Tag: ڈبلیو ایچ او

  • ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کی پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے کی تعریف

    ڈبلیو ایچ او کے نمائندے کی پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے کی تعریف

    کراچی: عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے نے پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کا دورہ کیا، اور بین الاقوامی مرکز کی سائنسی و تحقیقی سرگرمیوں کو قابلِ تعریف قرار دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پلیتھا گوناراتھنا ماہی پالا نے جمعہ کو پاکستان کے معروف تحقیقی ادارے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کا دورہ کیا، اور ادارے کے انفرا اسٹرکچر اور یہاں کی سائنسی اور تحقیقی سرگرمیوں کی تعریف کی۔

    ادارے کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے نمائندے کو صحت کی نگہداشت کے شعبے میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔

    پروفیسر عطا الرحمن اور پروفیسر اقبال چوہدری نے ڈبلیو ایچ او پاکستان کو تجویز پیش کی کہ ادارے کے ساتھ مل کر صحت سے متعلق مشترکہ تحقیقی، تعلیمی اور تربیتی پروگرام منعقد کیے جائیں، جن میں مریضوں کی حفاظت، ڈیزاسٹر منیجمنٹ، ون ہیلتھ اور صحت کی نگہداشت سے متعلق فنانسنگ پر سرٹیفیکٹ اور ڈپلومہ کورسز بھی شامل ہوں۔

    ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا نے اس تجویز کو سراہا اور جِلدی مرض کوٹینیس لشمینیسس کی روک تھام اور علاج کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر دل چسپی ظاہر کی۔ واضح رہے کہ کوٹینیس لشمینیسس دنیا میں لشمینیسس کی سب سے عام قسم ہے، جو پروٹوزون پیراسائٹ لشمینیسس کی 15 انواع کے سبب سے ہوتا ہے، جب کہ اس کا پھیلاؤ متاثرہ سینڈ فلائی سے ہوتا ہے، یہ مرض دنیا کے کئی ممالک میں بہت سنجیدہ مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔

    اجلاس میں یہ طے ہوا کہ ڈبلیو ایچ او اور بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی مشترکہ طور پر لشمینیسس کے موضوع پر سالانہ اجلاس منعقد کریں گے۔

  • کرونا وائرس کے خلاف فتح کا اعلان؟

    کرونا وائرس کے خلاف فتح کا اعلان؟

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا وبا کے خلاف فتح کا اعلان قبل از وقت قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانم نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے کرونا کے آگے ہتھیار ڈالنا یا فتح کا اعلان کرنا قبل از وقت ہے۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا ہماری آنکھوں کے سامنے اس وائرس کا ارتقائی عمل ہو رہا ہے، یہ بہت خطرناک ہے، اس لیے کچھ ممالک کی طرف سے کرونا پابندیوں کو ختم کرنا قابل تشویش ہے۔

    انھوں نے کہا اومیکرون کے اثرات زیادہ خطرناک نہیں تاہم دنیا کے بہت سے علاقوں میں اموات میں انتہائی تشویش ناک اضافہ دیکھا جا رہا ہے، کرونا کے زیادہ پھیلاؤ کا مطلب زیادہ اموات ہے۔

    عالمی ادارے کے سربراہ کے مطابق اومیکرون کا پہلا کیس رپورٹ ہونے کے بعد سے اب تک 9 کروڑ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جو سال 2020 کے کرونا کے مجموعی کیسز بھی زیادہ ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ممالک سے لاک ڈاؤن کی صورت حال میں واپس جانے کو نہیں کہہ رہے ہیں، تمام ممالک اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے ویکسین کے ساتھ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    ڈاکٹر ٹیڈروس نے مزید کہا کہ وائرس شکلیں بدل رہا ہے، ہم اس سے نہیں لڑسکتے جب تک یہ نہ جان جائیں کہ یہ وائرس کیا کر رہا ہے، اس لیے تمام ممالک ٹیسٹنگ اور نگرانی کا عمل جاری رکھیں۔

  • اومیکرون کی شدت کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی باقاعدہ تصدیق

    اومیکرون کی شدت کے حوالے سے عالمی ادارۂ صحت کی باقاعدہ تصدیق

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بڑھتے ہوئے ثبوتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے تصدیق کر دی ہے کہ اومیکرون ویرینٹ ہلکی علامات کا سبب بنتا ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت نے کرونا وائرس کی اومیکرون ویرینٹ کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تاہم منگل کے روز اس نے تصدیق کی کہ اس متغیر قسم سے معتدل علامات پیدا ہوتی ہیں۔

    ادارے کے حکام نے کہا کہ اومیکرون تنفس کی نالی کے اوپر والے حصے کو متاثر کرتا ہے، لیکن ویکسینز کی وجہ سے لوگوں کو اسپتال میں داخل ہونے، شدید علیل پڑنے یا موت کے منہ میں جانے سے تحفظ حاصل ہوا ہے۔

    پبلک ہیلتھ ماہرین کے مطابق اومیکرون، دیگر متغیر اقسام سے زیادہ متعدی ہے، کئی شہروں میں یہ وائرس ہفتوں کے اندر ہی سب سے زیادہ وبائی بن چکا ہے۔

    جن علاقوں میں آبادی کا بھاری تناسب ابھی تک ویکسینیشن سے محروم ہے وہاں اس کا پھیلاؤ ہیلتھ سسٹمز کے لیے باعث خطرہ قرار دیا گیا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ لوگ بھی بیمار پڑ سکتے ہیں جو ویکسین لگوا چکے ہوں یا ماضی میں کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہوں۔

  • اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    اومیکرون کے ‘طوفان’ سے متعلق ڈبلیو ایچ او کا اہم بیان

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اومیکرون ویرینٹ کے ایک طوفان کے آنے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ یورپ میں اومیکرون کا ایک طوفان آنے کا خدشہ ہے، اس لیے حکومتوں کو کرونا کے نئے ویرینٹ سے متعلق تیاری کر لینی چاہیے۔

    ڈبلیو ایچ او کے اعلیٰ افسر علاقائی ڈاریکٹر ڈاکٹر ہینس کلوز نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اومیکرون پہلے ہی کئی ممالک میں حاوی ہو چکا ہے، ہم ایک اور طوفان کو آتے دیکھ سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ کچھ ہی ہفتوں میں اومیکرون یورپ اور دیگر ممالک میں بری طرح پھیل جائے گا جس کی وجہ سے ہیلتھ سروسز شدید طور پر متاثر ہوں گی۔

    اومیکرون سب کے گھروں‌ پر دستک دینے والا ہے: بل گیٹس کی پیشگوئی

    ڈاکٹر ہینس کلوز کا کہنا تھا کہ یورپ کے 38 ممالک میں اومیکرون وائرس پہلے ہی پایا جا چکا ہے جب کہ برطانیہ، ڈنمارک اور پرتگال میں یہ پہلے ہی زبردست طریقے سے پھیل چکا ہے۔

    ڈاکٹر ہینس کے مطابق یورپی یونین میں رواں برس کرونا وائرس سے 27 ہزار لوگ جان گنوا چکے ہیں اور اس کے 26 لاکھ کیسز سامنے آئے، کیسز کی یہ تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فی صد زیادہ ہے۔

    ڈبلیو ایچ او نئے سال اور کرسمس کی تقریبات کے حوالے سے بھی لوگوں کو خبردار کر چکی ہے۔

  • کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    کیا کرونا وائرس 2022 میں ختم ہو جائے گا؟

    عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک خاتون اہل کار نے امید دلائی ہے کہ کرونا وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کے کرونا سے متعلقہ تکنیکی وفد کی سربراہ ماریا وان کرخوف نے کہا ہے کہ اس بات کا قومی امکان ہے کہ وائرس اگلے سال ختم ہو جائے گا۔

    انھوں نے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے منعقدہ خصوصی سیشن میں کرونا کی نئی قسم اومیکرون سے متعلق سوالوں کے جواب میں اس بات کا اظہار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ ہمیں کافی امید ہے کہ یہ وائرس اگلے سال تک ختم ہو سکتا ہے جس کے لیے ہمارے پاس شرح اموات، وبائی اثرات اور اسپتالوں سے رجوع میں کمی کے مواقع دستیاب ہیں۔

    دوسری جانب یورپی مرکز برائے انسداد امراض کا کہنا ہے کہ اگلے سال کے ابتدائی دو مہینوں میں اومیکرون کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔

    مرکز نے اپنی جائزاتی رپورٹ میں اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ یہ نئی قسم تیزی سے یورپ میں پھیل سکتی ہے، ڈائریکٹر انڈریا آمون نے خدشہ ظاہر کیا کہ اموات اور مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

    باور رہے کہ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریوسس نے بتایا تھا کہ اومیکرون اس وقت 77 ممالک میں پھیل چکا ہے جس سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

  • کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    کیا اومیکرون سے بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں؟

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر سومیا سوامیناتھن نے کہا کہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنوبی افریقا میں بچے زیادہ اومیکرون سے متاثر ہو رہے ہیں۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سوامیناتھن نے خبردار کیا کہ فی الحال بچوں کے لیے زیادہ ویکسینز دستیاب نہیں ہیں اور صرف چند ممالک نے بچوں کے لیے ویکسین شروع کی ہے، جس کی وجہ سے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بہت کم ممالک بچوں کو ویکسین دے رہے ہیں، جب کیسز بڑھتے ہیں تو بچے اور ٹیکے نہ لگوانے والے انفیکشن کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں، ہم اب بھی اعداد و شمار کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ بچوں پر اومیکرون کے مختلف اثرات کا نتیجہ نکالا جا سکے۔

    عالمی ادارہ صحت کی سائنس دان نے کہا کہ تمام ممالک کو عمر اور علاقے کے لحاظ سے ویکسین کے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان لوگوں کا اندازہ لگایا جا سکے جو چھوٹ گئے ہیں اور ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام لوگوں کو ویکسین لگائی جائے تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکے۔

    ڈاکٹر سومیا نے کہا کہ ہم وبائی مرض میں مزید ڈیٹا شیئرنگ چاہتے ہیں اور ہمیں ان ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو مختلف اقسام اور ڈیٹا کو ظاہر کر رہے ہیں، اس کے لیے ہمیں ممالک کے درمیان ایک مربوط معاہدے کی ضرورت ہے۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اومیکرون انفیکشن کی طبی خصوصیات کو سمجھنے کے یہ ابھی ابتدائی دن ہیں، کیسز میں اضافے اور اسپتال میں داخل ہونے کے درمیان ایک وقفہ ہے، اسپتال میں داخل ہونے کی شرحوں کا مطالعہ کرنے کے لیے دو سے تین ہفتوں تک انتظار کرنا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ بیماری کتنی شدید ہے۔

  • اومیکرون سے اب تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی

    اومیکرون سے اب تک کوئی موت واقع نہیں ہوئی

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ ابھی تک کرونا کے اومیکرون ویرینٹ سے کی کوئی موت واقع نہیں ہوئی، اگرچہ یہ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے جمعے کو کہا کہ اب تک 38 ممالک میں اومیکرون ویرینٹ کا پتا چلا ہے لیکن ابھی تک کسی کی موت کی اطلاع نہیں ملی ہے، دوسری جانب دنیا بھر کے حکام انتباہات جاری کر رہے ہیں، کہ اومیکرون کے پھیلاؤ سے عالمی اقتصادی بحالی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس لیے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے جائیں۔

    ادھر اومیکرون ویرینٹ کے شکار ملکوں میں امریکا اور آسٹریلیا بھی شامل ہو گئے ہیں جہاں مقامی سطح پر یہ لوگوں کو منتقل ہوا ہے، جب کہ جنوبی افریقا میں اس کے کیسز کی مجموعی تعداد 30 لاکھ سے بھی بڑھ گئی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے متنبہ کیا ہے کہ یہ تعین کرنے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں کہ اس ویرینٹ میں انفیکشن پیدا کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، آیا یہ زیادہ شدید بیماری کا باعث بنتا ہے یا نہیں، اور موجودہ دستیاب علاج اور ویکسینز اس کے خلاف کتنی مؤثر ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اس نے ابھی تک اومیکرون سے متعلق اموات کی کوئی رپورٹ نہیں دیکھی، لیکن نئی قسم کا پھیلاؤ اس وارننگ کا باعث ضرور بنا ہے کہ یہ اگلے چند مہینوں میں یورپ کے نصف سے زیادہ کووِڈ کیسز کا سبب بن جائے گی۔

    بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے جمعہ کو کہا کہ نئی قسم عالمی اقتصادی بحالی کو بھی سست کر سکتی ہے، جیسا کہ ڈیلٹا کے تناؤ نے کیا تھا۔

  • ڈبلیو ایچ او کا کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز سے متعلق اہم مشورہ

    ڈبلیو ایچ او کا کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز سے متعلق اہم مشورہ

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت نے مشورہ دیا ہے کہ کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو کرونا ویکسین کی تیسری ڈوز دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ویکسینیشن ماہرین کے اسٹریٹیجک ایڈوائزری گروپ کا کہنا ہے کہ مدافعتی نظام کمزور ہونے کے باعث لوگوں میں ویکسینیشن کے بعد بھی بیماری یا اچانک انفیکشن کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ویکسین ڈائریکٹر کیٹ اوبرائن نے بتایا کہ ویکسین کی تیسری ڈوز کا مشورہ شواہد کی بنیاد پر دیا گیا ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں اچانک انفیکشن کی زیادہ شرح دیکھنے میں آئی ہے۔

    عالمی ادارے کے پینل نے سائنوفام یا سائنوویک کی مکمل ویکسینیشن کروانے والے 60 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ایک سے 3 ماہ بعد بوسٹر ڈوز کا مشورہ دیا، کیوں کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ وقت کے ساتھ ویکسینیشن سے ملنے والا تحفظ کم ہو جاتا ہے۔

    خود مختار ماہرین کے پینل نے کہا کہ سائنوفارم اور سائنوویک ویکسینز استعمال کرنے والے طبی حکام کو پہلے معمر آبادی میں ویکسینز کی 2 ڈوز کی کوریج کو مکمل کرنا چاہیے اور پھر تیسری ڈوز دینے پر کام کرنا چاہیے۔

  • پاکستان میں کرونا ویکسینیشن، ڈبلیو ایچ او کا اعتراف

    پاکستان میں کرونا ویکسینیشن، ڈبلیو ایچ او کا اعتراف

    اسلام آباد: پاکستان میں کرونا ویکسینیشن کی رفتار کی تعریف کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کے کنٹری سربراہ نے کہا ہے کہ اب بھی چند ایسے ممالک ہیں جہاں 2 فی صد آبادی کی بھی ویکسینیشن نہ ہو سکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں سربراہ ڈبلیو ایچ او پاکستان پلیتھا ماہی پالا نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ پاکستان ویکسین لگانے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے، چند ایسے ممالک ہیں جہاں 2 فی صد آبادی کو ویکسین نہیں لگائی گئی۔

    پلیتھا ماہی نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا پاکستان ایک روز میں 10 لاکھ ویکسین لگا رہا ہے، پاکستان کی ویکسین لگانے کی مہم تیز اور مؤثر ہے۔

    کنٹری سربراہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں مکمل ویکسینیٹڈ افراد کی تعداد 20 فی صد سے زائد ہو چکی ہے، جب کہ جزوی ویکسینیٹڈ افراد کی تعداد 40 فی صد سے زائد ہے۔

    پلیتھا ماہی پالا نے اعتراف کیا کہ پاکستان نے کرونا وبا میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، این سی او سی نے بھی بہترین کام کیا، پاکستان میں کرونا رسپانس میں بہترین کوآرڈینیشن رہی، اور ملک میں کرونا انفیکشن کے باعث اموات کی شرح کم رہی۔

  • ہر سال 70 لاکھ لوگ قبل از وقت کیوں مر جاتے ہیں؟

    ہر سال 70 لاکھ لوگ قبل از وقت کیوں مر جاتے ہیں؟

    جنیوا: عالمی ادارۂ صحت نے فضائی آلودگی کو انسانی صحت کے لیے موسمی تبدیلی سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے سالانہ 70 لاکھ کے قریب لوگ قبل از وقت مر جاتے ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ فضائی آلودگی تمباکو نوشی اور غیر صحت مند غذائیں کھانے سے زیادہ خطرناک بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی پہلے کے خیال سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ یہ اہم آلودگیوں جیسے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی محفوظ سطح کو کم کر دیتا ہے۔

    عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، ادارے نے اپنے 194 رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کریں اور موسمیاتی تبدیلیوں پر کارروائی کریں۔

    یاد رہے کہ فضائی آلودگی دل اور فالج جیسی بیماریوں سے منسلک ہے، بچوں میں یہ پھیپھڑوں کی نشوونما کو کم کر سکتا ہے اور بڑھتے ہوئے دمہ کے مرض کا سبب بن سکتا ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کے مضر اثرات موسمی تبدیلی کے منفی اثرات کے برابر ہیں۔