Tag: ڈپریشن

  • موسم سرما میں اداسی کیوں محسوس ہوتی ہے؟

    موسم سرما میں اداسی کیوں محسوس ہوتی ہے؟

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اکثر اوقات موسم سرما میں ہمیں ایک عجیب سی اداسی اور مایوسی لاحق ہوجاتی ہے، ہمارا دل ہر کام سے اچاٹ ہوجاتا ہے حتیٰ کہ ہم اپنے پسندیدہ کاموں سے بھی بیزار اور لاتعلق ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ یہ علامات ڈپریشن اور اینگزائٹی کی ہیں جو سال میں بھی کسی بھی وقت ہم پر حملہ کرسکتی ہیں، تاہم موسم سرما میں ان علامات کا پہلے سے شکار افراد مزید مشکل سے دو چار ہوجاتے ہیں جبکہ پرامید اور خوش باش رہنے والے افراد بھی سردیوں میں اس سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت حقیقی کیفیت ہے جسے سیزنل ایفیکٹو ڈس آرڈر یا سیڈ سنڈروم کا نام دیا جاتا ہے اور اس کا شکار ہوجانا معمول کی بات ہے کیونکہ یہ موسم کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    دراصل موسم ہمارے مزاج اور کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے اور یہ وہ پہلو ہے جسے ہم اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔

    سردیوں میں ہونے والا اداسی کا یہ سنڈروم صرف موسم سرما میں ہی نہیں، بلکہ ابر آلود موسم اور بارش کے دنوں میں بھی لاحق ہوسکتا ہے اور انسان باقاعدہ طبی طور پر اداسی اور مایوسی محسوس کرتا ہے۔

    اب تک کی جانے والی کئی تحقیقات سے یہ علم ہوچکا ہے کہ انسان کو جو چیزیں خوش رکھتی ہیں ان میں سے ایک عنصر سورج کی شعاعیں بھی ہیں، سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والا وٹامن ڈی طبی طور پر ڈپریشن کی کیفیت کو کم کر کے موڈ کو بہتر کرتا ہے۔

    علاوہ ازیں چمکتا ہوا سورج امید کا پیغام دیتا ہے جو خود بخود ہمارے اندر سے مایوسی اور ناامیدی کے جذبات کو کم کرتا ہے۔

    موسم سرما میں ایسی کیفیات لاحق ہونے کی ایک اور وجہ سماجی سرگرمیوں میں کمی ہونا بھی ہے، موسم جتنا سرد ہو، لوگ اتنا ہی گھروں سے نکلنے یا ملنے جلنے سے پرہیز کرتے ہیں جس سے ہم ایک قسم کی تنہائی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اسی اداسی سے تنگ آکر جب موسم سرما ختم ہوتا ہے اور بہار آتی ہے تو دنیا بھر میں لوگ بہار کا نہایت پرجوش استقبال کرتے ہیں اور اس موقع پر کوئی فیسٹیول منایا جاتا ہے۔

    کئی عقائد میں موسم بہار کو سورج کی واپسی یا دوبارہ زندگی سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے جبکہ کئی ثقافتوں میں یہ نئے سال کا بھی آغاز ہوتا ہے۔

    یہ موسم دراصل اس زندگی کے پھر سے بحال ہونے کا اشارہ ہوتا ہے جو سخت سردی میں ٹھٹھر کر منجمد ہوچکی ہوتی ہے، چنانچہ اس موسم کو خوشی منا کر تہواروں کے ذریعے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

    میکسیکو میں موسم بہار کے آغاز میں ایک تہوار اسپرنگ ایکونوکس منایا جاتا ہے جس کی تاریخ قدیم مایا دور سے ملتی ہے، اس دن کو سورج کی واپسی سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی سردیوں کے طویل موسم کے بعد سورج کی واپسی۔

    برصغیر میں بہار کے آغاز پر بسنت کا رنگوں بھرا تہوار منایا جاتا ہے، قدیم روایات کے مطابق موسم سرما میں سفید اور بے رنگی سے اکتائی آنکھوں کو بسنت میں مختلف رنگوں سے تقویت بخشی جاتی ہے۔

    دنیا بھر کی ہندو برادری بھی انہی دنوں رنگوں سے بھرا ہولی کا تہوار مناتی ہے۔

    لیکن سردیوں کی اداسی سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟

    موسم سرما میں اداسی اور مایوسی کے غلبے سے چھٹکارا پانے کے لیے سب سے پہلے تو خود کو حرکت میں لانا ضروری ہے، باقاعدہ ورزشیں اس سلسلے میں معاون ہوسکتی ہیں۔

    ان دنوں اگر آپ گھر پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں تو گھر کے وہ ادھورے کام کر ڈالیں جو آپ وقت کی کمی کے سبب نہیں کر پاتے کیسے کوئی مرمتی کام یا صفائی ستھرائی۔

    صبح اٹھ کر دروازے کھڑکیاں کھول دیں تاکہ سورج کی روشنی اندر آسکے۔

    روزانہ دھوپ میں کچھ وقت ضرور گزاریں۔

    سماجی سرگرمیوں میں اضافہ کریں، اگر سرد موسم کی وجہ سے آپ باہر نہیں جانا چاہتے تو دوستوں کے ساتھ مل کر گھر میں ہی گیٹ ٹوگیدر کا اہتمام کریں۔

    اپنی غذا کا خاص خیال رکھیں، گرم اور صحت مند غذائیں کھائیں اور پانی کا استعمال بھی زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ طبی و جسمانی طور پر آپ فٹ رہیں۔

    اگر آپ ڈپریشن کی دوائیں استعمال کرتے ہیں تو اپنی نئی علامات ڈاکٹر کو ضرور بتائیں اور ان کے مشورے سے دوائیں تبدیل کریں۔

  • مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    مچھلی کے تیل کے کیپسول کیا واقعی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کے تیل کے کیپسول کا استعمال ذہنی صحت کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچاتا کیونکہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز سے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن پر نہ ہونے کے برابر یا کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھل کے تیل کے سپلیمنٹس سے ڈپریشن کی روک تھام یا مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اس تحقیق میں 18 ہزار سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمریں 50 سال یا اس سے زیادہ تھی اور کسی میں ڈپریشن کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر مچھلی کے تیل کے سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس کی علامات کے خطرے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی مزاج کے معیار پر کسی قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔

    درحقیقت تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ ان سپلیمنٹس کے استعمال سے ڈپریشن یا اس سے منسلک علامات کا خطرہ کچھ حد تک بڑھ گیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ڈپریشن کے خطرے میں معمولی اضافہ بہت زیادہ نمایاں نہیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ان سپلیمنٹس سے مزاج پر کوئی فائدہ مند یا نقصان دہ اثرات مرتب نہیں ہوتے اور یہ نتیجہ ہم نے ان افراد کا 7 سال تک جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئے۔

  • نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے نئی نسل کو ڈپریسڈ جنریشن قرار دیتے ہوئے ڈپریشن کی متعدد وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

    دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

    مینٹل ہیلتھ ڈیلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر 15 وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان وجوہات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل اور ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

    امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

    اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    تاہم نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

    جنریشن گیپ: ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے نئی اور پرانی نسل کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے دونوں نسلوں کے درمیان گفت و شنید کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔

    سوشل میڈیا: ڈپریشن کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس پر لوگ اپنی مصنوعی شخصیات پیش کرتے ہیں نتیجتاً دیگر افراد احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال: موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہیں۔

  • ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ڈپریشن سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عادت اپنا لیں

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا نہ صرف جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، بلکہ ذہنی صحت کی بہتری کے لیے بھی ضروری ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    لندن میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ باقاعدگی سے ورزش کرنا دماغ کو طویل مدت تک صحت مند رکھتا ہے اور دماغ کو مختلف الجھنوں اور بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

  • کہیں آپ کے غصے کی وجہ یہ تو نہیں؟

    کہیں آپ کے غصے کی وجہ یہ تو نہیں؟

    نیند کی کمی جسمانی صحت کے ساتھ دماغی صحت اور کیفیات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، حال ہی میں ایک تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی نوجوانوں میں ڈپریشن اور غصے جیسے احساسات بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔

    فلینڈرز یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 15 سے 17 سال کی عمر کے 34 صحت مند نوجوانوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    ان میں سے 20 لڑکے اور 14 لڑکیاں شامل تھے اور انہیں 10 دن اور 9 راتوں تک ایک خصوصی طورپر ڈیزائن کیے گئے سلیپ سینٹر میں رکھا گیا۔

    انہیں 5 راتوں تک نیند کا 3 میں سے کوئی ایک دورانیہ دیا گیا جو 5 گھنٹے، ساڑھے 7 گھنٹے اور 10 گھنٹے تھا۔

    بیدار ہونے پر ان سب کے مزاج کی جانچ پڑتال ہر 3 گھنٹے بعد کی گئی تاکہ ان کے احساسات کا تجزیہ کیا جاسکے اور دیکھا گیا کہ وہ کس حد تک ڈپریس، خوفزدہ، مشتعل، الجھن، تشویش زدہ، خوش اور پرجوش ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ساڑھے 7 یا 10 گھنٹے والے گروپس کے مقابلے میں 5 گھنٹے والے گروپ کے افراد زیادہ ڈپریس، مشتعل اور الجھن کے شکار تھے۔

    اسی گروپ میں خوشی اور جوش جیسے احساسات میں نمایاں کمی کو بھی دریافت کیا گیا جبکہ جب ان افراد کو 10 گھنٹے تک سونے کا موقع دیا گیا ان کی خوشی کا احساس بڑھ گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ 2 راتوں تک زیادہ سونا 5 گھنٹے والے گروپ کے مزاج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں کمی لانے کے لیے کافی نہیں تاہم کسی حد تک مزاج پر مثبت اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ نیند کی کمی لڑکپن اور نوجوانی کی عمر کو پہنچے والے افراد میں مزاج کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔

  • ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    ذہنی صحت کو بہتر بنانے والی 5 ٹپس

    بھاگتی دوڑتی زندگی اور مختلف مسائل نے ہر شخص کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا ہے، ایسے میں ذہنی صحت کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ نہ صرف زندگی کے مختلف امور بہتر طور پر سرانجام دیے جائیں بلکہ خود کو بھی خوش رکھا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر کنول قدیر نے شرکت کی اور ذہنی صحت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی خرابی کی سب سے پہلی علامت تو یہ ہے کہ مناسب طریقے سے کوئی کام سرانجام دینے میں ناکامی ہونا۔ جب بھی ہم کسی شخص میں تبدیلی محسوس کریں اور تبدیلی خرابی کی صورت میں ہو تو ایسی صورت میں چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    جیسے کوئی شخص پہلے کی نسبت تنہائی پسند ہوگیا، زیادہ رونے لگا ہے، اس کی پیشہ وارانہ کارکردگی میں فرق آگیا ہے تو یہ ذہنی طور پر پریشان ہونے کی علامت ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کو سب سے پہلے اہل خانہ اور قریبی دوست محسوس کرتے ہیں۔ اگلا مرحلہ اس شخص کو یہ احساس دلانا ہوتا ہے کہ یہ عادت نارمل نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ اس تبدیلی کو مانتے نہیں کیونکہ وہ اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں، پاکستان میں خواتین کی اکثریت ڈپریشن کا شکار ہے اور انہیں یہ نہیں پتہ کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ زیادہ رونا، زیادہ سوچنا یا گھلنے ملنے سے پرہیز کرنا ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔

    ڈاکٹر کنول کا کہنا تھا کہ پچھلا پورا سال کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوا اور اس سے ہماری دماغی صحت کو بے حد نقصان پہنچا ہے، اب دماغی صحت کی بہتری کے لیے سب سے پہلا قدم یہ اٹھائیں کہ گھر سے باہر وقت گزاریں۔

    انہوں نے کہا کہ پورا سال گھر میں بند رہنے کے بعد اب ہمارے دماغ کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہے، لہٰذا اگر کسی روز کوئی کام نہ بھی ہو تب بھی صبح جلدی اٹھیں، کپڑے تبدیل کریں اور باہر نکلیں۔

    ڈاکٹر کنول نے بتایا کہ وہ ایک استاد بھی ہیں اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آج کل نوجوان بچوں میں اینگزائٹی میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سخت مقابلے کی فضا اور سوشل میڈیا پر سب اچھا دکھانے کا رجحان ہے۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر بچے (اور بڑے بھی) کسی اہم موقع یا امتحان کے دن دماغی بلیک آؤٹ محسوس کرتے ہیں اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کا حل یہ ہے کہ جب بھی ایسی صورتحال پیش آئے تو اس پر فوکس کریں جو آپ کو یاد ہے، بجائے اس کے کہ اس پر فوکس کیا جائے جو آپ کو یاد نہیں۔

    ڈاکٹر کنول نے دماغی صحت کی بہتری کے لیے 5 ٹپس بھی بتائیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    روزانہ دن میں کم از کم 1 گھنٹہ گھر سے باہر کھلی ہوا میں گزاریں۔

    مراقبے کی عادت اپنائیں اور اس کے لیے یوٹیوب ویڈیوز کی مدد لیں۔

    اپنے سوشل سرکل کو بہتر کریں، ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں جو آپ کی حوصلہ افزئی کریں اور جن کے ساتھ بیٹھ کر آپ خوشی محسوس کریں۔ جو لوگ آپ کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں اور آپ کی خرابیاں گنوائیں، ایسے لوگوں سے رابطہ ختم نہیں کرسکتے تو کم سے کم کردیں۔

    اپنی کامیابیوں اور خود کو حاصل نعمتوں کی ایک فہرست بنا کر رکھیں، جب بھی اداسی اور مایوسی محسوس کریں اس فہرست کو دیکھیں۔

    چاکلیٹ اور اخروٹ کا استعمال باقاعدگی سے کریں، یہ دماغ کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔

  • کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو افسردگی کا شکار بنا رہا ہے؟

    کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو افسردگی کا شکار بنا رہا ہے؟

    نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے اثرات کو سمجھنے کے لیے وقتاً فوقتاً تحقیقاتی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ جیسے پلیٹ فارمز الگ تھلگ رہنے والے نوجوانوں کے لیے باعث اطمینان ہیں لیکن وہ ذہنی پریشانیوں کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔

    نیو پورٹ اکیڈمی کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ نوجوانوں پر سوشل میڈیا کے کئی مثبت اثرات بھی ہیں، تاہم اس کا مسلسل استعمال منفی نتائج کا باعث بنتا ہے، نوجوانوں میں اس سے منفی عادات اور منفی سیلف امیج جنم لیتا ہے۔

    یہ بات کئی تحقیقات میں سامنے آئی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ انھیں چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے، اس عادت کی وجہ سے انسان دنیا کی حقیقت اور صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

    لیکن اب یہ اہم سوال سامنے کھڑا ہوا ہے کہ کیا سوشل میڈیا نوجوانوں کو زیادہ پریشان اور افسردہ کرتا ہے؟ چوں کہ اس سوال سے ٹیکنالوجی کے استعمال کا سوال بھی جڑا ہے، اس لیے ایک متنازعہ سوال بن گیا ہے، تحقیقات میں بھی اس کے متنوع نتائج سامنے آتے ہیں۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے مستقل استعمال سے اعصابی نظام پر شدید اثر پڑتا ہے، اور نوجوانوں میں لڑائی جھگڑے کا موڈ ایک مستقل عادت کے طور پر سامنے آتا ہے، ان میں ڈپریشن (افسردگی)، عدم توجہ، مخالفین کو دھمکیاں دینا اور نو عمری میں بے چینی جیسے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور ایک تحقیق میں میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے افسردگی بڑھ جاتی ہے۔

    اس سلسلے میں 2018 میں 14 سے 17 سال کی عمر کے نوجوانوں پر ایک تحقیق کی گئی تھی جو دن میں 7 گھنٹے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے تھے، نتائج سے معلوم ہوا کہ ایسے نوجوانوں کو ذہنی مسائل کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان میں کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، تحقیق کے دوران ان نوجوانوں کا موازنہ ان افراد کے ساتھ کیا گیا جو دن میں صرف ایک گھنٹہ اسکرین استعمال کرتے تھے۔

    ٹیکنالوجی کے استعمال سے افسردگی میں اضافے کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے میں کہا گیا کہ 2010 اور 2015 کے درمیان بالخصوص نوجوان خواتین میں افسردگی کی علامات میں اضافہ ہوا، محققین نے اس کی وجہ سوشل میڈیا اور اسکرین کے استعمال کی زیادتی بتائی تھی۔

    امریکی ٹی وی سی این این کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ جو نوجوان دن میں 50 سے 100 بار فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس چیک کر رہے تھے، وہ دیگر کے مقابلے میں 37 فی صد زیادہ افسردہ تھے، جب کہ وہ نوجوان جو دن میں 100 سے زیادہ بار سوشل میڈیا اکاؤنٹس چیک کرتے ہیں وہ اوسطاً 47 فی صد زیادہ افسردہ ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارنے والے نوجوانوں میں ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

  • بغیر دواؤں کے ذہنی تناؤ کا آسان علاج

    بغیر دواؤں کے ذہنی تناؤ کا آسان علاج

    دنیا بھر میں جہاں مختلف ذہنی امراض میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں ان کے علاج بھی سامنے آتے جارہے ہیں، ان میں سے کچھ پرانے طریقہ کار ہیں جنہیں دوبارہ اپنایا جارہا ہے جبکہ کچھ نئے طریقہ کار بھی ہیں۔

    ایسا ہی ایک طریقہ علاج ٹیپنگ تھراپی بھی ہے یعنی انگلیوں سے تھپتھپا کر علاج کرنا۔ اس تھراپی میں جسم کے بعض حصوں پر انگلیوں سے ٹیپ کیا جاتا ہے جس سے ذہنی امراض خصوصاً ڈپریشن، اسٹریس، بے چینی اور اینگزائٹی وغیرہ میں کمی آتی ہے۔

    سنہ 1979 میں اس تھراپی کو عالمی ادارہ صحت نے بطور علاج تسلیم کیا اور اب یہ تھراپی دنیا بھر میں بے حد مقبول ہورہی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر معصومہ قیوم نے اس تھراپی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اس طریقہ علاج کو جذباتی ایکوپنکچر کہا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ٹیپ کرنے سے دماغ کے اس حصے میں سنگلز پہنچنے میں مدد ملتی ہے جو اسٹریس کو کنٹرول کرتے ہیں یوں نفسیاتی اور جذباتی بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر معصومہ نے بتایا کہ یہ طریقہ علاج اینگزائٹی میں بے حد مؤثر ہے اور اس کی کامیابی کا تناسب تقریباً 80 فیصد ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر جسمانی طور پر کوئی درد یا تکلیف ہے تو اس کا علاج تو جسمانی طور پر ہی ہوگا، تاہم بعض اوقات اسٹریس کی وجہ سے بھی سر، کندھوں یا پشت میں درد ہوتا ہے ایسے موقع پر یہ تھراپی اس جسمانی تکلیف کو بھی کم کرتی ہے۔

    ڈاکٹر معصومہ نے مزید بتایا کہ ٹیپنگ کے پوائنٹس سر، آئی برو، آنکھ کے کنارے، گال کی ہڈی اور ہتھیلی کے کنارے وغیرہ ہیں جنہیں تھپتھپا کر ذہنی تناؤ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

  • کووڈ 19 کا ایک اور ذہنی نقصان سامنے آگیا

    کووڈ 19 کا ایک اور ذہنی نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس جہاں ایک طرف تو مجموعی طور پر جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے، وہیں ذہنی صحت کو بھی اپنا نشانہ بناتا ہے، کووڈ کے مریضوں میں ڈپریشن کے مرض میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں پتہ چلا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں دیگر علامات کے ساتھ ڈپریشن کی شکایت بہت زیادہ عام ہوتی ہے۔

    تحقیق میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 18 سے 81 سال کی عمر کے 1 ہزار سے زائد کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جن کی حالت پر ستمبر اور اکتوبر 2020 کے دوران نظر رکھی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 48 فیصد افراد کو معتدل سے سنگین ڈپریشن کا سامنا ہوا، یہ خطرہ ایسے افراد میں زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی علامات کا تسلسل برقرار رہے، اور جو کم آمدنی والے طبقے سے ہوں اور ان کی مجموعی صحت پہلے سے خراب ہو۔

    محققین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر 20 فیصد امریکی مریضوں میں ڈپریشن کی بیماری بھی پیدا ہوگئی تھی، انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ شرح کووڈ 19 کے مریضوں میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔

    تحقیق میں شامل ہر 5 میں سے ایک مریض نے مختلف علامات کی بدستور موجودگی کو رپورٹ کیا جن میں سب سے عام ہیضہ اور تھکاوٹ جیسی علامات تھیں۔ ایک چوتھائی افراد نے طبی ماہرین سے رجوع کرنے کی بجائے اپنا علاج بازاروں میں دستیاب ادویات سے کرنے کی کوشش کی۔

    اس سے قبل جنوری 2021 میں سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ہر 3 میں سے ایک بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہو رہا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی وبا دنیا بھر میں اب بھی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات کیے جارہے ہیں، جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

  • کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    کرونا وائرس کے طویل المدتی اثرات آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے دریافتت کیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔

    حال ہی میں سنگاپور میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق سے علم ہوا کہ ہر 3 میں سے 1 بالغ فرد بالخصوص خواتین، جوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو کووڈ 19 کے نتیجے میں ذہنی مسائل کا سامنا ہورہا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ لاک ڈاؤنز، قرنطینہ اور سماجی دوری کے اقدامات نے ذہنی دباؤ کو بڑھا کر لوگوں میں ذہنی بے چینی، ڈپریشن اور بے خوابی جیسے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ان عوامل کو سمجھنا ذہنی صحت کے پروگرامز کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

    اس تحقیق کے دوران 68 تحقیقی رپورٹس کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا جن میں 19 ممالک کے 2 لاکھ 88 ہزار سے زائد افراد شامل تھے اور ان عناصر کا تجزیہ کیا گیا جو ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا خطرہ عام آبادی میں بڑھاتے ہیں۔

    محققین نے دریافت کیا کہ خواتین، نوجوان اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کوویڈ، دیہی آبادی اور کوویڈ کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد اس بیماری سے جڑے ڈپریشن یا ذہنی بے چینی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین میں نفسیاتی مسائل کا امکان مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق خواتین کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی کو زیادہ ترجیح نہ دینا ممکنہ طور پر ان میں منفی ذہنی اثرات کا باعث بنتا ہے، 35 سال سے کم عمر افراد میں ذہنی مسائل کا تجربہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس کی وجہ واضح نہیں۔