Tag: ڈاکٹر طاہر القادری

  • ڈاکٹر طاہر القادری نےعمران خان سے مل کرانقلاب مارچ کرنےکا اعلان کردیا

    ڈاکٹر طاہر القادری نےعمران خان سے مل کرانقلاب مارچ کرنےکا اعلان کردیا

    اسلام آباد: پاکستان عوامی تحریک آج سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ضرب ِ عضب میں شہید ہونے والے شہدا کی یاد میں یوم شہدامنارہی ہے جس کی مرکزی تقریب لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع منہاج القرآن سیکریٹیریٹ میں منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کےسربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ظلم کی انتہا ہوچکی ہے اور اب نہ ظلم رہے گا اور نہ ہی ظالم بچے گا۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے اہنے کارکنان سے تین دن تک ماڈل ٹاؤن میں جمع رہنے کا حکم دیتے ہوئے تاریخ ساز اعلان کیا کہ تین دن تک یہاں شہدا کی قرآن خوانی ہوگی اور چودہ اگست کو انقلاب مارچ روانہ ہوگا جو عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ مل کر اسلام آباد جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساتھ مل کر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کریں گے۔

    پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے تقریب کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ضرب ِ عضب کے شہدا ، سانحۂ ماڈل اور ملک بھر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے شہدا سے خراج ِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔

    علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے خطاب کے آغاز میں پاکستانی قوم کے چنیدہ مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعامانگی۔

    انہوں نے جلسے کے شرکاء کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کوئی پھل نہیں جو آسانی سے جھولی میں ڈال دیا جائے ، دنیا بھر میں جہاں کہیں آج ترقی اور آزادی ہے اس کے پیچھے قربانیوں کی طویل اور لازوال قربانیوں کی داستانیں ہیں۔ ظالم ابھی اور ظلم کریں گے لیکن پاکستان عوامی تحریک کی تاریخ ہمیشہ پر امن رہی ہے اور انقلاب کے راستے پرامن سفر کریں گے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت ان کے قتل کی سازش تیار کر چکی ہے اور عنقریب مجھے شہید کردیا جائے گا، انہوں نے حکمرانوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ مجھے شہادت سے ڈر نہیں لگتا ، میں کسی کنٹینر میں نہیں بیٹھا ہوا جس کو مارنا ہے ا بھی آجائے۔ میں اس ملک کے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے اور ان کے حقوق کے لئے فخر سے شہید ہوں گا۔

    یوم ِ شہدا کی تقریب کے مناظر
    یوم ِ شہدا کی تقریب کے مناظر

    ان کا کہنا تھا کہ میں پچھلے تیس سال سے ماڈل ٹاؤن کے اس ایک کنال کے مکان میں رہ رہا ہوں حکومت نے مجھ پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے ، تحقیقات کرائیں اور آخر کار خود شرمندہ ہوئے کہ دنیا بھر میں میرے کوئی اثاثے نہیں ہے۔

    انہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ انقلاب کی منزلیں بے پناہ سخت ہیں اور جو جانا چاہتا ہے وہ چلا جائے میں کسی پر زبردستی نہیں کروں گا۔ انہوں نے یوم ِ شہدا کی تقریب کے بعد کارکنوں کو مزید تین دن تک بیٹھنے کے لئے کہا جس پر شرکا ء نے انتہائی جوش و خروش سے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

    ڈاکٹرطاہر القادری کا کہنا تھا کہ روز مجھ پر مقدمے قائم کئے جارہے ہیں کبھی اغوا کا ، کبھی کسی ایکسیڈنٹ میں مارے جانے والے کو ہمارے حساب میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن آج دو مہینے بعد بھی ہمارے شہدا کے قتل کی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

    حکمرانوں تحفظ کے نام پر ماڈل ٹاؤن کو غزہ بنادیا ہے سات روز سے شہری یہاں محصور ہیں اور کسی کو ان کی مدد نہیں کرنے دی جارہی یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے وزرا کو کھانا لے کر بھی نہیں آنے دیا گیا۔

    ڈاکٹر قادری نے کہا کہ ہم پاکستان کی سیاسی سماجی اور ہر سطح پر ہونے والی دہشت گردی کے مخالف ہیں اور ہم اس ملک سے دہشت گردوں سے پاک کر کے دم لیں گے۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے حدیث کے حوالے سے کہا کہ ظالم حکومت کے خلاف ڈٹ جانا سب سے بڑا جہاد ہے اور اس وقت جتنی جماعتیں اور افراد اس حکومت کے خلاف ہمارے ساتھ ہیں وہ جہاد ِ افضل کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ہماری ساری جدوجہد انصاف اور مساوات کے لئے ہے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بھی اسی طرح بہتر زندگی گزاریں جس طرح ساری دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے عوام گزارتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت غاصب ہے اور ہر وقت پاکستان آرمی  کہ خلاف سازشوں میں مشغول رہتی ہے جو کہ ہماری سرحدوں کی محافظ ہے ہم چاہتے ہیں  کہ ہم نظام کو تبدیل کرکے پاک فوج کو نیا جذبہ عطا کریں۔

    یوم ِ شہدا کی تقریب کے مناظر
    یوم ِ شہدا کی تقریب کے مناظر

    علامہ طاہر القادری نے کارکنوں سے کہا کہ انقلاب کے لئے تیار ہوجائیں جو آپ پر ظلم کریں آپ ان کا ہاتھ توڑ دیں ظالم کو ظلم نہ کرنے دیں ، لڑائی نہیں کرنی لیکن جدوجہد کی حفاظت کے لئے دہشت گردوں کو پوری قوت سے پیچھے دھکیل دیں۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کو وصیت کی کہ اگر میں اس جدوجہد میں شریف برادران کا سازش کا شکار ہو کر قتل ہوجاؤں تو ان کو چھوڑنا مت۔ خون کا بدلہ خون ہے، میرا بدلہ ضرور لینا ہے۔

    عوامی تحریک سے اظہار ِ یکجہتی کے لئے پاکستان تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ۔ متحدہ قومی موومنٹ، آل پاکستان مسلم لیگ ، مجلس وحدت المسلمین اور پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنماؤں نے بھی تقریب کے شرکاء سے خطاب کیا۔

  • طاہر القادری پرمقدمہ درج، سرکاری ٹی وی کا دعویٰ

    طاہر القادری پرمقدمہ درج، سرکاری ٹی وی کا دعویٰ

    اسلام آباد : سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹرطاہرالقادری کے خلاف عوام کوتشدد پر اکسانے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے،اس سے قبل طاہر القادری کا کہنا تھا کہ یکم ستمبر کو شریف برادران اقتدار سے باہر ہوں گے۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے پریس کانفرنس کے بعد حکومت پنجاب نے ان کے خلاف عوام کومشتعل کرنے اور تشدد پر اکسانے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ، لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران طاہر القادری نے دس اگست کو یوم شہدا کے روز انقلاب مارچ کی تاریخ دینے کا اعلان کیا تھا اور پولیس سے عوام کے راستے نہ آنے کی اپیل کی تھی ۔

    ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف مقدمہ نمبر 304/14درج کیا گیا ہے جس میں 121،506 اور 7اے ٹی اے کی دفعات درج کی گئی ہیں، دفعہ 121 پاکستان کے خلاف جنگ کی کوشش یا اعانت کرنا ہے جس کی سزا موت ، عمر قید اور جرمانہ ہے،دفعہ 506کا مطلب دھمکیاں دینا ہے جسکی سزا دو سال قید تک ہو سکتی ہے، دفعہ 7اے ٹی اے کا مطلب ملک میں دہشت پھیلانا ہے جسکی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد ایف آئی آر کو سیل کردیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق ڈاکٹرطاہر القادری کی پاکستان آمد کے بعد انکی تقاریر کی تمام ویڈیوز حاصل کرکے لیگل ایڈوائزر مقدمے کے اندراج متعلق سوچتے رہے اور آخر کار سپریم کورٹ کے ایک سابق وکیل کی باہمی مشاورت کے ساتھ لاہور کے علاقہ موہنی روڈ کے رہائشی خورشید نامی شخص کی مدعیت میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف مقدمہ درج ہوا، ذرائع کے مطابق 11روزنامچے وزیر اعلی ہاؤس میں موجود ہیں جو لاہور کے مختلف تھانوں کے ہیں جہاں شہریوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف مقدمے کےا ندراج کی درخواست دی تھی، ڈاکٹر طاہرالقادری فیصل ٹاؤن کے رہائشی ہیں انکے خلاف مقدمہ تھانہ فیصل ٹاؤن کی بجائے داتا دربار پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا۔

  • میری آخری تحریر۔ میں انقلاب کے لئے نکلا ہوں

    موت سے اسکو ڈرایا جاسکتا ہے جس کے دل میں موت کا خوف ہو۔ جس کے دل میں جذبہ شہادت ہو اسے نہ ڈرایا جاسکتا ہے نہ دھمکایا جاسکتا ہے اور نہ ہی  مذموم حرکات سے مشن سے پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے۔
    میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کارکن ہوں اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں جناح کا پاکستان بنانے کیلئے ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہوں۔

    جناح! اتحاداور تنظیم کا درس دیتے رہے اور ہمارے نظام نے قوم کو منتشر اور پارہ پارہ کردیا ، ہم ایک قوم نہیرہے بلکہ18کروڑ سروں کا ہجوم بن کر رہ گئے۔

    جناح! پارلیمنٹ کے اجلاس میں چائے پینے کے بھی مخالف تھے جبکہ یہاں پارلیمنٹ لارجز میں شراب کھلے عام چلتی ہے۔ بیرون ملک سے لائی گئی لڑکیاں کرپٹ نظام کی پیداوار حرام اشرافیہ کی راتوں کو رنگین بناتی ہیں۔

    جناح! ایک کرسی سرکاری خرچے میں اپنے گھر کیلئے خریدنے سے منع فرمادیتے مگر آج سرکاری خرچ پر پورے کے پورے خاندان عیاشیاں کررہے ہیں۔ شہنشاہ کا بیٹا ہیلی کاپٹر سے نیچے پاﺅں نہیں رکھتا۔ بیٹی سرکاری خرچ کو اپنا بینک بیلنس سمجھتی ہے اور رشتہ دار اپنا حق۔ بیرون ملک دوروں میں پٹواریوں کی پوری ٹیم کے ہمراہ اربوں ڈالر اڑا دئیے جاتے ہیں۔

    جناح! انتہاپسندی کو مہلک مرض سمجھتے تھے مگرآج مساجد، امام بارگاہیں، تبلیغی مراکز، بازار، گلی کوچے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔اس آگ میں نہ جانے کتنے بچے اپنے باپ کی شفقت ، ماں کی محبت سے محروم ہوئے۔ نہ جانے کتنی بہنیں بھائیوں کے سائے سے محروم ہوئیں اور نہ جانے کتنی مائیں ہیں جن کا کلیجہ اپنے بچے کے بچھڑ جانے کے غم میں چھلنی چھلنی ہے۔

    جناح کے پاکستان میں کرپشن، طبقاتیت، رشوت، سفارش ، اقرباءپروری اور خاندانی بادشاہت کی گنجائش نہیں
    سماج دشمنوں ،بھتہ خوروں، لٹیروں، دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ جناح کا پاکستان بکے ہوئے صحافیوں، بے ضمیر سیاستدانوں، کرپٹ اشرافیہ، دین فروش ملاﺅں اور جعلی پیروں کیلئے بھی تنگ ہے۔

    میں جناح کے پاکستان کا حامی ہوں لیکن نظام کا دشمن ہوں۔ اس فرسودہ نظام نے ان تمام برائیوں کو تحفظ فراہم کیا، چونکہ یہ نظام جناح کے پاکستان کی موجودہ مسخ شدہ تصویر کا ذمہ دار ہے اسلئے میں یقینا طاہرالقادری کے ساتھ فرسودہ نظام کی تعفن زدہ عمارت کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کررہا ہوں۔ میں جناح کے پاکستان کوان کی عظیم فکر کے تابع دیکھنا چاہتا ہوں۔

    میں وقت کے فرعون صفت حکمرانوں، بے ضمیرمقتدر طبقے اور یزیدوں سے مخاطب ہوں۔

    میری شناخت کرلو !! مجھے جی بھر کے دیکھ لو۔

    میں طاہرالقادری کا کارکن ہوں۔

    میں سینہ تانے کھڑا ہوں۔ تم ڈرا نہیں پائے ہو نہ ڈرا پاﺅ گے۔

    تم ہمیں مشن سے ہٹا نہیں سکے ہو نہ ہٹا سکو گے۔

    یہ وہ کارکن ہیں کہ جہاں طاہرالقادری کا پسینہ گرے وہاں خون بہا دیں، وہ اشارہ کریں تو گردن کٹا دیں اور اسے کی طرف میلی آنکھ اٹھے تو آنکھیں نکال دیں جی ہاں یہ وہ کارکن ہیں اور میں ان کارکنوں میں سے ہوں جن پر تمہارے بھیجے ہوئے زر خرید غلاموں اور پالتو کتوں نے رات کی تاریکی میں گولیاں برسائیں، ظلم کیا۔۔۔ میں سلام پیش کرتا ہوں سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں اپنے خون شہادت سے انقلاب کی بنیاد رکھنے والے14سپوتوں کو جن میں میری دو عفت مآب بہنیں بھی شامل ہیں، وہ یزیدی لشکر کے سامنے جھکے نہیں ، پیچھے ہٹے نہیں اور ان کے مذموم مقاصد کو بالاخر ناکام بنایا۔ نہتے رہ کر مقابلہ کیا۔ عقل سے عاری کالے بیلوں نے اپنے مالک کے ہانکنے پرجب گولیاں برسا دیں تو انہوں نے سینے پیش کردیئے۔ جذبوںاورولولوں، شجاعت و بہادری کی وہ تاریخ لکھ دی کہ ہمیشہ وہ یاد کیے جائیں گے اور شرافت کا لباس پہنے ہوئے فرعونوں پر لعن طعن ہوتا رہے گا۔

    اے تخت لاہور کے بادشاہ
    اے 14انقلابیوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھانے والے ہلاکو خان

    اے غریب کی عزتیں لوٹ کر تماشہ کرنے والے اداکار۔

    اے جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ قتل کروانے والے بدمعاش۔

    اے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور نرسز پر لاٹھی چارج کروانے والے نامرد۔

    سنو !! تمہاری تاریک راتوں میں اگر کسی روز میں بھی مارا گیا تو ایسا کرنا کہ

    میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا۔

    پھر جلی ہوئی راکھ کو اپنی غرور کی تسکین کیلئے ہوا میں پھینک دینا۔

    مجھے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم ۔ پھر لاہور کی فضا میں میری راکھ کے ذروں کا انقلابی رنگ دیکھنا۔
    تمہارے دیئے ہوئے لیپ ٹاپ کی رشوت نوجوان تمہارے محل پر دے ماریں گے اور تمہیں لاہور کی سڑکوں پرگھسیٹیں گے۔

    تمہارے دکھائے ہوئے خواب نوجوان اپنے زور بازو سے پورے کریں گے اور تمہاری آنکھیں نکال دیں گے۔
    ہا ں سن سکتے ہو تو سنو۔۔ جذبے ابھی زندہ ہیں۔۔ ولولے ابھی زندہ ہیں۔

    جیالے ابھی زندہ ہیں۔۔ رکھوالے ابھی زندہ ہیں۔۔

    یہ تحریر ایک انقلابی کی ہے اور انقلابیوں کے جذبے بھی طلاطم اور زلزلے بپا کردیا کرتے ہیں یہ پھر بھی الفاظ ہیں۔ ۔۔ یہ زندہ وجاوید لفظ ہیں ۔۔۔ اگر تم انقلاب سے قبل بھی یہ لفظ پڑھ لو تو میرا ایمان ہے کہ روز انقلاب تک بھی تمہیں ہر روز پاگل پن کے دورے پڑھیں گے۔ میرے کالم کی کوئی ترتیب نہیں ۔ یہ بے ترتیب الفاظ کا مجموعہ ہے ۔ یہ لفظ نہیں جذبے ہیں ۔۔ انقلاب سے قبل یہ میرے آخری الفاظ ہیں۔ میں اگر شہید نہ ہوا تو انقلاب کے بعد لکھوں گا۔ اگر شہید ہوگیا تو یہ تحریر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر صدیوں پڑھی جاتی رہے گی۔
    میں چلنے سے قبل بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے انقلاب کے راستے کو کیوں اپنایا۔ میں نے اپنی زندگی عیاشیوں میں گزارنے پر راہ انقلاب پر سفر کو ترجیح کیوں دی؟ اور میں نے ستمبر2013سے لیکراگست2014تک 40ہزار کلومیٹر کا سفر کراچی تا خیبر کیوں کیا ؟ میں نے طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کیوں کیا ؟ بتانے کو تو اتنا ہی کافی ہے کہ گجرات کے ایک زمیندار نے معصوم بچے کے بازو کاٹ دئیے اسلئے میں انقلاب کیلئے نکلا ہوں مگر میں قوم کے تمام زخموں کے پیچھے چھپی تمہاری شرافت کے پردے چاک کرنا چاہتا ہوں۔ میں انقلاب کیلئے نہیں نکلوں گا اگرتم انصاف کے درج ذیل تقاضے پورے کردو۔

     میلسی میں مہنگائی اور حالات کی ستم ظریفی سے تنگ آکر نہر میں کود کر جان دینے والی پانچ بہنوں کا قصور بتادو؟
    میری عفت مآب بہن تنزیلہ امجد شہید سمیت14بے گناہ شہریوں کے قتل کا جواز بتادو؟
    کراچی کی فٹ پاتھوں پر روزانہ بے گناہ ہلاک ہونے والے شہریوں کو انصاف اور بسنے والوں کو امن دیدو
    ہزارہ وال برادری کی نسل کشی کرنے والے عناصر کو ننگا کرو اور انہیں عدالتوں میں پیش کرکے منطقی انجام تک پہنچادو
    پانچ سالہ فاطمہ کیساتھ زیادتی کرنے والے شیطان صفت درند ہ کو پکڑ کر کٹہرے میں لے آﺅ۔
    شہید بینظیر بھٹو اور حکیم سعید کے قاتلوں کو گرفتار کرکے چوک پر پھانسی کی سزا دو۔
    سیالکوٹ میں کچھ سال قبل دن دیہاڑے درندگی سے قتل ہونے والے دو بھائیوں کی ماں کو عدل دو۔
    خودکش دھماکوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے لواحقین کو انصاف دو اور ان کے قاتلوں ، قاتلوں کے معاونین اور سربراہان کو عبرت کا نشان بنادو، ان کے تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو، اندرون و بیرون ملک ان کے فنڈز کے ذرائع تلاش کرکے ختم کردو۔
    ان محرکات کو تلاش کرکے ختم کردو جس کی وجہ سے ایک ماں نے اپنے بچوں کے گلے کاٹ دئیے۔
    جاگیرداروں سے جاگیریں چھین کر مزارعوں میں بانٹ دو جو ظلم اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔
    اپنی ملوں سمیت پبلک سیکٹر اور تمام پرائیوں ملوں اور فیکٹریوں کے ملازمین کو فیکٹری کے منافع کا حصہ دار بنادو۔
    جعلی پولیس مقابلے ختم کروا ﺅ، پولیس سیکٹر میں تمام سفارشی اور سیاسی بھرتیوں کا خاتمہ کرکے میرٹ پر بھرتیاں کرو۔
    ملک کے تمام نونہالوں کو ایک نظام تعلیم دو۔
    طبقاتیت کا ہر سطح پر خاتمہ کرکے عام مخلص اور پڑھے لکھے شخص کو اسمبلی میں نمائندگی کیلئے قوانین وضع کرو۔
    تم نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔ یہی میرا نقلاب کیلئے صف آراءہونے کا جواز ہے۔ یہ سب کچھ شروع کرنے میں24 گھنٹے لگتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ کرنا تمہارے اورتمہاری بکاﺅ کابینہ کیلئے پاﺅں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔

    تاریخ کے صفحات میری ان سطور پر گواہی دیں گے کہ طاہرالقادری کیساتھ نکلنے والے کیوں نکلے ہیں۔ کون سی تڑپ ، کون سا جذبہ انہیں سڑکوں پر لے آیا۔
    جی ہاں مزدور اور مزدوروں کے بیٹے، بیٹیاں اپنے حصے کی تاریکیوں کو اجالے میں بدلنے نکلے ہیں۔
    وطن کے قابل فخر اور محنتی کسان ، مزارعین اور ان کے بیٹے ، بیٹیاں غلامی کی زنجیریں توڑنے نکلے ہیں۔
    چھوٹے تاجر ، سرکاری ملازمین اور کم تنخواہ والے پاکستانی عوام اس بے انصافی اور استحصال کو جڑ سے اکھاڑنے نکلے ہیں۔
    طالب علم جن کے ہاتھ میں قلم اور کتابیں ہیں وہ طبقاتیت کے خاتمے اور ایک نظام تعلیم کیلئے نکلے ہیں۔
    قوم کے جوان بیروزگاری سے مایوس ہوکر امید کے دئیے جلانے نکلے ہیں۔
    اقلیتی برادری قائد اعظم کے وعدے جس کے مطابق برابر حقوق دیئے جانے کا وعدہ ہے اس کی تکمیل کیلئے نکلے ہیں۔
    وکلا، قانون دان آئین کی اپنی اصل روح کیساتھ بحالی کیلئے نکلے ہیں۔ مشائخ ، علمائے کرام اسلام کو پاکستان میں نافذ کرنے نکلے ہیں۔ گویا بچے ، بوڑھے، جوان، ۔خواتین اور ہر عمر کے پاکستانی پاکستان بچانے نکلے ہیں

    میرا آخری کالم ایک اذان ہے۔ بیداری شعور و احساس کیلئے ننھے ابابیل کی طرح کی ایک کوشش ہے۔ ہم نے ہمیشہ شب ظلمات کے شکوﺅں اور شکایات پر ہی زور دیا ، ہم نے اپنے حصے کے دیپ جلانے کی سعی نہ کی۔ طاہرالقادری ہو یا کوئی بھی جو ظلم کیخلاف اپنی آواز کو بلند کرے اس کا ساتھ دینا ایسا ہی ہے جیسے اپنےحصے کی شمعیں روشن کرنا۔اپنے حصے کے دیپ جلانا۔

    آخر کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
    آخر کب تک بھوک سے نڈھال بچے مرتے رہیں گے؟
    آخر کب تک وطن کی گلیاں اندھیروں میں رہیں گی؟
    آخر کب تک فٹ پاتھوں پر خون بہتا رہے گا؟
    آخر کب تک بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی؟
    یاد رکھیں معاشرے برائی کیساتھ قائم رہ سکتے ہیں مگرظلم کیساتھ نہیں۔ اگر ہم نے بڑھ کر ظلم کا بازو نہ توڑا تو ہمیں معاشرے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ظلم کیخلاف خاموش رہنے والی قومیں کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں۔لہذا اٹھیں اس ہمہ گیر ظلم کے خلاف انقلاب برپا کردیں۔
    انقلاب ہی بے گھروں کو گھر دے گا۔
    انقلاب ہی بیروزگاروں کو روزگار دے گا۔
    انقلاب ہی استحصال کا خاتمہ کرے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو عالمی سطح پر ایک خود مختار ریاست بنائے گا۔
    انقلاب ہی پاکستان کو ایسی قیادت فراہم کرے گا جو بڑی سے بڑی طاقت کو نا کہہ سکے۔
    انقلاب ہی مجھے اور آپ کو سرخرو کرے گا اور ہم اپنی نسلوں کو ایک آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان دے سکیں گے ۔
    میں انشاءاللہ پاکستان کیلئے نکلا ہوں۔ کشتیاں جلا کر نکلا ہوں ۔ زندہ رہا توپاکستان میں حقیقی جمہوری سیاسی رویوں کے فروغ پا جانے کے بعد اور نئے سیاسی و   انتخابی نظام میں ایک کامیاب سیاستدان بنوں گا۔ اللہ میرا اور آپ کا! ہم سب کا حامی و ناصرہو۔

  • طاہر القادری نے عید ماڈل ٹاﺅن کے شہداء کے اہل خانہ اور زخمیوں کے ساتھ منائی

    طاہر القادری نے عید ماڈل ٹاﺅن کے شہداء کے اہل خانہ اور زخمیوں کے ساتھ منائی

    لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عید سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداء کے اہل خانہ اور زخمیوں کے ساتھ منائی  ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

    پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے عید الفطر سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداء کے ورثاء اور سانحہ کے زخمیوں کے ساتھ منائی، اس موقعے پر وہ شہداء کے ورثاء اور زخمیوں سے فردا فردا عید ملے، انہوں نے شہداء کے لواحقین سے کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، انقلاب کے بعد شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ ذمہ داروں سے لیا جائے گا ۔

    ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداء نے اپنا خون دیکر پاکستان میں حقیقی عوامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے، انہوں نے شہداء کے ورثاء اور زخمیوں سے کہا کہ وہ انقلاب کا ہراول دستہ ہونگے، انہوں نے کہا کہ شہداء کے ورثاء مایوس نہ ہوں، بے گناہوں کا قتل کبھی چھپتا نہیں اور بہت جلد قانون کا ہاتھ حکمرانوں کے گلے تک پہنچے گا۔