Tag: ڈپریشن

  • برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    برگر آپ کو نفسیاتی مریض بنا سکتا ہے

    کیا آپ خود کو ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار محسوس کرتے ہیں؟ تو اس کا سبب وہ برگر یا فرنچ فرائز ہوسکتے ہیں جنہیں آپ بہت زیادہ کھاتے ہیں۔

    انٹرنیشنل جرنل آف فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق جنک فوڈ آپ کو ڈپریشن سمیت مختلف دماغی و نفسیاتی مسائل سے دوچار کرسکتا ہے۔

    اس سے قبل کئی بار اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ جنک فوڈ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    تاہم اب امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں دیکھا گیا کہ شوگر کا زیادہ استعمال بائی پولر ڈس آرڈر جبکہ تلی ہوئی اشیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جنک فوڈ کا استعمال عمر، جنس اور ازدواجی حیثیت سے قطع نظر ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے سربراہ پروفیسر جم ای بانتا نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس بات پر جامع تحقیق کی جائے کہ مختلف غذائیں ذہنی صحت پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ذہنی بیماریوں کا شکار افراد کو دوا اور کاؤنسلنگ کے ساتھ ساتھ صحت مند غذاؤں کی طرف راغب کرنے کی بھی ضروت ہے۔

  • اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    اب ڈپریشن اور عمر رسیدگی کے باعث کھو جانے والی یادداشت کی بحالی ممکن

    سان فرانسسکو: سائنس دان ایسا مالیکیول ایجاد کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں جو ڈپریشن اور زیادہ عمر کے باعث یادداشت کھو دینے والے مریضوں کی میموری واپس لے آتا ہے۔

    سائنسی جریدے مالیکیولر نیورو سائیکیٹری میں شائع ہونے والے مقالے میں مرکز برائے نشے کے عادی اور ذہنی صحت کینیڈا کے سائنس دانوں نے ایک نیا دافع مرض مالیکیول ایجاد کرنے کا انکشاف کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یہ تھیراپیوٹک مالیکیول نہ صرف مرض کی علامات کو نمایاں طور پر ختم کرتا ہے بلکہ دماغ کی اندرونی تہہ میں ہونے والی توڑ پھوڑ کی بھی مرمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    ریسرچ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا عمر زیادہ ہو جانے کے باعث یادداشت کھو جانے کی صورت میں یادداشت کی بحالی کے لیے کوئی کارگر دوا موجود نہیں تھی، تاہم حالیہ ریسرچ نے یادداشت کھو جانے کے علاج میں ٹھوس امید دلائی ہے۔

    طبی تحقیق کے مطابق گابا نیورو ٹرانسمیٹرز نظام کے دماغ کے خلیات میں توڑ پھوڑ یادداشت کھو جانے کے ذمہ دار ہیں۔

    نیا مالیکیول نہ صرف گابا نیورو ٹرانسمیٹر کے ریسیپٹر تک جا کر دماغ کے اُن خلیات کی توڑ پھوڑ کو روکتا ہے بلکہ دماغ کے خلیوں کی تعمیرِ نو میں بھی کردار ادا کرتا ہے جس سے یادداشت کی بحالی ممکن ہو جاتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یادداشت کی خرابی سے بچنا چاہتے ہیں تو گھر کے کام کریں

    طبی ماہرین نے بتایا کہ خلیوں کی تعمیرِ نو سے یادداشت واپس آنے کے بھی امکانات روشن ہیں۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چند ضروری اقدامات کے بعد یہ مالیکیول دوا کی صورت میں 2022 یا 2023 تک مارکیٹ میں دستیاب ہوگی اور دماغی امراض میں ایک انقلابی حیثیت حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائے گی۔

  • ذہنی تناؤ ہڈیوں کی کمزوری کا سبب

    ذہنی تناؤ ہڈیوں کی کمزوری کا سبب

    کیا آپ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہوجاتے ہیں؟ تو پھر آپ کے لیے بری خبر ہے کہ یہ عمل آپ کی ہڈیوں کو کمزور بنا رہا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق مستقل ذہنی تناؤ میں مبتلا رہنا جسم میں وٹامن ڈی کی سطح کو کم کردیتا ہے جس سے ہڈیاں کمزوری کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ کا شکار مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ہوتی ہیں لہٰذا ان میں ہڈیوں کی کمزوری کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسے افراد میں ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ 3 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک ذہنی تناؤ میں مبتلا رہنا جسم میں مختلف مادوں کی مقدار کو غیر متوازن کردیتا ہے۔ اس کے اثرات جوڑوں اور ہڈیوں پر بھی پڑتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ذہنی تناؤ، تھکاوٹ کا احساس اور تنہائی ہڈیوں میں مختلف معدنیات کی مقدار کو کم کردیتی ہے جس سے ان کی کارکردگی میں فرق آجاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی تناؤ کا شکار افراد اپنی غذا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈ کی مقدار بڑھا دیں۔ اس سے ذہنی کارکردگی میں اضافہ ہوگا جبکہ ذہنی تناؤ میں بھی کمی واقع ہوگی۔

  • کیا یہ تصویرحرکت کررہی ہے؟

    کیا یہ تصویرحرکت کررہی ہے؟

    سوشل میڈیا پر ہر روز ذہن گھما دینے والی تصاویر سامنے آتی رہتی ہیں، ایسی ہی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہو رہی ہے جو لوگوں میں ذہنی تناؤ کی نشاندہی کر رہی ہے۔

    یہ رنگ برنگی سی تصویر پوسٹ کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تصویر ان افراد کو بالکل ساکن نظر آئے گی جو ذہنی تناؤ کا شکار نہیں، جو معمولی تناؤ کا شکار ہیں ان کو یہ تصویر معمولی حرکت کرتی محسوس ہوگی جبکہ سخت ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کو یہ تصویر نہایت تیزی سے حرکت کرتی معلوم ہوگی۔

    ابتدا میں اس تصویر کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایک جاپانی ماہر نفسیات نے تخلیق کی ہے، تاہم یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ تصویر ایک یوکرینی مصور نے بنائی ہے اور اس کا ذہنی تناؤ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    سوشل میڈیا پر بے شمار افراد اس تصویر کو اسٹریس ٹیسٹ سمجھ کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

    کئی افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ سخت ڈپریشن کا شکار ہیں لہٰذا انہیں یہ تصویر بہت تیزی سے حرکت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

    کچھ افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تصویر صرف ایک بصری دھوکہ ہے اور باوجود اس کے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں، انہیں یہ تصویر بالکل ساکت معلوم ہوئی۔

    آپ نے اس تصویر میں کیا پایا؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

  • ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈپریشن کی بڑی وجہ سامنے آگئی

    ڈبلن: آئرلینڈ کے ماہرین نے کہا ہے کہ عمر رسیدہ افراد ’وٹامن ڈی‘ کی کمی کے باعث ذہنی تناؤ (ڈپریشن) کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ماہرین نے ذہنی تناؤ کے حوالے سے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بالخصوص عمر رسیدہ افراد میں ڈپریشن کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے دوران 75 فیصد ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وٹامنز کی کمی ہی ذہنی تناؤ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    چار سالہ تحقیق اور سروے ی رپورٹ میں ماہرین نے یہ بھی مشورہ دیا کہ عمر رسیدہ افراد معمولی اختیاط کر کے ذہنی تناؤ سے محفوظ رہ سکتے ہیں، اسی طرح نوجوان بھی وٹامنز کی مقدار کو یقینی بنائیں تو مستقبل میں بھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر یا پچاس سال کی عمر کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے معیار زندگی اس قدر دشوار بنادیتا ہے کہ قبل از وقت انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    وٹامن ڈی کیا ہے؟

    ہمارے جسم میں موجود کروڑوں خلیات کو چوبیس گھنٹے غذائیت سے بھرپور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، ان ہی سے وٹامنز پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو توانائی اور جسم کو فعال رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی کمی انسانی جسم کو نڈھال اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    وٹامنز کیمیائی مرکبات ور اہم غذائی ضرورت ہیں جو کسی بھی خلیے کی بنیادی ضرورت کو پورا کرتے ہوئے انسان کو متحرک رکھتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    قدرتی طور پر انسانی جسم میں کئی اقسام کے وٹامنز پائے جاتے ہیں جن میں وٹامن اے، بی، بی 6 ، بی 12، وٹامن سی، ڈی، ای اور سمیت دیگر شامل ہیں، تمام وٹامنز اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی کی اہمیت

    جسم کو درکار وٹامنز میں وٹامن ڈی سب سے اہم وٹامن ہے جو جسم کے عضلات، پٹھوں ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط بناتا ہے اور جسم کے اہم اعضاء جیسے دل، گردے، پھیپھڑے اور جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انسانی جسم جذبات خوشی، غمی، عزم، حوصلے کو کنٹرول کرنے والے نیورو ٹرانسمیٹرز ڈوپامن، سیروٹونن اور ایڈرینانن کے تناسب میں کمی سے انسان خودکشی کی طرف راغب ہوتا ہے، نیورو ٹرانسمیٹرز کی خرابی وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

  • مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین ڈپریشن کا شکار

    مانع حمل ادویات استعمال کرنے والی خواتین ڈپریشن کا شکار

    آج کل کے دور میں مانع حمل ادویات کا استعمال خواتین میں بہت عام ہے، ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مانع حمل ادویات خواتین کے دماغ کے اس حصے کو متاثر کرتی ہیں جہاں سے خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، نتیجتاً خواتین خوشی کے جذبات سے محروم ہوجاتی ہیں۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق میں ان خواتین کے دماغ کا جائزہ لیا گیا جو مانع حمل ادویات استعمال کرتی تھیں۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ یہ ادویات خواتین کے دماغ کے 2 اہم حصوں کی جسامت کو سکیڑ کر ان کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: رحم کے کینسر کی علامات جانیں

    دماغ کے یہ دونوں حصے جذبات خاص طور پر خوشی کے جذبات کو پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ مانع حمل ادویات کے استعمال سے ان حصوں کی کارکردگی کم ہوگئی یوں خواتین میں ڈپریشن اور ناخوشی کا احساس بڑھ گیا۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ادویات دماغ کی مجموعی کارکردگی کو بھی متاثر کرتی ہیں جس کے باعث خواتین کو اپنے روزمرہ کے کام سر انجام دینے میں مشکل کا سامنا پیش آتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق فی الحال چھوٹے پیمانے پر کی گئی ہے لہٰذا اس کے نتائج کو حتمی نہیں کہا جاسکتا، مانع حمل ادویات کے نقصانات اور اثرات کے بارے میں جاننے کے لیے مزید بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

  • مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    مطالعہ ڈپریشن کم کرنے میں مددگار

    آج کل کی مصروف زندگی میں ڈپریشن نہایت ہی عام مرض بن چکا ہے اور ہر دوسرا شخص اس مرض کا شکار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی میں مطالعے کی عادت ڈپریشن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سسکیس میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مطالعہ کرنا دل کی دھڑکن کو کم کرتا ہے جبکہ اعصاب کو پرسکون کرتا ہے جس سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مطالعہ کسی بھی اور طریقے سے زیادہ 68 فیصد تک ڈپریشن میں کمی کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مطالعے کے دوران ڈپریشن کا شکار افراد کا دماغ حقیقی زندگی کے مسئلے سے ہٹ کر کتاب میں دی گئی صورتحال میں محو ہوجاتا ہے جس سے ان کے ذہنی دباؤ اور تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے افراد بڑھاپے میں یادداشت کی بیماریوں یعنی ڈیمنشیا اور الزائمر سے محفوظ رہتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ روزانہ صرف 6 منٹ کا مطالعہ ڈپریشن سے خاصی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

  • خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    احمد ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جانے لگے۔ اس نے ہر جانب ہاتھ پیر مارے، دوستوں اور رشتے داروں سے مدد طلب کی لیکن کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حالات سے مایوس ہو کر اس نے ایک دن تنگ آکر خودکشی کا سوچنا شروع کردیا، وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو بتاتا رہا کہ اگر اس کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ خود کشی کرلے گا۔

    صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ رقم کا تقاضہ کرنے والوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا، گھر والے بھی ان حالات کے لیے اسی کو قصور وار ٹہرا رہے تھے، اچھے وقتوں کے دوست اب فون اٹھانے سے کتراتے تھے کہ مبادا وہ رقم طلب نہ کرلے، بالآخر ایک دن اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

    میڈیکل اسٹور سے نیند کی گولیاں لیں اور اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے معدے میں انڈیل لیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب ایک پرسکون خاتمہ اس کے قریب ہے لیکن بروقت طبی امداد نے اس کی جان بچالی۔

    ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں احمد موجود ہیں، جو خودکشی کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیال کو جنم دینے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

    یہ لوگ معاشرتی رویوں، گھریلو حالات، احساس کمتری، ناکام عملی یا ازدواجی زندگی، کسی بڑے صدمے یا نقصان کی وجہ سے ایک دھچکے کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ خودکشی کی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز نے آج خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ کسی شخص میں خودکشی کے رجحان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ اور کیا ہم خودکشی کا ارادہ کیے ہوئے کسی شخص کو بچا سکتے ہیں، اگر ہاں تو کیسے؟

    سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے کے پیچھے کیا عوامل یا وجوہات ہوتی ہیں۔

    لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

    خودکشی کا رجحان عموماً مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فروغ پاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار ہونا

    کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا جس میں موت بہت پرکشش لگتی ہو

    کسی شخص کو اس کام پر اکسایا جائے

    کسی کو مدد کی ضرورت ہو لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آئے اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے

    کسی قسم کا ناقابل برداشت پچھتاوا، گہرا صدمہ یا بہت بڑا نقصان

    خودکشی کی خاندانی تاریخ موجود ہو تب بھی امکان ہے کہ کسی شخص میں خودکشی کا رجحان پایا جائے۔

    ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے علاوہ دیگر دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزو فرینیا بھی خودکشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں منشیات اور الکوحل کے عادی افراد میں بھی خودکشی کا رجحان ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

    اذیت پسندی جو ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے، بھی کسی کو خودکشی کی طرف مائل کرسکتی ہے۔

    ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔

    اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سلیم بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟

    ان کے مطابق خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایسا اظہار کرے کہ اس کی زندگی بے فائدہ ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے، اور وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    خودکشی کی عام علامات

    خودکشی کی سب سے عام علامت ڈپریشن کا شکار ہونا ہے اور بذات خود ڈپریشن کے مریض میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن پر آس پاس کے افراد کو دھیان دینا بہت ضروری ہے۔

    ان علامات میں مذکورہ شخص کی اداسی، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانا، تنہائی میں وقت گزارنا، ناامیدی، ہر شے سے غیر دلچسپی، اپنے بارے میں منفی باتیں کرنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اس کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، موت اور خودکشی کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔

    کہاں الرٹ ہونے کی ضرورت ہے؟

    ہنسی مذاق میں مرنے کی گفتگو کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن جب آپ دیکھیں کہ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے کوئی شخص موت کی باتیں کرنے لگے، کوئی پریشان شخص موت یا خودکشی کے بارے میں کہے تو یہ معمولی بات نہیں۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ خودکشی کا طریقہ سوچنے کا ہے۔ مریض اس بات پر غور کرتا ہے کون سا طریقہ مرنے کے لیے موزوں رہے گا۔ وہ آپ کو لوگوں سے زہر یا نیند کی گولیوں کے بارے میں بھی معلومات لیتا نظر آئے گا۔

    ’خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں‘۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔

    اے آر وائی نیوز نے اس بارے میں ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر طحہٰ صابری سے بھی گفتگو کی۔

    ان سے پوچھا گیا کہ کیا خودکشی کسی فوری واقعے کا ردعمل ہوتی ہے؟ یا ماضی میں پیش آنے والے بہت سے حالات و واقعات مل کر کسی شخص کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں؟

    اس بارے میں طحہٰ صابری کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھوڑا سا مشکل ہوگا کہ کب کس شخص کے ذہن میں خودکشی کا خیال آجائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ طویل عرصے سے مایوسی کا شکار رہنے والے ہی خودکشی کی کوشش کریں، یہ فوری طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جیسے گھریلو لڑائیوں میں کسی شخص کا خودکشی کرلینا، امتحان میں فیل ہوجانا۔ ایسی صورت میں صرف ایک یا 2 دن میں متاثرہ شخص خودکشی کے بارے میں سوچ کر اس پر عمل کر ڈالتا ہے۔

    خودکشی کرنا کمزوری کی علامت؟

    کہا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کمزور ہوتے ہیں، کیا اپنی ہی جان لینے کے ارادے پر عمل کرنا طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی نشاندہی نہیں؟

    اس بارے میں ڈاکٹر طحہٰ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ہی تصورات غلط ہیں۔ کوئی انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے کسی سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو اور وہ اپنی زندگی سے بے حد مایوس ہوچکا ہو۔ ایسے میں موت ہی اسے آسان راہ فرار اور ذریعہ نجات نظر آتی ہے۔ ’کمزور ہونے یا مضبوط ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘۔

    کیا کسی شخص کی خودکشی کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ڈاکٹر طحہٰ کہتے ہیں کہ یقیناً یہ معاشرے کی ہی ناکامی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد نہ کر سکی جب اسے لوگوں اور اداروں سے پہلے سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔

    خودکشی کا رجحان کم کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

    بحیثیت معاشرہ خودکشی کسی ایک فرد کا عمل نہیں۔ ایک خودکشی سے پورا خاندان ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے خصوصاً بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے تو اس کے لیے ہر شخص ذمہ دار ہے۔

    تو پھر انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

    ڈاکٹر طحہٰ کے مطابق، ’ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، جیسے اوپر بیان کیے گئے احمد کے کیس میں اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنا قرض اتار سکتا ہے یا اس کے پاس کیا متبادل آپشن موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی دوسرے شخص کی جان لے لے۔

    کیا مذہب سے تعلق اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

    اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خودکشی کو حرام کہا گیا ہے۔ کیونکہ انسان ناامیدی اور مایوسی کی آخری حد پر پہنچ کر خودکشی کرتا ہے اور مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔

    ’خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی ادارہ

    دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے آئی اے ایس پی (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن) کے سربراہ اس وقت ایک پاکستانی ڈاکٹر مراد موسیٰ ہیں۔ ڈاکٹر مراد اس ادارے کی سربراہی کرنے والے پہلے ایشیائی اور پہلے پاکستانی شخص ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ذہنی صحت، صحت کی پالیسی میں ترجیح نہیں ہے، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے لہٰذا پاکستان میں خودکشی کی درست شرح بھی مصدقہ نہیں۔

    ان کے مطابق ہر سال ملک میں تقریباً ڈیڑھ سے 3 لاکھ کے قریب افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 13 سے 15 ہزار کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اندازاً پاکستان کی 20 فیصد آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے جن میں سے 80 فیصد علاج اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر مراد کے مطابق ذہنی صحت کے بارے صحیح معنوں میں توجہ سنہ 2016 کے بعد سے دینی شروع کی گئی جب آرمی پبلک اسکول کے بھیانک حادثے میں بچ جانے والوں کی ذہنی کیفیت خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ اس وقت ذہنی صحت کی بہتری کی طرف توجہ دی گئی اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں اقدامات شروع کیے۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی ادارے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوسائٹی دنیا بھر میں ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جہاں مریض فون کر کے اپنے مسائل بتا سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ’پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں نیند کی کمی آپ پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اور آپ کو کن بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے؟

    ماہرین کے مطابق ایک نارمل انسان کے لیے 8 گھنٹے کی نیند لینا از حد ضروری ہے۔ اگر یہ دورانیہ اس سے کم یا اس سے زیادہ ہو تو کئی قسم کی جسمانی و ذہنی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نیند لانے کے 5 آزمودہ طریقے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی آپ پر ہر طرح کے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ منفی اثرات کون سے ہیں۔


    ڈپریشن

    h6

    ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی آپ کو تھکن کا شکار کر سکتی ہے جس کے بعد آپ چڑچڑے پن کا شکار ہوجائیں گے اور صحیح سے اپنے روزمرہ کے کام سرانجام نہیں دے پائیں گے۔

    یہ چڑچڑاہٹ آگے چل کر ڈپریشن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔


    توجہ کی کمی

    h5

    اگر آپ نے اپنی نیند پوری نہیں کی تو آپ کا دماغ غیر حاضر رہے گا جس کے باعث آپ کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پائیں گے۔

    یہ صورتحال آگے چل کر اے ڈی ایچ ڈی یعنی اٹینشن ڈیفسٹ ہائپر ایکوٹیوٹی ڈس آرڈر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شکار شخص کسی بھی چیز پر تسلسل سے اپنا دھیان مرکوز نہیں کر سکتا۔


    ذیابیطس

    h4

    نیند کی کمی آپ کے جسم میں موجود انسولین کے ہارمون کی کارکردگی کو متاثر کرے گی۔ انسولین ہماری غذا میں موجود شکر کو جذب کرتا ہے جس کے باعث یہ ہمارے جسم کا حصہ نہیں بن پاتی۔ اگر یہ ہارمون کام کرنا چھوڑ دے تو جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے ذیابیطس کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

    اس بیماری کا واحد علاج مصنوعی طریقہ سے جسم میں انسولین داخل کرنا ہی ہے۔


    ہائی بلڈ پریشر

    h3

    نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے اور آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مریض بنا سکتی ہے۔


    کولیسٹرول میں اضافہ

    h2

    نیند کی کمی سے آپ کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے آپ موٹاپے اور امراض قلب سمیت کئی بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔