Tag: ڈرامہ نگار انتقال

  • یومِ وفات: معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین سے یادگار گفتگو

    یومِ وفات: معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین سے یادگار گفتگو

    حسینہ معین کا شمار پاکستان کے صفِ اوّل کے ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ حسینہ آپا کے نام سے مشہور تھیں۔

    آج پاکستان کی اس نام وَر ڈرامہ نگار اور کئی مقبول کہانیوں کی اِس مصنّف کی برسی ہے۔ حسینہ معین 2021ء میں آج ہی کے دن کراچی میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی عمر 79 برس تھی۔

    یہاں ہم فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں کی حسینہ آپا سے کی گئی ایک گفتگو نقل کر رہے ہیں‌ جس سے قارئین کو حسینہ معین کے فنی سفر اور یادگار ڈراموں کے ساتھ پاکستانی عورت، اپنے معاشرے اور تہذیب و روایات سے متعلق ان کے خیالات جاننے کا موقع ملے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    بلاشبہ حسینہ معین کے ڈراموں کے طفیل صنفِ نازک نے آگے قدم بڑھانا ہی نہیں قدم جمانا بھی سیکھا۔ حسینہ معین کے بعض کرداروں میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے، مثلاً نڈر اور بے باک ہیروئن، وہ ہیرو جس کے مزاج میں متانت اور شرارت کی آمیزش ہو، ایک ہونق سا کامیڈین، بے حد شرارتی اور حاضر جواب لڑکی جوعموماً ہیروئن کی سہیلی یا بہن ہوتی ہے، لیکن باوصف اس کے حسینہ معین کے ہر ڈرامے کی کہانی اور کرداروں میں تازگی اور ندرت محسوس ہوتی ہے اور کسی بھی نئے ڈرامے میں اس مماثلت کے باوجود پرانے کردار کی جھلک نظر نہیں آتی۔ اس کی مثال ہیں کرن کہانی کے ڈاکٹر سلیمان اور دھوپ کنارے کے ڈا کٹر احمر۔ انکل عرفی کی بینا اور تنہائیاں کی زارا۔ انکل عرفی کے حسنات بھائی اور تنہائیاں کا قباچہ۔ انکل عرفی کی افشین اور تنہائیاں کی سنیعہ۔ کرن کہانی کا عرفان اور بندش کا خالد۔ انکل عرفی کے انکل عرفی اور بندش کے شعیب انکل۔ پرچھائیاں اور دھوپ کنارے کے بابا۔ ان تمام کرداروں میں محسوس کیا جانے والا نمایاں فرق ہی دراصل حسینہ معین کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔

    ان کے ڈراموں کے موضوعات سنجیدہ، حساس لیکن مکالمے شوخ، برجستہ، بامحاورہ گفتگو پر مبنی، چبھتے ہوئے فقرے ہوتے ہیں۔ چونکہ آپ تاریخ کی طالبہ رہ چکی ہیں اس لیے کچھ تاریخی حوالے بھی ملیں گے۔

    ان کہی کا جبران کتنا مضبوط کردار تھا۔ حسینہ معین کے قلم کی مشاقی کہ گہری، جاندار اور بڑی سے بڑی بات چھوٹے سے جملے میں اپنے کردار کی زبانی کہلوا دیں گی۔ مثلاً کہانی ختم ہوگئی، ناجیہ بابا چلے گئے۔ مصروفیت بہت اچھی پناہ گاہ ہے۔ باہمّت اور بے حس ہو نے میں بڑا فرق ہے۔ آپ نے ’’ان کہی“ میں ایک کردار کی زبانی کہلوایا تھا کہ” بعض سمندر دلوں میں بھی ہوتے ہیں جن پر کہانیاں لکھی ہوتی ہیں۔“ اور ان کے مزاح سے بھرپور ڈراموں میں بھی دلوں پر لکھی ہوئی کہانیاں جذبوں کی شدت اور گہرائی کے ساتھ نہ صرف موجود ہوتی ہیں بلکہ اپنا اثر بھی دکھاتی ہیں۔ اگر حسینہ معین کے دل چسپ اور پرمزاح مکالمے ہنساتے ہیں تو اُن کے سنجیدہ مکالمے دلوں کی کہانیاں پڑھنے کا حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔ عشق کے جذبے کو حسینہ معین نے بڑے سلیقے اور تہذیب کے ساتھ اپنے ڈراموں میں پیش کیا ہے۔ یہ بھی ان کا امتیاز ہے کہ ان کی ہیروئن بے باک ہونے کے باوجود باوقار نظر آتی ہے۔

    حسینہ معین نے پاکستانی فلموں نزدیکیاں، کہیں پیار نہ ہو جائے، یہاں سے وہاں تک کے مکالمے بھی لکھے۔ حسینہ معین نے اپنے ڈراموں کی داد محض ناظرین ہی سے وصول نہیں کی بلکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی بھی حاصل کیا۔ امریکہ کی hopkins یونیورسٹی کی جانب سے اپنے ڈرامے آہٹ پر ایوارڈ حاصل کیا اور یہ حسینہ معین کے لیے ہی نہیں ہمارے لیے بھی یہ باعثِ افتخار ہے کہ ورلڈ بک 1992ء میں ان کا نام شامل ہوا۔ حسینہ معین نے نگار اور گریجویٹ ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ فنِ ڈرامہ نویسی پر متعدد سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اعزازات پائے۔

    پاکستان کی اس نام وَر ڈرامہ نویس نے جامعہ کراچی سے تاریخ میں ایم اے کیا تھا۔

    ہم نے حسینہ معین سے اُن کے ڈرامہ نگاری کے سفر پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میری کالج اساتذہ سلمیٰ شان الحق حقی اور بسم اللہ نیاز نے محسوس کرلیا تھا کہ میں لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ تھی۔ اُنہوں نے ہی مجھے جشن طلباء (ریڈیو پاکستان کراچی مرکز) کے لیے ڈرامہ لکھنے کو کہا تھا مگر میں نے اسے مشکل کام کہہ کر انکار کر دیا تھا۔ یہ انکار ان کے اصرار کے آگے ٹھہر نہ سکا۔ انہوں نے کہا ”کچھ بھی ہو تم ہی لکھو گی۔“ میں اُن کی بات رد نہ کرسکی۔ کالج میں ہی بیٹھ کر ڈرامہ لکھا جسے پہلا انعام ملا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور اسٹوڈیو نمبر 9 کے لیے میں نے آٹھ، نو ڈرامے لکھے جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ جب کراچی ٹیلیویژن اسٹیشن بنا تو وہاں کے جنرل منیجر نے میرا ایک ریڈیو ڈرامہ ”بُھول بھلیاں“ لے کر مجھ سے کہا کہ اسے ٹی وی کے لیے لکھ دیں۔اس طرح ڈرامائی سلسلے ”ارژنگ“ میں میرا پہلا ٹی وی ڈرامہ ”نیا راستہ“ تھا۔ انہوں نے ٹی وی کے لیے کئی ماخوذ ڈرامے لکھے۔ اپنے اوّلین طبع زاد ڈرامے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی کے لیے میرا پہلا طبع زاد ڈرامہ ”ہیپی عید مبارک“ تھا۔ یہ کھیل 1971ء کی جنگ کے بعد مجھ سے لکھوایا گیا تھا اور ناظرین کو بے حد پسند آیا جب کہ سچ تو یہ ہے کہ ٹیلی کاسٹ ہوا تو مجھے اس میں بہت سی خامیاں نظر آئیں مگر رائے عامہ یکسر مختلف تھی۔ ٹیلیویژن حکام نے ہیپی عید مبارک کو بہترین ڈرامہ قرار دیتے ہوئے ایک تقریب میں مجھے ایوارڈ بھی دیا۔

    ڈرامے کی بنیادی تکنیک، اسلوب، منظر نگاری اور کردار نگاری کے ضمن میں وہ کہتی ہیں، پلاٹ، مسئلہ، مسئلے کا حل، کردار اِن تمام چیزوں کو ساتھ لے کر ڈرامہ بنتا ہے۔ کہانی تو ہوتی ہی ہے، میں کردار نگاری کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں۔

    انہوں نے اپنے تخلیق کردہ پسندیدہ نسوانی کرداروں اور خواتین کی فلاح اور ترقی میں ٹی وی ڈرامے کے مؤثر کردار سے متعلق کہا کہ ”انکل عرفی“ میں بینا کا، ”سنگسار“ اور ”پرچھائیاں“ میں ساحرہ کے کردار مجھے بہت پسند ہیں۔ میرے تجربہ تو یہی بتاتا ہے کہ خواتین کی خوش حالی اور ان کی ترقی میں ڈرامہ سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔ امریکہ کی hopkans یونیورسٹی نے پاپولیشن کے حوالے سے مجھ سے ڈرامہ آہٹ لکھوایا تھا اور ساحرہ کاظمی سے بنوایا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ خواتین کی صحّت کے حوالے سے یہ ڈرامہ کام یاب رہا تھا۔ پی ٹی وی سے چند سال پیشتر قسط وار ڈرامہ شروع ہوا تھا، ”شاید کہ بہار آجائے“ خواتین کے مسائل پر یہ بھی ایک کام یاب ڈرامہ تھا۔ نجی ٹی وی چینل سے 80 منٹ کا ڈرامہ دُعا نشر ہوا تھا، یہ بھی خواتین کے اہم مسئلے کی عکاسی کر رہا تھا۔ چند برس قبل عورت فاؤنڈیشن نے مجھ سے دو ڈرامے لکھوائے جو کئی اقساط پر مبنی تھے اور پنجاب ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ ان میں ایک ڈرامہ زراعت میں عورت کے کردار اور دوسرا صحت میں عورت کے کردار پر تھا۔ میں تو کہتی ہوں کہ یہ بہت مضبوط میڈیم ہے۔ میرے ڈراموں کی پُراعتماد لڑکیوں کے کردار بہت اثرانگیز ثابت ہوئے۔

    میڈیا پالیسی، سنسر شپ اور مختلف سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے لکھنے یا نہ لکھنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایسے بہت سے موضوعات ہیں جن پر ہم لکھنا چاہتے ہیں لیکن بہت سے عوامل مثلاً مذہب، سیاست، معاشرہ وغیرہ درمیان میں آتے ہیں۔ اس لیے ان موضوعات کو نہیں چھیڑتے، حالانکہ زندگی میں جو کچھ ہے، وہ ادب میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم زندگی کے راستے پر آنکھیں بند کر کے گزرتے ہیں۔ غیر ضروری سنسر سے اچھے بھلے ڈرامے کا تأثر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر مجھے کوئی پیغام دینا ہوگا تو میں کسی نہ کسی طرح یہ گنجائش نکال لوں گی کہ وہ بات کہہ سکوں جو کہنا چاہتی ہوں، دستبردار ہونا میں نہیں جانتی۔

    اپنے ڈرامے ”پل دو پل“ کی ناکامی کا جواز دیتے ہوئے انہوں نے کہا، پل دو پل ناکام نہیں تھا مگر آج کل اتنے زیادہ سیریل آرہے ہیں کہ کوئی بھی بھرپور اور مکمل کام یاب ثابت نہیں ہوتا۔ لوگ چینل بدلتے رہتے ہیں۔ وہ soft سیریل تھا اس میں چونکا دینے والے واقعات نہ تھے، سماجی موضوع نہ تھا، در اصل وہ ڈرامہ سکون سے دیکھا جانے والا تھا اور اس طرح دیکھا نہ گیا۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ جب پڑوسی ٹیلی کاسٹ ہوا تھا تو اسے کمزور قرار دیا گیا اور جب ری ٹیلی کاسٹ ہوا تو اسی ڈرامے کو بے حد پسند کیا گیا۔

    حسینہ معین کا ڈرامہ دیس پردیس بھی بہت پسند کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ تسمینہ شیخ اور ذوالفقار شیخ نے اسکاٹ لینڈ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کی جانب میری توجہ مبذول کروائی۔ تسمینہ کی خواہش پر میں خود اسکاٹ لینڈ گئی۔ اُن کے مسائل اور مصائب کا اندازہ کیا اور پوری شدّت کے ساتھ محسوس کیا۔ اُن کی حماقتوں پر دکھ بھی ہوا، غصّہ بھی آیا، اور اُن کے جذبات و احساسات کو کہانی کے قالب میں ڈھال لیا۔

    اپنے ڈراموں میں عشق و محبّت کے معاملات میں تہذیب اور اپنے نظریۂ محبّت کے بارے میں انہوں نے انٹرویو کے دوران بتایا محبّت بہت عظیم جذبہ ہے جو انسانوں کو عطا ہوا ہے۔ جہاں گھٹیا پن ہو وہ عشق یا محبت نہیں سستی جذباتیت ہے اور میرا یہ نظریہ میرے ڈ راموں میں بھی نمایاں ہے، اس لیے ان معاملات میں تہذیب نظر آتی ہے۔

    پروڈکشن ہاؤسز کی تعداد میں اضافے کے باوجود کمزور ڈرامے کی بابت اظہارِ رائے کے دوران ان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی کام خلوصِ نیّت سے نہ کیا جائے تو اس میں بھی کام یابی نہیں ملتی۔ اب پی ٹی وی میں ڈرامہ بنانے والے لوگ وہ نہیں رہے، نئے لوگ آگئے۔ اس کے علاوہ اب یہاں بھی پرائیوٹ پروڈکشن ہاؤسز سے ڈرامے خریدے جاتے ہیں، ان کے معیار کی چھان بین نہیں کی جاتی تو معیار کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ پی ٹی وی بھی اب اتنا جان دار نہیں رہا۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے اُس نے پروڈکشن ہاؤس بنا لیا ہے۔ جب یہ حال ہو تو مضبوط اور کام یاب ڈرامہ کیسے بن سکتا ہے۔

    پاکستانی ڈرامے کی بازیابی کے لیے محنت اور کوشش کرنی پڑے گی، جن لوگوں نے اسے بگاڑا ہے وہ اس جانب توجہ دیں گے تو اس طرح جو بھرمار ہورہی ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جو اہلِ قلم اور فن کار صحیح معنوں میں باصلا حیت ہیں وہ ایک بار پھر سامنے آئیں گے۔

    ہمارے معاشرے میں ورکنگ ویمن کے مقام اور حقوقِ نسواں سے متعلق ان کا کہنا تھاکہ دراصل کسی بھی معاشرے میں ورکنگ ویمن کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو مردوں کو حاصل ہے۔ عورت دو وجوہات کی بنا پر ملازمت کرتی ہے، ایک تو اس کی معاشی ضرورت اسے مجبورکرتی ہے، دوسرے وہ تعلیم حاصل کر کے جوکچھ سیکھتی ہے اسے برتنا چاہتی ہے۔ ایک ورکنگ ویمن کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ مرد یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ عورت سے گھریلو ذمہ داری میں کہیں کوتاہی ہو جائے، اس اعتبار سے عورت پر دہری ذمہ داری اور بوجھ ہوتا ہے کیون کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں مرد گھریلو کام کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جب کہ مغربی معاشرے میں مرد کسی حد تک عورت کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مشرق کی ورکنگ ویمن کا یہ سفر بہت مشکل ہوتا ہے۔

    نوآموز ڈرامہ نگاروں کی راہ نمائی کے لیے حسینہ معین کا پیغام تھاکہ وہ محنت کریں، پڑھیں، ڈرامے پڑھیں، ڈرامے کی Definition میں رہ کر ڈرامہ لکھیں، میانہ روی اختیار کریں، تیز دوڑنے کی کوشش نہ کریں۔

  • امانت لکھنوی: سبز پری اور شہزادہ گلفام کا قصّہ گو

    ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے کسی دور میں عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھ کر شہرت پائی۔ آج امانت لکھنوی کا یومِ وفات ہے جن کے ڈرامے کو اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

    تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ امانت لکھنوی نے اندر سبھا، اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی فرمائش پر 1853ء میں تحریر کیا تھا۔ یہ اردو کا ایک مقبول ناٹک تھا جو اس زمانے کے رواج کے مطابق سیدھا سادہ اور منظوم ہے۔ امانت لکھنوی جن کا نام اردو کے پہلے عوامی ڈرامہ کے مصنّف کے طور پر ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت ڈرامہ اندر سبھا ہی ہے۔

    امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

    امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔

    امانت کا ڈرامہ اردو کا وہ پہلا عوامی ڈرامہ تھا جو چھپنے سے پہلے ہندوستان بھر میں مقبول ہوا اور اشاعت کے بعد دور در تک اس کی شہرت پھیل گئی۔ اس کے کئی نسخے شہروں شہروں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اس کی طرز پر بے شمار ڈرامے اردو میں لکھے گئے۔

    اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر محیط ہے جس کے آٹھ کردار ہیں۔

    انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ اردو کے ابتدائی دور اور بعد میں آنے والوں نے اسے بہترین ڈرامہ اور لازوال منظوم قصّہ کہا ہے۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

    اردو ادب میں جب بھی ڈرامہ کی ابتدا اور اس کے ارتقا کی بات ہوگی اندر سبھا اور امانت کا تذکرہ ضرور ہوگا۔ امانت لکھنوی نے کم عمر پائی اور 3 جنوری 1859ء
    کو جوانی میں انتقال کیا۔

  • مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    مقبول ترین ڈرامہ نگار اور انشا پرداز آسکر وائلڈ کی برسی

    آسکر وائلڈ کی ادبی تحریریں اسلوبِ بیان اور ندرتِ ادا کے لحاظ سے بے حد دل کش تسلیم کی گئی ہیں۔ اس کی یہ خصوصیت اس کے ڈرامے میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ وہ شاعر بھی تھا، لیکن ڈرامہ نویسی میں اس نے بڑا نام و مقام پیدا کیا اور مقبول ہوا۔

    آسکر وائلڈ کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ اس کے والد سَر ولیم وائلڈ مشہور ڈاکٹر تھے جب کہ والدہ جین وائلڈن ڈبلن کی مشہور شاعرہ اور ادیب تھیں۔ 1854ء میں دنیا میں آنکھ کھولنے والے آسکر وائلڈ کی پہلی معلّمہ اس کی والدہ تھی جنھوں نے اس کی بنیادی تعلیم و تربیت کے ساتھ اسے باذوق اور کتاب دوست بھی بنایا۔

    آسکر وائلڈ کی ادب میں دل چسپی نے اسے کالج تک پہنچتے ہوئے شاعر بنا دیا تھا۔ جب اسے زمانۂ طالبِ علمی میں اپنی ایک نظم پر انعام ملا تو اس کا خاصا شہرہ ہوا۔

    1878ء میں آسکر وائلڈ کی ملاقات ادب کے پروفیسر رسکن سے ہوئی جنھوں نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔1881ء میں آسکر وائلڈ کی چند نظموں کا ایک مجموعہ شایع ہوا اور 1891ء تک وہ ڈرامہ نویسی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ اس نے رزمیہ اور بزمیہ ڈرامے لکھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    آسکر وائلڈ نے اپنے زمانے کی مختلف ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں ناول، مضمون نگاری اور ڈرامہ نویسی شامل ہیں۔ اس نے آرٹ اور تخلیقی ادب کے حوالے سے لیکچرز بھی دیے اور امریکا و کینیڈا کا دورہ کیا جہاں اسے ایک نثر نگار کی حیثیت سے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔

    1890ء کی دہائی کے آغاز میں آسکر وائلڈ لندن کا سب سے مشہور ڈراما نگار بن چکا تھا۔ اسے جرمن اور فرانسیسی زبانوں‌ پر بھی عبور حاصل تھا۔

    اس کی جدّتِ طبع اور شگفتہ نگاری خصوصاً مغالطہ آمیز مزاح کے علاوہ چھوٹے چھوٹے خوب صورت جملے اور شگفتہ و برجستہ فقرے اس کی انفرادیت ہیں۔ نقّادوں کے مطابق انشا پردازی میں اس کا مخصوص رنگ ایسا ہے جس کا تتبع آسان نہیں۔ اس نے اپنے سحر نگار قلم سے قارئین اور ناقدین دونوں کو متاثر کیا۔

    برطانوی ہند میں آسکر وائلڈ کی تخلیقات کا اپنے وقت کے بلند پایہ ادیبوں اور تخلیقی شعور کے حامل ماہر مترجمین نے اردو ترجمہ کیا جس نے یہاں قارئین کو اس کی تخلیقات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اور اس کے افکار و اسلوب سے متعارف کروایا۔

    آسکر وائلڈ کی زندگی کے آخری ایّام بڑی مصیبت اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے گزرے جس میں‌ اکثر اسے پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ ایک بیماری نے اس کے دماغ اور اس کے نتیجے میں‌ ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا تھا، جس سے وہ اذّیت میں‌ مبتلا ہوگیا اور اپنے بیٹے کے گھر پڑا زندگی کے دن گنتا رہا۔ 1900ء میں آج ہی کے دن 46 سال کی عمر میں‌ آسکر وائلڈ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

  • ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد کی برسی

    ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ہدایت کار علی احمد 1996ء میں آج ہی کے روز ایک حادثے میں زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کے تحریر کردہ کئی اسٹیج ڈراموں بہت مقبول ہوئے۔ انھوں نے اپنے ڈراموں میں مختلف کردار بھی نبھائے اور بامقصد اور معیاری کام کیا۔

    علی احمد 2 فروری 1927ء کو کان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آگرہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر انڈین پیپلز تھیٹر اکیڈمی سے منسلک ہوگئے۔ انھوں نے موسیقی، رقص، اداکاری اور تھیٹر کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں سکونت اختیار کرنے والے علی احمد نے وہاں ایک تھیٹر آرٹ گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے معیاری اسٹیج ڈرامے پیش کیے گئے۔ 1957ء میں انھوں نے کراچی کا رخ کیا اور یہاں پہلے ایک تھیٹر اور بعد میں نیشنل اکیڈمی فار تھیٹر اینڈ آرٹس (ناٹک) کی بنیاد ڈالی۔

    علی احمد کے تحریر کردہ مشہور ڈراموں میں ذاتِ شریف، صبح ہونے تک، آدھی روٹی ایک لنگوٹی، شیشے کے آدمی، شامتِ اعمال، قصہ جاگتے سوتے کا، سونے کی دیواریں، نیا بخار اور خوابوں کی کرچیاں شامل ہیں۔