Tag: ڈونلڈ ٹرمپ

  • فیفا ورلڈ کپ 2026: وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے فیفا کے صدر کی اہم ملاقات، میڈیا کی تنقید

    فیفا ورلڈ کپ 2026: وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے فیفا کے صدر کی اہم ملاقات، میڈیا کی تنقید

    واشنگٹن (23 اگست 2025): فیفا ورلڈ کپ 2026 کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور فیفا کے صدر کی اہم ملاقات ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فیفا کے صدر جیانی انفنٹینو نے امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی ہے، جس کے بعد انھوں نے انکشاف کیا کہ 2026 کے ورلڈ کپ کی قرعہ اندازی اس دسمبر میں واشنگٹن میں ہوگی۔

    ٹرمپ نے اعلان کیا کہ فیفا ورلڈ کپ کے لیے ٹیموں کے ڈراز 5 دسمبر کو کینیڈی سینٹر میں ہوں گے، اور عالمی فٹبال ایونٹ کا واشنگٹن سے نیا تاریخی آغاز ہوگا، کینیڈی سینٹر اس ایونٹ کا شان دار آغاز کرے گا۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی ٹیم بھی اس ایونٹ میں حصہ لے گی، فیفا ورلڈ کپ 2026 تاریخ کا سب سے بڑا ایونٹ ہوگا۔ ملاقات کے موقع پر فیفا کے صدر نے امریکی صدر ٹرمپ کو ان کے نام کی ٹی شرٹ بھی پیش کی۔

    واضح رہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2026 تین ملکوں میں مشترکہ طور پر منعقد ہوگا، امریکا، کینیڈا اور میکسیکو فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کریں گے، میگا ایونٹ کے 13،13 میچز میکسیکو اور کینیڈا میں ہوں گے، جب کہ بقیہ میچز امریکا کے 11 شہروں میں ہوں گے۔

    دوسری طرف امریکی اخبارات نے فیفا کے صدر کی اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات پر شدید تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ وہ آمر حکمرانوں اور انسانی حقوق کی پامالی کرنے والوں کی چاپلوسی کر رہے ہیں۔ یو ایس ٹوڈے نے لکھا کہ جیانی انفنٹینو کی خوشامدانہ روش اب فیفا ورلڈ کپ کو بھی داغدار کر رہی ہے۔

    اخبار نے لکھا کہ اگلے سال ہونے والا مردوں کا ورلڈ کپ، شمالی کوریا کے طرز کا ریاستی پروپیگنڈا ایونٹ بنتا جا رہا ہے، اور انفنٹینو بخوشی اس کا حصہ بن رہے ہیں، اور ایک ایسے موقع پر جس میں محض یہ اعلان ہونا تھا کہ قرعہ اندازی کینیڈی سینٹر میں ہوگی، وہ 45 منٹ تک ٹرمپ کے پہلو میں کھڑے ہنستے رہے جیسے وہ بھی کابینہ کے کوئی رکن ہوں۔

    یہاں تک کہ انفنٹینو اُس وقت بھی خاموش کھڑے رہے جب ٹرمپ نے یہ تجویز دی کہ شاید ولادیمیر پیوٹن بھی اس ٹورنامنٹ میں شریک ہوں، حالاں کہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد روس پر فیفا کے مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد ہے۔

  • عدالت نے ٹرمپ کو خوشخبری سنادی

    عدالت نے ٹرمپ کو خوشخبری سنادی

    امریکی ریاست نیویارک کی اپیل کورٹ نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھوکا دہی کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اپیل کورٹ کے ججز نے 11 ماہ تک غور کے بعد صدر ٹرمپ کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔

    عدالت نے امریکی صدر پر عائد 500 ملین ڈالر کے جرمانے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ پر جرمانہ بہت زیادہ ہے۔

    عدالت نے امریکی صدر اور ان کے بیٹوں پر عائد 2 سال کی کاروباری پابندیاں بھی معطل کردی ہیں، اس کے علاوہ ٹرمپ اور ان کی آرگنائزیشن پر بینکوں سے 3 سال تک قرضے لینے کی پابندی کو بھی معطل کردیا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے کاروبار کو فائدہ پہنچانے کے لیے جائیداد کی قیمتیں بڑھائیں۔

    سعودی عرب کا غیر ملکی ملازمین کے لیے بڑا فیصلہ

    اس حوالے سے نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز نے 2022 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سول فراڈ کا مقدمہ دائر کیا جس کے بعد جج آرتھر اینگورون نے 2024 میں جرمانے کا حکم دیا تھا جبکہ امریکی صدر نے یہ جرم ماننے سے انکار کردیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

  • صورتِ حال مشکل ہونے والی ہے! ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    صورتِ حال مشکل ہونے والی ہے! ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آگیا

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امید ہے روسی صدر پیوٹن اچھے ثابت ہوں گے، چند ہفتوں میں ہمیں پیوٹن کے بارے میں پتہ چل جائے گا، پیوٹن اچھے ثابت نہ ہوئے تو صورتِ حال مشکل ہونے والی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی میڈیا کو انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے زیلنسکی اور پیوٹن ٹھیک کر رہے ہیں، یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی درخواست نہیں کرنی چاہیے۔

    ٹرمپ نے کہا کہ ممکن ہے کہ روسی صدر کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہیے، یوکرین کو بہت سا علاقہ ملنے والا ہے۔

    ٹرمپ نے کہا کہ یورپی رہنماؤں کے سامنے صدر پیوٹن کو کال نہیں کی، صدر پیوٹن کے ساتھ گرم جوش تعلقات اچھی چیز ہیں، میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

    امریکی صدر نے کہا کہ یورپ زمینی فوج بھیجنے کے لیے تیار ہے، کسی نہ کسی شکل میں سیکیورٹی ہو گی، لیکن وہ نیٹو نہیں ہو سکتا، ہمیشہ سے میرا خیال تھا کہ یوکرین روس اور یورپ کے درمیان ایک بفر ہے۔

    ٹرمپ نے امریکا میں پوسٹل بیلٹ نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں پوسٹل بیلٹ کا نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں مڈ ٹرم الیکشن سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بطور ری پبلکن پارٹی پوسٹل بیلٹ نظام ختم کریں گے۔

    ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ 2026 کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں (Mail-in Ballots) اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایک صدارتی حکم نامہ (ایگزیکٹو آرڈر) جاری کریں گے، اور اس آرڈر کی تیاری کا عمل جاری ہے۔

    روئٹرز کے مطابق امریکا میں وفاقی انتخابات ریاستی سطح پر کرائے جاتے ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ صدر کو آئینی طور پر ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ بعض ریاستوں کی جانب سے اس اقدام کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ اس اقدام سے ان کی ریپبلکن پارٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

  • صدر ٹرمپ نے امریکا میں پوسٹل بیلٹ نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا

    صدر ٹرمپ نے امریکا میں پوسٹل بیلٹ نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں پوسٹل بیلٹ کا نظام ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکا میں مڈ ٹرم الیکشن سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم بیان سامنے آیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بطور ری پبلکن پارٹی پوسٹل بیلٹ نظام ختم کریں گے۔

    ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ 2026 کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں (Mail-in Ballots) اور ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے ایک صدارتی حکم نامہ (ایگزیکٹو آرڈر) جاری کریں گے، اور اس آرڈر کی تیاری کا عمل جاری ہے۔

    روئٹرز کے مطابق امریکا میں وفاقی انتخابات ریاستی سطح پر کرائے جاتے ہیں، اور یہ واضح نہیں ہے کہ صدر کو آئینی طور پر ایسا حکم جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ بعض ریاستوں کی جانب سے اس اقدام کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ اس اقدام سے ان کی ریپبلکن پارٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

    اِسکبیڈی، ٹریڈ وائف، ڈی لولو، ماؤس جگلر، ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟

    روایتی طور پر ڈیموکریٹک ووٹرز ریپبلکنز کی نسبت ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے ٹرمپ کا یہ وعدہ دراصل انتخابات کے میدان کو اپنی پارٹی کے فائدے میں بدلنے کی تازہ کوشش ہے۔ انھوں نے ٹیکساس اور انڈیانا سمیت کئی ریاستوں میں ریپبلکنز پر زور دیا ہے کہ وہ کانگریسی حلقہ بندیوں کو اس انداز میں ازسرِنو ترتیب دیں کہ ریپبلکن امیدواروں کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں۔

    ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا: ’’میں ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے کے نظام کو ختم کرنے کی تحریک کی قیادت کرنے جا رہا ہوں، اور ساتھ ہی ہم بہت مہنگی، شدید متنازعہ اور حد درجہ ’غیر درست‘ ووٹنگ مشینوں سے بھی جان چھڑائیں گے۔‘‘ بعد میں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ریپبلکن پارٹی اقتدار میں رہنا چاہتی ہے تو اسے اس نئی کوشش کی حمایت کرنی ہوگی۔

  • امریکی صدر نے زیلنسکی کو یوکرین کا نیا نقشہ تھما دیا

    امریکی صدر نے زیلنسکی کو یوکرین کا نیا نقشہ تھما دیا

    واشنگٹن: وائٹ ہاؤس میں گزشتہ روز یورپی رہنماؤں اور ولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں یوکرینی صدر اس وقت حیران رہ گئے جب ٹرمپ نے انھیں یوکرین کا نیا نقشہ تھما دیا۔

    تفصیلات کے مطابق روس یوکرین جنگ بندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ بڑی بیٹھک ہوئی، جس میں امریکی صدر نے زیلنسکی کو یوکرین کا 20 فی صد چھوٹا نیا نقشہ تھما دیا۔

    نقشے میں وہ علاقے دکھائے گئے تھے جو اس وقت یوکرین میں ہیں، لیکن ان پر کنٹرول روس کا ہے، ان علاقوں کو گلابی رنگ سے نمایاں کیا گیا تھا، روس اب تک یوکرین کے بیس فیصد علاقوں پر قبضہ کر چکا ہے۔

    ٹرمپ زیلینسکی ملاقات، یوکرینی صدر کے لباس پر امریکی صدر نے کیا کہا؟

    وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے دکھائے گئے نقشے کا عنوان تھا ’’روس یوکرین تنازع کا نقشہ‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتنا فیصد علاقہ روس کے کنٹرول میں ہے یا متنازعہ زمین ہے۔

    بعد ازاں زیلنسکی نے بتایا کہ انھوں نے ٹرمپ کو نقشے پر میدان جنگ کے بارے میں کچھ تفصیلات دکھائیں، اور اس کے لیے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ یہ ایک اچھا نقشہ ہے۔ زیلنسکی نے ان سے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ اسے واپس کیسے لیا جائے۔ اس بات پر ٹرمپ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ہاں اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس سے جنگ ختم ہوگی لیکن ٹائم فریم نہیں دے سکتا، یوکرینی صدر نے کہا کہ جنگ بندی کے لیے ہمیں بین الاقوامی برادری کی مدد درکار ہے۔

    نیٹو سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے کہا کہ یوکرین کی سرحدوں پر آج کوئی بات نہیں ہوئی، جرمن چانسلر نے کہا کہ ٹرمپ سے ملاقات توقعات سے بڑھ کر رہی، یورپ کو یوکرین کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں میں عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔

    خیال رہے کہ روسی صدر نے امن معاہدے پر دستخط کے لیے ڈونباس کے باقی علاقے پر کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے۔

  • سہ فریقی مذاکرات، جرمن چانسلر اور صدر زیلنسکی کا ٹرمپ کے اعلان کا خیر مقدم

    سہ فریقی مذاکرات، جرمن چانسلر اور صدر زیلنسکی کا ٹرمپ کے اعلان کا خیر مقدم

    واشنگٹن (19 اگست 2025): یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی اور جرمن چانسلر نے سہ فریقی مذاکرات کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں اس بات پر اہم اجلاس منعقد ہوا کہ روس یوکرین جنگ کا خاتمہ کیسے کیا جائے؟ اجلاس میں یورپی رہنماؤں نے فوری جنگ بندی اور سہ فریقی مذاکرات کے آغاز پر زور دیا۔

    یوکرینی صدر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں سے ملاقات ختم ہونے کے بعد امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو میں عزم کا اظہار کیا کہ روس یوکرین جنگ رکوا کر رہیں گے، انھوں نے کہا اب تک 6 جنگیں ختم کروا چکا ہوں یہ کوئی آسان کام نہیں، پیوٹن اور زیلنسکی بھی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، معاملات ٹھیک رہے تو ہم زیلنسکی اور پیوٹن کے ساتھ سہ فریقی میٹنگ کریں گے۔

    یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ہم ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کے حامی ہیں اور سہ ملکی مذاکرات کے لیے تیار ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ یوکرین کو سیکیورٹی ضمانتوں کے معاملے پر سب کچھ چاہیے، امریکا سمیت دوست ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ہمارا ساتھ دیں۔

    روس یوکرین جنگ رکوا کر رہوں گا، صدر ٹرمپ

    جرمن چانسلر نے کہا کہ ہم یوکرین کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں، یوکرین کے لیے سیکیورٹی ضمانتوں پر پورے یورپ کو حصہ لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا سیکیورٹی ضمانت ضروری ہے، ٹرمپ کے ساتھ یہ ملاقات مددگار ثابت ہوئی لیکن اگلے مرحلے زیادہ پیچیدہ ہیں، سب یوکرین میں جنگ بندی دیکھنا چاہیں گے۔

    فرانسیسی صدر نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے خیال کی حمایت کرتے ہیں، برطانوی وزیر اعظم نے کہا سیکیورٹی ضمانتوں پر حقیقی پیش رفت کی جا سکتی ہے۔ یورپی رہنماؤں نے بھی فوری جنگ بندی اور سہ فریقی مذاکرات کے آغاز پر زور دیا۔

    خیال رہے کہ امریکی صدر نے ملاقات کے دوران زیلنسکی کو روس کے زیر قبضہ علاقوں سے دست برداری کا مشورہ دیا لیکن روئٹرز کے مطابق زیلنسکی نے ٹرمپ کا مشورہ مسترد کر دیا۔ اجلاس میں یورپی یونین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، فن لینڈ اور نیٹو سربراہان شریک ہوئے، گزشتہ ملاقات میں لباس پر تنقید کے باوجود زیلنسکی فوجی طرز کا سوٹ پہن کر آئے۔

    دریں اثنا، یوکرینی صدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ صدر ٹرمپ سے بہت اچھی بات ہوئی، ہم نے امریکا سے یوکرین کے لیے سیکیورٹی یقین دہانیوں پر زور دیا ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین سوا ارب ڈالر مالیت کا امریکی اسلحہ خریدے گا، اور کیف یوکرینی علاقوں کا کنٹرول نہیں چھوڑے گا، وہ امن معاہدے سے پہلے جنگ بندی چاہتا ہے، اور چاہتا ہے کہ تنازع کا ہرجانہ روس ادا کرے۔

  • ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ‘‘

    ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ‘‘

    واشنگٹن: امریکی میڈیا نے کہا ہے کہ آج یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کو پیغام دیں گے کہ ’’کریمیا چھوڑ دو اور نیٹو میں کبھی شامل نہ ہونے پر راضی ہو جاؤ۔‘‘

    سی این این کے مطابق یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی آج پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کریں گے، اس سلسلے میں واشنگٹن پہنچ چکے ہیں، اس ملاقات میں اہم یورپی رہنما بھی شامل ہوں گے۔

    ٹرمپ نے اس پیغام پر نظر ثانی کی ہے کہ جو وہ پیش کریں گے کہ اگر جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو زیلنسکی کو روس کی کچھ شرائط سے اتفاق کرنا ہوگا، جن میں یوکرین کا کریمیا کو چھوڑنا بھی شامل ہے اور اس بات پر بھی راضی ہوں گے کہ وہ کبھی نیٹو میں شامل نہیں ہوں گے۔

    روس پر بڑی پیشرفت ہوئی ہے انتظار کریں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    دوسری طرف اتوار دیر گئے زیلنسکی نے واشنگٹن ڈی سی پہنچنے کے بعد یوکرین کی سلامتی کی ضمانت کے لیے امید کا اظہار کیا ہے، یوکرین کے صدر نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ یوکرین یورپی رہنماؤں کی حمایت سے سلامتی کی ضمانتیں حاصل کر لے گا۔ زیلنسکی نے ایکس پر لکھا کہ ہم سب اس جنگ کو جلد اور قابل اعتماد طریقے سے ختم کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں لیکن امن پائیدار ہونا چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ روس نے جنگ کے خاتمے کو مشکل بنا دیا ہے، وہ بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر رہا ہے۔ ابھی تک یہ طے نہیں کیا کہ وہ کب قتل و غارت روکے گا، یہی چیز صورت حال کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔

  • یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے، ٹرمپ نے پیوٹن کی تجویز کی حمایت کر دی

    یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے، ٹرمپ نے پیوٹن کی تجویز کی حمایت کر دی

    واشنگٹن (17 اگست 2025): امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی اس تجویز کی حمایت کر دی ہے کہ جنگ بندی کے لیے یوکرین ڈونباس کا علاقہ چھوڑ دے اور اسے ماسکو کے حوالے کر دے۔

    فاکس نیوز کے مطابق یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی رہنما ولادیمیر پیوٹن کی اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ ماسکو کو ڈونباس کے علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھالنے دیا جائے، اس کے بدلے روس باقی علاقے چھوڑ دے گا۔

    نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں سے فون پر کہا کہ اگر یوکرینی صدر ڈونباس چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تو امن معاہدے پر بات چیت ہو سکتی ہے، اے ایف پی نے بھی رپورٹ کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ملاقات میں صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین ڈونباس کو چھوڑ دے۔

    الاسکا میں جمعہ کے روز پیوٹن سے ملاقات کے بعد، ٹرمپ نے یورپی اتحادیوں کو بتایا کہ روسی صدر نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کلیدی لوہانسک اور ڈونیٹسک خطے چاہتے ہیں، اور زاپوریژیا اور کھیرسن میں میں جنگ ختم کرنے اور اگلے مورچے خالی کرنے پر آمادہ ہیں۔

    یوکرینی جنرل نے اجلاس کو پیوٹن کی چالاکی اور ٹرمپ کی کمزوری قرار دے دیا

    خیال رہے کہ ڈونباس کی جنگ سے پہلے کی آبادی تقریباً 6.5 ملین تھی اور اس میں لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علاقے شامل ہیں۔ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اس سے قبل ڈونباس کے علاقے سے دست بردار ہونے کے خیال کو مسترد کر چکے ہیں۔

    گزشتہ روز ایک بیان میں ولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے، اور بار بار جنگ بندی کی اپیلوں کو مسترد کر رہا ہے۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا کہ جنگ کو ختم کرنے کا بہترین راستہ امن معاہدے کی طرف جانا ہے، اس سے فوری طور پر جنگ ختم ہو جائے گی، جنگ بندی کے معاہدے اکثر اوقات برقرار نہیں رہتے۔

  • جنگ بندی معاہدہ اب صدر زیلنسکی پر منحصر ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    جنگ بندی معاہدہ اب صدر زیلنسکی پر منحصر ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ

    الاسکا (16 اگست 2025): امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ روس یوکرین جنگ بندی معاہدہ اب صدر وولودیمیر زیلنسکی پر منحصر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فاکس نیوز سے گفتگو میں امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب جلد ہی صدر پیوٹن اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات ہوگی، دونوں رہنما ملاقات میں میری موجودگی بھی چاہتے ہیں۔

    انھوں نے کہا یہ سوچ غلط تھی کہ تنازعہ حل کرنا آسان ہوگا، یہ سب سے مشکل تھا، روسی صدر پیوٹن سے ملاقات مثبت رہی ہے، اور روس پر پابندیاں لگانے یا اس بارے میں اب سوچنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ یہ معاہدہ ہو جائے، ہمارے پاس اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اچھا موقع ہے۔

    خیال رہے کہ الاسکا میں امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان اہم ملاقات ہو گئی ہے تاہم اس میں جنگ بندی کا اعلان نہ ہو سکا، روسی اور امریکی وفود کے درمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ اس موقع پر امریکا کی جانب سے وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی مندوب وٹکوف جب کہ روسی وفد میں وزیر خارجہ لاوروف اور ایلچی یوری اوشاکوف بھی موجود تھے۔


    ٹرمپ پیوٹن ملاقات ختم، جنگ بندی کا اعلان نہ ہوسکا


    مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ملاقات مثبت اور تعمیری رہی، میرے اور صدر ٹرمپ کے درمیان اچھے براہ راست رابطے ہیں، مذاکرات کی دعوت دینے پر امریکی صدر کے شکر گزار ہیں۔ انھوں نے کہا پائیدار اور دیرپا امن کے لیے جنگ کی بنیادی وجوہ کو ختم کرنا ہوگا، یورپ سمیت دنیا بھر میں سلامتی کے توازن کو بحال ہونا چاہیے۔

    انھوں نے کہا 2022 میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے تو یوکرین میں جنگ کی نوبت ہی نہ آتی، سابق امریکی صدر جوبائیڈن کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ صورت حال کو تصادم کی سطح پر نہ لائیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ روسی صدر سے ملاقات کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی اور نیٹو حکام سے ٹیلی فون پر بات کروں گا۔

  • امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا

    امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حیرت انگیز اقدام کے تحت واشنگٹن ڈی سی کا سیکیورٹی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں صدر نے نیشنل گارڈز تعینات کر کے پولیس کا کنٹرول وفاق کے سپرد کر دیا ہے۔

    صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آج واشنگٹن ڈی سی میں آزادی کا دن ہے، جرائم پر قابو پانے کے لیے 800 نیشنل گارڈ کے جوان تعینات کر رہے ہیں، ڈی سی میں خون کے پیاسے مجرم اور آوارہ گرد نوجوانوں کے جتھوں نے شہریوں اور سیاحوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔

    ٹرمپ نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو براہ راست وفاقی کنٹرول میں دینے اور نیشنل گارڈ کے دستوں کو ملک کے دارالحکومت میں تعینات کرنے کی وجہ یہ قرار دی ہے کہ شہر میں امن بحال کرنا ہے۔ امریکی صدر نے بارہا ڈی سی میں بڑھتے ہوئے جرائم کے بارے میں شکایت کی ہے، لیکن اس کے برعکس امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر جرائم کی تعداد 2024 کے مقابلے اس سال کم رہی ہے۔


    الاسکا میں امریکی روسی صدور کی طے شدہ ملاقات پیوٹن کی فتح قرار


    رپورٹس کے مطابق دارالحکومت کے حکام اس اعلان سے بے خبر تھے، شہر کے محکمہ پولیس اور میئر موریل باؤزر کو ٹرمپ کے اعلان سے پہلے اس منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، ٹرمپ کے اعلان کے بعد میئر باؤزر نے اس پر تنقید کی اور اسے پریشان کن قدم قرار دیا۔

    شہر کے حکام کا اصرار ہے کہ ڈی سی میں جرائم کے رجحان میں پہلے ہی سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر ٹرمپ کے ساتھ ان کے اٹارنی جنرل، ان کے سیکریٹری دفاع اور ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل بھی ہمراہ تھے، صدر نے کہا کہ وہ پبلک سیفٹی ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں اور ان کی انتظامیہ بے گھر کیمپوں کو ہٹائے گی، انھوں نے اعلان کیا کہ ہم اپنا دارالحکومت واپس لینے جا رہے ہیں، اور کچی آبادیوں سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔