم کیو ایم لندن کے لیے کام کرتے رہے جب کہ ان کے ساتھ حراست میں لیے گئے دیگر رہنماؤں امجد اللہ اور کنور خالد یونس نے سیاست سے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔

    چند روز قبل ایم کیو ایم لندن کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے مطابق کراچی اور لندن میں تمام تنظیمی کمیٹیوں کو تحلیل کر کے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو پاکستان میں انچارج مقرر کردیا گیا تھا اور وہ تاحال تنظیم سازی میں مصروف میں تھے اور گزشتہ شب پارٹی اپنی بیٹی سے ملاقات کرنے کا کہہ کر پارٹی میٹنگ سے چلے گئے تھے تاہم وہ گھر نہیں پہنچ سکے۔

    اتوار کی صبح اہل خانہ کو پتہ چلا کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف ابراہیم حیدری کے علاقے میں اپنی کار کی پچھلی نشست پر مردہ پائے گئے ہیں جس کے بعد اہل خانہ نے جناح اسپتال جاکر لاش کی تصدیق کی جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد میت لواحقین کے حوالے کردی گئی۔

    ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا جنازہ ان کے بھائی کے گھر واقع گلبرگ سے اُٹھایا گیا جب کہ نماز جنازہ فیڈرل بی ایریا کی مسجد دارالعلوم میں ادا کی گئی اس موقع پر اہل خانہ سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

    پولیس اور جناح اسپتال کی ایم ایس سیمی جلالی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا وہ عمر رسیدہ تھے اور سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے اس لیے غالب امکان ہے کہ اُن کی موت دل کا دورہ یا فالج کے حملے کے باعث واقع ہوئی تاہم حتمی بات پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی کہی جا سکتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • متحدہ لندن کے رہنما حسن ظفر اور کنور خالد پریس کلب سے زیر حراست

    متحدہ لندن کے رہنما حسن ظفر اور کنور خالد پریس کلب سے زیر حراست

    کراچی : ایم کیو ایم لندن کے اراکینِ رابطہ کمیٹی ڈاکٹر حسن ظفر عارف اور کنور خالد یونس کو رینجرز نے پریس کلب سے حراست میں لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم لندن کی جانب سے پریس کلب میں آج پریس کانفرنس کی جارہی تھی کہ رینجرز نے رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر حسن ظفر عارف اور کنور خالد یونس کو گرفتار کر لیا۔ دونوں اراکین کو رینجرز نے میٹھا رام ہاسٹل منتقل کردیا جہاں دونوں اراکین ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق ڈاکٹر حسن ظفر عارف پریس کلب کے عقبی دروازے پر موٹر سائیکل پر بیٹھے دیگر اراکین رابطہ کمیٹی کا انتظار کرر ہے تھے کہ رینجرز کے اعلیٰ حکام انہیں حراست میں لے کر رینجرز موبائل میں بیٹھا کر اپنے ہمراہ لے گئے۔

    رینجرز حکام نے رابطہ کمیٹی کے دوسرے رکن کنور خالد یونس کو بھی حراست میں لے لیا  وہ پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے آرہے تھے کہ گورنر ہاؤس کے قریب پہ پہنچے اور رینجرز نے انہیں گرفتار کر لیا،جب کہ دیگر اراکین رابطہ کمیٹی سے رابطہ نہیں ہو پارہا۔

    لندن رابطہ کمیٹی کی جانب سے بلائی گئی پریس کانفرنس کی اطلاع کے بعد رینجرز حکام کی بھاری نفری پریس کلب کے اطراف تعینات کردی گئی تھی اور عام افراد کو جانے نہیں دیا جارہا تھا، جیسے ہی ڈاکٹر حسن ظفر عارف پریس کلب پہنچے اور دیگر اراکین کا انتظار کر رہے تھے کہ رینجرز حکام نے انہیں حراست میں لے لیا۔

    یاد رہے کہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور بائیں بازو کی سیاست سے گہرا تعلق رہا ہے،چند ماہ قبل انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

    ایم کیو ایم لندن کے دوسرے گرفتار رکن رابطہ کمیٹی کنور خالد یونس سابق ایم این اے بھی رہے ہیں وہ مسلسل تین بار نارتھ ناظم آباد کے حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

    خیال رہے کہ 22 اگست کی متنازع تقریر کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے اظہار لا تعلقی اور اپنی راہیں جدا کرنے کے بعد ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بنائی گئی نئی رابطہ کمیٹی میں ڈاکٹر حسن عارف ظفر اور کنور خالد یونس کو اہم ذمہ داری دی گئی تھی اور ایم کیو ایم لندن کی پہلی پریس کانفرنس بھی ڈاکٹر حسن ظفر کی سربراہی میں کی گئی تھی۔

    ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن امجد اللہ خان نے صحافیوں سے موبائل فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ دو رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد پریس کانفرنس ملتوی کردی گئی ہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کااعلان جلد کیا جائے گا۔

    رکن رابطہ کمیٹی امجد اللہ خان اس وقت پریس کلب کے اندر موجود ہیں جنہیں باہر آنے پر گرفتار کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔