Tag: ڈپریشن

  • دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کے ساتھ تفریق برتنا، غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور ایسے افراد کو مزید تناؤ زدہ حالات سے دو چار کرنا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دماغی صحت میں بہتری کے اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔

    مختلف ممالک اپنے کل بجٹ کا اوسطاً صرف 2 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

  • خراب موڈ کو چند لمحوں میں خوشگوار بنا دینے والا آسان سا نسخہ

    خراب موڈ کو چند لمحوں میں خوشگوار بنا دینے والا آسان سا نسخہ

    آج کل کی کرونا زدہ صورتحال اور تمام تفریحی و تخلیقی سرگرمیاں معطل ہوجانے سے ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور موڈ خرابی عام سی بات ہے، تاہم خراب موڈ کو ایک نہایت آسان سے نسخے سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ ذہنی تناؤ سے مستقل بنیادوں پر نجات چاہتے ہیں، اور خوش باش رہنا چاہتے ہیں تو چاکلیٹ کو اپنی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنالیں۔

    اور صرف یہی نہیں، خراب موڈ کو فوری طور پر بہتر بنانے کے لیے بھی چاکلیٹ نہایت اکسیر ہے۔

    یہ تحقیق کیلی فورنیا کی لوما لنڈا یونیورسٹی میں کی گئی جس کے مطابق چاکلیٹ میں پائی جانے والی کوکو دماغ کو پرسکون کر کے اس میں خوشی کی لہریں پیدا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ کام چاکلیٹ میں موجود فلیونائیڈز کرتے ہیں۔ چاکلیٹ کے یہ فوائد ہم کسی عام سی چاکلیٹ بار سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی سائنسی و طبی ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ چاکلیٹ کھانا دماغی و جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو افراد چاکلیٹ زیادہ کھاتے ہیں ان میں ذہنی تناؤ کی شرح دیگر افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جبکہ وہ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خوش باش ہوتے ہیں۔

  • ذہنی امراض کو اجاگر کرنے کے لیے صبا قمر کا منفرد انداز

    ذہنی امراض کو اجاگر کرنے کے لیے صبا قمر کا منفرد انداز

    کراچی: معروف اداکارہ صبا قمر نے اپنی نئی ویڈیو میں ذہنی امراض اور اس کے بارے میں معاشرے کے رویے کو منفرد انداز سے اجاگر کیا ہے جسے مداحوں کی جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے۔

    صبا قمر نے حال ہی میں اپنا یوٹیوب چینل شروع کیا ہے جس میں انہوں نے چند ہی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں تاہم ان ویڈیوز کے منفرد موضوعات کی وجہ سے انہیں بہت پسند کیا جارہا ہے۔

    اب وہ اپنی نئی ویڈیو میں نہایت تخلیقی انداز میں ڈپریشن اور سماجی رویوں کو اجاگر کرتی نظر آئیں۔

    اپنی ویڈیو میں صبا نے لوگوں کی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کو موضوع گفتگو یا مذاق بنا لینے پر بات کی۔ انہوں نے ڈپریشن کے ہاتھوں زندگی ہار جانے والے افراد انعم تنولی، روشان فرخ اور بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپوت کا بھی ذکر کیا۔

    انہوں نے بار بار سوال اٹھایا کہ ہم کب تک لوگوں کے ظاہر کو مذاق کا نشانہ بنا کر انہیں تکلیف میں مبتلا کرتے رہیں گے، یہ جانے بغیر کہ ہمارے لفظ اس شخص کو کتنی تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں۔

    انہوں نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ کیوں کسی کی زندگی میں دخل اندازی کی جاتی ہے اور لوگوں کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا ہے، ہم لوگوں کو سائیکو، ملنگ، پاگل جیسے الفاظ سے پکارتے ہیں لیکن ان کی مدد نہیں کرتے۔

    صبا نے کہا کہ ہم بچپن سے ہی پڑھتے آئے ہیں کہ کسی کو حقیر مت جانو، کسی کو نفرت سے نہ دیکھو لیکن ہم نے اس پر کبھی عمل نہیں کیا، کیونکہ یہ نفرت ہماری تربیت میں شامل ہے، ہمیں اپنے گھر سے ہی نفرت کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

    صبا قمر کی نئی ویڈیو کو ان کے مداحوں کی جانب سے بہت پسند کیا جارہا ہے۔

  • ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    سَر درد کی عام شکایت تو چند گھنٹوں کے آرام اور درد کُش دوا کے استعمال سے دور ہو جاتی ہے۔ تاہم کبھی دورانِ‌ نیند اچانک آنکھ کھل جاتی ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سَر پھٹ رہا ہے۔

    یہ نیند کے عالم میں طاری ہونے والی ایک کیفیت ہے جس میں اچانک ہی محوِ استراحت فرد کوئی تیز آواز اور دھماکا سنتا ہے اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، جس کے ساتھ ہی چند منٹوں کے لیے اسے شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔

    طبی ماہرین اسے Exploding Head Syndrome (ای ایچ ایس) کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک پیچیدہ طبی کیفیت ہے، جس کی کوئی ایک وجہ نہیں‌ ہوسکتی۔ تاہم اس کا نیند اور ذہنی سکون سے گہرا تعلق ہے۔

    طبی محققین کے مطابق یہ کوئی خطرناک بیماری یا مستقل کیفیت کا نام نہیں، لیکن اس کی وجہ سے انسانی جسم دوسری پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

    اس طبی مسئلے میں محققین اور ماہرین کی مختلف آرا اور مشاہدات سامنے آئے ہیں اور اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے، لیکن اس مسئلے کے شکار زیادہ تر افراد کے مطابق انھیں دوران نیند اچانک گولی کے چلنے کی آواز، کسی بھی قسم کے دھماکے یا بجلی کے کڑکنے کی آواز سنائی دی اور ان کی آنکھ کھل گئی۔

    امریکا میں اس مسئلے کے شکار افراد سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی آواز بہت تیز ہوتی ہے، کبھی تو لگتا ہے کہ کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہے یا کسی نے دروازہ زور سے بند کیا ہے یا پھر کوئی بھاری چیز قریب ہی کہیں گری ہوگی، مگر گھبراہٹ کے ساتھ جب آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

    امریکا میں پبلک ہیلتھ کیئر سے متعلق سرگرم ادارے سلیپ ایسوسی ایشن (اے ایس اے) کے مطابق اس مسئلے کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں، مگر ایک بات مشترک ہے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ بعض لوگ دورانِ نیند دھماکا سننے کے ساتھ تیز روشنی بھی دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

    وہ شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں، انھیں‌ لگتا ہے کہ سَر پھٹ جائے گا، لیکن منٹوں ہی میں وہ نارمل بھی ہوجاتے ہیں، کیوں کہ بیدار ہونے پر وہ اس کی حقیقت جان جاتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بعض افراد کو دھماکے کی آواز صرف ایک کان میں سنائی دیتی ہے، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں کانوں میں تیز آواز آئی تھی۔ اسی طرح بعض متاثرہ افراد کے مطابق انھیں اپنے دماغ میں ایسی زور دار آوازیں یا دھماکے محسوس ہوئے۔ اسی لیے ماہرین نے اسے Exploding Head Syndrome کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ شدید اسٹریس یا تھکن کی وجہ سے کبھی ایسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے اور پچاس سال سے زائد عمر کے افراد اس کیفیت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بعض طبی محققین اس کا تعلق دماغ کے ایک مخصوص حصّے کی خرابی سے جوڑتے ہیں اور اکثر اسے سماعت کی خرابی کا نتیجہ بتاتے ہیں۔

  • کیا آپ ہر وقت کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ ہر وقت کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں؟

    جب کوئی انسان ذہنی یا جذباتی دباؤ کا سامنا کرتا ہے اور یہ مسئلہ شدید تر ہوجاتا ہے تو اس کے رویے، عادات اور طرزِ زندگی پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔

    مایوس کُن خیالات کا اظہار، بیزاری، کام میں دل نہ لگنا اور دیگر عام مسائل کے علاوہ اکثر شدید دباؤ اور جذباتی تناؤ کا شکار کوئی بھی فرد اچانک بہت زیادہ اور بھوک محسوس نہ کرنے کے باوجود کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس طرح وہ اپنے جذبات کی تسکین کرتا ہے اور خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کی وجہ سے اس کی غذائی عادات میں بھی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔

    عموما اس کیفیت میں لوگ فاسٹ فوڈ، کیک، آلو کے چپس اور چاکلیٹ جیسی اشیا کی طرف رغبت محسوس کرتے ہیں۔

    اگر کوئی فرد ذہنی دباؤ اور اس جذباتی کیفیت سے عرصے تک باہر نہیں نکل سکے اور اسی طرح کھاتا رہے تو اس کے بنج اییٹنگ ڈس آرڈر( Binge Eating Disorder) میں مبتلا ہوجانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس میں دماغ میں گلوکوز کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے اور اسی وجہ سے دماغ سست اور ایسا فرد خود کو غیر حاضر محسوس کرتا ہے۔

    اس مرض کی ابتدائی شکل اور عام علامات یہ ہوسکتی ہیں۔

    وقت بے وقت اور بھوک نہ ہونے کے باوجود کھانا۔
    جلدی جلدی منہ چلانا یا تیزی سے کھانا۔
    پیٹ بھر جانے کے باوجود کھانے سے ہاتھ نہ روکنا۔
    خاص طور پر رات کو اٹھ کر کھانا۔

    ایسے افراد کو چاہیے کہہ وہ کسی ماہر معالج سے رجوع کریں۔ اپنے کسی قریبی دوست سے اپنی اس حالت اور کیفیت کا ذکر کریں اور خاص طور پر ذہنی دباؤ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے ضروری محسوس کریں تو ماہرِ نفسیات سے بھی مشورہ کریں۔

  • خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    خوف زدہ اور فکرمند رہنے سے کیا ہوتا ہے؟

    اس مشینی دور نے ہمارے طرزِ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور ہر طرف افراتفری، انتشار نظر آتا ہے۔

    ہم میں‌ سے ہر فرد طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہا ہے جن میں گھریلو جھگڑے، عام مسائل کے علاوہ بے روزگاری یا کم تنخواہ کی وجہ سے اکثر لوگ ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔

    تنگ دستی، غربت کے ساتھ جہاں ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں، وہیں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جو صحت اور علاج معالجے کے حوالے سے شدید ذہنی کرب میں مبتلا ہیں اور یہ سب ہماری ذہنی حالت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ اور شدید ڈپریشن کے شکار لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 50 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور پاکستان میں بھی ذہنی تناؤ کے حوالے سے رپورٹ ہونے والے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

    دماغی اور ذہنی صحت کے حوالے سے سرگرم اداروں کے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 33 فی صد لوگ ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ذہنی تناؤ سنگین مسئلہ ہے جس کا سامنا غریب ممالک ہی نہیں ترقی یافتہ اور ان ملکوں کو بھی ہے جہاں صحت اور علاج کی بہتر سہولیات
    موجود ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذہنی امراض سے متاثر ہونے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

    ذہنی تناؤ اور مختلف دماغی امراض کے باعث دنیا بھر میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں میں نوجوان بھی شامل ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہر طرح کا دباؤ نقصان دہ نہیں ہوتا اور بعض اوقات وقتی طور پر کوئی بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔

    اگر مسائل ختم ہوجائیں یا کسی طرح کوئی فرد اس ذہنی تناؤ پر قابو پا سکے تو نارمل ہوسکتا ہے۔

    ذہنی تناؤ کے نتیجے میں اعصابی نظام، ہارمونز، نظامِ تنفس پر اثر پڑتا ہے۔ ہر وقت کسی بات کو سوچتے رہنا، فکرمند رہنا، غصہ آنا، مستقل چڑچڑا پن شدید ذہنی تناؤ کی علامات ہیں۔

  • مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے: بی بی سی رپورٹ

    مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے: بی بی سی رپورٹ

    سری نگر: بی بی سی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مسلسل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے شکار مقبوضہ کشمیر میں لوگ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں، پلواما میں ڈپریشن کے مریضوں میں 150 فی صد اضافہ ہو گیا ہے۔

    بی بی سی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرینگر میں بھی ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، کشمیریوں میں زیادہ خوف بھارتی فوج کی جانب سے حراست میں لینے کا ہے، کشمیریوں کا کہنا ہے کہ وہ خواب میں بھی بھارتی فوجیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوتے ہیں۔

    بھارتی سفارت خانوں کے باہر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار

    برطانوی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی تشویش ناک صورت حال سامنے آتی ہے، 185 دنوں سے انھیں بھارتی فوج نے محصور کر کے رکھا ہوا ہے، ان کی معمولی کی زندگی بڑی حد تک معطل پڑی ہوئی ہے جس سے کشمیریوں کی ذہنی صحت پر نہایت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعد یہ سوال اٹھا ہے کہ کیا مودی سرکار کی پالیسی یہ ہے کہ کشمیریوں کو ذہنی مریض بنایا جائے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ایسی رپورٹس بھی سامنے آ چکی ہیں جن سے معلوم ہوا کہ بھارتی فوج کشمیریوں کے خلاف آتشی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے، جن میں سرفہرست خواتین پر جنسی تشدد ہے۔ بھارتی فوجی درندگی میں مزید آگے بڑھتے ہوئے کشمیری بچوں کو بھی نہیں بخش رہے، بچوں کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

  • تخم بالنگا کا استعمال صحت کےلیے کتنا فائدہ مند ہے

    تخم بالنگا کا استعمال صحت کےلیے کتنا فائدہ مند ہے

    دنیا بھر میں مختلف ذہنی امراض بے حد عام ہوگئے ہیں جن میں ڈپریشن اور ذہنی دباؤ سرفہرست ہیں،عالمی ادارہ صحت کی گزشتہ برس جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کےلیے مختلف ادویاں تیار کی گئی ہیں ساتھ ساتھ ماہرین کی جانب سے ڈپریشن کےمریضوں کو مختلف مشورے بھی فراہم کیجاتے ہیں تاہم ماہرین کی تازہ تحقیق کے مطابق تخم بالنگا ایسی غذا ہے جس کا استعمال ڈپریشن کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بے شمار فوائد رکھتا ہے۔

    تخم بالنگا میں موجود غذائیت ہڈیوں کو مضبوط کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق تخم بالنگا ڈپریشن کے مریضوں کو ڈپریشن سے باہر نکالتا ہے جو اومیگا 3 سے بھرپور ہوتا ہے جو انسانی مزاج کو مثبت اور اسے خوش کرنے میں بہترین معاونت فراہم کرتا ہے۔

    ڈپریشن ایک ایسی بیماری بن گئی ہے جس سے بے شمار افراد نبرد آزما ہیں۔

    پاکستان میں کتنی فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے؟

    سینٹرل فوڈ ٹیکنالوجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر رام نے بتایا کہ تقریباً 3 گرام تخم بالنگا ایک گلاس پانی میں ڈال کر 10 منٹ کےلیے چھوڑ دیں تاکہ وہ پانی کو اپنے اندر جذب کرسکے جس کے بعد اسے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ امریکی ماہرین کی جانب سے گزشتہ برس کی گئی تحقیق میں بتایا گیا کہ کسی شہر میں موجود سرسبز مقامات وہاں رہنے والے افراد کے ڈپریشن میں کمی کرسکتے ہیں۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    دماغی صحت کا عالمی دن: ہر 40 سیکنڈ بعد کسی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔

    سنہ 1992 سے آغاز کیے جانے والے اس دن کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال خودکشی سے بچاؤ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر 40 سیکنڈ بعد کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی شخص ذہنی تناؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کچھ عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں

    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔

    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

  • پاکستان میں کتنی فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے؟

    پاکستان میں کتنی فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے؟

    کراچی: ملک میں ڈپریشن کی بیماری وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈپریشن کے حوالے سے عالمی ادارے صحت کی رپورٹ شیئر کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر افراد کی جانب سے اسٹریس سمجھ کر ڈپریشن کا علاج نہیں کرایا جاتا ہے، ماہرین کہنا ہے کہ دنیا میں 4.4 فیصد یعنی 30 کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، ڈپریشن کی علامات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کی علامات میں جسمانی درد، چڑچڑا پن، معمول کے کام میں دل نہ لگنا، وزن میں نمایاں کمی، توجہ اور فیصلہ سازی میں کمی ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کو اسٹریس سمجھ کر اس کا علاج نہ کرانا اس بیماری میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

    ڈاکٹر مہرین زمان نے باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈپریشن کو پہلے تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا، ڈپریشن کو اگر آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تو اداسی ہے، نارمل بارڈر لائن سے نیچے محسوس کرنا، بستر سے نہ اٹھنا، بھوک کا نہ لگنا ڈپریشن کہلاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ روزمرہ کے کاموں میں دل نہ لگنا، جو چیزیں ہمیں خوشی دیتی ہیں ان سے بھی اداس ہوجانا ڈپریشن کی علامات ہیں۔

    ڈاکٹر مہرین زمان نے کہا کہ تاریخ اگر آپ دیکھیں تو ڈپریشن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان ہوتے ہیں، یہ بیماری ایک خاص عمر میں نہیں ہوتی ہے، ڈپریشن بچپن میں بھی ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈپریشن کا لفظ اب فیشن کے طور پر بھی استعمال ہونے لگا ہے کہ مثال کے طور پر لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت ڈپریسڈ ہوں، ڈپریشن سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ اس کا علاج فوری طور پر کرایا جائے۔

    ڈاکٹر مہرین زمان نے کہا کہ ڈپریشن کے علاج کے لیے ایسی دوائیاں موجود ہیں جو آپ کو نارمل زندگی کی جانب راغب کرتی ہیں تاکہ آپ اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح طریقے سے انجام دے سکیں۔