Tag: ڈاکٹر وزیر آغا

  • چرواہے اور تسبیح کے دانے

    چرواہے اور تسبیح کے دانے

    اردو ادب کی بے مثال اور لاجواب تحریروں اور حکمت و دانائی، فلسفہ و فکر کے موتیوں سے بھرے ہوئے مضامین میں انشائیہ نگاری کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا کو دانش ور اور باکمال انشائیہ نگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ انہی کا ایک خوب صورت انشائیہ ہے۔

    چرواہے کی چھڑی دراصل ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ہوا کے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے تو دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

    البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مَس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ وجود ہی سے نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغام بر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو کو دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چرواہے کا بھی ہے۔ تمام لوگ گیت چرواہوں کے ہونٹوں پر لرزتے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بہت قدیم زمانے میں قبائل نے جو نقل مکانی کی، اس کے بارے میں تاریخی کوائف ناپید ہیں، البتہ جن راستوں سے یہ قبیلے گزرے اور جن خطوں میں چند روز ٹھہرے وہاں انہوں نے اپنے نقوش پا چھوڑ دیے جنہیں آج بھی ’’پڑھا‘‘ جا سکتا ہے۔ یہ نقوشِ پا وہ منورّ الفاظ ہی ہیں جو ان کے ہونٹوں سے ٹپکے اور پھر راستوں اور خطّوں میں بولی جانے والی زبانوں کے دامن پر کہیں نہ کہیں موتیوں کی طرح اٹک کر رہ گئے اور صدیوں تک اپنے بولنے والوں کے سفر کی داستان سناتے رہے… مگر لوک گیتوں کا قصّہ دوسری نوعیت کا ہے۔

    لوک گیت قبیلوں کے نہیں بلکہ چرواہوں کے نقوشِ پا ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کسی خطّے کا چرواہا کہاں کہاں پہنچا کیونکہ وہ جہاں کہیں گیا اپنے ساتھ گیت کی لَے اور خوشبو اور تمازت بھی لے گیا۔ پھر وہ خود تو وقت کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور مآلِ کار زمین کا رزق بن گیا مگر اس کا گیت ایک لالۂ خود رو کی طرح عہد بہ عہد اس خطّے کی زمین سے برآمد ہوتا اور خوشبو پھیلاتا رہا۔ بس یہی چروا ہے کا وصفِ خاص ہے کہ وہ جگہ جگہ گیتوں کے بیج بکھیرتا پھرتا ہے… بیج جو اس کے نقوشِ پا ہیں، جنہیں وقت کا بڑے سے بڑا سیلاب بھی نابود نہیں کر سکتا۔

    ویسے عجیب بات ہے کہ چرواہے کے مسلک کو آج تک پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیا، مثلاً اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گلّے کا رکھوالا بھی ہے اور پولیس مین بھی! یعنی وہ اپنی چھڑی کی مدد سے ہر اُس زمینی یا آسمانی بلا پر ٹوٹ پڑتا ہے جو اس کے گلّے کو نظر بد سے دیکھتی ہے اور اسی چھڑی سے وہ گلّے سے بھٹکی ہوئی ہر بھیڑ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر کیا چرواہے کا مقصدِ حیات صرف یہی ہے؟…غالباً نہیں! وجہ یہ کہ جب چرواہا گلّے کو لے کر روانہ ہوتا ہے تو اُسے مجبوراً اِسے سیدھی لکیر پر چلانا پڑتا ہے تا کہ ریوڑ بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ واپسی پر بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تمام بھیڑوں کو سمیٹ کر یک مُشت کر دے تا کہ وہ بغیر کسی حادثے کے اپنے گھر پہنچ جائیں۔ مگر یہ تو سفر کے بالکل عارضی سے مراحل ہیں۔ اصل اور دیرپا مرحلہ وہ ہے جب چرواہا اپنے گلّے کو کسی سر سبز و شاداب میدان، جھاڑیوں سے اٹے ہوئے صحرایا کسی پہاڑ کی ڈھلان پر لا کر آزاد کر دیتا ہے۔ جس طرح تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو منکے فرشِ خاک پر گرتے ہی لڑھکنے اور بکھرنے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جب گڈریا اپنے ریوڑ کو آزاد کر تا ہے تو وہ دانہ دانہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ معاً ہر بھیڑ کی ایک اپنی منفرد شخصیت وجود میں آ جاتی ہے۔ گلّے کے شکنجے سے آزاد ہوتے ہی ہر بھیڑ محسوس کرتی ہے کہ بے کنار آسمان اور لامحدود زمین کے عین درمیان وہ اب یکہ و تنہا کھڑی مرکزِ دو عالم بن گئی ہے۔ مگر بات محض بھیڑوں ہی کی نہیں۔

    خود چرواہے کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بدن کے حصار سے باہر آکر چاروں طرف بکھرنے لگا ہے، جیسے اس کے ہاتھ یکایک اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر ہی درخت کی پھُننگ، پہاڑ کی چوٹی اور ابر پارے کی جھالر کو چھو سکتا ہے بلکہ پتھّروں، پودوں اور پرندوں حتیٰ کہ رنگوں اور روشنیوں سے بھی ہم کلام ہو سکتا ہے۔ کسان بے چارے کو تو زمین نے جکڑ رکھا ہے اور بنیے کو زر نے، مگر چرواہا ایک مردِ آزاد ہے، وہ اپنے گلّے کا بھی مطیع نہیں۔ وہ میدان یا پہاڑ کی ڈھلوان پر پہنچتے ہی اپنی مٹھی کھول دیتا ہے اور سارا گلاّ اس کی انگلیوں کی جھریوں سے دانہ دانہ ہو کر ہر طرف بکھر جاتا ہے، اس کے بعد وہ خود بھی بکھرنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خاک و افلاک پر ایک ردا سی بن کر چھا جاتا ہے، مگر چرواہا آخر چرواہا ہے، اس کا کام محض بکھرنا ہی نہیں سمٹنا بھی ہے۔

    چنانچہ شام ہوتے ہی وہ پہلے اپنی چھڑی کو جسم عطا کرتا ہے، پھر خود کو تنکا تنکا جمع کرتا ہے۔ مجتمع ہونے، بکھرنے اور دوبارہ جڑ جانے کا یہ عمل جس سے چرواہا ہر روز گزرتا ہے، پوری کائنات کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے، مگر یہ دوسرا قِصّہ ہے۔ چرواہے کئی طرح کے ہیں۔ ایسے چرواہے بھی ہیں جو محض مزدوری کرتے ہیں۔ سارا دن مویشیوں کو ہانکنے کے بعد رات کو تھکے ہارے واپس آتے ہیں اور کھاٹ پر گرتے ہی بے سُدھ ہو جاتے ہیں۔ ایسے چرواہوں کو چرواہا کہنا بھی زیادتی ہے۔ پھر ایسے چرواہے بھی ہیں جو چناب کنار بھینسوں یا گائیوں کو چراتے پھرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی چرواہے کم اور پریمی زیادہ ہیں۔ گائیوں بھینسوں سے ان کا سارا لگاؤ محض ایک بہانہ ہے۔ وہ دراصل ان کی وساطت سے زیادہ نازک اور خوبصورت گائیوں بھینسوں تک رسائی پانے کے آرزو مند ہوتے ہیں، چنانچہ جب عشق کے انتہائی مراحل میں ان کے گرد جو اپنوں یا خوشیوں کا حلقہ تنگ ہو جاتا ہے تو انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ان کی اصل گائیں بھینسیں نجانے کب سے ان کی راہ تک رہی ہیں… میں اس قسم کے چرواہوں کا ذکر کر کے آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، میں تو صرف ان چرواہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑ چراتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چرانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہونٹوں پر اسمِ اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریا کے کناروں پر بکھیر کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنی کہنگی اور یبوست کو گندی اُون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ہو گیا ہے تو وہ انہیں واپس ان کے گھروں تک لے آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خود تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔

    یہ جو بساطِ فلک پر ہر رات کروڑوں ستارے سے چمکتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب اُسی تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں؟

    (ممتاز ادیب، نقّاد، شاعر اور مشہور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے’’ چرواہے‘‘ سے اقتباس)

  • اردو غزل کا محبوب

    اردو غزل کا محبوب

    بیسویں صدی میں اردو غزل کا محبوب ایک بالکل نئے روپ میں منظرِ عام پر آتا ہے۔ یہ نیا روپ ایک ایسے نئے معاشرے، ایک ایسی نئی ‏تہذیب کا پرتو ہے جو بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی برق رفتاری سے پھیلنے لگی ہے۔

    اب نہ صرف جمہوریت اور حبُّ الوطنی کے ایک ‏مضبوط تصوّر نے بادشاہت کے تصوّر کی جگہ لے لی ہے بلکہ عورت بھی صدیوں کی گہری نیند سے گویا بیدار ہوگئی ہے اور اس کے انداز ‏و اطوار سے خود داری اور وقار مترشح ہو رہا ہے۔ چنانچہ نئی صدی میں طوائف سوسائٹی کا مرکز نہیں رہی اور اردو غزل کے محبوب میں ایک ‏عورت کا پرتو صاف دکھائی دینے لگا ہے۔

    حسرتؔ کے کلام میں اس نئی عورت کے وجود کا احساس ہوتا ہے اور ان کے بعد دوسرے غزل ‏گو شعرا کے ہاں تو اس نئے رجحان نے ایک واضح اور قطعی صورت اختیار کرلی ہے۔ ‏

    یہ نئی عورت حرم کی چار دیواری کے اندر رہنے والی ایک روایتی ’گونگی‘، ’اندھی‘ اور’بہری‘ عورت نہیں۔ اس کے برعکس اس عورت کو نہ ‏صرف احساسِ حسن ہے بلکہ وہ زندگی کی دوڑ میں بھی خود کو مرد کا ہم پلّہ سمجھتی ہے اور زندگی کی مسرتوں میں خود کو برابر کا حصہ دار قرار ‏دیتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہے اور طرّار بھی۔ اس میں محبت کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور اس نے نئی روشنی کے تحت نئے رجحانات کو ‏قبول بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اردوغزل نے اس نئی صورت حال اور اس نئی عورت سے واضح اثرات قبول کیے ہیں اور اس کے محبوب ‏میں نئی عورت کے بہت سے میلانات سمٹ آئے ہیں۔ ‏

    نئی عورت کی ذہنی بلندی، نزاکت اور شعریت کے پیشِ نظر غزل گو شاعر کو اظہارِ عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ‏ایک ایسا پیرایۂ بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے۔ اس سے بیشتر اوقات شاعر کے جذبات محبت میں ‏عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے ہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ دوسرے ‏لفظوں میں غزل گو شاعر کے ہاں جذبے اور فکر کا ایک خوش گوار امتزاج رونما ہوا ہے، جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط، توازن اور ‏رفعت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چند اشعار قابل غور ہیں۔ ‏

    اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی
    اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے ‏
    فراقؔ

    کبھی تم یاد آتے ہو کبھی دل یاد آتا ہے ‏
    ہر اک بھولا ہوا منزل بہ منزل یاد آتا ہے ‏
    حفیظؔ ہوشیار پوری

    حسن پابندِ رضا ہو مجھے منظور نہیں ‏
    میں کہوں تم مجھے چاہو مجھے منظور نہیں ‏
    حفیظ جالندھری

    خیر ہو تیری کم نگاہی کی
    ہم کبھی بے نیازِ غم نہ ہوئے ‏
    باقیؔ صدیقی

    اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ‏
    ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں ‏
    فیضؔ

    جذباتِ محبّت کے اظہار میں یہ سمٹا سمٹا سا انداز اس بات پر دال ہے کہ شاعر بتدریج محبت کے ایک محدود ماحول سے اوپر اٹھ کر عشق کی ‏ارفع اور وسیع تر فضا میں سانس لینے لگا ہے اوراس کے ہاں ایک گہری لگن اور کسک سطح کے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے دو ضمنی نتائج بھی ‏برآمد ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض غزل گو شعرا کے ہاں محبوب ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کی منزل نہیں رہا، کیوں کہ محبوب سے قرب ‏کے باوصف شاعر کی ذہنی تشنگی بدستور قائم ہے۔ اس سے غزل میں محبوب کی مرکزی حیثیت کو ایک صدمہ پہنچا ہے۔ دوسروں کے ہاں ‏محبوب نے واضح طور پر ایک نصب العین یا آئیڈیل کا روپ دھار لیا ہے اور انہوں نے اپنے مسلک کے اظہار میں محبوب کو محض روایتاً ‏مخاطب کیا ہے۔ یہ چند اشعار ان نئے رجحانات کی غمازی کرتے ہیں۔

    تیرا کرم کرم ہے مگراس کا کیا علاج
    ہم نامراد خاک بسر مطمئن نہیں ‏
    احسان دانشؔ

    مزاج ایک، نظر ایک، دل بھی ایک سہی
    معاملاتِ من و تو نکل ہی آتے ہیں ‏
    تاثیرؔ

    دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
    تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے ‏
    فیضؔ

    خبر نہ تھی کہ غمِ یار جس کو سمجھے تھے ‏
    اسی کا روپ غمِ روزگار ٹھہرے گا
    عابدؔ

    آپ اسے جو چاہیں کہہ لیں عشق کبھی کہتے تھے لوگ
    ہم سے دل کی بات جو اب پوچھو تو ایک کسک تک ہے ‏
    قیوم نظرؔ

    ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ‏
    ہمارا عشق ہوس سے بلند و بالا ہے ‏
    ظہیرؔ کاشمیری

    بحیثیت مجموعی غزل کے جدید ترین دور میں محبوب نے یقیناً ایک نیا روپ اختیار کرلیا ہے، تاہم قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ جدید دور میں بھی ‏غزل کی ایک مضبوط اور پائیدار روایت کے زیرِ اثر محبوب کے سراپا میں کوئی ایسی جیتی جاگتی عورت نظر نہیں آتی جس کی اپنی ایک انفرادیت ‏ہو اور جو اس انفرادیت کے باعث انبوہ سے قطعاً علیحدہ نظر آ رہی ہو۔ چنانچہ جدید دور میں بھی غزل کا محبوب ایک مثالی ہستی ہے اور اس ‏میں نہ صرف اس دور کی ایک ’مثالی عورت‘ دکھائی دیتی ہے بلکہ اس میں چند ایسی صفات بھی ہیں جو شعرا کے اجتماعی ردعمل سے پیدا ‏ہوئی ہیں۔ یہ صورتِ حال غزل کا تاریک ورق نہیں ہے بلکہ اس سے غزل کے اس بنیادی رجحان کا پتہ چلتا ہے جس کے زیرِ اثر غزل گو شاعر ‏نے حقیقت کے تجزیاتی مطالعہ کے بجائے اس پر ہمیشہ ایک طائرانہ نظر ڈالی ہے اور زندگی کو کرداروں یا ٹکڑوں کے بجائے مثالی نمونوں یا ‏ثابت حقیقتوں کے پیکر میں پیش کیا ہے۔

    (ماخذ: تنقید اور احتساب از ڈاکٹر وزیر آغا)

  • ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا کا اردو ادب میں تنقید کے میدان میں نفسیاتی مباحث اور انشائیہ نگاری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اصنافِ ادب کو نیا آہنگ دیا۔ 7 ستمبر 2010ء کو ڈاکٹر وزیر آغا وفات پا گئے تھے۔

    سینئر صحافی، براڈ کاسٹر اور محقق عارف وقار وزیر آغا کی وفات پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، اُردو کے بزرگ قلم کار مولانا صلاح الدین احمد جو اپنے ادبی پرچے کے ذریعے ہندوستان بھر کے نوجوان ادیبوں کی تربیت کر رہے تھے اور کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور جیسے نثر نگاروں کے ساتھ ساتھ ن م راشد، فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے شعرا کو بھی منظرِ عام پر لا چکے تھے، اُن کی نگاہِ جوہر شناس جب وزیر آغا پر پڑی تو فوراً انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ اقتصادیات، نفسیات اور فلسفے کے جو مضامین کبھی اُردو میں زیرِ بحث نہیں آئے تھے، ان کے لیے اپنے پرچے کے صفحات کھول دیے۔

    وزیر آغا نے مسرت کی نوعیت، مسرت کی اقسام اور حصولِ مسرت کے ذرائع پر جو کچھ لکھا مولانا نے اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ اسے ایک کتابی شکل میں شائع بھی کرایا اور یوں نوجوان وزیر آغا کی کتاب "مسرت کی تلاش” منظرِ عام پر آئی۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ تو نوجوان قلم کار کی جولانیِ طبع کا صرف ایک پہلو تھا۔ اُن کا اصل جوہر اُردو شاعری کے اُن تجزیاتی مضامین میں کھلا جو "ایک مثال” کے عنوان سے ماہنامہ ادبی دنیا میں سلسلہ وار شائع ہوئے۔ 1960 میں مولانا صلاح الدین احمد نے انھیں اپنے جریدے کی مجلسِ ادارت میں شامل کر لیا اور وہ تین برس تک ساتھی مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔

    عارف وقار اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں: سن پچاس کے عشرے میں انھوں نے مسرت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے دنیا بھر کے مزاحیہ ادب کا مطالعہ بھی کیا اور انھی دنوں اُن کا تحقیقی کارنامہ اردو ادب میں طنز و مزاح سامنے آیا جسے 1956 میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک اوریجنل تحقیقی کام قرار دیتے ہوئے وزیر آغا کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کی۔

    اُردو ادب کی تاریخ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام دو حیثیتوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک تو انھوں نے اردو ادب میں انشائیے کی صنف کو فروغ دینے کے لیے ایک تحریک کی سطح پر کام کیا اور دوسرے انھوں نے اُردو تنقید کو جدید نفسیاتی مباحث سے روشناس کرایا۔

    اوراق ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک ادبی رسالہ تھا جسے اردو دنیا میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے متعلق عارف وقار لکھتے ہیں: انشائیے کی ترویج میں اُن کے ادبی رسالے اوراق نے انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں۔ وزیر آغا نہ صرف خود انشائیہ لکھتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور اُن کے معیاری انشائیے اپنے رسالے میں باقاعدگی سے شائع کرتے تھے۔ بہت سے ادیبوں کو یہ شکوہ رہا کہ وزیر آغا نے ان کی تحریر کو بطور انشائیہ قبول نہیں کیا بلکہ مزاحیہ مضمون کا عنوان دے کر شائع کیا۔

    اس سلسلے میں وزیر آغا کا موقف انتہائی واضح تھا۔ وہ ہر ہلکی پھلکی یا مزاحیہ تحریر کو انشائیہ قرار دینے پر تیار نہ تھے کیوں کہ اُن کے بقول انشائیے میں ایک خاص طرح کی” ذہانت کی چمک” ہونا ضروری تھا۔

    وزیر آغا کا تعلق سرگودھا کے علمی اور ادبی گھرانے سے تھا جہاں وہ 18 مئی 1922ء کو پیدا ہوئے۔ فارسی کی تعلیم والد سے اور پنجابی زبان اپنی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

    تین برس تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر کے طور پر کام کیا اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کی بنیاد رکھی۔

    اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ اردو میں مغربی انشائیوں کے خطوط پر انشائیہ کو استوار کرنے کی کوششیں اس وقت پر منظرِ عام پر آئیں جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ماہنامہ اوراق کے ذریعے انشائیوں کے فروغ کا خصوصی اہتمام کیا نیز مضامین اور انشائیہ لکھ کر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سے الگ ایک صنف کے طور پر متعارف کروایا۔ 1950 سے 1960 کے درمیان وزیر آغا نے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو پیشِ نظر رکھ کر نہ صرف انشائیے تحریر کیے بلکہ اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دی۔

    انشائیہ کی تعریف وزیر آغا اس طرح بیان کرتے ہیں: ’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘

    مشتاق احمد یوسفی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فنِ انشائیہ نگاری پر لکھا ہے: ” وزیر آغا کا انشائیہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کا عکسِ جمیل ہے۔ ان کی طبیعت میں جو دل آویزی، نرمی، رچاؤ اور شائستگی ہے۔ زمین کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نبھایا ہے وہ ایک ایک سطر سے جھلکتا ہے۔“

    ڈاکٹر وزیر آغا نے تنقید اور تحقیقی مضامین کی صورت میں اردو ادب کو کئی قابلِ ذکر اور یادگار کتب دیں جن میں تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستانِ محبّت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا نے شاعری بھی کی اور ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے۔ شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نرد بان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی ان کے چند شعری مجموعوں کے نام ہیں۔

    اردو کے ممتاز نقّاد، انشائیہ نگار، شاعر اور محقّق ڈاکٹر وزیر آغا کو ضلع سرگودھا میں ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی ایک خودنوشت بھی شایع ہوچکی ہے۔

  • سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    زندگی میں کبھی ایسا کوئی واقعہ بھی پیش آتا ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، اور اس کی کوئی توجیہ بھی نہیں پیش کر پاتی۔ بہت غور کرنے، سوچنے، واقعات کی کڑیاں ملانے کے باوجود ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ اپنی مشہور خود نوشت سوانح عمری میں نقل کیا ہے۔

    یہ حیران کُن واقعہ اور پُراسرار ہستی کا تذکرہ مصنّف کی کتاب "شام کی منڈیر سے” میں شامل ہے۔ وزیر آغا پاکستان کے ممتاز نقاد، ادیب، شاعر، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ انھوں نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے:

    "میں جھنگ میں دو سال مقیم رہا۔ پہلا سال تو میں نے مگھیانہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گزارا اور دوسرا سال کالج کے ہاسٹل میں۔ میرے یہ عزیز مگھیانہ شہر کے کوتوال تھے۔ نہایت سخت مزاج تھے۔ عام طور سے پنجابی میں باتیں کرتے لیکن جب غصّہ آتا تو اردو میں منتقل ہو جائے اور اردو ایسے کرخت لہجے میں‌ بولتے کہ محسوس ہوتا پشتو بول رہے ہیں۔ البتہ اردو بولنے کے دوران گالیاں پنجابی میں دیتے۔ کہتے اردو میں گالیاں دوں تو ملزم اقبالِ جرم نہیں کرتا۔”

    ان کے مکان کے پاس ایک قدیم قبرستان تھا جس میں ایک فقیر سائیں چھلّے شاہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے اس عزیز کے پاس بھی آتا اور گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے رخصت ہو جاتا۔ میرے یہ عزیز اس کے عقیدت مند تھے اور اسے ایک پہنچا ہوا فقیر سمجھتے تھے مگر ہم لڑکے بالے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔”

    "ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ ہُوا یہ کہ میں‌ گھر کے باہر ایک میدان میں چارپائی پر لیٹا سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سائیں چھلّے شاہ دوسری چارپائی پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے رہے۔ پھر کہا، مجھے کچھ روپے دو! میں‌ بے اختیار ہنس پڑا۔ میں نے کہا، بابا جی میرے پاس روپے کہاں؟ واقعی میری جیب میں اس وقت بمشکل ایک روپے کی ریزگاری ہوگی۔ اگر روپے ہوتے بھی تو میں اسے کیوں دیتا؟ بابا نے گھور کر مجھے دیکھا اور تقریباً چیخ کر کہا۔ روپے نہیں‌ ہیں‌ تمھارے پاس؟ اور وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے حیران ہو کر کہا، کون سا دس روپے کا نوٹ بابا جی؟ مگر بابا جی نے میری بات کا جواب نہ دیا اور بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔”

    "دوپہر جب میں‌ نہانے کے لیے غسل خانے میں‌ گیا اور میں‌ نے قمیص کے نیچے پہنی ہوئی بنڈی کو اتارا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ جب میں وزیر کوٹ سے آیا تھا تو میری ماں نے بنڈی کی جیب میں‌ دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سِی دیا تھا۔ انھیں سلانوالی کا تلخ تجربہ شاید یاد تھا۔ اس لیے انھوں نے میرے لیے واپسی کے کرایہ کا بندوبست کردیا تھا۔ میں نے جیب کو چُھوا، نوٹ جیب میں‌ موجود تھا۔ یکایک مجھے بابا جی کا سوال یاد آیا گیا اور میں‌ تادیر سوچتا رہا کہ بابا جی کو اس نوٹ کا علم کیسے ہوگیا؟ اس واقعے کو آج اڑتالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ تاحال مجھے اس کا جواب نہیں‌ ملا۔”

  • ’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتی ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد

    ’’شام کی منڈیر‘‘ سے جھانکتی ڈاکٹر وزیر آغا کی یاد

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا نے مختلف اصنافِ ادب کو انفرادیت بخشی، انھیں نیا آہنگ دیا اور توانا کیا۔ ادبی اور تنقیدی موضوعات کو نئے زاویے سے برتا اور کئی رجحانات متعارف کرائے۔ آج ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ 2010ء میں انتقال کرنے والے وزیر آغا کو جہانِ علم و ادب میں ایک نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    ان کا تعلق سرگودھا سے تھا جہاں ڈاکٹر وزیر آغا نے 18 مئی 1922ء کو آنکھ کھولی تھی۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جب کہ پنجابی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

    وہ 1960ء سے 1963ء تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے۔ انھوں نے 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو ڈاکٹر وزیر آغا جیسے قابل اور باصلاحیت قلم کار کی توجہ اور محنت کی بدولت معیاری اور مقبول جریدہ بنا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا نے ادبی تحقیق اور تصنیف کی صورت میں اردو ادب کو کئی یادگار کتب دیں جن میں ان کے تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے شامل ہیں۔ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

    اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا شاعر بھی تھے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کی خود نوشت سوانح عمری بھی لائقِ مطالعہ کتاب ہے جو ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ انھیں ان کے آبائی گاؤں کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    زنگ آلود تالا اور بے وفائی کا گلہ

    مشاہیرِ ادب کے خطوط کی فہرست طویل ہے جو ہمارے لیے یادوں کا خزانہ اور علم و ادب کے اعتبار سے بہت مستند حوالہ ہی نہیں بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں۔ یہاں ہم پاکستان کے ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک خط نقل کررہے ہیں جو انھوں نے معروف شاعر اور مصنّف ڈاکٹر خورشید رضوی کے نام تحریر کیا تھا۔

    برادرم خورشید رضوی صاحب
    السلام علیکم!

    خط ملا، بے حد ممنون ہوں۔ آپ سے ملے تو جیسے صدیاں گزر گئیں۔ اس دوران میں کم از کم تین بار صرف آپ سے ملنے کے لیے گورنمنٹ کالج گیا، لیکن آپ کے کمرے کے باہر ایک اتنا بڑا زنگ آلود تالا پڑا دیکھا۔ نہ جانے یہ تالا آپ نے کہاں سے لیا ہے۔ خاصا مضبوط لگتا ہے مگر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اسے دیکھ کر آپ کے دوستوں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔

    خدارا اس ڈینو سار سے پیچھا چھڑائیں اور دروازے پر کوئی نرم و نازک جندری آویزاں کریں جس کی کلائی پروفیسر غلام جیلانی اصغر باآسانی مروڑ سکیں۔ اس کا فائدہ کم از کم یہ ضرور ہو گا کہ آپ کے دوست آپ کی عدم موجودگی میں کمرے کے اندر جا کر آپ کی خوشبو سے معانقہ کر سکیں گے۔

    غلام جیلانی اصغر اور میرا یہ تاثر ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے رشید قیصرانی، جمیل یوسف اور نصف درجن دوسرے دوستوں کو چھوڑ کر، آپ سب سے زیادہ ”بے وفا“ ہیں کہ کبھی ملنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    آپ نے صوفی محمد ضیاء الحق صاحب کا پوچھا ہے تو میری یادداشت نے ایک زقند بھری ہے اور میری نظروں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جب میں گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جھنگ کا طالب علم تھا اور صوفی محمد ضیاء الحق ہمیں پڑھاتے تھے۔ غالباً رومی ٹوپی پہنتے تھے۔ دبلے پتلے، مرنجاں مرنج، مجسم شرافت تھے۔ دھیمی آواز میں بولتے مگر ان کا ہر لفظ شفقت اور محبت سے لبریز ہوتا۔

    اس زمانے کے ایک اور استاد بھی مجھے یاد ہیں۔ ان کا نام خواجہ معراج الدین تھا۔ بڑے دبنگ آدمی تھے۔ مسلمان طلبہ کے لیے کالج کی سطح پر جنگیں لڑتے تھے جب کہ صوفی ضیاءالحق کسی بکھیڑے میں نہیں پڑے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھے سب طلبہ کے لیے جیسے ایک چشمے کی طرح رواں دواں رہتے۔

    میں عربی کا طالبِ علم نہیں تھا۔ فارسی پڑھتا تھا جو خواجہ معراج الدین ہمیں پڑھاتے تھے۔ البتہ میں نے اُردو اختیاری لے رکھا تھا اور یہ ہمیں صوفی صاحب پڑھاتے تھے۔ اب میں کیا عرض کروں، اُردو کے ثقیل سے ثقیل الفاظ بھی ان کے ہونٹوں سے چھوتے ہی سبک بار اور شیریں ہو جاتے۔ میں کالج میگزین کا ایڈیٹر تھا اور اُردو میں تقریریں کرنے کا بھی مجھے شوق تھا، لہٰذا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ یوں تو دو سال جو میں نے کالج میں گزارے ضیاء صاحب سے اکتسابِ نور میں بسر ہوئے مگر مجھے ان کا ایک جملہ آج تک نہیں بھولا اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جملے کا میری آئندہ ادبی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔

    بعض اوقات ایک معمولی سا اشارہ سائکی کے اندر جا کر ایک بیج کی طرح جڑیں پکڑ لیتا ہے۔ پھر جب حالات سازگار ہوں تو ایک انکھوے کی طرح پھوٹ نکلتا ہے۔ یہی قصہ اس جملے کا ہے۔ ایک روز باتوں باتوں میں مجھ سے کہنے لگے۔ دیکھو وزیر علی! (ان دنوں میں وزیر علی خان تھا) مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھو گے۔ یاد رکھو! کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب ہی کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس ان کا یہ، جملہ ایک اشارہ یا suggestion بن کر میرے اندر اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج (اچھے یا برے) نکلے وہ آپ کے سامنے ہیں۔

    خدا کرے آپ بخیر و عافیت ہوں، کبھی سرگودھا آنے کا بھی سوچیے۔

    والسلام
    آپ کا، وزیر آغا
    3 فروری 1993

  • یومِ وفات:‌ ’’شام کی منڈیر‘‘ سے پرواز کرجانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ ’’شام کی منڈیر‘‘ سے پرواز کرجانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کا تذکرہ

    آج نام وَر نقّاد، انشائیہ نگار، محقّق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے 2010ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات سے روشناس کیا اور ادبی و تنقیدی موضوعات کو مختلف زاویے سے پیش کرتے ہوئے نئے رجحانات متعارف کروائے۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922ء کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متموّل علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول جریدہ ثابت ہوا۔

    ان کے تنقیدی مضامین “نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ انھیں انشائیہ نگاری میں کمال حاصل تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کرتے ہوئے خود بھی انشائیے لکھے جو علم و ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔ ان کے انشائیے کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ شاعر بھی تھے جن کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    لاہور میں‌ وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گاؤں(سرگودھا) میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی

    آج دنیائے ادب کے معروف نقاد، انشائیہ نگار، محقق اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کی برسی ہے۔ انھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو نئی جہات اور نئے زاویوں سے مالا مال کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 18 مئی 1922 کو ضلع سرگودھا کے علاقے وزیر کوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متمول علمی گھرانے سے تھا۔ فارسی کی تعلیم اپنے والد سے جب کہ پنجابی کی تعلیم والدہ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1956 میں پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا 1960 سے 1963 تک ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر رہے اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کا اجرا کیا جو نہایت معیاری اور مقبول ثابت ہوا جریدہ ثابت ہوا۔

    ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین "نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے نام سے جب کہ ان کی دیگر کتابیں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستان محبت، غالب کا ذوقِ تماشا اور اسی طرح انشائیے بھی کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ ڈاکٹر وزیر آغا ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کے متعدد شعری مجموعے بھی شائع ہوئے جن میں شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نردبان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی شامل ہیں۔

    اردو ادب کے اس نام ور تخلیق کار کی خود نوشت سوانح عمری ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    7 ستمبر 2010 کو لاہور میں وفات پانے والے ڈاکٹر وزیر آغا کو ان کے آبائی گائوں میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم

    فرد اور معاشرے کا تصادم، درخت کی نئی اور پرانی چھال کا تصادم ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تصادم کوئی نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ زندگی مائل بہ ارتقا ہے۔

    وہ ہر سال اپنی پرانی کینچلی اتار کر ایک نئی کینچلی پہن لیتی ہے۔ ہمارا واہمہ ہے کہ ہمیں پرانی اور نئی کینچلی کے رشتے میں فرد اور معاشرے کا تصادم نظر آتا ہے۔

    زندگی کا اصل مقصد، تسلسل ہے اور یہ تسلسل زیر و بم کے اس انداز کے تابع ہے، جو ساری کائنات میں جاری و ساری ہے، یعنی آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل، جس کے تسلسل اور تواتر میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔

    جب زندگی آگے بڑھتی ہے تو اس کام کے لیے فرد کو بروئے کار لاتی ہے۔ جب وہ پیچھے ہٹتی ہے، تاکہ نئی فتح یا نئے قدم کے آثار بہرہ اندوز ہوسکیں تو سوسائٹی کی قدروں سے کام لیتی ہے۔

    مطلب یہ ہے کہ پچھلے برس کی چھال ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کا ایک حصہ، روایت کی صورت میں زندگی کے تنے سے چپک جاتا ہے اور اس کی جسامت میں اضافہ کردیتا ہے، جیسے درخت کی نئی اور پرانی چھال میں لپکنے اور سمٹنے کا عمل جاری رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درخت کے اندر سے ایک تخلیقی جہت وجود میں آتی ہے، جو درخت کی نسل ہی کو بدل دیتی ہے۔

    فرد اور سوسائٹی کے رشتے میں بھی یہ بات عام ہے۔ کبھی کبھی کوئی ایسا فرد پیدا ہوجاتا ہے، جو سوسائٹی کو اٹھا کر ایک نئی سطح اور ایک نئے مدار میں لے آتا ہے اور یہ بات ایک تخلیقی جست کے تابع ہے۔

    (ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ”فرد، معاشرے اور تخلیقی جست“ سے محسن علی کا انتخاب)