Tag: ڈاکٹر مبارک علی

  • رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    رچرڈ برٹن: خود کو مسلمان ظاہر کر کے حج کرنے والا انگریز جاسوس

    ہندوستان میں کمپنی کی حکومت جب مستحکم ہوگئی تو اس کے ساتھ ہی یہ خطرہ بھی لاحق ہوا کہ روس اپنے سیاسی تسلط کو وسطی ایشیا میں بڑھا رہا تھا اور کمپنی کے حلقوں میں یہ تصور عام تھا کہ روس وسط ایشیا پر قبضہ کرتے ہوئے ایران کی مدد سے افغانستان آئے گا اور یہاں سے ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ لہٰذا کمپنی کی حکومت نے بخارا، خیواء، یارقند، ہنزہ، ایران اور افغانستان میں مخبروں اور سفارت کاروں کے ذریعے ان علاقوں کے سیاسی حالات، جغرافیائی حدود اور راستوں کی تحقیقات کے لیے معلومات فراہم کیں۔ یہ مخبر سیاحوں اور تاجروں کا بھیس بدل کر ان علاقوں میں گئے۔

    ان جاسوسوں میں سے ایک Richard Burton (سنہ ولادت 1821) تھا، جسے عربی اور فارسی کے علاوہ کئی اور دوسری زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ بعد میں اس کی شہرت بطور مترجم، مشرقی علوم کا ماہر اور جاسوس کی وجہ سے ہوگئی۔ اس کے کیریئر کا آغاز کمپنی کی فوج میں جس کا کمانڈر چارلس نیپیر تھا، شروع ہوا اور جب چارلس نیپیر نے سندھ پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا۔

    رچرڈ برٹن کے کیریئر کا ایک اہم حصہ 1853ء میں حج کا سفر تھا۔ چونکہ مکہ مدینہ میں غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لیے اس نے مسلمانوں کا بھیس بدل کر پہلے خود کو ایرانی اور بعد میں افغان باشندہ کہا۔ چونکہ اسے فارسی زبان پر مہارت تھی اس لیے کسی کو اس کے یورپی ہونے کا شک نہیں گزرا۔ اپنے حج کے سفر کی معلومات کو اس نے نوٹس کے ذریعے محفوظ کر لیا تھا۔ حج کے بارے میں اہلِ یورپ کو یہ تجسس تھا کہ وہاں کیا رسومات ہوتی ہیں اور کیسے حج کیا جاتا ہے۔ رچرڈ بر ٹن سے پہلے بھی کچھ سیاح بھیس بدل کر حج کا سفر کر چکے تھے اور انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو شائع بھی کرایا تھا۔ انہی میں سے ایک (متوفی John Burk Hardt (1817 تھا جس نے ابراہیم کے نام سے مکہ مدینے کا سفر 1814ء میں کیا۔

    رچرڈ بر ٹن نے ان یورپی سیاحوں کے سفر ناموں کا مطالعہ کیا تھا، تا کہ وہ خود کو مسلمان ثابت کر کے حج کی مذہبی رسومات کو بھی ادا کر سکے۔ اس وقت حجاز اور نجد کے علاقے ترکوں کے زیر حکومت تھے اور مکہ مدینہ جانے والے راستے حاجیوں کے لیے غیر محفوظ تھے۔ راستے میں عرب بد و قبائل حاجیوں کے قافلوں کو لوٹتے تھے۔ رچرڈ برٹن سفر کی تمام معلومات کو اکٹھا کر کے قاہرہ سے بحری جہاز کے ذریعے جدہ روانہ ہوا۔ اس نے جہاز میں جانے والے مسافروں کا حال بھی لکھا ہے کہ تکالیف اٹھا کر جدہ پہنچتے تھے۔ جدہ سے مدینے تک کا سفر اونٹ اور اونٹنیوں کے ذریعے کیا۔ اس سفر میں اس کا ایک ہندوستانی نوکر بھی اس کے ساتھ تھا۔ برٹن نے بہت جلد عربوں سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے اور ان کی عادات اور رسم و رواج اختیار کر لی۔ خاص طور سے وہ بار بار لکھتا ہے کہ عربوں میں کافی پینے اور تمباکو کے استعمال کرنے کا بہت رواج ہو گیا تھا اور وہ خود بھی ان کے ساتھ اس میں برابر کا شریک تھا۔ برٹن نے پہلے مدینے کا رخ کیا اور قیام کر کے رسول کے مقبرے کی زیارت کی اور پھر حضرت حمزہ کے مزار پر بھی گیا۔ اس دوران وہ پابندی سے نماز پڑھتا تھا اور مسلمانوں کے طور طریقے پر عمل کرتا تھا۔ مدینے کے قیام کے بعد وہ حج کے موقع پر مکہ گیا اور وہاں اس نے حج کی تمام رسومات ادا کیں اور کسی کو یہ شک نہیں ہونے دیا کہ وہ غیر مسلمان ہے۔

    حج سے واپسی کے دوران اس نے دو جلد میں اپنے سفر کے حالات لکھے ہیں خاص طور سے اس نے تفصیل کے ساتھ ان رسومات کا ذکر کیا ہے جو حج کے موقع پر کی جاتی ہیں، اسی سفر نامے کے ذریعے اہل یورپ کو مسلمانوں کے حج کے بارے میں مفید معلومات حاصل ہوئیں۔

    رچرڈ برٹن کی دوسری اہم تصنیفات میں مشہور عربی داستان الف لیلہ کا انگلش ترجمه The Book of the Thousand Nights and a Night ہے۔ اس نے ہندوستانی جنسیات پر لکھی جانے والی کتاب کاما سوتر اور عربی میں لکھی جانے والی کا Perfumed Garden کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ اس کی خدمات کے عوض رائل سوسائٹی آف جیوگرافی نے اسے اپنا ممبر بنایا اور برطانوی حکومت نے اسے Knighthood یا سر کا خطاب دیا۔ ان تصنیفات کے علاوہ اس نے اور بھی کئی موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔

    1890ء میں اس کی وفات ہوئی اور اس کے مقبرے کو خیمے کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔ برٹن کی شخصیت اس لیے اہم ہے کہ اس نے بیک وقت کئی ملکوں کی سیاحت بھی کی، جاسوسی بھی کی۔ غیر ملکی زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اپنے تجربات اور علم کو تصنیف و تالیف کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ اس سے اس کی ذہانت اور توانائی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ کہ ایک فرد اپنی شہری زندگی میں بیک وقت کئی منصوبوں کو پورا کر سکتا ہے۔

    (ڈاکٹر مبارک علی کتاب "ماضی کی داستان” سے اقتباسات)

  • ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    ہیگل – فلسفۂ تاریخ

    جرمن فلسفی ہیگل (1770ء- 1831ء) اپنے وقت کے ان اہم فلسفیوں میں تھا جس نے اپنے خیالات و افکار کی بنیاد پر ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ برائی کے بارے میں اسی کی دلیل یہ ہے کہ یہ عیسائی مذہب میں Original Sin کی پیداوار ہے۔ اس لیے اس کا اثر انسان کی پوری زندگی پر ہوتا ہے۔ دوسرے وہ برائی کو تاریخ کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

    ہیگل نے اپنے زمانے میں فرانسیسی انقلاب اور اس کے اثرات کو دیکھا اور بعد میں اس نے نیپولین کی فتوحات اور اس کی شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جس وقت نیپولین نے Jena کی جنگ میں پروشیا کو شکست دی تھی اس کے بعد وہ شہر میں جب فاتح کے طور پر داخل ہوا تو ہیگل اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کررہا تھا جب اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے نپولین کو گھوڑے پر سوار دیکھا تو کہا کہ روحِ عصر گھوڑے پر سوار ہے "world spirit on horseback”

    ہیگل Original Sin سے انکار کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیطان نے آدم کو بہکایا اور اس کے بہکانے پر آدم نے علم کے درخت کے پھل کو کھایا۔ ہیگل کے نزدیک یہ پوری کہانی بے معنی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ روشن خیالی دور کے دانشور بھی اس کے قائل نہیں تھے کہ برائی Original Sin کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی اور ارادے کے بغیر Original Sin کا شکار ہوجاتا ہے اور کیا وہ اس سے نجات نہیں پاسکتا ہے۔ اس کے خیال میں Original Sin انسان کی زندگی پر چھایا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر کوئی تخلیق نہیں کرسکتا۔

    ہیگل اس بات پر زور دیتا ہے کہ تاریخ کے ذریعے ہم اپنے ماحول اور اپنے ذہن کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاریخ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو مرحلہ وار تحقیق کی جانب لے جاتی ہے۔ جس سے ذہنی طور پر فہم اور آگاہی پیدا ہوتی ہے۔

    تاریخ واقعات سے پردہ اٹھاتی ہے اور ہمارے ذہن کو بناتی ہے۔ ہیگل تاریخ میں جدلیاتی عمل کا ذکر کرتا ہے یعنی ابتدا میں کوئی ایک خیال (Thesis) ہوتا ہے پھر جب اس پر تنقید ہوتی ہے تو یہ Thesis، اینٹی Thesis میں تبدیل ہو جاتا ہے، پھر Thesis اینٹی Thesis مل کر Synthesis ہوجاتے ہیں۔ اس جدلیاتی عمل کے ذریعے تاریخ آگے کی جانب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہیگل تاریخ کی ترقی کے لیے تصادم یا Conflict کو ضروری سمجھتا ہے کیوں کہ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو تاریخی عمل کو تیز کرتا ہے۔

    ہیگل تاریخ میں شخصیتوں کے کردار کو بھی اہمیت دیتا ہے جو تاریخ کو بناتی بھی ہیں اور اسے تباہ و برباد بھی کر دیتی ہے۔ اگرچہ یہ شخصیتیں اپنی دانست میں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اپنی ذہانت، قابلیت، اور دانشمندی کے ذریعے تاریخ میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں۔ ہیگل کا کہنا ہے کہ یہ ان کی ناسمجھی ہے۔ اس کی مثال وہ سکندر، سیزر اور نپولین سے لیتا ہے لیکن ہیگل کے نزدیک یہ بذاتِ خود کچھ نہیں تھے بلکہ نیچر ان سے کام لے رہی تھی جب انہوں نے نیچر کے منصوبوں کو پورا کر لیا تو پھر ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ جب سکندر نے ایران اور عراق کو فتح کرلیا تو اب مزید فتوحات کی ضرورت نہ تھی، اس لیے وہ جوانی ہی میں مرگیا۔ جولیس سیزر نے جب گال اور انگلینڈ فتح کر لیا اور تاحیات ڈکٹیٹر ہوگیا تو نیچر کو اس کی ضرورت نہیں رہی اور اسے قتل کردیا گیا۔ یہی صورت حال نپولین کی تھی جس نے یورپ کو فتح کیا اور وہاں تبدیلیاں لائیں لیکن جب نیچر کا یہ مشن پورا ہوگیا تو اس کی بقیہ زندگی سیٹ ہیلنا میں قیدی کی حیثیت سے گزری۔ اس مثال کو ہم تاریخ کی دوسری بڑی شخصیتوں پر بھی دے سکتے ہیں۔ ہیگل کے نزدیک یہ سب تاریخ کے مہرے تھے، ایک خاص ماحول کی پیداوار تھے اور جب ان کا کردار ختم ہوگیا تو ان کو تاریخی عمل سے نکال دیا گیا۔

    ہیگل تاریخ میں حادثات کی اہمیت کا بھی قائل ہے۔ یہ حادثات نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے زمانے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تیرہویں صدی کا پلیگ ہے جس نے یورپ کی چالیس فیصد آبادی کو ختم کر دیا تھا مگر اسی کے نتیجے میں یورپ میں Reformation کی تحریکیں ابھریں۔ سائنس طب اور سماجی علوم میں نئے خیالات پیدا ہوئے لہٰذا ہر حادثہ چاہے وہ قحط ہو، زلزلہ ہو اور سیلاب ہو وہ تاریخ کے عمل کو تبدیل کر کے ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں۔
    تاریخ کا یہ بھی کام ہے کہ وہ پختہ اور آزاد ذہن کو پیدا کرے تاکہ افراد اس دنیا کو سنبھالنے کی ذمے داری لیں۔ اس دنیا میں انسان نے جو اذیتیں برداشت کیں ہیں اور جو تکالیف اٹھائی ہیں ان سے سبق سیکھے۔

    (معروف اسکالر اور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کی تصنیف "عہدِ حاضر: تاریخ کے تناظر میں ” سے انتخاب)

  • جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    مرزا اسد اللہ خاں غالب کے واقعاتِ اسیری کے بابت بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ کے لوگ وضع داری اور پردہ پوشی کے قائل تھے۔ وہ شخصی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ غالب نے بھی اپنے واقعۂ اسیری کو اپنی ’’بے آبروئی‘‘ تصوّر کرتے ہوئے اس کا عام ذکر نہیں کیا۔ لیکن ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ ان پر الزام قمار بازی کا تھا۔

    ہمارا مقصد اردو کے اس عظیم شاعر کو بدنام اور بعد از مرگ اُن کی شہرت کو ‘داغ دار’ کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں ہم اس تمہید کے ساتھ جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ سے متعلق چند اقتباس نقل کررہے ہیں جو پاکستان کے نام وَر مؤرخ، محقق اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے لیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

    ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا۔

    روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاح برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔

    خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سَر اڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاح نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا۔

    یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قید خانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والٹیر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا۔

    برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لیے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سَر کو اٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سَر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی۔

  • ذہین لوگ کہاں گئے؟

    ذہین لوگ کہاں گئے؟

    یورپ میں بادشاہت کے نظام کے دوران امرا کا طبقہ ریاست کے تمام شعبوں پر پوری طرح سے حاوی تھا۔ یہ لوگ سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔

    فوج کے اندر اعلیٰ عہدے بھی ان ہی کے لیے تھے، چرچ میں بھی اونچے عہدوں پر ان ہی کا تقرر ہوتا تھا۔ لہٰذا خاندان در خاندان مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے، اور اس تمام سلسلہ میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، کیوں کہ تقرر کی وجہ خاندان تھا، ذہانت نہیں تھی۔

    چاہے یہ ذہنی طور پر اوسط درجہ کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے خاندانی رشتوں اور تعلقات کی وجہ سے ریاست کے تمام عہدے ان کے لیے تھے۔

    اس فرق کو ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں کہ جب امریکا آزاد ہوتا ہے تو چوں کہ اس کے معاشرے میں کوئی امرا کا طبقہ نہیں تھا، اس لیے ان لوگوں کے لیے جو ذہین، محنتی اور لائق تھے، کام یابی کے تمام مواقع موجود تھے۔

    یورپ سے بھی جو غریب اور مزدور یا کسان طبقوں سے لوگ امریکا ہجرت کرکے گئے، انہیں وہاں کام کرنے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کے پورے مواقع ملے۔ مثلاً اینڈریو کارنیگی، ایک کاری گر کا لڑکا تھا، جو اسکاٹ لینڈ سے امریکا گیا، اگر یہ وہیں رہتا تو اپنے باپ کے پیشہ کو اختیار کرکے زندگی گزار دیتا، مگر امریکا میں اس کو اپنی ذہانت اور محنت دکھانے کے موقع ملے۔ اور یہ وہاں کا بڑا سرمایہ دار اور صنعت کار بن گیا۔

    اس نے خاص طور سے اپنے سرمایہ کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا اور شہروں میں جگہ جگہ کتب خانے قائم کیے۔ کارنیگی کی طرح کے اور بہت سے افراد تھے کہ جنہوں نے خاندان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کام یابی حاصل کر کے نام پیدا کیا، یہ لوگ سیاست میں بھی آئے اور ان میں اکثر غریب خاندان کے لڑکے ملک کے صدر بنے اور اعلیٰ عہدوں پر رہے۔

    پاکستان کے ابتدائی دنوں میں چوں کہ یہاں ہر طبقے کے لوگوں کے لیے تعلیم کی یکساں سہولتیں تھیں، اس لیے پبلک اسکولوں میں امیر و غریب دونوں کے بچّے پڑھتے تھے اور یہ تعلیم یونیورسٹی تک اسی طرح سے بغیر کسی فرق کے تھی، اس لیے ذہین طالب علموں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کام یاب ہوجائیں، یا دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں اپنی ذہانت کی بنیاد پر کام یابی حاصل کریں۔

    لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ دولت مند اور امرا کا طبقہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا گیا، انہوں نے اپنے بچّوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کی ابتدا کردی جو بڑھتے بڑھتے اس قدر مہنگے ہوئے کہ اس میں عام لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک اسکولوں کا معیار گرتا چلا گیا، اور سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ غریب لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم کے بعد آگے بڑھنے یا ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔

    یہاں بھی مواقع ان کے لیے ہیں کہ جن کے پاس سرمایہ ہے، جو اس سے محروم ہیں، چاہے وہ کتنے ہی لائق اور محنتی کیوں نہ ہوں، ان کے لیے معاشرے میں کوئی عزت اور وقار کی جگہ نہیں رہی ہے۔

    مراعات سے محروم طبقوں کے لیے زندگی میں اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذہانت کی جگہ خوشامد سے کام لیں، اور طبقۂ اعلیٰ کے لوگوں کی چاپلوسی کر کے ان سے جو بچ جائے وہ حاصل کرلیں۔

    اس کی مثال پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہ یا تو بڑے جاگیردار ہیں یا سرمایہ دار، انہی بنیادوں پر ان کو سربراہی ملی ہوئی ہے، اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی اہلیت یا صلاحیت ہے۔ اب اگر ان کی پارٹی میں باصلاحیت لوگ ہیں، تو پارٹی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سربراہ کی خوشامد میں مصروف رہیں، کیوں کہ جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان ہی افراد کی سرپرستی کرتے ہیں، جو ان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کسی فرد میں کس قدر لیاقت ہے اور وہ پارٹی کے لیے یا اقتدار میں آنے کے بعد ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

    اگر کبھی کسی فرد سے ان کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے، یا وہ اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرتا ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اسے تمام سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب پاکستان میں عہد وسطیٰ کے امرا اور طبقہ اعلیٰ کی جگہ جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان غالب آگئے ہیں اور ان کے خاندانوں کی حاکمیت مستحکم ہوگئی ہے۔

    اس پورے سلسلہ میں معاشرے کے ذہین افراد جن کا تعلق عوام یا نچلے طبقوں سے ہے، ان کو محروم کر کے ان کی ذہانت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

    سیاسی خاندانوں کے اس تسلط کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ وہ افراد بھی کہ جو اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنی ذہانت کو تسلیم کراچکے ہیں، جب انہیں معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ یا تو خاموش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں، یا ملک سے ہجرت کرکے نئے مواقعوں کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں۔

    ذہین افراد اس کمی کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں نالائق اور اوسط ذہن کے لوگ آگے آگے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں زوال اور پس ماندگی کے آثار پوری طرح سے ظاہر ہورہے ہیں۔

    المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکا اور یورپ کے ملک باصلاحیت اور ماہرین کی تلاش میں ملک ملک گھومتے ہیں، مگر ہمارے ہاں باصلاحیت لوگ اپنے ہی حکم رانوں کے ہاتھوں محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔

    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ذہانت کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ یورپ میں جمہوری روایات نے امرا کے خاندان کے تسلّط کو توڑا اور ذہین لوگوں کے لیے راہ ہموار کی، ہمارے ہاں بھی اس کی ضرورت ہے، مگر اس کام کو کون کرے گا؟

    (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "تاریخ کی گواہی” سے انتخاب)

  • "امریکی سونے اور چاندی نے یورپ کو سرمایہ فراہم کیا”

    "امریکی سونے اور چاندی نے یورپ کو سرمایہ فراہم کیا”

    یورپ کی ترقّی میں سب سے اہم کردار اس لحاظ سے امریکا نے ادا کیا کہ جس کی کانوں سے سونا چاندی اور دوسری معدنیات یورپ آ رہی تھیں۔ آمدنی کا دوسرا ذریعہ جزائرِ غربُ الہند میں پلانٹیشن کے ذریعے زراعتی پیداوار ہوئی، خاص طور سے ’’شکر‘‘ کہ جس کی پیداوار اور تیاری میں افریقا سے غلاموں کو لایا گیا۔

    امریکا کی اندرونی تجارت سے جو منافع ہو تا تھا، وہ بھی یورپ چلا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1646ء میں 180 ٹن سونا اور 1700 ٹن چاندی امریکا سے یورپ گئی تھی۔ 1580ء سے 1561 تک 85 فی صد چاندی امریکا سے آئی۔ امریکی سونے اور چاندی نے یورپ کو سرمایہ فراہم کیا۔

    اس کی وجہ سے یورپی اس قابل ہوئے کہ وہ زمین کی خریداری یا مزدوروں کو زیادہ تنخواہیں ادا کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے انھوں نے بین الاقوامی تجارت کو کنٹرول کرنا شروع کیا۔ اس وقت کے بحری مراکز جیسے سوفالا، کالی کٹ اور ملاکا ان کے قبضے میں آگئے۔

    امریکی سونے اور چاندی نے یورپ کے ابتدائی سرمایہ دار کو مؤثر ہتھیار فراہم کیے جس کی مدد سے اس نے غیر یورپی سرمایہ دار سے مقابلہ کیا اور اسے آگے نہیں بڑھنے دیا۔

    (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’یورپ کا عروج‘‘ سے انتخاب)