Tag: ڈسکہ فائرنگ

  • ڈسکہ ضمنی انتخاب: مقتول ذیشان کے والد کا دوسرے شخص کے قتل سے متعلق انکشاف

    ڈسکہ ضمنی انتخاب: مقتول ذیشان کے والد کا دوسرے شخص کے قتل سے متعلق انکشاف

    سیالکوٹ: ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے دوران فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان ذیشان کے والد نے اعتراف کر لیا ہے کہ دوسرے شخص کو ان کے بھائی نے گولی ماری تھی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے شہر ڈسکہ میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 میں ضمنی انتخاب کے دوران دو دن قبل فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں ایک ذیشان نامی نوجوان سمیت ایک اور شخص جاں بحق ہوا تھا۔

    آج ڈسکہ میں مقتول ذیشان کے گھر کے باہر مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ ن کا جلسہ منعقد ہوا، جس میں مریم نواز کے ساتھ کھڑے مقتول ذیشان کے والد نے اعتراف کیا کہ ان کے بھائی نے ذیشان کے قاتل کو نشانہ بنایا۔

    ذیشان کے والد نے کہا کہ ان کا چھوٹا بھائی پولنگ ایجنٹ تھا، مخالفین اسے پیٹ رہے تھے، جب کہ اس دوران پولنگ اسٹیشن میں میرا بیٹا ووٹ ڈال رہا تھا، لوگوں نے اسے بتایا کہ آپ کے چچا کو مار رہے ہیں، تو میرا بیٹا وہاں پہنچ گیا، جس پر مخالفین نے اس پر گولی چلا دی، میرے بھائی کے پاس گاڑی میں پستول تھی، یہ دیکھ کر اس نے فائرنگ کرنے والے لڑکے کو بھی مار دیا۔

    ڈسکہ ملا تو بکسا گم، بکسا ملا تو ڈسکہ گم، مریم نواز کا جلسے میں دل چسپ انداز

    ذیشان کے والد نے کہا میرا بیٹا قتل ہوگیا، کوئی بات نہیں، دیگر 6 بیٹے بھی ن لیگ پر قربان ہیں، میرے بیٹے کو میرے سامنے قتل کیا گیا ہے، ایک بیٹا مر گیا اور دوسرا اندر ہے، اس سے ملنے نہیں دیا جا رہا، سمجھ نہیں آ رہی ن لیگ کو ووٹ ڈالنے پر اتنی بڑی سزا دی جا رہی ہے۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ صرف ایک سیٹ کی خاطر 2 جانیں لے لی گئیں، جانی نقصان کا اندازہ ہوتا تو یہ سیٹ ویسے ہی دے دیتی، مجھے بتایاگیا اس بچے کی جان ووٹ پر پہرہ دیتے ہوئے گئی، ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے سے روکنے پر ان کے بیٹے کو گولیاں ماری گئیں۔

    ڈسکہ فائرنگ کس کے ایما پر ہوئی؟ پی ٹی آئی رہنما کا بڑا انکشاف

    مریم نواز نے ذیشان کے والد سے متعلق کہا ان کے بچے کی جان گئی اور ایف آئی آر ان کے اپنے بھائی پر درج کی جا رہی ہے، ایک اور بیٹا انھوں نے گرفتار کر کے رکھا ہوا ہے اس سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی۔

  • ڈسکہ فائرنگ، لاٹھی چارج: عثمان ڈار، مریم نواز کے مخالفانہ ٹویٹس

    ڈسکہ فائرنگ، لاٹھی چارج: عثمان ڈار، مریم نواز کے مخالفانہ ٹویٹس

    ڈسکہ: سیالکوٹ کے شہر ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے موقع پر پُر تشدد واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈسکہ حلقہ این اے 75 میں گوئند کے پولنگ اسٹیشن کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 افراد کی ہلاکت اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کے بعد پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار نے میڈیا کو بتایا کہ رانا ثنا اللہ نے مسلح غنڈوں کے ہمراہ پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کیا، میں تین گھنٹے سے پولنگ اسٹیشن میں محصور رہا۔

    عثمان ڈار نے ایک ٹویٹ میں کہا رانا ثنا اللہ مسلح غنڈوں کے ہمراہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تاریخ رقم کرنے پہنچا، اب تک گولیاں لگنے سے 7 افراد زخمی اور 2 کارکنان شہید ہو چکے ہیں، ڈسکہ میں پر امن انتخابی عمل کے دوران دہشت گردی کی گئی، دہشت گردی کی ایف آئی آر رانا ثنا اللہ اور مسلح غنڈوں کے خلاف درج کرائیں گے۔

    عثمان ڈار، جنھوں نے این اے 75 کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا عہدہ چھوڑ دیا تھا، نے سوال اٹھایا کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر ن لیگی ایم پی اے اور ایم این اے کس حیثیت سے موجود رہے؟ چیف الیکشن کمشنر سے سوال ہے یہ پولنگ اسٹیشن کے باہر کیا کر رہے ہیں، دوپہر تک پولنگ پُر امن چل رہی تھی، رانا ثنا اللہ جیسے ہی مسلح جتھے کے ساتھ آئے صورت حال خراب ہو گئی۔

    این اے 71ضمنی الیکشن: پولنگ اسٹیشن کے باہر فائرنگ 2 افراد جاں بحق

    انھوں نے کہا ن لیگ نے ڈسکہ کا الیکشن لوٹنے کی تیاری کی، ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر پولیس والے تعینات ہیں، لیکن جاوید لطیف، رانا ثنا جیسے لوگ حملہ کریں گے تو 10،8 پولیس والے کیا کریں گے، یہ ن لیگ کے کارکنوں کو ریاستی اداروں سے لڑا رہے ہیں۔

    ادھر رہنما مسلم لیگ ن مریم نواز نے بھی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ڈسکہ کلاں پولنگ اسٹیشن میں ہمارے ووٹرز پر بدترین لاٹھی چارج کیا گیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ پولیس عوام کی ملازم ہے یا پی ٹی آئی کی؟ مریم نواز نے پولنگ اسٹیشن کے باہر ووٹرز پر پولیس اہل کاروں کے لاٹھی چارج کی ویڈیو بھی ٹویٹ کی۔

    ترجمان مریم اورنگ زیب نے کہا کہ ڈسکہ میں ہر جگہ خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی، لیکن ن لیگ کے کارکنوں نے ہر چیز کا مقابلہ کیا، فائرنگ کرا کر ووٹرز کو بھگانے کی کوشش کی گئی، ڈسکہ کی صورت حال پر پوری انتظامیہ خاموش ہے، ڈسکہ میں فائرنگ پولیس کی موجودگی میں کی گئی ہے۔

    انھوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب، آئی جی، سی سی پی او کہاں ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں فائرنگ کرنے والے پر مقدمہ ہوگا، مقدمہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف درج ہونا چاہیے، انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے فائرنگ ہو رہی ہے، پولیس پولنگ رکوانے میں لگی ہو تو فائرنگ کون روکے گا۔