Tag: ڈلیوری

  • 9 سال سے روزانہ ہونے والی پراسرار پیزا ڈلیوری

    9 سال سے روزانہ ہونے والی پراسرار پیزا ڈلیوری

    بیلجیئم کے ایک شہری کے دن رات کا سکون پیزا ڈلیوری نے برباد کردیا، یہ پیزا ڈلیوری اسے روزانہ دن اور رات میں کئی کئی بار موصول ہوتی ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اسے آرڈر کرنے والا کون ہے۔

    بیلجیئم کے 65 سالہ شہری کی نیندیں ایک بے ضرر سے پیزا نے حرام کر رکھی ہیں لیکن یہ پیزا اتنا بھی بے ضرر نہیں۔

    دراصل اس شہری کو گزشتہ 9 سال سے بغیر آرڈر کیے پیزا موصول ہورہا ہے۔

    بیلجین شہری کا کہنا ہے کہ ہر وقت پیزا ڈلیوری کے خوف نے میری نیند ہی اڑا دی ہے اور جب گلی سے کوئی اسکوٹی گزرتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ اب کوئی دوبارہ پیزا رکھ کر چلا جائے گا۔

    معمر شہری کے مطابق یقیناً میرے ساتھ کوئی شرارت کر رہا ہے، مجھے دن میں 10 بار پیزے موصول ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ پیزا ڈلیور ہونے کا کوئی ٹائم نہیں ہے، یہ ویک اینڈ پر بھی موصول ہوتے ہیں اور عام دنوں میں بھی، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے 2 بجے بھی پیزا آسکتا ہے۔

    معمر شہری کے مطابق وہ اس شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو یہ حرکت کر رہا ہے اور جس دن انہیں وہ شخص مل گیا وہ دن اس شخص کے لیے بہت برا دن ہوگا۔

  • پولیس نے حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا

    پولیس نے حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا

    امریکا میں ایک حاملہ خاتون کو ڈلیوری کے وقت پولیس نے ہتھکڑیوں سے بیڈ کے ساتھ باندھ دیا، متاثرہ خاتون نے پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ دائر کردیا۔

    امریکی شہر نیویارک میں یہ واقعہ دسمبر 2018 میں پیش آیا جب پولیس نے 22 سالہ افریقی نژاد خاتون کو گرفتار کیا۔ خاتون کے دائر کردہ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے انہیں ان کی والدہ کے گھر سے گرفتار کیا، وہ اس وقت 40 ہفتوں کی حاملہ تھیں۔

    خاتون کے مطابق ان پر عائد کردہ جرم نہایت معمولی تھا جو بعد ازاں خارج کردیا گیا، تاہم اس وقت پولیس نے انہیں پورا دن حراست میں رکھا اور تفتیش کرتے رہے۔

    ایک دن بعد خاتون کی حالت بگڑنے پر انہیں ایمبولینس پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا اور اس دوران بھی انہیں ہتھکڑیاں لگائے رکھی گئیں، بعد ازاں اسپتال میں بھی ان کی ایک ٹانگ اور ایک پاؤں کو ہتھکڑی سے جکڑ دیا گیا اور انہوں نے اسی حالت میں بچے کوجنم دیا۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ بچے کو جنم دینے کے بعد اسے نرسری منتقل کیا گیا، اس دوران وہ ایک بار اپنے نومولود کو دیکھنے گئیں تب بھی ان کے دونوں پاؤں ہتھکڑیوں سے باندھ دیے گئے تھے۔

    اب اس واقعے کے 14 ماہ بعد خاتون نے پولیس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کروایا ہے۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے کئی ماہ بعد تک وہ ڈپریشن کا شکار رہیں۔ نیویارک پولیس نے انہیں انسانیت کے درجے سے نیچے گرا دیا تھا۔ وہ اس مذموم فعل میں ملوث پولیس افسران کا احتساب ہونا دیکھنا چاہتی ہیں۔

    خاتون کی وکیل کا کہنا ہے کہ نیویارک پولیس کی یہ حرکت نہایت احمقانہ اور سمجھ سے بالاتر ہے، ایک حاملہ اور درد زہ میں مبتلا خاتون نہ ہی اپنے لیے، نہ پولیس کے لیے اور نہ ہی کسی اور کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ایک غیر رسمی قانون اور اخلاقیات یہ کہتی ہیں کہ غیر معمولی حالات کے علاوہ کسی حاملہ خاتون کو ہتھکڑی نہیں لگائی جاسکتی۔

    وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقدمے میں پولیس کے اقلیتوں سے غیر انسانی سلوک کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، ’رنگ اور نسل کی بنیاد پر تعصب کا نشانہ بننے والی میری مؤکل پہلی انسان نہیں، اور امید ہے کہ ہمیں جلد انصاف فراہم کیا جائے گا‘۔

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    ماں بننا اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے، وہیں اس بات کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے کو نہایت احتیاط اور خیال کے ساتھ گزارا جائے تاکہ ماں اور آنے والا بچہ دونوں صحت مند رہیں۔

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے جس کی وجہ حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی، غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    بعض خواتین اپنی مرضی سے سیزیرین آپریشن بھی کرواتی ہیں تاکہ انہیں اذیت ناک تکلیف اور گھنٹوں تک بے چینی نہ سہنی پڑے اور وہ جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاہم یہ چند گھنٹوں کا ریلیف مستقبل میں انہیں بے شمار طبی مسائل سے دو چار کردیتا ہے، علاوہ ازیں آپریشن سے ہونے والی ڈلیوری کے بعد صحت یابی میں بھی نارمل ڈلیوری کی نسبت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو نارمل ڈلیوری کے لیے حمل کے دوران مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ سے دور رہیں

    حمل کے دوران ذہنی تناؤ سے دور رہنا اور خوش رہنا بے حد ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ اور ٹینشن نہ صرف بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ حمل کے عرصے کو بھی مشکل بنا سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک تکلیف دہ ڈلیوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حمل کے عرصے کے دوران مراقبہ کریں، میوزک سنیں، کتابیں پڑھیں اور وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔

    ایسے لوگوں کی کمپنی میں بیٹھیں جو آپ کے ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑیں۔

    ایسی خواتین سے بالکل دور رہیں جو اپنی زچگیوں کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے، بھیانک قصے سنا کر آپ کو ٹینشن میں مبتلا کردیں۔ ایسی خواتین آپ کی ڈلیوری کو بھی ایک بھیانک عمل بنا سکتی ہیں۔ جب بھی آپ کا واسطہ کسی ایسی خاتون سے پڑے تو اس سے دور ہوجائیں اور اس سے ملنے جلنے سے گریز کریں۔

    مزید پڑھیں: حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل کے دوران آپ کے ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا آپ کی ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دے گا۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن آپ کی ڈلیوری کو آپ کی زندگی کا بدترین وقت بناسکتا ہے۔

    معلومات حاصل کریں

    حمل اور بچے کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے اپنی ڈاکٹر، والدہ اور نانی یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ حمل کے دوران کون سی غذائیں اور کام آپ کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کا انتخاب

    پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں ڈاکٹرز زیادہ پیسے لینے کے لیے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروانے پر زور دیتے ہیں۔

    ایسے ڈاکٹرز کو جب اپنا مقصد ناکام ہوتا نظر آئے تو یہ لیبر روم سے باہر آ کر ایک مصنوعی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ کو تاثر جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہونے والے بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں بچانے کا واحد حل صرف سیزیرین آپریشن ہی ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی معتبر، جانے پہچانے اور قابل اعتبار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بدنام اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے پاس جانے سے گریز کریں۔

    حمل کے آخری چند ہفتوں کی صورتحال اس بات کا تعین کردیتی ہے کہ بچہ نارمل ہوگا یا آپریشن سے، اس صورتحال سے ان تمام افراد کو آگاہ رکھیں جو عین وقت میں آپ کے ساتھ اسپتال میں ہوں گے۔

    حمل کے آخری مہینے میں اپنی ڈاکٹر کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹرز کے پاس جا کر بھی چیک اپ کروایا جاسکتا ہے تاکہ متنوع آرا معلوم کی جاسکیں۔

    یاد رکھیں، ماں بننا اور اس عمل میں ہونے والی تکلیف ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ قدرتی طریقے سے ہونے والی ولادت ماں کو جلد صحت یاب کردیتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے یعنی آپریشن سے ہونے والی پیدائش طویل المدت نقصانات کا باعث بنتی ہے۔