Tag: ڈرامہ نگار

  • برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    برتولت بریخت: اچھوتا اور متاثر کن ڈرامہ نگار

    بیسویں صدی کے اوائل میں جرمن ادب کی چند اہم تحریکوں میں نوکلاسیکیت، نو رومانویت، علامتیت اور سب سے بڑھ کر اظہاریت شامل تھیں جس میں نفسیاتی مسائل خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ ادب کے جدید دور کا سب سے متاثر کن اور اچھوتا ڈرامہ نگار برتولت بریخت (Bertolt Brecht) تھا۔ ایک اظہاریت پسند کے طور پر اپنا ادبی سفر شروع کرنے والے برتولت بریخت نے جلد ہی ایک مخصوص انداز اپنا لیا اور اسٹیج کے ذریعے اس کی شہرت اور مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔ وہ اس میڈیم کو سیاسی اور اخلاقی سطح پر شعور پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتا تھا۔

    بیسویں صدی کے معروف جرمن شاعر، ڈراما نویس اور تھیٹر ڈائریکٹر برتولت بریخت نے 14 اگست 1956 کو مشرقی برلن میں وفات پائی۔ اسے ڈراما نگاری نے عالمی سطح پر شہرت دی۔ بریخت 10 فروری 1898ء کو ریاست بویریا کے ایک قصبے میں پیدا ہوا اور نوعمری میں اس نے پہلی عالمی جنگ دیکھی۔ تمثیل نگاری اور ڈراما نویسی میں دل چسپی لینے کے ساتھ وہ میونخ یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ بیسویں صدی کے یورپی ڈراما نویسوں میں اہم مقام حاصل کرنے والے بریخت نے تھیٹر کی دنیا میں نئے اور انقلابی تجربات کیے۔ اسے سراہا بھی گیا اور اس کے کام اور اسلوب پر تنقید بھی کی گئی۔ وہ سرمایہ دارانہ نظام سے متنفر اور انسانوں سے محبّت کرنے والا ایسا تخلیق کار تھا جسے یورپ اور امریکہ میں بھی پذیرائی ملی۔

    1920ء کے بعد کے دور میں بریخت نے اظہاریت یا ایکسپریشنزم کی روایت کو اپنایا اور اپنا مشہور ڈراما ’’آدمی، آدمی ہے‘‘ لکھا۔ پھر اس نے رزمیہ تھیٹر کو ترقی دی۔ اس نے ڈرامہ کے لیے سیٹ بنانے پر توجہ دی اور اسے حقیقت سے قریب تر کیا۔ اس میں موسیقی کو بھی اہمیت دی۔ برتولت بریخت شاعر بھی تھا اور اپنے گیت خود لکھتا تھا۔ اس کا ایک ڈراما تین پینی کا اوپرا یورپ و امریکہ میں بے حد مقبول ہوا اور ایک تھیٹر میں مہینوں اسٹیج کیا جاتا رہا۔ یہ ڈراما سب سے پہلے 1928ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کی موسیقی کرٹ ویل نے ترتیب دی تھی۔ اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس کی فکر نمایاں ہے۔

    بریخت فاشزم کا سخت مخالف تھا چنانچہ 1932ء میں ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تو اس نے ترک وطن کرکے پہلے ڈنمارک اور پھر امریکہ میں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں اس نے دو نہایت اہم ڈرامے ’’ماں کی ہمت اور اس کے بچے‘‘ اور ’’شت زوان کی عورت‘‘ لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1948ء میں بریخت مشرقی جرمنی لوٹ آیا اور ڈراموں کا ایک الگ تھیٹر قائم کرلیا۔ یہاں 1955ء میں اس نے قفقاز کے چاک کا دائرہ نامی رزمیہ پیش کیا جو اس صنف کا نہایت اعلیٰ نمونہ ہے۔ برتولت بریخت کے ڈراموں کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جو اس کی مقبولیت کا ثبوت ہے۔

  • اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    اسٹیج کی دنیا کے نام وَر ڈرامہ نگار اور ہدایت کار حبیب تنویر کی برسی

    ہندوستان میں تھیٹر کو نیا روپ اور زندگی دینے کے لیے مشہور حبیب احمد خان تنویر 8 جون 2009ء کو اس دارِ‌ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ ان کا شمار بھارت کے نام ور ڈرامہ نگاروں میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں نے تھیٹر ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی یادگار کام کیا۔

    حبیب تنویر ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ ڈرامہ نویس اور ہدایت کار ہی نہیں، ایک اچّھے اداکار، شاعر، موسیقار اور اسٹیج ڈیزائنر بھی تھے۔

    انھوں نے تھیٹر کی دنیا میں معروف ناموں کے بجائے لوک فن کاروں اور مقامی آرٹسٹوں کو موقع دیا اور اپنے ڈراموں میں ان گلیوں اور بازاروں کو اسٹیج بنایا جن سے جڑی ہوئی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ حبیب تنویر نے یہ تجربہ "آگرہ بازار” سے کیا جو نذیرؔ اکبر آبادی کی زندگی اور ان کی تخلیقات پر مبنی تھا۔ اس ڈرامے کے ذریعے انھوں‌ نے کلاسیکی دور کے اس ممتاز شاعر کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔

    حبیب تنویر یکم ستمبر سن 1923ء کو رائے پور(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام حبیب احمد خان تھا۔ انھوں‌ نے شاعری کا آغاز کیا تو اپنا تخلص تنویر رکھا جو بعد میں‌ ان کے نام کا مستقل حصّہ بن گیا۔

    وہ ممبئی میں‌ آل انڈیا ریڈیو سے بہ حیثیت پروڈیوسر وابستہ ہوئے اور اسی عرصے میں انھوں نے ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے اور چند فلموں میں اداکاری بھی کی۔

    پچاس کے عشرے میں انھوں‌ نے برطانیہ کا رُخ کیا اور وہاں ڈرامہ اور اس آرٹ کی تعلیم اور تربیت کے لیے داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں انھیں جرمنی کے شہر برلن میں قیام کا موقع ملا، جہاں انھوں‌ نے نام ور ڈرامہ نگار بیرتھولٹ بریشت کے ڈرامے دیکھے اور ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بریشت نے ان کے فن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

    اسی کے بعد 1954ء میں انھوں‌ نے ’’آگرہ بازار‘‘ کے نام سے اسٹیج ڈرامہ لکھا تھا۔ 1959ء میں انھوں نے بھوپال میں ’’نیا تھیٹر‘‘ کے نام سے ایک تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    1975ء میں حبیب تنویر کا ڈرامہ ’’چرن داس چور‘‘ کے نام سے سامنے آیا اور بے حد مقبول ہوا۔ اِسی ڈرامے پر انھیں 1982ء میں ایڈنبرا انٹرنیشنل ڈرامہ فیسٹیول میں ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انھیں بھارتی حکومت اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

  • عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    عظیم ڈراما نویس اور شاعر شیکسپیئر کا تذکرہ

    23 اپریل 1616ء کو نام وَر شاعر اور ڈراما نگار ولیم شیکسپیئر نے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا تھا۔ شیکسپیئر کو برطانیہ کا عظیم تخلیق کار مانا جاتا ہے جس نے عالمی سطح پذیرائی اور مقبولیت حاصل کی۔

    1564ء میں برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہونے والا ولیم شیکسپیئر معمولی تعلیم یافتہ تھا۔ نوجوانی میں روزی کمانے کے لیے لندن چلا گیا اور وہاں ایک تھیٹر میں اسے معمولی کام مل گیا اور یہیں اس کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہوا۔

    وہ پہلے چھوٹے موٹے کردار نبھاتا رہا اور پھر تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھنے لگا۔ اس کے قلم کے زور اور تخیل کی پرواز نے اسے 1594ء تک زبردست شہرت اور مقبولیت سے ہم کنار کردیا اور وہ لندن کے مشہور تھیٹر کا حصّہ بنا۔ اسی عرصے میں اس نے شاعری بھی شروع کردی اور آج اس کی تخلیقات انگریزی ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہیں۔

    انگلستان کے شعرا میں جو شہرت اور مقام و مرتبہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا وہ بہت کم ادیبوں اور شاعروں‌ کو نصیب ہوتا ہے۔ اس برطانوی شاعر اور ڈراما نگار کی ادبی تخلیقات کا دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ ہملٹ اور میکبتھ جیسے ڈراموں کے اردو تراجم بہت مقبول ہوئے، اس کے علاوہ شیکسپیئر کی شاعری کا بھی اردو ترجمہ ہوا۔

    اس مصنّف نے طربیہ، المیہ، تاریخی اور رومانوی ہر قسم کے ڈرامے لکھے جنھیں‌ تھیٹر پر بہت پذیرائی ملی۔ ان کے ڈراموں میں نظمیں بھی شامل ہوتی تھیں اور یہ اس مصنف اور شاعر کے طرزِ تحریر میں جدتِ اور انفرادیت کی ایک مثال ہے جس نے اس وقت پڑھنے اور ڈراما دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

  • نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے نام ور ادیب، دانش ور، افسانہ نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی ہے۔ 22 اگست 1925 کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہونے والے اشفاق احمد 7 ستمبر 2004 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ لاہور کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

    دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ اشفاق احمد نے تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ جیسے ادبی رسائل کی ادارت کی اور کئی برس اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے ان کے پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ اشفاق احمد کو ایک صوفی، حکیم و دانا کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اخلاقی لیکچرز اور علمی و ادبی انداز میں‌ بیان کردہ واقعات اور قصّوں‌ پر مشتمل مضامین کے مجموعہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ "ایک محبت سو افسانے” بھی بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسی طرح توتا کہانی ان کی ایک مشہور تخلیق ہے۔

    ریڈیو پر اشفاق احمد نے صدا کاری کے ساتھ ایک یادگار ڈرامے "تلقین شاہ” کا اسکرپٹ بھی لکھا جب کہ پاکستان ٹیلی وژن سے ان کے متعدد ڈراما سیریل نشر ہوئے جنھیں‌ بہت پزیرائی ملی۔ اشفاق احمد کے مضامین، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈراموں کو پاکستان بھر میں‌ بڑی تعداد میں قارئین اور ناظرین نے پڑھا، دیکھا اور انھیں سراہا۔

    اشفاق احمد کو حکومت نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیے۔ ان کی فکرانگیز تحریر سے ایک پارہ پیش ہے۔

    اشفاق احمد کہتے تھے میرے پاس ایک بلّی تھی، اس کو جب بھی بھوک لگتی تھی میرے پاﺅں چاٹ لیتی اور میں اسے کھانا دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلّی مجھ سے بہتر ہے۔ اس کو پکا یقین ہے کہ اپنے مالک کے پاس سے اس کی ہر طلب پوری ہو گی، لیکن انسان کو ایسا یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ ان کاموں میں بھی جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے۔

  • منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    منشی پریم چند کو ہم سے بچھڑے 80 سال ہو گئے

    آج اردو ادب کے معروف افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور ناول نگار منشی پریم چند کا 80 واں یوم وفات ہے،وہ اردو نثرمیں جدید اور اصلاحی ناول اور افسانہ نگاری  کے موجد کہلائے جاتے ہیں۔

    منشی پریم ۔۔۔ مختصر تعارف

    31 جولائی1880ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہونے والے منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا جو اُن کے والد صاھب نے رکھا لیکن اُن کے چچا نے اپنے بھتجے کا نام پریم چند رکھا اور آگے چل کر وہ منشی  پریم چند کے نام سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔

    درس و تدریس

    آپ نے ابتدائی تعلیم لائل پور ایک کے مولوی سے حاصل کی،جہاں منشی پریم چند اردو اور فارسی ذبان کے رموز سیکھے اور ادب سے شناسائی حاصل کی اور 1895ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔

    بعد ازاں 1899ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی اور 1900ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ اسکول میں بہ طور ٹیچر مقرر ہوئے  تقرر ہوا اور الہ آباد میں جا کرآپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔

    1908ء میں جونیئرانگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا اور ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔

    1919ء میں بی۔اے کیا اور فروری 1920ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے اور لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔

    تصنیف اور تالیف 

    منشی پریم چند اپنے ناول ’’نواب رائے‘‘ کے نام سے لکھتے تھے آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں 18؍ اکتوبر1903ء کو شائع ہوا جس نے قبول سند عام حاصل کی جب  دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔

    امنشی پریم چند کا پہلا  افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے 1908ء میں شائع ہوا جس میں 5 افسانے شامل تھےان افسانوں میں آزادی ، حریت پسندی، غلامی سے نجات اور علم بغاوت بلند کرنے کے موضوعات کو سمیٹا گیا تھا۔

    جس کے باعث ہندوستان پر قابض حکومتِ برطانیہ نے اس افسانوی مجموعے پر پابندی عائد کردی چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے افسانوی مجموعے کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔

    اس واقعہ کے بعد سے منشی پریم چند اپنا ادبی نام ’’رائے نواب ‘‘ ترک کر کے اپنے چچا کی جانب سے دیے گئے نام میں منشی کا اضافہ کر کے ’’منشی پریم چند‘‘ اختیار کیا اور تا دم مرگ یہی ادبی نام استعمال کرتے رہے۔

    منشی پریم چند کے مشہور ناول میں اسرار مابعد اور کشانا مشہور افسانوں میں کفن،حج اکبر اور نجات جب کہ معروف کہانیوں میں انمول رتن شامل ہیں۔

    منشی پریم چند نے مریادا،مالا اور مادھوری کے نام سے نکلنے والوں علمی اور ادبی رسالوں کی ادارت کی اور بعد میں ملازمت ترکی کر کے اپنا رسالہ ’’ھنس‘‘ کے نام شائع کیا۔

    افسانوں کے مجموعے 

    ( 1) سوزِوطن(1908ء)، (2) پریم دلچسپی جلد اول (1915ء)، (3) پریم دلچسپی جلد دوم ( 1918ء)، (4) پریم بتیسی (1920ء)، (5) خاکِ پروانہ(1921ء)،(6) خواب وخیال ( 1928ء)، (7) فردوسِ خیال(1929ء)،(8) پریم چالیسی (1930ء)، (9) آخری تحفہ (1934ء)،(۱۰) زادِ راہ (1936ء )۔

     

    طرز تحریر کی نمایاں خصوصیات 

    پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ 19 ویں صدی کی کالونیاں 20 ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔

    ایک طرف جہاں اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا اور 19 ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا یہی طرز نثری ادب میں دیکھا گیا اور یوں  جنگِ عظیم اول 1914ء اور انقلاب روس 1917ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔

    پریم چند بھی اسی نیم سیاسی اضطراب اور ملک و قوم کی بقاء کے دفاع کے لیے جدو جہد میں گذرے اُس دور سے متاثر ہوئے اور شہرہ آفاق افسانوی مجموعہ  ’’سوزِ وطن‘‘ تخلیق کیا جس نے قوم میں حریت و ہمیت کی نئی روح پھونک دی یہی وجہ ہے کہ برطانوی سامراج کو اس مجموعہ پر پابندی لگانی پڑی۔
    ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو 1958ء کے بعد سرسید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔

    آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہا ہے اور پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصورفن کو تباہ کر دیتا ہے۔

    جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔

    منشی پریم چند ۔۔۔ نقادوں کی نظر میں

    بقول ڈاکٹر مسعود حسین خان : ’’اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
    بقول شمیم حنفی: ’’پریم چند کہانی کی اوپری سطح پر ہی حقیقت کا التباس قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے نیچے وہ آزادی چاہتے ہیں۔ ‘‘
    بقول سید وقار عظیم: ’’وہ اپنی قوم اور ملک کی ہر اس چیز کو پرستانہ نظروں سے دیکھتے ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ ‘‘

    ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘

    بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔

    تاریخ وفات 

    دس افسانوی مجموعوں کے تخلیق کار اور ناول نگاری میں سے ڈارمہ نگاری کے رموز تراشنے والے اردو ادب کے پہلے معروف ناول نگار،افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار منشی پریم چند  8 اکتوبر 1936ء کو 56 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اپنی تحریروں میں وہ آج بھی زندہ ہیں اور علم و ادب کے پیاسوں کو دیراب کر رہے ہیں۔

    (اس مضمون کی تیاری میں محترم خالد محمود صاحب کی تحقیق اور تصنیف سے اُن کے شکریے کے ساتھ فائدہ اُٹھایا گیا ہے)

     

  • ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا انتقال کر گئیں

    ڈرامہ نگار فاطمہ ثریا بجیا انتقال کر گئیں

    کراچی: ایک عہد تمام ہوا سب کی بجیا سب کواداس کرگئیں ڈرامہ نگاری کامنفرد نام فاطمہ ثریا بجیاانتقال کرگئیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر1930میں بھارتی شہرحیدرآباد میں پیدا ہوئیں معروف ادیب وڈرامہ نگارانورمقصود کی بہن تھیں معروف ادیبہ فاطمہ ثریابجیا کو1997میں تمغہ حسن سے نوازا گیا تھا۔

    فاطمہ ثریا بجیا جاپان کااعلیٰ سول ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہیں فاطمہ ثریا بجیا کو2012میں صدرپاکستان نے ہلال امتیاز سے نوازا تھا۔

    فاطمہ ثریا بجیا کے مشہور ڈراموں میں شمع،افشاں،عروسہ،تصویر،زینت شامل ہیں فاطمہ ثریابجیاسندھ میں مشیربرائےتعلیم کی حیثیت سےخدمات انجام دےچکی ہیں۔

  • لاہور: نامعلوم افراد کی فائرنگ، ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید شدید زخمی

    لاہور: نامعلوم افراد کی فائرنگ، ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید شدید زخمی

    صوبائی دارلحکومت لاہورمیں شوکت خانم اسپتال کے قریب معروف ادیب اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا، پولیس نے دو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

    شوکت خانم اسپتال کے قریب اصغر ندیم سید گاڑی خود چلا رہے تھے، اچانک دو موٹرسائیکل سواروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے وہ زخمی ہو گئے، انہیں زخمی حالت میں ڈاکٹرز اسپتال منتقل کیا گیا، واقعہ کے بعد سی سی پی او لاہور سمیت اعلی پولیس آفیسرزاطلاع ملتے ہی اسپتال پہنچ گئے۔

    سی سی پی او لاہور کا کہنا تھا کہ اصغر ندیم سید کی حالت خطرے سے باہر ہے تاہم ہماری اولین ترجیح انکا علاج ہے تفتیش کے بعد پتہ چلے گا کہ ان پر حملے کی کیا وجوہات تھیں۔

    ڈاکٹروں کے مطابق ندیم اصغر کو ایک گولی کمر کے پیچھے اور ایک بازو میں لگی انہیں آئندہ دوہ روز تک اسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا، پولیس تھانہ نواب ٹاؤن نے دو نامعلوم موٹرسائیکلوں کے خلاف 324 اور 780اے سمیت دیگرسنگین نوعیت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔