Tag: ڈپریشن

  • شدید ڈپریشن کا شکار بھارتی اداکارہ اداکاری چھوڑ کر گاؤں منتقل ہوگئیں

    شدید ڈپریشن کا شکار بھارتی اداکارہ اداکاری چھوڑ کر گاؤں منتقل ہوگئیں

    نئی دہلی: بھارت کی معروف ٹی وی اداکارہ اپنے والد کی موت کے بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئیں جس کے بعد انہوں نے اداکاری چھوڑ کر گاؤں میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹی وی اداکارہ رتن راجپوت سنہ 2018 میں اپنے والد کی موت کے بعد شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھیں، طویل عرصے تک اس کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہنے کے بعد انہوں نے نفسیات پڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    بعد ازاں وہ شہری زندگی چھوڑ کر ایک گاؤں میں منتقل ہوگئی تھیں۔

    گاؤں منتقل ہونے کے بعد انہوں نے اپنا رہن سہن بھی بالکل سادہ کرلیا، وہ کھیتی باڑی کر کے اپنا وقت گزار رہی ہیں۔ اس دوران انہوں نے اپن زندگی کی کئی ویڈیوز بھی شیئر کیں۔

    رتن گزشتہ 4 سال سے اداکاری اور انڈسٹری سے دور ہیں۔

    ایک انٹرویو میں رتن نے بتایا تھا کہ والد کی موت کے بعد میں نے سب کچھ کھو دیا تھا اور شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھی، میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ ڈپریشن صرف موڈ سوئنگس یا پھر رونا نہیں ہے، ڈپریشن میں انسان کو کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن سے نجات کے لیے وہ کسی دوائی کا سہارا نہیں لینا چاہتی تھیں، انہوں نے کچھ وقت کے لیے ممبئی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور پھر گاؤں کی زندگی کو دریافت کرنا شروع کیا۔

    رتن کا کہنا ہے کہ فطرت کے قریب رہنے سے ان کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور ان کا ڈپریشن بھی کم ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ اب تک کئی سائنسی تحقیقات میں ثابت ہوچکا ہے کہ فطرت کے قریب زندگی گزارنا ذہنی صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول، کھلی ہوا اور درختوں یا پہاڑوں کے درمیان وقت گزارنا ڈپریشن سمیت کئی ذہنی امراض کی کمی میں مدد کرتا ہے، اور فطرت کے قریب وقت گزارنے والے، شہروں میں زندگی گزارنے والوں کے برعکس نہایت خوش باش رہتے ہیں۔

  • کیا آپ کا وزن بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے؟ آج وجہ بھی جان لیں

    کیا آپ کا وزن بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے؟ آج وجہ بھی جان لیں

    وزن میں اضافہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے بہت سے لوگ پریشان رہتے ہیں۔اگر آپ جسمانی وزن میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ناکامی کا سامنا ہے تو اس کی وجہ آپ خود بھی ہوسکتے ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی متعدد عادات ایسی ہوتی ہیں جو اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں اور آپ کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔

    اب آپ وزن بڑھنے کے بعد پریشانی کا سامنا کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ وزن بڑھنے کی وجوہات جان لیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

    ڈپریشن

    طبی سائنس کے مطابق دماغی صحت کی کیفیات جیسے ڈپریشن کھانے پینے کی اشتہا میں تبدیلیاں لاتی ہیں، جس کا نتیجہ جسمانی وزن میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔

     اگر آپ کو بہت زیادہ اداسی کا سامنا ہو اور یہ احساس مسلسل برقرار رہے تو کسی ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں، اس کی دیگر علامات میں عزم کا نہ ہونا اور ناتوانی کا احساس بھی قابل ذکر ہیں۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 350 ملین افراد ڈپریشن کا شکار ہے، وقت پر کام مکمل کرنے کا دباؤ بھی وزن میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

    تھائیرائیڈ گلینڈ

    صحت مند جسم کے لیے تھائی رائیڈ گلینڈ کا مناسب طریقے سے کام کرنا ضروری ہے، تھائیرائیڈ کا مناسب طرح سے کام نہ کرنے کے وجہ سے بھی وزن میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ اس کے صحیح کام نہ کرنے سے صحت کے دیگر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

    کھانے میں مصنوعی رنگ کا استعمال

    کھانے کو دلکش بنانے کے لیے اس میں مصنوعی رنگ کا استعمال کرنے سے بھی وزن بڑھتا ہے، اس لیے زیادہ تر قدرتی غذا استعمال کرنا چاہیے۔

    غیر ضروری ادویات کا استعمال

     

    بعض دفعہ ہم ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کے لیے ادویات کا استعمال کرتے ہیں، اس ادویات کی غیر ضروری استعمال سے بھی بچنا چاہیے اس کے باعث بھی وزن بڑھتا ہے۔

    دیر تک بیٹھنا

    سست طرز زندگی بغیر کسی احساس کے موٹاپے کی جانب سفر تیز کردیتا ہے۔ مختلف طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق بہت زیادہ وقت تک دفتر میں بیٹھے رہنا موٹاپے کا باعث بنتا ہے، اس سے بچنے کے لیے وقفوں کو ترجیح بنائیں اور دوپہر کے کھانے کے وقت لمبی چہل قدمی پر نکل جائیں۔

    نیند پوری نہ ہونا

    مناسب آرام زندگی کے ہر پہلو میں بہتری لانے کا باعث بنتا ہے جن میں موٹاپے کی روک تھام بھی شامل ہے۔

     طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق نیند کی کمی جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے جبکہ اچھی نیند کے نتیجے میں اضافی وزن کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    مشروبات

    ڈائٹ مشروبات بنانے والی کمپنیاں اسے صحت بخش آپشن قرار دیتی ہیں مگر ایسا ہوتا نہیں۔

     مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ کیلوری سے پاک اور مصنوعی مٹھاس سے تیار شدہ مشروبات درحقیقت جسمانی وزن میں اضافے اور چینی کی خواہش بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

    جنک فوڈ کا استعمال

    اگر آپ ڈائٹنگ اور ورزش کے بعد تلے ہوئے چپس اور برگر کھانا اپنا حق سمجھتے ہیں تو موٹاپے کی روک تھام کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں۔

     ریسٹورنٹ کی غذاﺅں کے بجائے گھر میں بنے پکوانوں کو ترجیح دینا صحت مند وزن کے لیے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

  • پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    فطرت کے قریب رہنا انسان کی ذہنی صحت پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، اور حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی تصدیق کردی جس میں دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ سننے سے لوگوں کے ڈپریشن میں کمی واقع ہوئی۔

    جرمنی میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پرندوں کی چہچہاہٹ انسانی کانوں کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتی ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ بھی ایسا ہی اثر کرتی ہے۔

    نیچر پورٹ فولیو نامی جریدے کی سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ انسانی صحت پر ہلکی یا تیز آوازوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے انہوں نے ٹریفک کے شور و غل سے لے کر پرندوں کی سریلی چہچہاہٹ تک مختلف آوازوں پر تجربہ کیا۔

    مذکورہ تحقیق کو 295 شرکا پر 6 منٹ تک آوازیں سنا کر آن لائن تجربہ کیا گیا، ان آوازوں میں ہلکی اور تیز ٹریفک کے شور کی آوازیں اور ہلکی اور تیز پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں شامل تھیں۔

    ان آوازوں کو سننے کے بعد شرکا سے اداسی، اضطراب پاگل پن اور وسوسوں کے حوالے سے سوال نامے پر کروائے گئے۔

    جوابات سے دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ اور قدرتی ماحول انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور ذہنی صحت کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتا ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ میں بھی ایسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتی دنیا کے باعث قدرتی ماحول ناپید ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات انسانی صحت پر ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا تیزی سے گلوبل ویلج بن رہی ہے، ہم جس ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

    ماہرین کے اندازے کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا کی تقریباً 70 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی جبکہ اب بھی دنیا کے بعض خطوں جیسے یورپ میں قبل از وقت ہی تعداد مذکورہ حد سے تجاوز کر چکی ہوگی۔

  • ڈپریشن کے مریضوں کیلئے آسان اور آزمودہ نسخہ

    ڈپریشن کے مریضوں کیلئے آسان اور آزمودہ نسخہ

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراھٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو شاید آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    اگر یہ کیفیت بہت دیر تک برقرار رہے تو انسان کو زندگی سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے جسے طبی اصطلاح میں ’کلینیکل ڈپریشن‘ کہتے ہیں۔

    اگرچہ یہ بات کئی لوگ تسلیم نہیں کرتے لیکن ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس بیماری سے کیسے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اس کے لیے ماہرین نے مریضوں کی مشکل آسان کردی۔

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تازہ تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ وٹامن بی سکس اور بی 12 کی وافر مقدار ڈپریشن کو ختم کرنے میں مددگار ہوتی ہے جب کہ ان سے بینائی بھی بہتر ہوتی ہے۔

    وٹامن بی 6 اور بی 12 سمیت وٹامن بی کی دیگر اقسام کو ہڈیوں کی مضبوطی سمیت انسانی جسم کے اعصاب اور خاص طور پر دماغی نظام کے لیے بہتر سمجھی جاتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق وٹامن بی 6 اور بی 12 کی کمی انسانی دماغی نظام میں پائے جانے والے ایک خاص کیمیکل کا سبب بنتی ہے، جس سے انسانی دماغی نظام متاثر ہوتا ہے۔

    مذکورہ وٹامنز کی کمی کے باعث کیمیکل کی قلت خصوصی طور پر ڈپریشن یا چڑچڑے پن کا سبب بنتی ہے جب کہ اس سے بینائی بھی متاثر ہوتی ہے، جس سے انسان ہر وقت بیزارگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران یہ دیکھا کہ وٹامن بی 6 اور بی 12 کی کمی سے دماغی نظام کے لیے اہم سمجھے جانے والے خصوصی کیمیکل کی قلت کو کیسے پورا کیا جائے۔

    اس لیے ماہرین نے 478 رضاکاروں کو تحقیق کے لیے بھرتی کیا اور تمام رضاکاروں نے خود کو ڈپریشن کا شکار شخص قرار دیا تھا۔

    ماہرین نے تحقیق کے دوران رضاکاروں کو تین حصوں میں تقسیم کرکے کچھ افراد کو وٹامن بی 6، کچھ کو وٹامن بی 12 جب کہ باقیوں کو فرضی دوائی دی اور یہ عمل ایک ماہ تک دہرایا گیا۔

    آخر میں ماہرین نے تمام رضاکاروں سے سوالات کرنے کے علاوہ ان کی بینائی سمیت دیگر طرح کے ٹیسٹ بھی کیے۔

    طبی جریدے ’ہیومن سائکوفارموکولاجی‘ میں شائع تحقیق کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو وٹامن بی 6 کی اچھی خوراک دی گئی تھی، ان میں ڈپریشن کی سطح نمایاں طور پر کم ہوئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ وٹامن بی 12 کی خوراک لینے والے افراد نے بھی ڈپریشن کی سطح کم ہونے کی تصدیق کی جب کہ جنہیں فرضی دوائی دی گئی انہوں نے ڈپریشن میں کسی طرح کی تبدیلی نہ ہونے کا بتایا۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر ڈپریشن کے شکار افراد بی 6 اور بی 12 کی خوراک لیں تو وہ ڈپریشن سے بچ سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر لوگ دونوں وٹامنز سے بھرپور غذائیں نہیں کھاتے تو انہیں طبی ماہرین کی ہدایت کے مطابق وٹامن بی 6 اور بی 12 کی گولیاں کھانی چاہئیے۔

    واضح رہے کہ کیلے، چنے، مرغی، پپتے، کلیجی، بیف، دہی، دودھ اور انڈوں سمیت مچھلی میں مذکورہ دونوں وٹامنز پائی جاتی ہیں، ان کے علاوہ دیگر سبزیوں اور پھلوں میں بھی یہی وٹامنز پائی جاتی ہیں۔

  • ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ذہنی امراض کی ایک عام قسم بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی، ماہرین نے اس سلسلے میں اہم تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس، سوئٹزر لینڈ اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے برسوں کی محنت کے بعد ایک بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے جو پائی پولر ڈس آرڈر کی کیفیت شناخت کرسکتا ہے، اس سے دنیا بھر کے کروڑوں مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

    پیرس کی یونیورسٹی آف مونٹ پیلیئر، سوئٹزر لینڈ میں واقع لیس ٹوائسس سائیکائٹری مرکز، اور امریکا میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ سمیت فرانس کی ایک بائیو ٹیکنالوجی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی خون میں 6 بائیو مارکر یا اجزا ایسے ہیں جو بائی پولر ڈس آرڈر کو ظاہر کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے اسی بنا پر ایک آسان بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے، توقع ہے کہ اس طرح نہ صرف کروڑوں افراد مستفید ہوں گے بلکہ ان میں بائی پولر اور یونی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن کی شناخت بھی آسان ہوجائے گی۔

    بائی پولر ڈس آرڈر میں موڈ اور مزاج تیزی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کبھی بے پناہ خوشی، کبھی غیر معمولی اداسی اور کبھی ڈپریشن یا گہری سنجیدگی کا راج ہوتا ہے۔

    یہ رویہ اس شخص کے اطراف رہنے والے لوگوں اور اہلخانہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی شخصیت اور مزاج کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔

    ماہرین کے مطابق بائی پولر ڈس آرڈر کو کونسلنگ کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے، بعض مریضوں میں تو اس کی شناخت 5 یا 7 برس تک نہیں ہو پاتی اور یوں معاملہ تیزی سے بگڑتا جاتا ہے۔

    توقع ہے کہ خون میں 6 بائیو مارکرز سے اس کیفیت کی شناخت اور علاج میں مدد ملے گی۔

  • ڈپریشن اور انسان کی معصومیت

    ڈپریشن اور انسان کی معصومیت

    ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈپریشن کے مرض سے پریشان ہیں۔ کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوف ناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے۔

    ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔

    پرسوں ہی جب میں نے بابا جی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ڈپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ “ بونگیاں “ مار لیا کرے۔ یعنی ایسی باتیں کریں جن کا مطلب اور معانی کچھ نہ ہو۔ جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے:

    “ مور پاوے پیل سپ جاوے کُھڈ نوں بگلا بھگت چک لیاوے ڈڈ‌ نوں تے ڈڈاں دیاں لکھیاں نوں کون موڑ دا “
    (مور ناچتا ہے جب کہ سانپ اپنے سوراخ یا گڑھے میں جاتا ہے۔ بگلا مینڈک کو خوراک کے لیے اچک کر لے آتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے)۔

    ہم کو زمانے نے اس قدر سنجیدہ اور سخت کر دیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے باقی امور تو دور کی بات ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنے کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے۔ وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے، جب کہ بونگی کسی وقت بھی ماری جاسکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے خوب صورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

    بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

    عقل کو رسیوں سے جکڑنا نہیں اچھا جب تک عقل کو تھوڑا آزاد کرنا نہیں سیکھیں گے۔ ہماری کیفیت رہی ہے جیسی گزشتہ 53 برسوں میں رہی ہے۔ صوفیائے کرام اور بزرگ کہتے ہیں کہ جب انسان آخرت میں پہنچے گا اور اس وقت ایک لمبی قطار لگی ہو گی۔ اللہ تعالٰی وہاں موجود ہوں گے، وہ آدمی سے کہے گا کہ “اے بندے میں نے تجھے معصومیت دے کر دنیا میں بھیجا تھا وہ واپس دے دے اور جنّت میں داخل ہو جا۔“

    جس طرح گیٹ پاس ہوتے ہیں اللہ یہ بات ہر شخص سے پوچھے گا، لیکن ہم کہیں گے کہ یا اللہ ہم نے تو ایم-اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی بڑی مشکل سے کیا ہے، لیکن ہمارے پاس وہ معصومیت نہیں ہے، لیکن خواتین و حضرات! روحانی دوا میں معصومیت وہ اجزائے ترکیبی یا نسخہ ہے جس کا گھوٹا لگے گا تو روحانی دوا تیار ہو گی۔

    (اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے)

  • کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟

    کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟

    بوسٹن: کیا سخت گرمی یاسیت، ڈپریشن اور منشیات کی لت میں مبتلا کر سکتی ہے؟ امریکا میں ہونے والے ایک وسیع سطح کے تحقیقی مطالعے میں ماہرین نے ہیٹ اسٹروک اور دماغی امراض کے درمیان تعلق دریافت کر لیا ہے۔

    یہ تحقیق امریکی جریدے جاما سائیکیٹری میں شائع ہوئی، اور یہ تحقیق بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی پبلک ہیلتھ کی پروفیسر امروتا شرما اور دیگر نے کی ہے۔ محققین کا نتائج کے حوالے سے کہنا ہے کہ سخت گرمی اور ہیٹ اسٹروک سے دماغی عوارض اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔

    اس تحقیق سے قبل بھی ریسرچ اسٹڈیز میں کسان، چرواہوں اور مچھیروں کے حوالے سے آب و ہوا میں تبدیلی اور دماغی تناؤ، نفسیاتی عوارض کے درمیان تعلق کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔

    موجودہ تحقیقی سروے میں لگ بھگ 20 لاکھ امریکیوں کا ڈیٹا لیا گیا، ماہرین نے جائزہ لیا کہ سخت گرمیوں میں ان کی دماغی کیفیت کیا تھی؟ انھوں نے دیکھا کہ وہ گرمی کے ہاتھوں دماغی طور پر وہ کسی عارضے کے شکار تو نہیں ہوئے۔ محققین نے اس ڈیٹا کے علاوہ اسپتالوں کے ڈیٹا کا بھی جائزہ لیا کہ گرمیوں کے دنوں میں لوگ ایمرجنسی میں اسپتال گئے تو کتنے افراد دماغی طور پر پریشان یا کسی منفی کیفیت کے شکار تھے۔

    محققین نے ریسرچ کے بعد خلاصہ کیا کہ سخت گرمی اور ہیٹ اسٹروک کی کیفیت لوگوں میں یاسیت، تناؤ، ڈپریشن، منشیات اور سکون آور ادویہ کا استعمال بڑھاتی ہے اور یہاں تک کہ لوگ خود کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    دوسری جانب شدید گرمی امراضِ قلب کو بھی بڑھا سکتی ہے، گرمی اور نفسیاتی اثرات کی تحقیقات میں کل 22 لاکھ سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا، معلوم ہوا کہ اگرچہ یہ افراد کچھ عارضوں کے شکار تھے لیکن گرمی سے ان کے مرض کی شدت بڑھ گئی یہاں تک کہ انھیں فوری طور پر اسپتال لے جانا پڑ گیا۔

  • یہ عادتیں ڈپریشن کی علامات ہوسکتی ہیں

    یہ عادتیں ڈپریشن کی علامات ہوسکتی ہیں

    ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جس کے بارے میں آگاہی تاحال نہ ہونے کے برابر ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر 3 میں سے ایک شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ویسے تو ڈپریشن کی چند مخصوص علامات ہوتی ہیں جو اکثر افراد پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں اور زیادہ سنگین نوعیت کے عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    مگر کچھ ایسی علامات بھی ہوتی ہیں جن کے عام ہونے کے باوجود لوگ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں، ان علامات کو جاننا یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

    خریداری کا جنون

    اگر چیزوں کی خریداری آپ کے کنٹرول میں نہ رہے اور آپ ضرورت سے زیادہ خرچہ کرنے لگیں تو یہ جان لیں کہ ڈپریشن کے شکار کچھ افراد میں یہ غیرمعمولی نہیں۔

    بھولنا

    ڈپریشن بھی بھولنے کی ایک وجہ ہوسکتا ہے، تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن یا تناؤ کا تسلسل جسم میں ایک ہارمون کورٹیسول کی سطح میں اضافہ کرتا ہے۔ ایسا ہونے
    سے دماغ کا وہ حصہ سکڑتا یا کمزور ہوجاتا ہے جو یادداشت اور سیکھنے سے منسلک ہوتا ہے۔

    انٹرنیٹ کا بے تحاشہ استعمال

    انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال بھی ڈپریشن کی علامت ہوسکتی ہے، تحقیقی رپورٹس کے مطابق بہت زیادہ ڈپریشن اور انٹرنیٹ کے بہت زیادہ استعمال کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    چیزیں چرانا

    ڈپریشن کے شکار افراد بلاوجہ خریداری کے دوران چیزیں اٹھا کر جیب یا بیگ میں ڈال لیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں طاقت اور اپنی اہمیت کا احاس ہوتا ہے اور وہ ایسا سوچے سمجھے بغیر کرتے ہیں۔

    کمر درد

    تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ ڈپریشن سے زیریں کمر کے دائمی درد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دائمی کمر درد کے شکار 42 فیصد افراد کو اس تکلیف کے آغاز سے قبل ڈپریشن کا سامنا تھا۔

    جذبات کا غلبہ

    ڈپریشن کے شکار افراد اکثر بہت کم جذبات کا مظاہرہ کرتے ہیں، مگر جب کرتے ہیں تو وہ حد سے زیادہ ہوتے ہیں، وہ اچانک چڑچڑے یا مشتعل ہوجاتے ہیں، ان کی جانب سے اداسی، ناامیدی، فکر یا ڈر جیسے جذبات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    اپنے بارے میں لاپرواہ ہوجانا

    ایسے افراد جو اپنے بارے میں لاپرواہ ہوجاتے ہیں، یہ بھی ڈپریشن اور خود اعتمادی کی کمی کی نشانی ہوسکتی ہے۔ ایسے افراد میں مختلف نشانیاں جیسے دانتوں کو برش نہ کرنا، امتحانات کو چھوڑ دینا یا کسی بیماری کا علاج نہ کروانا شامل ہے۔

    ڈپریشن کے علاج کے بعد لوگ پھر سے خود پر توجہ دینے لگتے ہیں۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے تاہم اس کے بارے میں شعور و آگاہی بے حد کم ہے۔

    حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین نے ڈپریشن کے حوالے سے کچھ نئی تحقیق کی ہیں۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس کی دیگر علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ و یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں یہاں تک کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات نے دماغی، نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قیمتی مشورے دیے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سبزے، درخت اور پرسکون قدرتی مقامات دماغی سکون کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کئی ہفتوں تک برقرار رہتے ہیں۔

    اکثر لوگ کسی نہ کسی بات پر پریشانی کا شکار ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں چاہیئے کہ وہ اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کریں کیوں کہ حوصلہ افزا اور تسلی بخش جملے آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور آپ کا اعتماد بڑھے گا۔

    کیا ڈپریشن سے بچنا ممکن ہے؟

    آپ بھی کسی شخص کو ڈپریشن سے بچا سکتے ہیں، ڈپریشن کے شکار شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کس مشکل کا شکار ہے اور کیا اسے کسی قسم کی مدد درکار ہے۔

    اگر آپ کسی کے بارے میں جان لیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے، تو بہتر ہوگا کہ آپ ان پر نظر رکھیں اور انہیں مائل کریں کہ وہ کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینے پر مان جائیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو آپ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیئے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علاوہ آپ دیگر ذرائع جیسا کہ انٹرنیٹ وغیرہ سے بھی معلومات اکھٹی کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی بیماری کی شدت فراغت کے سبب زیادہ محسوس ہوتی ہے، اس کے بر عکس اگر انسان کسی نہ کسی کام میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھے گا تو اس سے اس بیماری کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔

    اگر انسان دن کے 24 گھنٹوں کو ایک نظم و ضبط کے ساتھ ترتیب دے تو اس سے اس کو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ پھلوں میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ ان کے استعمال سے موڈ بہتر ہوتا ہے اور ایسے ہارمون جو ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں، ان کا لیول تیزی سے کم ہوتا ہے۔

    خاص طور پر رس والے پھل جن میں انگور، کینو وغیرہ شامل ہیں، ڈپریشن کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔

    ڈپریشن سے بچانے والی غذائیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل غذائیں ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں۔

    وٹامن سی: ترنجی پھل، ہری سبزیاں اور دیگر پھل اور سبزیاں۔

    وٹامن ڈی: مچھلی، جھینگے، انڈے اور دودھ، پھلوں کے رس اور اناج سے بنی مصنوعات۔

    بی وٹامنز: سرخ گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، دلیہ اور پتوں والی ہری سبزیاں۔

    میگنیشیم، سیلینیم اور زنک: خشک میوے، بیج، دلیہ، ہری سبزیاں اور مچھلی۔

    کاربوہائیڈریٹس: بھوسی والی روٹیاں اور دلیہ، لال چاول، باجرا، پھلیاں اور نشاستہ دار سبزیاں، آلو، مکئی، مٹر۔

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی کا گوشت، انڈے اور پھلیاں۔

    اومیگا 3 فیٹی ایسڈز: مچھلیاں، اخروٹ، گوبھی، پالک، گرما، کنولا اور السی کا تیل۔

    اومیگا 6 فیٹی ایسڈز: مرغی، انڈے، اناج اور سبزیوں کڈا تیل۔

  • ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن سے ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟

    ڈپریشن دنیا بھر میں انتہائی عام ایک دماغی عارضہ ہے جو کسی انسان کی سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے، ڈپریشن صرف دماغی ہی نہیں بلکہ جسمانی اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن لاحق ہونے اور ڈپریسڈ محسوس کرنے میں فرق ہے۔

    ہر انسان کی روزمرہ زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ تناؤ یا اداسی محسوس کرتا ہے، جیسے امتحان میں فیل ہونا، ملازمت چلی جانا، کسی سے جھگڑا ہوجانا یا یونہی ابر آلود موسم میں بھی اداسی محسوس ہوسکتی ہے۔

    بعض اوقات ڈپریسڈ محسوس ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں بھی ہوتی، تاہم یہ عارضی کیفیت ہوتی ہے اور ماحول یا حالت تبدیل ہوتے ہی غائب ہوجاتی ہے۔

    کلینیکل ڈپریشن باقاعدہ ایک عارضہ ہے جو کم از کم 2 ہفتے تک لاحق رہ سکتا ہے۔ اس کی سب سے عام علامات کام کرنے اور کھیلنے کودنے کی صلاحیت متاثر ہونا ہے۔

    اس کے علاوہ بھی اس کی کئی علامات ہیں، جیسے بجھی بجھی سی طبیعت رہنا، اپنے پسندیدہ کاموں میں دل نہ لگنا، بھوک میں تبدیلی، نیند کم آنا یا بہت زیادہ آنا، اپنے آپ کو بے مصرف خیال کرنا، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہونا، بے آرامی اور بے چینی محسوس کرنا، کوئی کام کرنے کا دل نہ چاہنا اور انتہائی صورتحال میں خودکش خیالات آنا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو ان میں سے کوئی 5 علامات بھی محسوس ہورہی ہیں تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ڈپریشن صرف احساسات و کیفیات کی تبدیلی کا نام نہیں، یہ ہمارے جسم میں بھی باقاعدہ تبدیلیاں لاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار اگر کسی شخص کے دماغ کا ایکسرے کیا جائے تو دماغ کے حصے فرنٹل لوب اور یادداشت سے تعلق رکھنے والے ہپوکیمپس کے حجم میں (عام انسان کی نسبت) تبدیلی دکھائی دے گی۔

    علاوہ ازیں ڈپریشن کچھ ہارمونز کے غیر معمولی طور پر زیادہ پیدا ہونے یا کم ہوجانے کا سبب بھی بنتا ہے۔ جیسے موڈ کو بہتر کرنے والے ہارمونز ڈوپامین اور سیروٹونن میں کمی اور نورپنیفرین نامی ہارمون کی زیادتی جو کسی ناخوشگوار صورتحال میں پیدا ہوتا ہے۔

    ڈپریشن سے تھائیرائیڈ ہارمونز بھی متاثر ہوتے ہیں، یہ ہارمونز جسم کی میٹابولک سرگرمی، دل، مسلز، اور نظام ہاضمہ کو کنٹرول کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تاحال وہ ڈپریشن کی بنیادی وجہ دریافت نہیں کر سکے، اگر ڈپریشن کا شکار زیادہ سے زیادہ افراد ماہرین سے مدد طلب کریں تو انہیں اس مرض کو مزید سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے، اور اس کا مزید بہتر علاج ہوسکتا ہے۔

    تاہم یاد رہے کہ امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ کے مطابق ڈپریشن کا شکار کسی شخص کو خود کو مدد لینے کے لیے راضی کرنے میں اوسطاً 10 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔