Tag: ڈرامہ

  • میرے پاس تم ہو: اک شخص پورے پاکستان کو افسردہ کر گیا

    میرے پاس تم ہو: اک شخص پورے پاکستان کو افسردہ کر گیا

    پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین ڈرامہ سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کے اختتام نے پورے پاکستان کو رلا دیا، لوگ دانش کی موت پر نہایت غمگین ہوگئے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو، جو پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کا تاریخ ساز ڈرامہ ثابت ہوا، گزشتہ رات اختتام پذیر ہوگیا۔ ڈرامے کا اختتام مرکزی کردار دانش (ہمایوں سعید) کی موت پر ہوا جس نے تمام مداحوں کو سوگوار کردیا۔

    ڈرامہ شائقین کی ہمدردیاں پہلے دن سے دانش کے ساتھ تھیں جس کی بیوی مہوش (عائزہ خان) دولت کے لیے اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور وہ بے وفائی کے کرب اور دکھ سے گزرتا رہتا ہے۔

    ڈرامے میں دانش کے بیٹے رومی کی ٹیچر ہانیہ (حرا مانی) کی آمد سے نیا موڑ آیا اور امید کی جانے لگی کہ دانش اب ہانیہ سے شادی کرلے گا، تاہم ڈرامے کا اختتام نہایت غیر متوقع ہوا اور دانش مہوش سے ایک جذباتی اور دردناک مکالمے کے بعد بالآخر جان سے گزر گیا۔

    ڈرامہ شروع ہوتے ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور اگلے ایک گھنٹے کے اندر تمام سوشل میڈیا سائٹس سے تمام موضوعات غائب ہوگئے اور صرف ڈرامے سے متعلق ٹرینڈز چھائے رہے۔

    دانش کی موت پر ڈرامہ شائقین نے مختلف انداز میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

    ایک صارف نے دانش اور مہوش کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ وفا کرنے والے مر کر بھی ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، اور بے وفائی کرنے والے زندہ رہ کر بھی روزانہ مرتے ہیں۔

    ایک صارف نے مشہور شعر میں تبدیلی کرتے ہوئے لکھا کہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی، اک شخص پورے پاکستان کو افسردہ کر گیا۔

    ایک خاتون کا کہنا تھا کہ یہ محبت، نفرت، معافی اور شرمندگی کی کہانی تھی۔ دانش مر گیا لیکن جاتے ہوئے وہ مہوش کو احساس جرم میں مبتلا کرگیا۔

    ایک ٹویٹر صارف نے لکھا کہ رومی سے خوابوں میں ملنے کا وعدہ کرنے والا منظر رلا گیا۔

    ایک صارف نے کہا کہ دانش کے کردار کی محبت، وفاداری، اور اس کا دھیما پن سب نہایت شاندار تھا۔ ایسے مرد صرف ڈراموں میں ہی ہوتے ہیں۔

    ایک اور صارف نے کہا کہ دانش اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور پورا پاکستان رو رہا تھا۔

    ڈرامے کے بارے میں مصنف خلیل الرحمٰن قمر کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھا ہے، ڈرامے کا ٹائٹل سانگ اور آخری قسط لکھتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہے تھے۔

    ڈائریکٹر ندیم بیگ کی ہدایت کاری اور ہمایوں سعید، عائزہ خان اور عدنان صدیقی کی شاندار اداکاری نے اس ڈرامے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور یہ پاکستانی تاریخ کا پہلا ڈرامہ ہے جس کی آخری قسط سنیما گھروں میں دکھائی گئی اور اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کا جم غفیر سنیما گھروں کو پہنچا۔

  • ’دانش کی 80 لاکھ کی سرمایہ کاری نے اسٹاک مارکیٹ کو آسمان پر پہنچا دیا‘

    ’دانش کی 80 لاکھ کی سرمایہ کاری نے اسٹاک مارکیٹ کو آسمان پر پہنچا دیا‘

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ میں دانش کا کردار ادا کرنے والے ہمایوں سعید کی اسٹاک مارکیٹ میں بڑی سرمایہ کاری اور حقیقت میں اسٹاک مارکیٹ میں رواں ہفتے ہونے والی تیزی کے بعد سوشل میڈیا پر میمز بنانے کا سلسلہ چل نکلا۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘ اپنی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ گزشتہ قسط میں دانش کا کردار ادا کرنے والے ہمایوں سعید کو اسٹاک مارکیٹ میں بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

    اتفاقاً اسی ہفتے اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار میں بے تحاشہ تیزی دیکھی گئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر دانش کی سرمایہ کاری کے حوالے سے طنز و مزاح کا طوفان امڈ آیا۔

    ڈرامے کی گزشتہ قسط میں دکھایا گیا کہ دانش کی سابقہ بیوی مہوش (عائزہ خان) اسے چھوڑ کر کروڑ پتی کاروباری شخص شہوار (عدنان صدیقی) کے پاس جا چکی ہے اور ابتدائی غم و صدمے کے بعد دانش اب زندگی کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔

    دانش پر بھی اب شہوار کی طرح دولت مند بننے کا بھوت سوار ہے جس کے لیے وہ سرکاری نوکری چھوڑ کر اور اپنا گھر بیچ کر کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ تاہم ایک ہوٹل میں اتفاقاً شہوار کی کمپنی کے ملازمین کی گفتگو سننے کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرلیتا ہے۔

    وہ اپنے گھر کی فروخت سے حاصل ہونے والی 80 لاکھ روپے کی خطیر رقم سے شہوار کی کمپنی کے تمام شیئرز خرید لیتا ہے جس کے دام ویسے ہی گر رہے ہوتے ہیں۔

    دانش کا دوست اسے اتنی بڑی سرمایہ کاری کرنے سے منع کرتا ہے تاہم دانش کا ارادہ اٹل ہے۔ دانش کی سرمایہ کاری کے چند گھنٹوں بعد ہی شہوار کمپنی کے شیئرز کے دام میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

    حقیقت میں اتفاقاً اگلے ہی روز اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا اور 100 انڈیکس 9 ماہ بعد 40 ہزار کی سطح عبور کرگیا۔

    اس کے بعد ٹویٹر پر میمز بنانے کا سلسلہ چل نکلا اور لوگوں نے ڈرامے میں دانش کی سرمایہ کاری کو اسٹاک مارکیٹ کی تیزی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ دانش کی ہی بدولت اسٹاک مارکیٹ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر ہونے والا ڈرامہ ’میرے پاس تم ہو‘ ہر ہفتے کی رات 8 بجے نشر کیا جاتا ہے۔ ڈرامے کے کرداروں اور ڈائیلاگز کو ناظرین کی بے تحاشہ پسندیدگی موصول ہورہی ہے۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    تھیٹر کا عالمی دن: زندگی کو پردے پر پیش کرنے والا فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔ اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

  • سعودی صحافی کا قتل ریاست کو بدنام کرنے کےلیے ڈرامہ ہے، ولید بخاری

    سعودی صحافی کا قتل ریاست کو بدنام کرنے کےلیے ڈرامہ ہے، ولید بخاری

    بیروت : لبنان میں موجود سعودی عرب کے قائم مقامم سفیر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی اخبار میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دینے والے سعودی صحافی کی گمشدگی ریاست کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لبنان میں تعینات سعودی عرب کے قائم مقام سفیر ولید بخاری نے واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی سے متعلق کہا ہے کہ جمال خاشقجی کا ترکی میں لاپتہ ہونا ریاست کے خلاف غیر ملکیوں کی منظم سازش ہے۔

    قائم مقام سفیر ولید بخاری نے جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیے کی گئی منصوبہ بندی ہے۔

    لبنان میں تعینات سعودی سفیر کا کہنا تھا کہ سعودی شہری کی گمشدگی کے ڈرامے کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر غیرمعمولی طور پر پذیرائی کی جارہی ہے جس کا مقصد سعودی عرب کا غلط چہرہ پیش کرنا ہے جس میں غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔

    عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کئی صارفین نے سعودی صحافی کے قتل کے دعوؤں کو بھی سازش قرار دیا ہے اور ان لوگوں کو مصری یتنظیم اخوان المسلمون کے افکار سے متاثر قرار دیا ہے جو ریاست کو بدنام کرنا چاہے رہے ہیں۔

    یاد رہے کہ چند روز قبل محمد بن سلمان کی پالیسیوں ہدف تنقید بنانے والے معروف صحافی جمال خاشقجیترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سفارت خانے کے دورے پر گئے اور لاپتہ ہوگئے، صحافی کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ ولی عہد پر تنقید کرنے کے جرم میں سعودی حکام نے ہی جمال خاشقجی کو گرفتار کیا ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی کی گمشدگی سے متعلق ابتدائی تحقیقات میں ترک پولیس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جمال خاشقجی مبینہ طور پر قتل ہوگئے اور انہیں قتل کرنے والی ٹیم اسی روز واپس چلی گئی۔

  • محبت کی تکون جب ’’خود غرض‘‘ ہوجائے

    محبت کی تکون جب ’’خود غرض‘‘ ہوجائے

    محبت اور رقابت یہ دو جذبے انسانی زندگی کا وہ لازمی حصہ ہیں جو کئی کہانیوں کو جنم دیتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دو جذبے کم و بیش ہر کہانی، ناول یا افسانے کا احاطہ کیے ہوتے ہیں ، اے آر وائی ڈیجیٹل کی نئی پیشکش ڈرامہ ’’خود غرض‘‘ اس کا اور پہلو سامنے لا رہا ہے جو شائقین کی دلچسپی کا باعث ہو گا۔

    محبت اور رقابت اگر ضد بن جائیں تو کیسے کیسے سنگین حالات جنم لیتے ہیں؟ ڈرامہ ’’خود غرض‘‘ اس کا احاطہ کرے گا جس میں ایک کردار رقابت کی اس حد تک پہنچ جائے گا کہ ’’خود غرض‘‘ کے سوا اسے کچھ اور نہ کہا جا سکے گا، ڈرامہ 19 دسمبر کو رات 8 بجے نشر کیا جائے گا۔

    اس ڈرامے کی خاص بات ممتاز اداکارہ آمنہ شیخ کی کسی ڈرامہ سیریل میں مدت کے بعد جلوہ نما ہونا ہے۔ آمنہ شیخ ’’خود غرض‘‘ میں عائرہ کا کردار ادا کر رہی ہیں اور ان کے ہمراہ سید جبران جو منفرد روپ میں جنید کا کردار نبھائیں گے۔

    ’’خود غرض‘‘ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ وہ پہلا ڈرامہ ہے جس میں آمنہ شیخ اور سید جبران پہلی مرتبہ ایک ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں اس سے قبل دونوں نے کسی ڈرامے میں ایک ساتھ کام نہیں کیا تھا، دونوں ممتاز اداکار اپنی جوڑی میں یوں نظر آتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔

    سید جبران یوں تو کئی کردار ادا کرچکے ہیں لیکن حال ہی میں ادا کیے گئے چند منفی کرداروں نے انہیں ولن کے روپ میں متعارف کرادیا ہے تاہم ’’خود غرض‘‘ میں وہ اپنے اس تعارف کی نفی کرتے نظر آئیں گے۔

    سمیع خان ، حسان کے روپ میں اپنے کیریئر کے مشکل ترین کردار میں نظر آئیں گے، انسانی نفسیات کی مختلف جہتوں کو نبھانے کے لیے انہوں نے کافی محنت کی ہے، شائقین سمیع خان کو اس ڈرامے میں کہیں نرم دل تو کہیں وہ فخر و تکبر کا نمونہ پائیں گے اور کہیں ایثار کرتے تو کہیں قابض ہونے کی خواہش میں مبتلا دکھائی دیں گے۔

    منشا پاشا خود غرض میں ابیر کا کردار نبھائیں گی، منشا پاشا ’’خود غرض‘‘ میں اپنے کردار ابیر سے بہت پُر امید ہیں وہ کہتی ہیں کہ اس منفرد کردار کے مختلف پہلوؤں نے اپنی جانب متوجہ کیا جنہیں نبھانے کی میں نے پوری کوشش کی ہے اور امید ہے شائقین داد سے نوازیں گے۔

    ڈرامہ ’’خود غرض‘‘ کے کرداروں میں ماضی کے معروف فلمی ہیرو غلام محی الدین کی موجودگی نے اچھے اسکرپٹ، بہترین ٹیم اور موزوں اداکاروں کی ضمانت دے دی ہے، غلام محی الدین پاکستانی فلموں کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے جنہوں نے کبھی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

    ’’ خود غرض‘‘ کے ہدایت کاریاسر نواز ہیں، اور یہ ڈرامہ ردا بلال کے قلم کا شاہکار ہے، یاسر نواز اس سے قبل بھی کئی کامیاب ڈرامے پیش کرچکے ہیں اور اس بار بھی اپنے مداحوں کو مایوس نہیں کریں گے۔

    ’’خود غرض‘‘ کی کاسٹ اور کہانی کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ ڈرامہ شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اے آر وائی ڈیجیٹل کے شائقین اس ڈرامے کو برسوں یاد رکھیں گے۔

  • تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    تھیٹر کا عالمی دن: انسانی تاریخ کی ابتدا سے جاری فن

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تھیٹر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد تھیٹر پر ہونے والے ڈرامے، رقص اور موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں نظریات، خیالات اور موضوعات کا تبادلہ کرنا ہے۔

    تھیٹر ڈرامے کو ناٹک رچانا، سوانگ بھرنا یا تمثیل نگاری بھی کہا جاتا ہے۔ انسان اس بات سے لاعلم ہے کہ تاریخ انسانی کا پہلا ڈرامہ کب پیش کیا گیا تاہم دنیا کی تمام تہذیبوں، رومی، یونانی، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں میں تھیٹر کسی نہ کسی صورت موجود رہا ہے۔

    برصغیر کا تھیٹر

    برصغیر میں تھیٹر کی ابتدا سنسکرت تھیٹر سے ہوئی۔ اس وقت بادشاہوں کے زیر سرپرستی مذہبی داستانوں پر مبنی کھیل پیش کیے جاتے تھے جن کا مقصد تفریح اور تعلیم دونوں تھا۔

    اس زمانے کا ایک معروف نام کالی داس کا ہے جن کے لکھے گئے ڈرامے شکنتلا نے ہر دور اور تہذیب کے ڈرامے پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    theatre-2

    سنہ 1855 میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے آغا حسن امانت کا تحریر کردہ ڈرامہ اندر سبھا اسٹیج کیا۔ یہ ایک پری جمال اور شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی منظوم ڈرامہ تھا۔

    بعد ازاں اس تھیٹر نے پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی جو تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر راج کرتا رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: آغا حشر کا ڈرامہ یہودی کی لڑکی ناپا میں پیش

    برطانوی راج کے دور میں تھیٹر داستانوں اور تصوراتی کہانیوں سے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کے مصائب کو پیش کرنے لگا۔

    پارسی تھیٹر کے دور کا ایک مشہور و معروف نام آغا حشر کاشمیری ہیں۔ انہیں اردو زبان کا شیکسپئیر کہا جاتا ہے۔ انہوں نے منظوم ڈرامے لکھے جن میں سے بیشتر فارسی، انگریزی ادب اور ہندو دیو مالا سے متاثر تھے۔

    theatre-3

    بیسویں صدی کے وسط میں تھیٹر میں امتیاز علی تاج، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، رفیع پیر اور اپندرناتھ اشک کے ڈرامے پیش کیے جانے لگے۔ سنہ 1932 میں امتیاز علی تاج کا تحریر کردہ ڈرامہ انار کلی اردو ڈرامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    موجودہ دور میں پاکستان میں ہونے والا تھیٹر اپنے منفرد موضوعات، ہدایت کاری، لائٹنگ، اور پیشکش کے حوالے سے باشعور شائقین کے لیے کشش رکھتا ہے۔

    تھیٹر میں نئی جہت

    چند روز قبل لندن میں پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے میں روبوٹ اداکار کو پیش کر کے اس شعبے میں نئی جہت اور نئی جدت پیش کردی گئی۔

    ڈرامے کے اداکار و فنکاروں کا کہنا ہے کہ گو روبوٹ انسانوں جیسے تاثرات تو نہیں دے سکتا، تاہم اداکاری کے شعبے میں سائنسی مشین کی شمولیت فن، محبت اور جدید ٹیکنالوجی کا بہترین امتزاج ہے۔

  • بل بتوڑی حکومتی امداد کی منتظر

    بل بتوڑی حکومتی امداد کی منتظر

    لاہور: اگر آپ نوے کی دہائی میں بڑے ہوئے ہیں تو آپ نے مشہور کامیڈی سیریل ’عینک والا جن‘ ضرور دیکھا ہوگا۔ ڈرامے کے کردار نستور جن، زکوٹا جن، ہامون جادوگر، اور بل بتوڑی بچوں کے پسندیدہ کردار تھے۔

    وقت گزرتا چلا گیا اور بچوں کو ہنسانے والے خود بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے۔ انہی میں سے ایک کردار بل بتوڑی (نصرت آرا) آج کل نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔

    نصرت آرا پر چند روز قبل فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد ان کے علاج کی ذمہ داری بیت المال نے اٹھا لی ہے۔

    عینک والا جن میں اپنے مخصوص جملوں اور اداکاری سے بچوں کو ہنسانے والی نصرت آرا ڈرامے کے اختتام کے بعد شدید غربت کا شکار ہوگئی تھیں۔ روزگار ہی کی تلاش میں وہ 30 سال قبل لاہور منتقل ہوگئی تھیں تاہم وہاں ان کی زندگی سے بد سے بدتر ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: ماضی کے مشہور مزاحیہ اداکار ماجد جہانگیر کسمپرسی کا شکار

    چند سال قبل نصرت آرا پر ایسا وقت بھی آیا کہ ان کے پاس سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جس کے بعد مجبوراً انہوں نے کافی عرصہ داتا علی ہجویری کے مزار پر گزارا۔

    کچھ عرصہ قبل ایک اخباری نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے نصرت آرا کا کہنا تھا، ’میں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال ان بچوں کو ہنسانے میں گزار دیے جو اب جوان ہوچکے ہیں۔ اب میں برے حالوں میں ہوں مگر کوئی میری مدد کو نہیں آیا‘۔

    انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ کیا یہ ظلم نہیں کہ میں نے اپنی زندگی کی کئی دہائیاں پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو دیں اور اب میرے پاس سر چھپانے کو ایک چھت تک نہیں۔

    بیت المال کی جانب سے علاج کے اخراجات اٹھانے کے بعد نصرت آرا اب شیخ زید اسپتال میں اپنا علاج کروائیں گی۔

  • خدا میرا بھی ہے: یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں

    خدا میرا بھی ہے: یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں

    اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’خدا میرا بھی ہے‘ جہاں ایک طرف تو ناظرین میں بے حد مقبول ہورہا ہے وہیں وہ ہمارے معاشرے کے کئی تلخ پہلوؤں کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔

    ڈرامے کی کہانی ایک ایسے جوڑے (عائشہ خان اور جبران سید) کی ہے جن کے یہاں تیسری جنس کا بچہ پیدا ہوجاتا ہے جس کے بعد تمام لوگ اس بچے کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

    ان دونوں کو شدید قسم کے معاشرتی دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک منظر میں عائشہ خان کی ساس کا کردار ادا کرنے والی اسریٰ غزل چیختی نظر آئیں، ’ہماری بہو نے ہیجڑا پیدا کیا ہے‘۔

    ایک ایسے حساس موضوع پر، جسے معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود اس پر گفتگو کرنا شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہو، ڈرامہ پیش کرنا نہایت بہادرانہ اقدام ہے۔

    جیسے جیسے ڈرامے کی کہانی آگے بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ناظرین اس پہلو کے بارے میں مختلف سوالات سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    ڈرامے کے ایک منظر میں ایک ماں اور اس کے اسپیشل بچے کو دکھایا گیا جو نہایت محبت سے اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ عائشہ خان کے دریافت کرنے پر وہ بتاتی ہے کہ اس کے بچے کی پیدائش سے قبل ہی ڈاکٹرز نے اسے آگاہ کردیا تھا کہ ان کے گھر معذور بچہ پیدا ہوگا اور وہ چاہیں تو اسے دنیا میں آنے ہی نہ دیں۔

    اس کی پیدائش کے بعد بھی، بقول خاتون اس کے شوہر اور سسرال والے اس پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے اسپیشل بچوں کے کسی ادارے میں داخل کروا دے۔ ’آپ خود ہی بتائیں، اپنے بچے کا گلہ گھونٹ کر مجھے کیسے سکون کی نیند آسکتی تھی؟ جو دیکھ بھال ایک ماں اپنے بچے کی کرسکتی ہے وہ کوئی سینٹر کیسے کر سکتا ہے‘۔

    اس موقع پر ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایک اسپیشل بچے کو پالنے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور اسے اپنانے میں کوئی قباحت نہیں، تو ایک تیسری جنس کا بچہ کیوں ناقابل قبول ہے؟ آخر وہ بھی تو ایک اسپیشل قسم ہے جو بہت نایاب ہے۔

    ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ تمام تر دباؤ کے بعد مجبور ہو کر ماہی اپنے بچے کو مخنثوں کے حوالے تو کر دیتی ہے لیکن اس کی محبت سے مجبور ہو کر وہ اسے واپس لینے پہنچ جاتی ہے۔

    اس موقع پر گرو نہایت جذباتی مکالموں اور دیوانہ وار رقص کے ذریعہ ہمارے معاشرے کے سیاہ پہلو کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ’میں نے یہاں ہمیشہ بچے آتے ہی دیکھے ہیں، جاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھے‘۔

    ٹوئٹر پر بھی صارفین نے اس ڈرامے کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔

    ایک صارف نے اس حساس موضوع کو اس کی تمام تر حساسیت کے ساتھ پیش کرنے پر بے حد سراہا۔

    دوسری جانب معروف اداکار حمزہ علی عباسی نے بھی ڈرامے کے موضوع کو سراہتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کی۔

    ڈرامے میں عائشہ خان کی اداکاری کو بھی بے حد پسند کیا جارہا ہے۔


    عائشہ خان ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہیں اور ایک طویل عرصہ سے ڈرامہ انڈسٹری کا حصہ ہیں، تاہم خدا میرا بھی ہے میں ان کی اداکاری کو ان کے کیریئر کا بہترین حصہ قرار دیا جارہا ہے۔

  • پاکستانی ڈراموں میں کام کرنا بہترین تجربہ ہے، سارہ خان

    پاکستانی ڈراموں میں کام کرنا بہترین تجربہ ہے، سارہ خان

    معروف اداکارہ سارہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈرامے بہت شاندار ہیں اور ان میں کام کرنا ان کے لیے ایک بہترین تجربہ ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ’بے خودی‘ سے پاکستان میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی سارہ خان نے اس تجربے کو نہایت شاندار اور پرلطف قرار دیا۔

    ڈرامہ سیریل ’بے خودی‘ میں ان کے مقابل معروف اداکار نور حسن مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈرامے میں سارہ کا کردار ایسی لڑکی کا ہے جو اپنے گھر والوں کے دباؤ میں آ کر اپنے کزن سے شادی کرلیتی ہے تاہم اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کر پاتی۔

    یہ ڈرامہ پاکستانی معاشرے کے اس پہلو کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے جس میں اکثر کزنز ایک دوسرے کو بہن بھائی سمجھ کر بچپن اور جوانی گزارتے ہیں تاہم بڑے ہونے کے بعد ان کے گھر والے انہیں رشتہ ازدواج میں باندھ دیتے ہیں جن میں اکثر ایک فریق اس تبدیلی سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتا۔

    سارہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ڈرامے اور ان کا اسکرپٹ بہترین ہیں اور پاکستانی ڈرامے میں کام کرنا ان کے تجربے میں ایک شاندار اضافہ تھا۔

    ڈرامہ ’بے خودی‘ بہت جلد اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر کیا جائے گا۔

  • ماہ نور بلوچ کی نئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    ماہ نور بلوچ کی نئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل

    پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ ماہ نور بلوچ ڈراموں میں واپس آرہی ہیں۔ حال ہی میں ان کے ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران کھینچی گئی تصاویر منظر عام پر آئیں۔

    رومانوی کہانی پر مشتمل ان کے ڈرامے ’خوبصورت‘ کا ٹیزر چند روز قبل ہی جاری کیا گیا ہے۔ ڈرامے میں ان کے ساتھ اظفر رحمٰن اور زرنش خان بھی شامل ہیں۔ اداکار فیصل رحمٰن بھی اہم کردار ادا کرتے دکھائی دیں گے۔

    mahnoor-2

    حال ہی میں جاری کی گئی تصویر میں ماہ نور بلوچ ہمیشہ کی طرح جوان اور خوبصورت نظر آرہی ہیں۔

    Mahnoor Baloch and Azfar Rehman on the set of upcoming drama #Khubsoorat 😍👍📺

    A photo posted by Lollywood Updates 📷🎬 (@lollywood_updates) on

    پس منظر میں دکھائی دینے والے مناظر سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈرامے کی شوٹنگ کسی پہاڑی مقام پر جاری ہے۔