Tag: ڈپریشن

  • معمولی غلطی آپ کو ڈپریشن کا شکار بنا سکتی ہے؟

    معمولی غلطی آپ کو ڈپریشن کا شکار بنا سکتی ہے؟

    الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کا استعمال آپ کی صحت کے لئے کتنا مضر ہوسکتا ہے، شاید آپ کو اس کا اندازہ نہیں، آج کل کے بچے ہوں یا بڑے سب چپس بہت زیادہ شوق سے کھاتے ہیں، مگر اس کا استعمال آپ کی صحت کے لئے بڑی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔

    ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ”الٹرا پروسیسڈ“ کھانے سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جو آپ کو طویل پریشانی میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    محققین کی جانب سے 42 سے 62 سال کی عمر کی 31,000 سے زائد خواتین کے غذائی انتخاب اور ذہنی صحت کا تجزیہ کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار 2003 اور 2017 کے درمیان نرسوں کی صحت کے حوالے سے کیے گئے مطالعے سے حاصل کیے گئے تھے۔

    ہر چار سال بعد تمام شرکاء کو ایک فوڈ پر مشتمل سوالنامہ بھرنا تھا، جس میں انہوں نے یہ بتانا تھا کہ آیا انہوں نے الٹرا پروسیسڈ غذائیں استعمال کی ہیں یا نہیں۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈز کو اس تحقیق کے لیے نو قسموں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں الٹرا پروسیس شدہ اناج، الٹرا پروسیس شدہ ڈیری مصنوعات، لذیذ نمکین غذائیں، میٹھے اسنیکس، کھانے کے لیے تیار غذائیں، چکنائی اور چٹنی، پراسیس شدہ گوشت، مشروبات، اور مصنوعی مٹھاس وغیرہ۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈز وہ ہیں جنہیں کئی برسوں تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے، ان غذاؤں میں پرزرویٹوز، اسٹیبلائزرز، بلکنگ یا جیلنگ ایجنٹس کے ساتھ ساتھ مصنوعی رنگ اور ذائقے شامل ہوتے ہیں۔

    الٹرا پروسیسڈ فوڈز میں سوڈا، چینی سے بھرے ناشتے کے سیریلز، چپس، کینڈی، منجمد ڈنر،’چکن نگٹس اور پیک شدہ سوپ کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

    محققین نے ان دیگر عوامل کو بھی مد نظر رکھا جو جو ڈپریشن کے خطرے کو متاثر کر سکتے ہیں جیسے کہ عمر، باڈی ماس انڈیکس، جسمانی سرگرمی، تمباکو نوشی، نیند، دائمی درد، شراب نوشی، آمدنی، اور موجودہ طبی حالات۔

    نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد، محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جو افراد زیادہ مقدار میں الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر، مصنوعی مٹھاس اور مصنوعی طور پر میٹھے مشروبات، ان میں ڈپریشن کی شکایت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے دماغ جسم کے دیگر اعضاء کی نسبت اتنا کمزور تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے صحت مند اور طاقتور رہنے کے لیے صحت بخش غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دیگر غدائیں جو صحت مند نہیں ہیں اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے پتہ چلا کہ جن افراد نے الٹرا پروسیسڈ فوڈز کا سب سے زیادہ استعمال کیا ان میں ڈپریشن کا خطرہ 34 فیصد سے 49 فیصد تک بڑھ گیا۔

    محققین کا ماننا ہے کہ ان غذاؤں کو ترک کرنے یا ان کا استعمال محدود کرنے سے اس کے خطرے سے خود کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

  • مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نیشنل لائبریری آف میڈیسن (این آئی ایچ) کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فی صد تک پہنچ گئی ہے، ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں 47 فی صد تک ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن ایک ایسی مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، اس کیفیت کے شکار مریض وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف بہت حساس ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہشات اور توقعات کے بر خلاف چیزیں رونما ہوں تو وہ ان واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس کیفیت میں اگر مریض کو مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض زندگی سے بے زاری اور نا امیدی کا شکار ہو کر آخر کار خود کشی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے علاوہ معاشی تنگ دستی اور سماجی قدغن جیسے مسائل ان مریضوں کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔

    تنگ دستی اور مایوسی

    ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے پاکستان پچھلی کچھ دہائیوں سے کئی مسائل کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، جس نے پاکستانیوں کی زندگی میں لاتعداد مسائل کو جنم دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ معاشی تنگ دستی رہا ہے۔ جب انسان معاشی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف اس کی زندگی بلکہ پورے خاندان پر اس کے گہرے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔

    دنیا بھر میں مایوسی میں اضافے کا ایک سبب 2019 میں کرونا وائرس کی وبا بھی تھا، پاکستان کے مستقبل سے مایوسی نے بھی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو سب سے زیادہ شکار بنایا ہے۔ ملک میں خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان مرد و خواتین کی ہے۔ پاکستان میں نئی نسل میں اس مرض میں اضافے کا سب سے بڑا سبب معاشی و سماجی عدم تحفظ ہے، جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ اور انتشار ذہنی کے شکار ہو رہے ہیں، اور آخر کار نفسیاتی طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرتعیش زندگی گزارنے کی خواہش اور اس کی عدم تکمیل بھی مایوسی کے مرض کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس اور خبروں تک رسائی بھی پاکستانیوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ڈپریشن سے نجات کا راستہ

    ڈاکٹر اقبال ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کی بابت کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا طرز زندگی یکسر بدلنا ہوگا، انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قیمتی اشیا کے حصول کی کوشش ترک کر دیں، اور اپنی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کریں، درپیش مسائل پر اپنے سنجیدہ حلقوں میں بات کریں۔

    خاندان یا حلقہ احباب میں کسی شخص میں ڈپریشن کی علامات محسوس کریں تو اس کی کونسلنگ کریں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کا مریض اپنی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مثبت سوچ، چہل قدمی، ورزش اور خوراک کے معتدل استعمال سے بھی اس مرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

    خود کشی اور نوجوان

    اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سے 2 لاکھ 70 ہزار افراد سالانہ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں، جس میں اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    بڑے شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کے بڑھنے میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کا جنون شامل ہے، پرتعیش طرز زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، اور اس سلسلے میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھی بھولتا جا رہا ہے، جس کے باعث سماجی نظام زوال کا شکار ہے۔

    رشتوں میں فاصلہ

    ڈپریشن کے مرض میں کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں، جن میں فیملی کے افراد کے درمیان رشتوں میں فاصلہ، عدم برداشت اور تناؤ جیسے عوامل قابل ذکر ہیں، پاکستان میں یورپ کی طرز پر لاتعداد اولڈ ایج ہاؤسز کا کھلنا اس کی ایک زندہ مثال ہے۔

    ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو انقلاب آیا ہے اس کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں،

    والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے۔

    سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت پاکستان اسمارٹ فونز در آمد کرنے والے صف اول کے ممالک میں سے ایک ہے۔

  • ادھیڑ عمری میں ڈپریشن سے کیسے بچا جائے؟

    ادھیڑ عمری میں ڈپریشن سے کیسے بچا جائے؟

    اکثر دیکھا گیا ہے کہ ادھیڑ عمری میں پہنچ کر لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے سدباب کے لیے مختلف قسم کی ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے، مگر خشک میوہ جات سے بھی ڈپریشن سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، جس سے ذہنی صحت میں بھی بہتری آئے گی۔

    خشک میوہ جات کی اگر بات کی جائے تو اس میں اخروٹ، انجیر، بادام، پستہ، کاجو اس کے علاوہ دیگر ڈرائی فروٹس شامل ہیں۔

    ان کی افادیت کی اگر بات کی جائے تو ان میں وٹامنز، فائبر، پوٹاشیم، فیٹی ایسڈز اور اینٹی آکسائیڈنٹس سمیت دیگر اجزا شامل ہوتے ہیں، یہ اجزا آپ کے جسم کو مطلوب غذائی مقدار فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    برطانوی ماہرین کی جانب سے اس پر طویل تحقیق کی گئی، اس دوران 13ہزار سے رضاکاروں کی ذہنی صحت کو جانچا گیا۔

    رضاکاروں میں نصف خواتین شامل تھیں اور تمام رضاکاروں کی عمریں 55 سال سے زائد تھیں۔

    ماہرین کی جانب سے تمام رضاکاروں میں ڈپریشن کی سطح جاننے کے بعد انہیں 2013 سے 2020 تک مختلف اشیا کھانے کی تجویز دی گئی۔

    تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ 9600 رضاکاروں نے خشک میوہ جات استعمال نہیں کئے جب کہ 2800 رضاکاروں نے اس کی کم مقدار استعمال کی اور ایک ہزار سے زائد رضاکاروں نے زیادہ ڈرائی فروٹ کا استعمال کئے۔

    نتائج سے پتہ چلا کہ جو رضاکار یومیہ 30 گرام تک خشک میوہ جات استعمال کرتے تھے ان کی ذہنی صحت دیگر کے مقابلے بہتر ہوئی اور ان میں ڈپریشن کی سطح 17 فیصد تک کم پائی گئی، ماہرین کا ماننا ہے کہ 17فیصد کی سطح ایک بڑا فرق ہے۔

    تحقیق کے بعد ماہرین نے مشورہ دیا کہ ادھیڑ عمری کے بعد خشک میوہ جات کا باقاعدہ استعمال صحت کے لئے انتہائی مفید ہے، اس سے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی صحت میں واضح بہتری کے آثار پیدا ہوتے ہیں۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن اور بے چینی سے تحفظ دیں

    دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوا کہ ہماری روزمرہ کی غذا نہ صرف ہماری جسمانی صحت بلکہ، ذہنی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اور غیر متوازن غذائیں دماغی صحت کو ابتر بنا سکتی ہیں۔

    ہماری ذہنی صحت اور ہماری خوراک کے درمیان گہرا تعلق ہے، دراصل ہماری خوراک ہماری ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جس میں بے چینی بھی شامل ہے۔

    کچھ کھانے ہماری بے چینی کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق جن کھانوں میں ٹرپٹوفان ہوتا ہے وہ بے چینی سے نمٹنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔

    ٹرپٹوفان امینو ایسڈ ہے جو جسم میں سیروٹونن پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، یہ وہ کیمیکل ہے جو موڈ اور جذبات کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    اسی طرح جن کھانوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں وہ بے چینی کو کم کرنے میں کافی مددگار ہوتے ہیں، یہ جسم میں سوزش بھی کم کرتے ہیں جس کا تعلق بے چینی سے
    ہے۔

    آئیں جانتے ہیں وہ کون سے کھانے ہیں جو بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    سالمن

    اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھرپور سالمن مچھلی دماغ میں سوزش کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور دماغ کو صحت مند رکھتی ہے، یہ موڈ اور جذبات کو ٹھیک کرنے اور بے چینی کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    ڈارک چاکلیٹ

    ڈارک چاکلیٹ میں فلیوونائیڈز ہوتے ہیں جو دماغ کو ٹھیک طرح سے کام کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور سوزش کو کم کرتے ہیں، اس میں میگنیشیئم بھی ہوتی ہے جو کہ بے چینی کی سطح کو کم کرتی ہے۔

    بلو بیریز

    بلو بیریز اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ دباؤ کو کم کرتے اور سکون کو بڑھاتے ہیں۔

    ہلدی

    ہلدی میں کرکیومن ہوتی ہے جس میں سوزش کم کرنے والی خصوصیات ہوتی ہیں جس سے دماغ بہتر انداز میں کام کرتا ہے اور اس سے بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    بادام

    بادام میگنیشیئم کا بہترین ذریعہ ہیں، جس سے مزاج میں بہتری اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے، یہ فائدہ مند چربی اور پروٹین سے لبریز ہوتے ہیں جس سے خون میں شوگر کی سطح برقرار رہتی ہے اور سکون ملتا ہے۔

    گل بابونہ کی چائے

    گل بابونہ کی چائے سے بے چینی کم ہونا ثابت ہے اور اس سے بہتر نیند آتی ہے، اس میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جس سے سوزش میں کمی ہوتی ہے اور دماغ بہتر کام کرتا ہے۔

    پالک

    پالک میں غذائی اجزا ہوتے ہیں جیسا کہ میگنیشیئم، وٹامن سی اور فولیٹ جن سے مزاج میں بہتری آتی ہے اور بے چینی میں کمی ہوتی ہے۔

    کیفیر

    کیفیر ڈیری مشروب ہے جس میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جس سے جسم کی طاقت بہتر ہوتی ہے اور بے چینی میں کمی آتی ہے۔ اس میں سیروٹونن ہوتا ہے جو مزاج کو بہتر بناتا ہے اور جسم میں سکون پیدا کرتا ہے۔

  • کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    کون سی غذائیں ڈپریشن سے نجات دلا سکتی ہیں

    ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جس کا شکار اکثر افراد ہوجاتے ہیں، ڈپریشن محض دماغ تک محدود رہنے والا مرض نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں جسم بھی متاثر ہوتا ہے۔

    کچھ غذاؤں کا استعمال کر کے آپ اس سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔

    ماضی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق صحت کے لیے مفید غذاؤں کے استعمال سے ڈپریشن کے شکار افراد میں بیماری کی علامات کی شدت میں کمی آتی ہے۔

    اس مقصد کے لیے غذائی اجزا سے بھرپور غذاؤں کا زیادہ جبکہ جنک فوڈ اور میٹھے کا کم از کم استعمال کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کا شکار افراد اپنی غذا سے اس بیماری کی علامات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

    کچھ تحقیقی رپورٹس کے مطابق غذا میں سیلنیئم کا استعمال بڑھانے سے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ انزائٹی کی شدت میں کمی آتی ہے، یہ جز سالم اناج، سی فوڈ اور کلیجی میں پایا جاتا ہے جبکہ اس کے سپلیمنٹس بھی دستیاب ہیں۔

    اس کے علاوہ مچھلی، کلیجی، انڈوں اور دودھ کا بھی استعمال کریں جبکہ پھلوں، سبزیوں اور گریوں پر مشتمل غذا میں اینٹی آکسائیڈنٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس سے ڈپریشن کی علامات سے نجات بھی ملتی ہے۔

    اسی طرح فولک ایسڈ کے حصول کے لیے سبز پتوں والی سبزیاں، پھل یا ان کے جوس، گریاں، پھلیاں، دودھ سے بنی مصنوعات، انڈے، سی فوڈ اور سالم اناج کا استعمال کرنا چاہیئے۔

  • کیا ہاضمے کے مسائل بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتے ہیں؟

    کیا ہاضمے کے مسائل بھی ڈپریشن کا سبب بن سکتے ہیں؟

    ڈپریشن اور بے چینی کا عارضہ آج کل کی زندگی میں عام بن چکا ہے، تاہم ماہرین نے اس کی ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اریٹیبل باؤل سینڈروم جسے (آئی بی ایس) کہا جاتا ہے اور دماغی عوارض جیسے بے چینی اور ڈپریشن کے درمیان ایک ربط کا انکشاف ہوا ہے۔

    یہ سنڈروم نظام ہاضمہ کا ایک ایسا مرض ہے جو آنتوں کے افعال متاثر ہونے کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ایک دائمی عارضہ ہے جو دنیا کی تقریباً 15 فیصد آبادی کو متاثر کرتا ہے۔

    اس مرض میں مریض پیٹ میں تکلیف، پیٹ پھولنے، گیس اور ہیضے جیسی کیفیات کا سامنا کرتا ہے جبکہ قبض کی شکایت بھی ہوسکتی ہے جو طویل عرصے تک جاری رہ سکتی ہے، تاہم طرز زندگی میں معمولی تبدیلیاں اور گھریلو ٹوٹکے اس مرض سے نجات میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

    یہ تحقیق آئی بی ایس کے مریضوں میں ان کی مجموعی صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنانے اور نفسیاتی امراض کا جائزہ لینے اور ان کا علاج کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے۔

    ماہرین نے آئی بی ایس اور ڈپریشن کے درمیان تعلق کو جاننے کے لیے تین سال کی مدت کے دوران 4 ہزار امریکی اسپتالوں سے 1.2 ملین سے زیادہ آئی بی ایس کے مریضوں کے اسپتالوں میں داخل ہونے کا جائزہ لیا۔

    تحقیق میں ان مریضوں میں 38 فیصد کو پریشانی اور 27 فیصد سے زیادہ میں ڈپریشن کو نوٹ کیا گیا۔

    عام افراد کی نسبت آئی بی ایس مریضوں میں بے چینی، ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، خودکشی کے خیال اور غذائی خرابی سمیت نفسیاتی مسائل کا پھیلاؤ نمایاں طور پر زیادہ تھا۔

    یونیورسٹی آف میسوری میں کلینکل میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر، مرکزی محقق زاہد اعجاز تارڑ کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ دماغ اور آنتوں کے درمیان تعلق دو طرفہ ہے جیسے کہ آئی بی ایس کی علامات اضطراب اور افسردگی کا سبب بنتی ہیں اور دوسری طرف، نفسیاتی عوامل آئی بی ایس کی علامات کا باعث بنتے ہیں۔

    اسی لیے طبی پیشہ ور افراد کو ان دونوں عوامل کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔

    آئی بی ایس کے مریضوں کا اگر علاج نہ کیا جائے تو ان میں نفسیاتی عارضے جنم لینے لگتے ہیں جس سے ان کے علاج کا معاشی بوجھ بڑھ سکتا ہے۔

    آئی بی ایس میں میسنٹری جھلی جو آنتوں کو ایک ساتھ رکھتی ہے، جسم میں عصبی خلیوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔

    جب وہ اعصاب تحریک پیدا کرنے لگتے ہیں، تواس سے آنتوں کی حرکات متاثر ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں آئی بی ایس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، غیر صحت مند طرز زندگی بھی اس میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • سیلاب متاثرین کو ڈپریشن سے نکالنے کے لیے حکومت سندھ کا اقدام

    سیلاب متاثرین کو ڈپریشن سے نکالنے کے لیے حکومت سندھ کا اقدام

    کراچی: صوبہ سندھ میں سیلاب متاثرین کے نفسیاتی و ذہنی علاج کے سیشنز منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا مقصد سیلاب متاثرین کو ڈپریشن سے نکالنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں سیلاب میں جانی و مالی نقصانات کے باعث شدید ذہنی دباؤ کا شکار سیلاب متاثرین کے سائیکالوجیکل سیشنز کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سیشنزکا مقصد سیلاب متاثرین کو ڈپریشن سے نکالنا ہے۔

    اس کے لیے سندھ حکومت نے لیڈی ہیلتھ سپروائزر اور ورکرز کی خدمات حاصل کی ہیں، سندھ حکومت نے 370 ایل ایچ ایس اور 10 ہزار 992 ایل ایچ ڈبلیو کی خدمات لی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے 12 سیلاب زدہ اضلاع میں سائیکالوجیکل سیشنز منعقد ہوں گے۔

    ان میں میرپور خاص، خیرپور، سانگھڑ، نوشہرو فیروز، بدین، شہید بے نظیر آباد، دادو، جامشورو، جیکب آباد، قمبر، لاڑکانہ اور شکار پور کے اضلاع شامل ہیں جن میں موجود سیلاب متاثرین کے سائیکالوجیکل سیشنز ہوں گے۔

  • ’شدید ڈپریشن کا شکار ہو کر کئی بار خودکشی کا سوچا‘

    ’شدید ڈپریشن کا شکار ہو کر کئی بار خودکشی کا سوچا‘

    معروف گلوکارہ اور اداکارہ سلینا گومز کا کہنا ہے کہ وہ اس قدر شدید ڈپریشن کا شکار تھیں کہ کئی بار خودکشی کے بارے میں بھی سوچا، لیکن اس پر عمل کرنے کی ان کی ہمت نہیں ہوئی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی گلوکارہ و اداکارہ سلینا گومز نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جب وہ ذہنی مسائل اور ڈپریشن کا شکار تھیں تب انہوں نے کئی بار خودکشی کرنے کا سوچا جبکہ انہیں یہ بھی ڈر ہوگیا تھا کہ اب وہ کبھی ماں نہیں بن پائیں گی۔

    سلینا گومز نے اکتوبر 2020 میں اعتراف کیا تھا کہ وہ کرونا کی وبا کے آغاز میں ہی ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھیں، تاہم اب انہوں نے شوبز میگزین رولنگ اسٹون کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا ہے کہ 2018 میں بھی وہ ڈپریشن کا شکار ہوئی تھیں۔

    طویل انٹرویو میں گلوکارہ نے بتایا کہ ابتدائی طور پر 2018 میں ڈپریشن کا شکار ہوئی تھیں اور پہلے کافی عرصے تک وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوئیں کہ وہ بھی ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق ان کا ڈپریشن اس قدر سنگین ہوگیا تھا کہ وہ بات کرتے کرتے الفاظ بھول جاتی تھیں، انہیں یہ یاد تک نہیں رہتا تھا کہ وہ کس مسئلے پر بات کر رہی تھیں اور وہ کہاں تھیں؟

    انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن کے باعث ان کے رویوں میں تبدیلی آگئی تھی اور انہیں سمجھنے میں کافی وقت لگا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہیں۔

    گلوکارہ کے مطابق جب انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو چکی ہیں تو اپنا علاج شروع کروایا مگر علاج سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ الٹا انہیں ایسا لگنے لگا کہ وہ مرجائیں گی اور اگر وہ مر بھی گئیں تو دنیا پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

    سلینا گومز کے مطابق کافی عرصے تک ڈپریشن کا علاج کروانے کے بعد ایک دن انہوں نے ایک مشہور اسپتال کا دورہ کیا، جہاں کے ماہر معالج نے ان کی تمام دوائیاں بند کر کے انہیں صرف دو دوائیاں دیں اور پھر آہستہ آہستہ وہ بہتر ہونے لگیں۔

    انہوں نے تسلیم کیا کہ بہتر معالج ہی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی ان ہی کی دوائیوں سے بہتر ہوئیں۔

    ان کے مطابق جب وہ شدید ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار تھیں تب وہ اپنی ایک سہیلی سے ملنے گئیں جو کافی عرصے سے حاملہ ہونے کی کوشش کر رہی تھیں مگر ذہنی مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا تھا، اس وقت انہیں بھی یہ خیال آیا کہ اب وہ بھی کبھی ماں نہیں بن سکیں گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Selena Gomez (@selenagomez)

    سلینا گومز کے مطابق اسی دوران انہوں نے یہ بھی خیال آیا کہ اگر وہ خود جسمانی طور پر ماں نہیں پائیں گی تو ان کے پاس ماں بننے کے اور کئی راستے موجود ہیں۔

    انہوں نے طویل انٹرویو میں یہ بات بھی تسلیم کی کہ ڈپریشن کے کم ہونے کے بجائے بڑھنے کی وجہ سے وہ کافی عرصے تک بار بار خودکشی کرنے کا سوچتی رہیں مگر انہیں ایسا کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی۔

    علاوہ ازیں انہوں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی اپنی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم سلینا گومز: مائے مائنڈ اینڈ می میں بھی ڈپریشن پر کھل کر بات کی اور ساتھ ہی سنہ 2018 میں سابق بوائے فرینڈ جسٹن بیبر سے علیحدگی کو اپنی زندگی کی سب سے بہترین چیز بھی قرار دی۔

    ان کی زندگی پر بنائی گئی دستاویزی فلم کو اسٹریمنگ ویب سائٹ ایپل پلس ٹی وی پر ریلیز کیا گیا، جس میں انہوں نے جسٹن بیبر سے معاشقے، ان سے تعلقات ختم ہونے سمیت ڈپریشن اور اپنی شہرت یافتہ زندگی پر کھل کر باتیں کیں۔

  • ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    ڈپریشن کے لیے ایک اور دوائی سامنے آگئی

    دنیا بھر میں استعمال کی جانے والی مشروم کی ایک خاص جڑی بوٹی کو ڈپریشن اور دیگر ذہنی مسائل کے لیے نہایت فائدہ مند پایا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مشرومز کے خصوصی مرکب سائلو سائبن جسے پھپھوندی بھی کہا جاتا ہے سے تیار کی گئی دوائی کے دوسرے ٹرائل کے نتائج بہترین آنے پر ماہرین نے اسے مستقبل کی حیران کن دوائی قرار دیا ہے۔

    ماہرین نے سائلو سائبن سے تیار کی گئی گولیوں کو آزمانے کے لیے برطانیہ، یورپ اور لاطینی امریکا کے 22 علاقوں کے 233 رضا کاروں کی خدمات حاصل کیں۔

    ماہرین نے ان رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں جن میں شدید ڈپریشن تھا اور ان کا مرض ادویات یا تھراپی کے سیشن لینے کے بعد بڑھ جاتا تھا۔

    ماہرین نے رضا کاروں کو 3 مختلف گروپس میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک گروپ کو یومیہ ایک ملی گرام، دوسرے گروپ کو 10 ملی گرام جبکہ تیسرے گروپ کو 25 ملی گرام کی گولیاں دیں۔

    تمام رضا کاروں کو گولیاں دینے کے بعد انہیں تھراپی سیشن لینے کے لیے بھی کہا گیا اور تین ماہ تک ماہرین نے رضاکاروں کے ٹیسٹس کرنے سمیت ان کے دماغ کی لہریں اور رویوں کو بھی پرکھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق کے اختتام پر ان افراد کو زیادہ پر سکون پایا گیا، جنہوں نے زیادہ گرام پر مشتمل خوراک لی تھی، یعنی ایک اور 10 گرام مقابلے 25 گرام کا ڈوز لینے والے افراد کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔

    ماہرین کے مطابق گولیاں لینے کے بعد تھراپی سیشن والے افراد میں 6 گھنٹے تک ڈپریشن دور ہوگیا اور ان کے رویہ بھی بہتر ہوا اور انہوں نے پرسکون ماحول میں موسیقی سننے سمیت دوسرے کام سر انجام دیے۔

    ماہرین نے مشرومز کی جڑی بوٹی سائلو سائبن سے تیار کی گئی دوا کو جادوئی دوا قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سے ڈپریشن جیسے عام مرض پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور اس دوائی کے تھراپی کے ساتھ حیران کن نتائج مل سکتے ہیں۔

  • ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    ڈپریشن ۔ کمزور کردینے اور خاموشی سے جان لینے والا مرض

    دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، اور اقوام متحدہ نے اسے عالمی وبا قرار دیا ہے، ڈپریشن کی علامات کو جاننا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ اپنے قریبی افراد کو اس صورتحال سے بچا سکیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یاسیت یا ڈپریشن عالمی وبا کا روپ اختیار کر چکی ہے جبکہ دوسری جانب ہماری ادویات اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ناکام ہو رہی ہیں، یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس کے لیے کوئی ٹیسٹ یا آلہ نہیں ہے جو اس کی درست پیمائش کر کے یہ جان سکے کہ مریض کس حال میں ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ یہ مریض کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے اور انسان مستقل افسردگی کی حالت میں رہتا ہے، ایسے افراد کبھی کبھی لوگوں کے سامنے زیادہ ہنس رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنی اداسی اور اندر کی کیفیت کو چھپا سکیں۔

    ڈپریشن ایک طرح کا ماسک ہے، آپ اسے آسانی سے پہچان نہیں سکتے اور یہ ایک طرح کا خاموش قاتل ہے۔

    ڈپریشن نے دنیا بھر میں 350 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے اور یہ افراد دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے، یہی وجہ ہے کہ خودکشی جیسے رجحان میں تیزی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چونکہ یہ مرض اتنی آسانی سے سامنے نہیں آتا اسی لیے اس کی تشخیص بھی نہیں کی جاتی اس طرح یہ سنگین ہوتا جاتا ہے۔

    اس کی علامات کی اگر بات کی جائے تو ڈپریشن میں مبتلا شخص ہمیشہ اداس رہتا ہے، گھر، اسکول اور دفتر میں اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہونے لگتی ہے جبکہ اس کی سنگین حالت انسان کو خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔

    دنیا بھر میں صرف ڈپریشن کی وجہ سے سالانہ 10 لاکھ اموات ہوتی ہیں، اس لیے ڈپریشن کی علامات کو جاننا نہایت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنے خاندان اور دوستوں کو اس مرض سے نجات دلا سکیں۔

    علامات

    اچانک موڈ میں تبدیلی، عام طور پر بہت اداس ہونا یا خوش اور پرسکون دکھائی دینا

    چڑچڑا پن یا پریشانی میں اضافہ

    توجہ مرکوز کرنے میں دشواری اور بھول جانا

    موت کے بارے میں مسلسل بات کرنا یا سوچنا

    اپنے آپ کو مارنے کے بارے میں بات کرنا

    گہری اداسی، نیند میں خلل یا سونے میں دشواری کا سامنا کرنا

    کسی بھی چیز میں دلچسپی نہ لینا

    کھانے میں مسائل کا سامنا کرنا

    ایسے خطرات مول لینا جو موت کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا

    بے کاری کا احساس

    اگر یہ علامات کسی میں بھی موجو ہوں تو اسے چاہیئے کہ اپنے اہلخانہ، قریبی دوست اور احباب سے رابطہ کرے اور اپنی کیفیات سے آگاہ کرے۔ خود کو تنہائی یا الگ تھلگ کرنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔

    ساتھ ہی طبی مدد بھی طلب کریں، ڈپریشن کا علاج موجود ہے لہٰذا اس مقصد کے لیے کسی مستند معالج سے رابطہ کریں تاکہ مریض کی علامات کو دیکھ کر ادویات دی جاسکیں۔