Tag: ڈبلیو ڈبلیو ایف

  • پاکستانی ماہر تعلیم ڈاکٹر عادل نجم تحفظ جنگلی حیات کے عالمی ادارے کے سربراہ مقرر

    پاکستانی ماہر تعلیم ڈاکٹر عادل نجم تحفظ جنگلی حیات کے عالمی ادارے کے سربراہ مقرر

    پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر تعلیم اور پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹر عادل نجم جنگلی حیات اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) انٹرنیشنل کے صدر مقرر کردیے گئے۔

    ڈاکٹر عادل نجم صدر ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کا عہدہ یکم جولائی 2023 سے سنبھالیں گے۔

    ڈاکٹر عادل نجم گزشتہ کئی دہائیوں سے ماحولیات، پائیدار ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرتے رہے ہیں، وہ بین الاقوامی پالیسی سازوں میں ایک انتہائی با اثر شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

    وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے وائس چانسلر رہ چکے ہیں جبکہ کئی بین الاقوامی جامعات میں بطور لیکچرر اور پروفیسر تعلیم دے چکے ہیں۔

    درجنوں مقالات لکھنے والے ڈاکٹر عادل نجم اب تک عالمی و قومی معیشت و ماحولیات پر کئی کتابیں بھی تحریر کر چکے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اعلامیہ کے مطابق ڈاکٹر عادل 8 سال تک ادارے کے بین الاقوامی بورڈ میں بطور ٹرسٹی خدمات انجام دے چکے ہیں، 2010 میں ڈاکٹرعادل نجم کو صدر پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

    اپنی تقرری کے بعد ڈاکٹر عادل نجم نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ یہ تقرری ان کے لیے باعث اعزاز ہے اور انہیں اس کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔

    خیال رہے کہ سنہ 1961 میں قائم کیا جانے والا سوئس ادارہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تحفظ جنگلی حیات اور ماحولیات کے لیے کام کر رہا ہے۔

  • پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    پاکستان میں جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف

    کراچی: پاکستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جنگلی حیات کی آبادی میں 69 فی صد کمی کا تباہ کن انکشاف سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے لِوِنگ پلانیٹ رپورٹ جاری کر دی، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں میٹھے پانی میں بسنے والی مختلف نسلوں کی آبادی میں 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پرندوں، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں کی آبادی میں 1970 کے بعد سے اب تک 69 فی صد کی کمی دیکھی گئی ہے۔

    رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ حکومتیں، ادارے اور عوام فوری طور پر حیاتیاتی تنوع کی تباہی کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی میں رہنے والے مختلف اقسام کے جانداروں کی آبادی میں اوسطاً 83 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، اور 10 لاکھ پودوں اور جانوروں کی نسلوں کے معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔

    2.5 فی صد پرندے، ممالیہ، خشکی پر رہنے والے اور رینگنے والے جانور اور مچھلیاں پہلے ہی ناپید ہو چکی ہیں۔ آبادیاں بڑھنے سے جینیاتی تنوع میں کمی آئی ہے اور یہ جنگلی حیات اپنی ماحول دوست رہائش گاہوں سے محروم ہو رہے ہیں۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان حماد نقی خان نے کہا کہ پاکستان نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے جو خطرات سے دوچار ہیں، ان میں برفانی چیتے اور عام چیتے، دریائے سندھ کی ڈولفن، سفید اور لمبے گدھ، اور بحیرہ عرب کی ہمپ بیک وہیل اور دیگر شامل ہیں۔

    انھوں نے کہا پاکستان میں جنگلی حیات کا تحفظ عام سطح پر ترجیحات میں شامل نہیں رکھا گیا، ہمیں جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کا تحفظ، جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے مسئلے کو حل کرنے اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان موسمیاتی آفات کی وجہ سے تیزی سے کمزور ہوتا جا رہا ہے، اور آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی حیات کے نقصان کو ہوا دے رہی ہے، جس سے مختلف جانداروں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہو جائیں گی۔

  • دنیا بھرکے سمندروں میں شارک کی تعداد میں خطرناک کمی

    دنیا بھرکے سمندروں میں شارک کی تعداد میں خطرناک کمی

    کراچی: حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں شارک کی تعداد میں 71 فیصد کمی آئی ہے جبکہ پاکستان میں شارکس کی آبادی میں 85 فیصد کمی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق تحفظ فطرت کے ادارے ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شارکس کی تعداد میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کی جانے والی بین الاقوامی تحقیق کے مطابق سنہ 1970 کے بعد سے دنیا بھر میں شارکس کی تعداد میں 71 فیصد کمی آئی ہے، یہ تحقیق جرنل نیچر میں شائع کی گئی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گزشتہ 70 سال میں پاکستان میں شارک کی 69 اقسام پائی جاتی تھیں تاہم گزشتہ سالوں کے مقابلے میں پاکستانی سمندروں میں صرف 15 فیصد شارکس رہ گئی ہیں۔

    تحقیق میں شامل 20 چوٹی کے سائنسداںوں کا کہنا ہے کہ شارک کی آبادی میں اس قدر  کمی کی وجہ ان کا بے تحاشہ شکار ہے، گزشتہ 50 برسوں میں گوشت کے لیے کیے جانے والے شارک کے شکار میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 10 کروڑ شارکس شکار کی جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شارک کا وجود سمندروں کے لیے نہایت ضروری ہے، یہ زیر آب فوڈ چین کو برقرار رکھتی ہیں اور خاص طور پر بیمار آبی جانداروں کو اپنی غذا بناتی ہیں۔

    شارک سمندروں کی صحت اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عالمی اداروں نے اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا ہے۔

  • مزدوروں کے لیے خوش خبری، بیٹیوں کی شادی کی گرانٹ دگنی کرنے کا فیصلہ

    مزدوروں کے لیے خوش خبری، بیٹیوں کی شادی کی گرانٹ دگنی کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ورکرز ویلفیئر فنڈ نے مزدوروں کی بیٹیوں کے لیے شادی کی گرانٹ کو دگنا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف کی گورننگ باڈی نے مزدوروں کے لیے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے ان کی بیٹیوں کے لیے شادی کی گرانٹ دگنی کر دی ہے۔

    مزدوروں کی بیٹیوں کے لیے شادی کی گرانٹ پہلے ایک لاکھ روپے تھی جسے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کر دیا گیا ہے، ڈیتھ گرانٹ میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، جو اب 5 لاکھ سے بڑھ کر 6 لاکھ روپے ہو گئی ہے۔

    اس سلسلے میں معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری نے کہا ہے کہ تمام محکموں کو متحرک اور منافع بخش اداروں میں تبدیل کرنے کے لیے ہم حکومتی سطح پر پُر عزم ہیں، اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کو منافع کمانے والے شعبے میں تبدیل کر دیا ہے۔

    زلفی بخاری نے پنشنرز کو بڑی خوشخبری سنادی

    انھوں نے کہا کہ ای او بی آئی میں بھی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

    یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل کھیوڑہ، جہلم میں ای او بی آئی کے دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے خوش خبری دی تھی کہ یکم ستمبر سے بزرگوں کو گھر پر پنشن پہنچائی جائے گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ای او بی آئی میں انفارمل ایمپلائمنٹ بھی لا رہے ہیں، بھٹے کے مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین بھی اب حق دار ہوں گی۔

  • بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    کراچی: بارش کے بعد آبی حیات بری طرح متاثر ہو گئی ہے، کلفٹن کے ساحل پر سینکڑوں مردہ مچھلیاں آ گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں کلفٹن کے ساحل پر بڑی تعداد میں مردہ مچھلیاں آ گئی ہیں، ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد آبی حیات کا متاثر ہونا انوکھی بات نہیں ہے۔

    ٹیکنیکل ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف معظم علی خان کا کہنا ہے کہ بارشوں میں ندی نالوں کا گندا پانی بڑی مقدار میں سمندر میں گرتا ہے، گندا پانی اپنے ساتھ نامیاتی اورگینک پانی ساتھ لے کر جاتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ گندا پانی جہاں تک سمندر کو متاثر کرتا ہے، وہاں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، جس کے سبب سمندری حیات متاثر ہوتی ہے۔

    معظم علی خان نے کہا کہ کلفٹن کے ساحل پر مردہ آنے والی مچھلیاں بوئی کہلاتی ہیں، جو عموماً کنارے کے قریب پائی جاتی ہیں، کنارے کے قریب رہنے کی وجہ سے مچھلی کی یہ قسم زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

    ٹیکنیکل ڈائریکٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں بھی بارشوں کے بعد سینکڑوں مردہ مچھلیاں کنارے پر آتی رہی ہیں، اس بار تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال سی ویو پر ہزاروں کی تعداد میں مردہ مچھلیاں ساحل پر آ گئی تھیں جن کی وجہ سے سخت تعفن پھیل گیا تھا، ان میں چھوٹی اور بڑی مختلف اقسام کی مچھلیاں شامل تھیں۔

  • کراچی کے ساحل آلودہ ہوگئے، عوام سمندرمیں نہ جائیں، ڈبلیوڈبلیوایف

    کراچی کے ساحل آلودہ ہوگئے، عوام سمندرمیں نہ جائیں، ڈبلیوڈبلیوایف

    کراچی: ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کراچی کے عوام کو خبردار کیا ہے کہ کلفٹن اور سی ویو کے سمندری پانی میں آئل مل گیا، لہٰذا عوام سمندر میں نہ جائیں، آئل ملنے کی وجوہات معلوم کی جارہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شہرکراچی کے ساحلوں سی ویو اور کلفٹن میں پانی میں آئل کی آمیزش کے باعث سمندری پانی آلودہ ہوگیا ہے۔

    اس حوالے سے ڈبلیوڈبلیوایف نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ساحل سمندر کا رخ نہ کریں اور خاص طور پر پانی میں جانے سے گریز کریں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ انتظامیہ نے کہا ہے کہ کلفٹن اورسی ویوکے ساحل پر آئل پھیلنے کی وجوہات معلوم کر رہے ہیں، مذکورہ آئل سی ویو سے لے کر ڈیولز پوائنٹ تک پھیلا ہوا ہے۔

     


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    کنارے پر آنے والے کچھوے موت کے منہ میں

    سکھر: دریائے سندھ میں پانی اترنے کے وہاں موجود کچھو ے کنارے پر امڈ آئے۔ کنارے پر آئے اور جال میں پھنسے کچھوؤں سے بچے کھیلنے لگے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں سکھر کے مقام پر پانی اترنے کے بعد کنارے پر کچھوے امڈ آئے۔ بے شمار کچھوے وہاں بچھائے گئے جالوں میں پھنس گئے۔

    کچھوؤں کے کنارے پر آنے سے وہاں موجود بچوں کو تفریح ہاتھ آگئی اور وہ کچھوؤں سے کھیلنے لگے۔ کچھ افراد کچھوؤں کو پکڑ کر گھر بھی لے گئے۔

    مزید پڑھیں: کراچی سے نایاب نسل کے 62 کچھوے برآمد

    محکمہ جنگلی حیات کی ٹیم تاحال کچھوؤں کو بچانے نہیں پہنچی اور کچھوے کنارے پر بے یار و مدد گار پڑے رہے۔

    دوسری جانب ڈپٹی ڈائریکٹر سکھر تاج شیخ کا کہنا ہے کہ پانی اترنے پر صرف انڈس ڈولفن کو ریسکیو کیا جاتا ہے جو پانی اترنے یا راستہ بھولنے کے باعث نہروں میں آنکلتی ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوؤں کی نسل میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اس کی نسل کشی کی جہاں بے شمار وجوہات ہیں وہیں اس طرح دریا میں پانی کم ہونے سے بھی ہزاروں کچھوؤں کو زندگی کے خاتمے کا خطرہ لاحق ہے۔

    واضح رہے کہ کچھوؤں کو سب سے بڑا خطرہ غیر قانونی اسمگلنگ سے لاحق ہے جس کے لیے ہر سال ہزاروں کچھوؤں کو پکڑا جاتا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر میں کچھوے کے گوشت کی بے حد مانگ ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سمیت کئی ممالک سے کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا اور ویتنام وغیرہ کی طرف کی جاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کا گوشت کھانے جبکہ اس کے انڈوں کے خول زیورات اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ کچھوے کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: تفصیلی رپورٹ ۔ کچھوے کی غیر قانونی تجارت

    سندھ وائلڈ لائف کے اہلکار عدنان حمید کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

  • چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    چیتوں کی معدومی کی طرف تیز رفتار دوڑ

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی تیز رفتاری کے لیے مشہور چیتے تیزی سے معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان کی پناہ گاہوں میں کمی اور قدرتی ماحول میں انسانی مداخلت ہے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    cheetah1

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) کے تحفظ اور اور ان کے پھیلاؤ کی ہنگامی بنیادوں پر ضروت ہے بصورت دیگر چیتے بہت جلد ہماری دنیا سے ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: معبد سے چیتے کے 40 بچوں کی لاشیں برآمد

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی (یا انسانوں کا انہیں شکار کرلینا)، جسمانی اعضا کے حصول کے لیے غیر قانونی تجارت اور پالتو بنانے کے لیے تجارت شامل ہے۔ یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    رواں برس چیتوں کے عالمی دن کے موقع پر منعقد کیے جانے والی کانفرنس میں ماہرین نے چیتوں کے غیر قانونی فارمز کو بھی ان کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔

    cheetah2

    یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    کراچی: سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش نے ماہی گیروں کو مشکل میں ڈال دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر متعدد جیلی فش دیکھی گئیں جن کی جسامت غیر معمولی طور پر بڑی ہے۔ چند روز قبل اسے کراچی سے 150 کلومیٹر دور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں دیکھا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے سندھ سمندر میں جا گرتا ہے۔

    آج دوبارہ اسے بلوچستان کے ساحلی علاقے ارماڑا میں بھی دیکھا گیا جہاں ماہی گیروں نے اس کی تصاویر بنائیں۔

    ادارہ برائے جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ان جیلی فشوں کی جسامت غیر معمولی ہے اور اس جسامت کی جیلی فش اس سے قبل پاکستان میں نہیں دیکھی گئی۔ ان جیلی فش کی وجہ سے ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ مچھلیوں کے شکار کے لیے پانی میں جانے سے ڈر رہے ہیں۔

    جیلی فش کیا ہے؟

    جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    جیلی فش کے جسم پر موجود لمبے لمبے دھاگے اس کا ہتھیار ہیں۔ ان دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والی اس جیلی فش کا کاٹا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ اس کی بعض اقسام مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کوریا، جاپان اور چین میں جیلی فش کو سکھا کر بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔