Tag: ڈاکٹر وزیر آغا کی تحریریں

  • چرواہے اور تسبیح کے دانے

    چرواہے اور تسبیح کے دانے

    اردو ادب کی بے مثال اور لاجواب تحریروں اور حکمت و دانائی، فلسفہ و فکر کے موتیوں سے بھرے ہوئے مضامین میں انشائیہ نگاری کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اردو ادب میں ڈاکٹر وزیر آغا کو دانش ور اور باکمال انشائیہ نگار کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہ انہی کا ایک خوب صورت انشائیہ ہے۔

    چرواہے کی چھڑی دراصل ہوا کا ایک جھونکا ہے اور ہوا کے جھونکے کو مٹھی میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اسے تو دیکھنا بھی ممکن نہیں۔

    البتہ جب وہ آپ کے بدن کو مَس کرتے ہوئے گزرتا ہے تو آپ اس کے وجود سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ وجود ہی سے نہیں آپ اس کی صفات سے بھی آگاہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہر جھونکا ایک پیغام بر ہے۔ وہ ایک جگہ کی خوشبو کو دوسری جگہ پہنچاتا ہے۔ یہی کام چرواہے کا بھی ہے۔ تمام لوگ گیت چرواہوں کے ہونٹوں پر لرزتے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ بہت قدیم زمانے میں قبائل نے جو نقل مکانی کی، اس کے بارے میں تاریخی کوائف ناپید ہیں، البتہ جن راستوں سے یہ قبیلے گزرے اور جن خطوں میں چند روز ٹھہرے وہاں انہوں نے اپنے نقوش پا چھوڑ دیے جنہیں آج بھی ’’پڑھا‘‘ جا سکتا ہے۔ یہ نقوشِ پا وہ منورّ الفاظ ہی ہیں جو ان کے ہونٹوں سے ٹپکے اور پھر راستوں اور خطّوں میں بولی جانے والی زبانوں کے دامن پر کہیں نہ کہیں موتیوں کی طرح اٹک کر رہ گئے اور صدیوں تک اپنے بولنے والوں کے سفر کی داستان سناتے رہے… مگر لوک گیتوں کا قصّہ دوسری نوعیت کا ہے۔

    لوک گیت قبیلوں کے نہیں بلکہ چرواہوں کے نقوشِ پا ہیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ کسی خطّے کا چرواہا کہاں کہاں پہنچا کیونکہ وہ جہاں کہیں گیا اپنے ساتھ گیت کی لَے اور خوشبو اور تمازت بھی لے گیا۔ پھر وہ خود تو وقت کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ سکا اور مآلِ کار زمین کا رزق بن گیا مگر اس کا گیت ایک لالۂ خود رو کی طرح عہد بہ عہد اس خطّے کی زمین سے برآمد ہوتا اور خوشبو پھیلاتا رہا۔ بس یہی چروا ہے کا وصفِ خاص ہے کہ وہ جگہ جگہ گیتوں کے بیج بکھیرتا پھرتا ہے… بیج جو اس کے نقوشِ پا ہیں، جنہیں وقت کا بڑے سے بڑا سیلاب بھی نابود نہیں کر سکتا۔

    ویسے عجیب بات ہے کہ چرواہے کے مسلک کو آج تک پوری طرح سمجھا ہی نہیں گیا، مثلاً اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گلّے کا رکھوالا بھی ہے اور پولیس مین بھی! یعنی وہ اپنی چھڑی کی مدد سے ہر اُس زمینی یا آسمانی بلا پر ٹوٹ پڑتا ہے جو اس کے گلّے کو نظر بد سے دیکھتی ہے اور اسی چھڑی سے وہ گلّے سے بھٹکی ہوئی ہر بھیڑ کو راہِ راست پر لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر کیا چرواہے کا مقصدِ حیات صرف یہی ہے؟…غالباً نہیں! وجہ یہ کہ جب چرواہا گلّے کو لے کر روانہ ہوتا ہے تو اُسے مجبوراً اِسے سیدھی لکیر پر چلانا پڑتا ہے تا کہ ریوڑ بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ واپسی پر بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی تمام بھیڑوں کو سمیٹ کر یک مُشت کر دے تا کہ وہ بغیر کسی حادثے کے اپنے گھر پہنچ جائیں۔ مگر یہ تو سفر کے بالکل عارضی سے مراحل ہیں۔ اصل اور دیرپا مرحلہ وہ ہے جب چرواہا اپنے گلّے کو کسی سر سبز و شاداب میدان، جھاڑیوں سے اٹے ہوئے صحرایا کسی پہاڑ کی ڈھلان پر لا کر آزاد کر دیتا ہے۔ جس طرح تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے تو منکے فرشِ خاک پر گرتے ہی لڑھکنے اور بکھرنے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جب گڈریا اپنے ریوڑ کو آزاد کر تا ہے تو وہ دانہ دانہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ معاً ہر بھیڑ کی ایک اپنی منفرد شخصیت وجود میں آ جاتی ہے۔ گلّے کے شکنجے سے آزاد ہوتے ہی ہر بھیڑ محسوس کرتی ہے کہ بے کنار آسمان اور لامحدود زمین کے عین درمیان وہ اب یکہ و تنہا کھڑی مرکزِ دو عالم بن گئی ہے۔ مگر بات محض بھیڑوں ہی کی نہیں۔

    خود چرواہے کو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بدن کے حصار سے باہر آکر چاروں طرف بکھرنے لگا ہے، جیسے اس کے ہاتھ یکایک اتنے لمبے ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی جگہ سے جنبش کیے بغیر ہی درخت کی پھُننگ، پہاڑ کی چوٹی اور ابر پارے کی جھالر کو چھو سکتا ہے بلکہ پتھّروں، پودوں اور پرندوں حتیٰ کہ رنگوں اور روشنیوں سے بھی ہم کلام ہو سکتا ہے۔ کسان بے چارے کو تو زمین نے جکڑ رکھا ہے اور بنیے کو زر نے، مگر چرواہا ایک مردِ آزاد ہے، وہ اپنے گلّے کا بھی مطیع نہیں۔ وہ میدان یا پہاڑ کی ڈھلوان پر پہنچتے ہی اپنی مٹھی کھول دیتا ہے اور سارا گلاّ اس کی انگلیوں کی جھریوں سے دانہ دانہ ہو کر ہر طرف بکھر جاتا ہے، اس کے بعد وہ خود بھی بکھرنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خاک و افلاک پر ایک ردا سی بن کر چھا جاتا ہے، مگر چرواہا آخر چرواہا ہے، اس کا کام محض بکھرنا ہی نہیں سمٹنا بھی ہے۔

    چنانچہ شام ہوتے ہی وہ پہلے اپنی چھڑی کو جسم عطا کرتا ہے، پھر خود کو تنکا تنکا جمع کرتا ہے۔ مجتمع ہونے، بکھرنے اور دوبارہ جڑ جانے کا یہ عمل جس سے چرواہا ہر روز گزرتا ہے، پوری کائنات کے طرزِ عمل سے مشابہ ہے، مگر یہ دوسرا قِصّہ ہے۔ چرواہے کئی طرح کے ہیں۔ ایسے چرواہے بھی ہیں جو محض مزدوری کرتے ہیں۔ سارا دن مویشیوں کو ہانکنے کے بعد رات کو تھکے ہارے واپس آتے ہیں اور کھاٹ پر گرتے ہی بے سُدھ ہو جاتے ہیں۔ ایسے چرواہوں کو چرواہا کہنا بھی زیادتی ہے۔ پھر ایسے چرواہے بھی ہیں جو چناب کنار بھینسوں یا گائیوں کو چراتے پھرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی چرواہے کم اور پریمی زیادہ ہیں۔ گائیوں بھینسوں سے ان کا سارا لگاؤ محض ایک بہانہ ہے۔ وہ دراصل ان کی وساطت سے زیادہ نازک اور خوبصورت گائیوں بھینسوں تک رسائی پانے کے آرزو مند ہوتے ہیں، چنانچہ جب عشق کے انتہائی مراحل میں ان کے گرد جو اپنوں یا خوشیوں کا حلقہ تنگ ہو جاتا ہے تو انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ ان کی اصل گائیں بھینسیں نجانے کب سے ان کی راہ تک رہی ہیں… میں اس قسم کے چرواہوں کا ذکر کر کے آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، میں تو صرف ان چرواہوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مویشیوں کے ریوڑ چراتے چراتے ایک روز انسانوں کے ریوڑ چرانے لگتے ہیں۔ تب ان کی چھڑی عصا میں بدل جاتی ہے۔ ہونٹوں پر اسمِ اعظم تھرکنے لگتا ہے۔ وہ انسانی ریوڑوں کو پہاڑ کی چوٹی پر لا کر یا صحرا کے سینے میں اتار کر یا دریا کے کناروں پر بکھیر کر اس بات کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ریوڑ اپنی کہنگی اور یبوست کو گندی اُون کی طرح اپنے جسموں سے اتار پھینکیں۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایسا ہو گیا ہے تو وہ انہیں واپس ان کے گھروں تک لے آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خود تسبیح کے دانوں کی طرح پوری کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔

    یہ جو بساطِ فلک پر ہر رات کروڑوں ستارے سے چمکتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ سب اُسی تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانے ہیں؟

    (ممتاز ادیب، نقّاد، شاعر اور مشہور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے’’ چرواہے‘‘ سے اقتباس)

  • دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    دستر خوان:‌ عزیز ترین ثقافتی ورثے سے عزیزانِ مصر کا سا سلوک (انشائیہ)

    ایک زمانہ تھا کہ اہلِ وطن فرش پر دستر خوان بچھاتے، آلتی پالتی مار کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھانا کھاتے۔ پھر جو زمانہ بدلا تو ان کے نیچے کرسیاں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھانا چُن دیا جاتا۔ پہلے وہ سَر جوڑ کر کھاتے تھے اب سَروں کے درمیان فاصلہ نمودار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا شخص مدّ مقابل نظر آنے لگا۔

    مگر زمانہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کرتا۔ چنانچہ اب کی بار جو اس نے کروٹ لی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر اور سرو قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہونے کی روایت قائم ہوئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر طبع آزمائی ہونے لگی۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تھا جب کہ جنگلی مخلوق چراگاہوں میں چرتی پھرتی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلاش میں پورے کھیت کو تختۂ مشق بناتے تھے، اب باقی نہ رہا اور مدتوں کے بچھڑے ہوئے سینہ چاکانِ چمن ایک بار پھر اپنے عزیزوں سے آ ملے۔

    اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا ہماری تہذیب کا گراف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہرگز نہیں ہوا ہے، کیونکہ ہم نے فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھنے کی روایت کو ترک کر کے کھڑے ہو کر اور پھر چل کر کھانا کھانے کے وطیرے کو اپنا لیا ہے جو چرنے یا دانہ دنکا چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جانے یا نیچے آنے کا منظر دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضۂ قدرت میں کتنے علاقے اور خزانے آئے یا چلے گئے۔ فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام اور شرکائے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا!

    بچپن کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھانوں کی ایک ٹولی وارو ہوتی تھی۔ یہ لوگ سارا دن گاؤں گاؤں پھر کر اُدھار پر کپڑا بیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہوتے اور پھر ماحضر تناول فرماتے۔ وہ زمین پر کپڑا بچھا کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جاتے۔ درمیان میں شوربے سے بھری ہوئی پرات بحرُ الکاہل کا منظر دکھاتی، جس میں بڑے گوشت کی بوٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح ابھری ہوئی دکھائی دیتیں۔ وہ ان بوٹیوں کو احتیاط سے نکال کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگو کر ان کا ملیدہ سا بنانے لگتے جب ملیدہ تیار ہو جاتا تو شرکائے طعام پوری دیانت داری کے ساتھ آپس میں بوٹیاں تقسیم کرتے اور پھر اللّٰہ کا پاک نام لے کر کھانے کا آغاز کر دیتے۔ وہ کھانا رُک رُک کر، ٹھہر ٹھہر کر کھاتے، مگر پشتو بغیر رُکے بے تکان بولتے۔ مجھے ان کے کھانا کھانے کا انداز بہت اچھا لگتا تھا۔ چنانچہ میں ہر شام حجرے کے دروازے میں آکھڑا ہوتا، انھیں کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا اور خوش ہوتا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر خوش ہوتے اور کبھی کبھی برادرانہ اخوّت میں لتھڑا ہوا ایک آدھ لقمہ یا گوشت کا ٹکڑا میری طرف بھی بڑھا دیتے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ ان پٹھانوں کی پیش کش کو اگر کوئی مسترد کر دے تو اس کی جان کی خیر نہیں۔ اس لیے میں بادلِ نخواستہ ان کے عطا کردہ لقمۂ تر کو کلّے میں دبا کر آہستہ آہستہ جگالی کرتا اور تا دیر انھیں کھانا کھاتے دیکھتا رہتا۔ عجیب منظر ہوتا۔ وہ کھانے کے دوران میں کمال سیر چشمی کا مظاہرہ کرتے۔ ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو پیش کرتا اور ادھر سے جزاکَ اللّٰہ کے الفاظ وصول کرنے کے بعد اسے اپنے منہ میں ڈالتا۔ اخوّت، محبت اور بھائی چارے کا ایک ایسا لازوال منظر آنکھوں کے سامنے ابھرتا کہ میں حیرت زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جاتا اور تب میں دستر خوان پر کھانا کھانے کے اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرزِ عمل سے موازانہ کرتا تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی، کیونکہ ہمارے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کرنے والی بڑی خالہ کے گردا گرد بچّوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے جب بڑی خالہ کھانا تقسیم کر رہی ہوتیں تو ہماری حریص آنکھیں ہانڈی میں ڈوئی کے غوطہ لگانے اور پھر وہاں سے برآمد ہو کر ہمارے کسی سنگی ساتھی کی رکابی میں اترنے کے عمل کو ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھتیں۔ اگر کسی رکابی میں نسبتاً بڑی بوٹی چلی جاتی تو بس قیامت ہی آ جاتی۔ ایسی صورت میں خالہ کی گرج دار آواز کی پروا نہ کرتے ہوئے ہم بڑی بوٹی والے کی تکا بوٹی کرنے پر تیار ہو جاتے اور چھینا جھپٹی کی اس روایت کا ایک ننھا سا منظر دکھاتے جو نئے زمانے کے تحت اب عام ہونے لگی تھی۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی روایت ہمارا عزیز ترین ثقافتی ورثہ تھا جس کے ساتھ ہم نے عزیزانِ مصر کا سا سلوک کیا اور اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آجائے تو مارے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جاتی ہے۔ حالانکہ اس میں شرمندہ ہونے کی قطعاً کوئی بات نہیں۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دستر خوان پر بیٹھنا ایک تہذیبی اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھانا ایک نیم وحشی عمل ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں بائیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے برادرانہ مراسم فی الفور استوار ہو جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں، غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئے ہیں۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کا کرم فرما کمال دریا دلی اور مروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کھانا کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوش گوار فضا از خود قائم ہو جاتی ہے جو ہماری ہزار رہا برس کی تہذیبی یافت کی مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا ہوا شخص آپ کا مدّ مقابل ہے اور اگر آپ نے ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کر جائے گا۔

    دستر خوان کی یہ خوبی ہے کہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریکِ طعام حد درجہ معتبر، شریف اور نیک نام دکھائی دینے لگتا ہے۔ دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصور کیجیے تو آپ کو نفسا نفسی خود غرضی اور چھینا جھپٹی کی فضا کا احساس ہو گا اور ڈارون کا جہدُ البقا کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔

    دستر خوان کی ایک اور خوبی اس کی خود کفالت ہے۔ جب آپ دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ ضروریات کو بے طلب پورا کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دستر خوان پر ضرورت کی ہر چیز موجود ہے حتیٰ کہ اچار چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیا کر دیے گئے ہیں۔ دستر خوان پر بیٹھنے کے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حقِ میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو نہیں پہچانا۔

    سچی بات تو یہ ہے کہ دستر خوان پر پوری دل جمعی سے بیٹھ کر کھانا کھانے اور بوفے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے، خوش بُو اور بد بُو میں ہے، صبح کی چہل قدمی اور سو گز کی دوڑ میں ہے!

    (ممتاز اردو نقّاد، انشائیہ نگار، اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیے بعنوان دستر خوان سے اقتباسات)

  • سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    سائیں چھلّے شاہ اور دس روپے کا نوٹ

    زندگی میں کبھی ایسا کوئی واقعہ بھی پیش آتا ہے جسے عقل تسلیم نہیں کرتی، اور اس کی کوئی توجیہ بھی نہیں پیش کر پاتی۔ بہت غور کرنے، سوچنے، واقعات کی کڑیاں ملانے کے باوجود ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی ایک ایسا ہی واقعہ اپنی مشہور خود نوشت سوانح عمری میں نقل کیا ہے۔

    یہ حیران کُن واقعہ اور پُراسرار ہستی کا تذکرہ مصنّف کی کتاب "شام کی منڈیر سے” میں شامل ہے۔ وزیر آغا پاکستان کے ممتاز نقاد، ادیب، شاعر، محقق اور انشائیہ نگار تھے۔ انھوں نے یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے:

    "میں جھنگ میں دو سال مقیم رہا۔ پہلا سال تو میں نے مگھیانہ میں اپنے ایک عزیز کے ہاں گزارا اور دوسرا سال کالج کے ہاسٹل میں۔ میرے یہ عزیز مگھیانہ شہر کے کوتوال تھے۔ نہایت سخت مزاج تھے۔ عام طور سے پنجابی میں باتیں کرتے لیکن جب غصّہ آتا تو اردو میں منتقل ہو جائے اور اردو ایسے کرخت لہجے میں‌ بولتے کہ محسوس ہوتا پشتو بول رہے ہیں۔ البتہ اردو بولنے کے دوران گالیاں پنجابی میں دیتے۔ کہتے اردو میں گالیاں دوں تو ملزم اقبالِ جرم نہیں کرتا۔”

    ان کے مکان کے پاس ایک قدیم قبرستان تھا جس میں ایک فقیر سائیں چھلّے شاہ رہتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے اس عزیز کے پاس بھی آتا اور گھنٹہ بھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے رخصت ہو جاتا۔ میرے یہ عزیز اس کے عقیدت مند تھے اور اسے ایک پہنچا ہوا فقیر سمجھتے تھے مگر ہم لڑکے بالے ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتے۔”

    "ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مجھے اس سے خوف آنے لگا۔ ہُوا یہ کہ میں‌ گھر کے باہر ایک میدان میں چارپائی پر لیٹا سردیوں کی دھوپ سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ سائیں چھلّے شاہ دوسری چارپائی پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک مجھے اپنی لال لال آنکھوں سے گھورتے رہے۔ پھر کہا، مجھے کچھ روپے دو! میں‌ بے اختیار ہنس پڑا۔ میں نے کہا، بابا جی میرے پاس روپے کہاں؟ واقعی میری جیب میں اس وقت بمشکل ایک روپے کی ریزگاری ہوگی۔ اگر روپے ہوتے بھی تو میں اسے کیوں دیتا؟ بابا نے گھور کر مجھے دیکھا اور تقریباً چیخ کر کہا۔ روپے نہیں‌ ہیں‌ تمھارے پاس؟ اور وہ دس روپے کا نوٹ کیا ہوا؟ میں نے حیران ہو کر کہا، کون سا دس روپے کا نوٹ بابا جی؟ مگر بابا جی نے میری بات کا جواب نہ دیا اور بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔”

    "دوپہر جب میں‌ نہانے کے لیے غسل خانے میں‌ گیا اور میں‌ نے قمیص کے نیچے پہنی ہوئی بنڈی کو اتارا تو اچانک مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ جب میں وزیر کوٹ سے آیا تھا تو میری ماں نے بنڈی کی جیب میں‌ دس روپے کا نوٹ رکھ کر جیب کو سِی دیا تھا۔ انھیں سلانوالی کا تلخ تجربہ شاید یاد تھا۔ اس لیے انھوں نے میرے لیے واپسی کے کرایہ کا بندوبست کردیا تھا۔ میں نے جیب کو چُھوا، نوٹ جیب میں‌ موجود تھا۔ یکایک مجھے بابا جی کا سوال یاد آیا گیا اور میں‌ تادیر سوچتا رہا کہ بابا جی کو اس نوٹ کا علم کیسے ہوگیا؟ اس واقعے کو آج اڑتالیس برس ہونے کو آئے ہیں۔ تاحال مجھے اس کا جواب نہیں‌ ملا۔”