Tag: ڈپریشن

  • جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    جسم میں وٹامن کی کمی دماغی مسائل پیدا کرنے کا سبب

    ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور اینگزائٹی آج کل کے عام امراض بن گئے ہیں اور ہر دوسرا شخص ان کا شکار نظر آتا ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کا ایک اور سبب تلاش کرلیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں تو مختلف دماغی امراض و مسائل کی بڑی وجہ جینیات، دماغ کی کیمسٹری، ماحولیاتی عوامل اور کوئی طبی مسئلہ یا بیماری ہوتا ہے، تاہم اس کا تعلق جسم میں مختلف غذائی اجزا کی کمی سے بھی ہوسکتا ہے۔

    ان کے مطابق جسم میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغی مسائل میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وٹامن بی 6 اور آئرن کی کمی دماغ کے اس حصے میں کیمیائی تبدیلیوں میں اضافہ کردیتی ہے جو پینک اٹیکس (شدید گھبراہٹ)، گھٹن محسوس ہونے، سانس کے تیزی سے چلنے اور اینگزائٹی (بے چینی) کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    تحقیق کے لیے 21 افراد پر مشتمل گروہ کی جانچ کی گئی جو پینک ڈس آرڈر اور اینگزائٹی میں مبتلا تھے۔ ان میں سے کچھ افراد کو معمولی نوعیت کے پینک اٹیکس کا سامنا ہوتا جو گھر میں ہی کنٹرول کرلیا جاتا، البتہ کچھ کو ایمرجنسی میں اسپتال جانے کی ضرورت پڑ جاتی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ ان کے پینک اٹیک کی شدت ان کے جسم میں موجود غذائی اجزا کی سطح پر منحصر تھی، شدید اینگزائٹی اور پینک اٹیکس کا شکار افراد میں وٹامن بی 6 اور آئرن کی سطح کم تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اجزا دراصل دماغ میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے سیرو ٹونین کو فعال کرتے ہیں، سیرو ٹونین دماغ میں خوشی اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں استعمال کی جانے والی بہت سی اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں بھی سیرو ٹونین کو بڑھانے پر کام کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پہلو پر مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم صحت مند اور متوازن غذا کا دماغی صحت مندی سے نہایت گہرا تعلق ہے۔

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • ڈائری لکھنے کے حیرت انگیز فوائد

    ڈائری لکھنے کے حیرت انگیز فوائد

                  ایک زمانے میں ذاتی ڈائری لکھنے کا رواج نہایت عام تھا، ہر دوسرا شخص ڈائری لکھا کرتا تھا اور اس میں اپنے دن بھر کے واقعات درج کیا کرتا تھا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت ختم ہوتی گئی۔ جدید ٹیکنالوجی، موبائل فون، کمپیوٹر اور ٹیبلیٹس نے ایک طرف تو ڈائری کی جگہ لے لی تو ساتھ ہی اس وقت کو بھی مصروف کردیا جس وقت میں ڈائری لکھی جاتی تھی۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں ڈائری لکھنا آپ کو کیا کیا فوائد دے سکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق روزانہ ڈائری لکھنا بہت سے جسمانی و دماغی فوائد پہنچا سکتا ہے۔ یہ عادت انسان کی قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈائری لکھنا سانس کے مرض استھما میں کمی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ڈائری لکھنے کا سب سے اہم فائدہ دماغی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی آنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈائری میں اپنے جذبات اور احساسات لکھ لینا آپ کو دماغی طور پر پرسکون کرتا ہے جس سے آپ کے ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سے اپنی پریشانی کہہ کر اپنا دل ہلکا کرلیں۔

    ڈائری لکھنے سے انسان کو اپنی غلطیوں کو سمجھنے، انہیں درست کرنے، ان سے سیکھنے اور مستقبل میں نہ دہرانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

    ہم دن بھر میں مختلف قسموں کی صورتحال سے گزرتے ہیں اور ان پر مختلف ردعمل دیتے ہیں، بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ردعمل مناسب نہیں تھا۔

    ڈائری لکھنے کی عادت کی صورت میں دن گزرنے کے بعد جب ہم نئے سرے سے اس صورتحال پر غور کرتے ہیں تو اس صورتحال کا تجزیہ کرنے اور اس پر مناسب ردعمل کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوتے ہیں، یوں ہم جذباتی طور پر اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

    ڈائری لکھنے کی عادت آپ کو برے دنوں میں بھی اچھی اور خوشگوار یادیں یاد کروا سکتی ہے جس سے آپ کے دکھ اور ڈپریشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    اور ہاں، یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق ڈائری لکھنے کا مطلب لمبے چوڑے صفحات بھرنا نہیں، ایک مخصوص وقت میں چند سطروں میں اپنے دن بھر کا احوال لکھ دینے سے بھی آپ مندرجہ بالا فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔

    تو پھر آپ کب سے یہ فائدہ مند عادت اپنا رہے ہیں؟

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔

  • ڈپریشن سے چھٹکارہ چاہتے ہیں تو شہر کو سرسبز بنائیں

    ڈپریشن سے چھٹکارہ چاہتے ہیں تو شہر کو سرسبز بنائیں

    دنیا بھر میں مختلف ذہنی امراض بے حد عام ہوگئے ہیں جن میں ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سرفہرست ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

    تاہم حال ہی میں ماہرین نے ایک تحقیق کی جس میں بتایا گیا کہ کسی شہر میں موجود سرسبز مقامات وہاں رہنے والے افراد کے ڈپریشن میں کمی کرسکتے ہیں۔

    امریکی شہر فلاڈلفیا میں کی جانے والی اس تحقیق میں شہر کے 500 مختلف مقامات پر پودے اور گھاس اگائی گئی۔ ماہرین نے دیکھا کہ سبزے نے شہریوں کی دماغی صحت پر نہایت مثبت اثرات مرتب کیے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ سرسبز پودے اور گھاس اگانے کے بعد مذکورہ مقام پر رہنے والے لوگوں میں خوشی کے عنصر میں اضافہ ہوا جبکہ ان کے ذہنی تناؤ میں کمی دیکھی گئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سرسبز مقامات ذہنی صحت کو بہتر کرنے میں نہایت مددگار ہیں۔

    اس وقت امریکا میں ہر 5 میں سے 1 شخص کسی نہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق شہروں کو بڑے پیمانے پر سرسبز کر کے اور درخت لگا کر شہریوں کی دماغی صحت میں بہتری کی جاسکتی ہے۔

  • ڈپریشن کا مریض ہونے کا یہ فائدہ آپ کو حیران کردے گا

    ڈپریشن کا مریض ہونے کا یہ فائدہ آپ کو حیران کردے گا

    ڈپریشن ہماری زندگی میں ایک عام مرض بن چکا ہے، لیکن اس کا مریض ہونے کا ایک فائدہ جان کر آپ نہایت حیران ہوجائیں گے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو شدید ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں وہ نہایت تخلیقی ثابت ہوتے ہیں اور زندگی میں ان کی کامیابی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں ہالی ووڈ کے کئی معروف فنکاروں کی مثال دی گئی جو زندگی میں کبھی شدید ڈپریشن کے مریض رہے، بعض نے خودکشی کی کوشش بھی کی، لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی پیشہ وارانہ زندگی کو کامیاب ترین سمجھا جاتا ہے۔

    ہالی ووڈ کی لیڈی گاگا اور ڈوائن جانسن سمیت متعدد فنکاروں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ڈپریشن کا شکار رہے، جبکہ سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ان کی ساری زندگی ڈپریشن میں گزری۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دماغ میں موجود وہ جین جو ڈپریشن کا سبب بنتا ہے، وہی ہے جو انسان کو کامیاب ہونے کی طرف راغب کرتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ عملی زندگی میں کامیاب افراد میں سے 25 فیصد کسی نہ کسی دماغی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ’میں، میں‘ کی عادت زندگی میں کامیاب بنانے کے لیے مددگار

    بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن دماغی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے لہٰذا یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ یہ آپ کے لیے فائدہ مند ہے، تاہم ڈپریشن کے دوران بعض علامات ایسی ہوسکتی ہیں جو کسی شخص کو اس کی عملی زندگی میں کامیاب بنا سکتی ہیں۔

    ایک ماہر نفسیات کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کچھ ڈپریشن کے مریض ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ اس وقت کیا جب وہ بدترین ڈپریشن سے گزر رہے تھے، تاہم وہ اس دعوے کو ثابت نہیں کرسکے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، تاہم ورزش کے دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس بارے میں ماہرین اب تک تذبذب کا شکار تھے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق نے ماہرین کی الجھن دور کردی جس میں پتہ چلا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    برطانوی دارالحکومت لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔

  • برطانیہ میں 7 سال کے دوران 300 نرسوں کی خودکشی

    برطانیہ میں 7 سال کے دوران 300 نرسوں کی خودکشی

    لندن: برطانیہ میں 7 سالوں کے دوران 300 نرسوں کی خود کشی کے واقعات نے کئی سوالات پیدا کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 7 سال کے دوران 300 نرسوں نے خودکشی کی۔ خود کشی کرنے والی نرسوں کے لواحقین خود کشی کے رحجان کو مسلسل کام کی تھکن اور نفسیاتی ڈپریشن قرار دیتے ہیں۔

    برطانوی اخبار کے مطابق ملک میں نرسوں کی خود کشیوں کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں شہریوں نے حکومت سے نرسنگ کورس کرنے والی لڑکیوں کی تربیت کے دوران ان کی ذہنی صحت پرخصوصی توجہ دینے کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

    اخباری رپورٹ کے مطابق 22 سالہ نرس لوسی ڈی اولیویرا نے لیورپول میں 2017ء کے دوران ٹریننگ کے عرصے میں خود کشی کرلی تھی۔

    لوسی کی 61 سالہ والدہ نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ میری بیٹی کو دماغی عارضہ لاحق تھا۔ لوسی نرسنگ کورس کے دوران دیگرملازمتیں بھی کررہی تھی جب اس نے خود کشی کی تو اس وقت اس کی توجہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت پر مرکوز تھی۔

    لوسی کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں اگرچہ اپنی بیٹی کو واپس نہیں لاسکتی مگر ہمیں اس طرح کے واقعات کی روک تھام اس سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

  • ٹیم بنا کر کھیلنے والے بچے ذہنی مسائل کا کم شکار ہوتے ہیں، امریکی تحقیق

    ٹیم بنا کر کھیلنے والے بچے ذہنی مسائل کا کم شکار ہوتے ہیں، امریکی تحقیق

    واشنگٹن : امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیاہے کہ نوجوانوں میں37 فیصد ڈپریشن کا مسئلہ بڑھ گیا ہے،ان میں سے زیادہ تر بچوں کو ضروری مدد نہیں ملتی جو انہیں ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔

    حالیہ ہونے والی تحقیق کے مطابق مل جل کر ایک ٹیم کے صورت میں کھیلے جانے والے کھیلوں کا تعلق دماغ کے لمبے عرصے تک یاداشت محفوظ رکھنے اور جذباتی رد عمل دینے والے حصے ہپو کیمپال سے ہے۔

    بالغوں میں ڈپریشن کی وجہ سے ذہن کا یہ حصہ سکڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ تحقیق میں ٹیم اسپورٹس میں شامل 9-11 سال کی درمیانی عمر کے لڑکوں میں ڈپریشن کی شرح کم دیکھی گئی۔

    امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیڈیا ٹرکس کی ڈاکٹر سنتھیا روبیلا نے کہاکہ مل جل کر کھیلے جانے والے کھیل کی وجہ سے ایروبک معمول کا حصہ بن جاتا ہے جس سے نہ صرف حافظے، یاداشت بلکہ مزاج میں بھی بہتری آتی ہے۔

    ڈاکٹر کے مطابق ٹیم اسپورٹس سے بچے بہتر طریقے سے سماجی رویے سیکھ سکتے ہیں اور اسی دوران انہیں ڈپریشن سے بچنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ تحقیق میں 9-11 سال کی درمیانی عمر کے 4,191 بچے شامل تھے۔

    والدین سے ان کے بچوں کے حوالے سے ایک سوالنامہ بھروایا گیا جس میں ان کے بچوں کی مختلف قسم کی سرگرمیوں میں ان کی شمولیت اور ڈپریشن کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

    تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج میں ٹیم اسپورٹس میں حصہ نہ لینے والے بچوں میں ڈپریشن زیادہ پایا گیا۔رپورٹ کے مطابق نتائج کو سائنسی روشنی میں دیکھا جائے تو ٹیم اسپورٹس میں شامل بچوں کے دماغ کا وہ حصہ بڑھتا رہتا ہے جو ڈپریشن کو قابو میں کرتا ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سنتھیا لابیلا نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا بچوں میں ٹیم اسپورٹس میں شامل ہونے کے مثبت نتائج آ رہے ہیں،انھیں امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ والدین اپنے بچوں کو ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنائیں گے۔

    انہوںنے کہاکہ کھیلوں میں زخمی ہو جانے والے بچوں کی کہانیاں شہ سرخیوں کا حصہ بنتی ہیں لیکن والدین کے لیے یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ چوٹ لگنا کھیل کا حصہ ہے لیکن ان کھیلوں سے ان کے بچوں پر مثبت ذہنی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

  • حافظ قرآن شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں ، نئی تحقیق

    حافظ قرآن شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں ، نئی تحقیق

    جدہ : تحقیق میں یہ بات سامنے آئی حافظ قرآن افراد کا دماغ عام افراد سے زیادہ قوی ہوتا ہے، جس سے وہ دیگر بیماریوں مثلاََ شوگر ، بلڈ پریشر اور ڈپریشن سے محفوظ رہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قرآن کریم کی کرامات و معجزات بے شمار و لاثانی ہیں جن میں کسی قسم کی شک کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ، عظیم آسمانی کتاب میں بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی ، اصلاح و بھلائی کے قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔

    صدیوں سے علماومفکریں اس عظیم کتاب پر تحقیق کرتے ہیں اور نئے نئے معجزات سامنے آتے ہیں ۔

    سعودی اخبار کے مطابق سعودی عرب کے مشرقی صوبے القصیم یونیورسٹی کے شعبہ طب میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ حافظ قرآن افراد کا دماغ عام افراد سے زیادہ قوی ہوتا ہے، 81 فیصد حفاظ شوگر ، بلند فشار خون کے علاوہ ڈپریشن کا مرض لاحق نہیں ہوتا۔

    قصیم یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کافی عرصے تک متعدد افراد کا جائزہ لیااور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ افراد جنہوں نے کم از کم 10 سپارے حفظ کررکھے ہیں، ان میں ڈپریشن 81 فیصد ، شوگر 71 فیصد اور بلڈ پریشر کا مرض 64 فیصد ان افراد کے مقابلے میں کم ہے جنہوں نے محض چند صورتیں ہی حفظ کی ہیں ۔

    طبی تحقیقی ٹیم نے بریدہ کی مساجد سے لوگوں کا انتخاب کیا جن کی عمر55 برس اور اس سے زائد تھی۔