Tag: ڈپریشن

  • ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    آج کی مصروف زندگی میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور زندگی کی مختلف الجھنیں ہمارے دماغ کو تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں اور ہم زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کرنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

    زندگی میں کبھی نہ کبھی ہم خود یا ہمارا کوئی عزیز ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ ہم ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے اور بعض اوقات لاعلمی کے باعث ہم ان کے مرض کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف ایک اداسی ہی ڈپریشن کی علامت نہیں ہے۔

    ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات ڈپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا


    ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟

    ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔ ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہوگا۔

    ذہنی تناؤ کا شکار افراد کی جانب سے برے رویے یا خراب الفاظ کی بھی امید رکھنی چاہیئے اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا چاہیئے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ رویہ متشدد صورت اختیار نہ کرے۔

    مریض کے خیالات ور جذبات کو سنتے ہوئے آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف اس کا دھیان مبذول کروایا جائے جیسے کسی لذیذ کھانے، کسی دلچسپ (خاص طور پر مزاحیہ) ٹی وی پروگرام، خاندان میں آنے والی کسی تقریب کی تیاری، شاپنگ، کسی اہم شخصیت سے ملاقات یا کہیں گھومنے کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کی جائے۔

    اسی طرح ڈپریشن کے شکار شخص کو جسمانی طور پر قریب رکھا جائے اور انہیں گلے لگایا جائے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا کہ قریبی رشتوں جیسے والدین، بہن بھائی، شریک حیات یا دوستوں کے گلے لگنا ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلے لگنا بے شمار فوائد کا سبب

    ڈپریشن کے شکار مریض کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے لہٰذا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی لفظ مرض کو بدتری کی جانب نہ گامزن کردے۔

    ماہرین کے مطابق آپ ڈپریشن کا شکار اپنے کسی پیارے یا عزیز کا ڈپریشن کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ کا استعمال کریں۔ یہ ان کے مرض کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔


    یہ کہیں

    تم اکیلے اس مرض کا شکار نہیں ہو۔

    تم ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت کو نہیں سمجھ سکتا / سکتی لیکن میری کوشش ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔

    وقت بدل جائے گا، بہت جلد اچھا وقت آئے گا اور تم اس کیفیت سے باہر نکل آؤ گے۔

    ہم (خاندان / دوست) تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری بیماری سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔


    یہ مت کہیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل الفاظ ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    بہت سے لوگ تم سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔

    زندگی کبھی بھی کسی کے لیے اچھی نہیں رہی۔

    اپنے آپ کو خود ترسی کا شکار مت بناؤ۔

    تم ہمیشہ ڈپریشن کا شکار رہتے ہو، اس میں نئی بات کیا ہے۔

    اپنا ڈپریشن ختم کرنے کی کوشش کرو۔

    تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا / سکتی ہوں۔ میں خود کئی دن تک اس کیفیت کا شکار رہا / رہی ہوں۔

    صرف اپنی بیماری کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔


    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون لازمی چاہیئے۔

    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

  • ذہنی دباؤ کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    ذہنی دباؤ کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    آج کی مصروف زندگی میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے۔ ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوتا ہے۔ کام کی زیادتی اور زندگی کی مختلف الجھنیں ہمارے دماغ کو تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔

    جن دنوں آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہوں ان دنوں آپ چاہ کر بھی زندگی کی کسی چیز سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا

    لیکن فکر مت کریں، یہاں ہم آپ کو ذہنی تناؤ کم کرنے کے چند نہایت انوکھے طریقے بتا رہے ہیں۔ اس کے لیے نہ ہی تو آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہے نہ آپ کی بھاری رقم خرچ ہوگی۔


    لذیذ کھانا

    1

    ذہنی تناؤ کم کرنے کا ایک طریقہ لذیذ کھانا ہے۔ آپ کے پسند کا بہترین کھانا آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر آپ کے پسندیدہ فلیور کی آئس کریم بھی بہترین نتائج دے گی۔


    سیڑھیاں چڑھیں

    3

    سیڑھیاں چڑھنے سے آپ کی سانسوں کی آمد و رفت تیز ہوگی اور آپ زیادہ آکسیجن کو جذب کریں گے۔

    زیادہ آکسیجن جذب کرنے سے آپ کے جسمانی اعضا فعال ہوں گے نتیجتاً جسم کے لیے مضر اثرات رکھنے والے ہارمون کم پیدا ہوں گے۔


    صفائی کریں

    4

    بعض دفعہ ہمارے آس پاس پھیلی اور بکھری ہوئی چیزیں بھی دماغ کو دباؤ کا شکار کرتی ہیں۔

    چیزوں کو ان کے ٹھکانے پر واپس رکھا جائے اور آس پاس کے ماحول کو سمٹا ہوا اور صاف ستھرا کرلیا جائے تو ذہنی تناؤ میں کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔


    کنگھا کریں

    5

    سر کی مالش یا کنگھا کرنا سر کے دوران خون کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دوران خون تیز ہوگا تو دماغ خود بخود تازہ دم ہوگا اور اس پر چھایا تناؤ کم ہوسکے گا۔

    ایک مصروف اور تناؤ بھرا دن گزارنے کے بعد 10 سے 15 منٹ اپنے بالوں میں کنگھا کریں۔ یہ عمل یقیناً آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرے گا۔


    مساج کریں

    چہرے، بھوؤں، اور آنکھوں کا ہلکا سا مساج کرنا بھی ذہنی دباؤ کم کرنے کا سبب بنے گا۔


    پینٹنگ

    8

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں اور مصوری کا تعلق دماغ کے خوشگوار اثرات سے ہے۔ اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مصوری کریں، یہ یقیناً آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں خوشگوار تبدیلی لائیں


    غسل کریں

    موسم کی مناسبت سے سرد یا گرم پانی سے غسل کرنا بھی ذہنی تناؤ کو کم کرنے کا باعث بنے گا اور دماغی اعصاب کو پرسکون بنائے گا۔


    رقص کریں

    7

    رقص کرنا ذہنی دباؤ کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ خالی کمرے میں میوزک کے ساتھ رقص کرنا نہ صرف ذہنی دباؤ بلکہ وزن گھٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔


    اچھی خوشبو سونگھیں

    10

    پھولوں، گھاس، درختوں کی خوشبو یا بہترین پرفیومز کی خوشبو سونگھنا آپ کے دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔


    اچھی یادیں

    9

    ذہنی دباؤ کے وقت اس گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں جس میں آپ ہنسے اور زندگی سے لطف اندوز ہوئے۔ ہنسنے والی باتوں کو دوبارہ دہرائیں یقیناً آپ ہنس پڑیں گے۔ یہ عمل آپ کے ڈپریشن کو کم کرسکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


     

  • کیا آپ ہر وقت تھکن محسوس کرتے ہیں؟

    کیا آپ ہر وقت تھکن محسوس کرتے ہیں؟

    ایک مصروف دن گزارنے یا کوئی مشقت بھرا کام کرنے کے بعد تھکن محسوس ہونا ایک قدرتی عمل ہے، تاہم بعض افراد بغیر کوئی کام کیے بھی تھکن محسوس کرتے ہیں۔

    دراصل بغیر کسی وجہ کے تھکن محسوس ہونا کسی بیماری یا جسم میں کسی شے کی کمی کی طرف اشارہ ہے۔

    اگر آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے تو یہاں آپ کو تھکن محسوس ہونے کی کچھ وجوہات بتائی جارہی ہیں۔


    نیند پوری نہ ہونا

    تھکن کی سب سے بڑی وجہ نیند پوری نہ ہونا ہے۔

    نیند پوری ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ 8 گھنٹے ہی سوئیں۔ ضروری ہے کہ آپ کو رات میں پرسکون اور گہری نیند بھی آئی ہو، ورنہ آپ چاہے کتنے ہی گھنٹے سو لیں آپ کی نیند کی کمی پوری نہیں ہوگی۔

    اسی طرح اگر آپ بہت تھکے ہوئے ہیں تو ہوسکتا ہے 8 گھنٹے میں آپ کی نیند پوری نہ ہو اور آپ کو مزید سونے کی ضرورت ہو۔

    اچھی نیند کے لیے پرسکون اور آرام دہ جگہ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ورنہ کسی غیر آرام دہ جگہ پر سونا آپ کو اگلے دن کمر، گردن کے درد اور تھکن میں مبتلا کرسکتا ہے۔


    اچھی غذا

    جسم کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے اچھی غذا بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    اچھی غذا وہ ہوتی ہے جو غذائیت سے بھرپور ہو اور جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری کرے۔

    جنک فوڈ، کولڈ ڈرنکس اور حد سے زیادہ میٹھا آپ کے جسم کو درکار توانائی فراہم نہیں کرسکتا نتیجتاً آپ غنودگی اور تھکن محسوس کرتے ہیں۔

    جسم کی توانائی کے لیے ضروری ہے کہ پھل، سبزیاں، گندم اور پروٹین والی غذاؤں کا باقاعدہ استعمال کیا جائے۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن یا ذہنی تناؤ بھی آپ کو تھکن میں مبتلا کرنے کا ایک سبب ہوسکتا ہے۔

    ذہنی طور پر پریشان ہونا آپ کو غنودگی اور تکلیف میں مبتلا کرتا ہے جبکہ آپ کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔


    امراض قلب

    ہر وقت تھکن میں مبتلا رہنا امراض قلب کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔

    دل کے مریض روزمرہ کے کاموں جیسے سیڑھیاں چڑھنے، زیادہ چلنے یا کوئی محنت کا کام کرنے کے دوران تھک جاتے ہیں۔

    ایسے وقت میں دل کو زیادہ خون پمپ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ پہلے سے زیادہ کام کرتا ہے نتجیتاً آپ تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سوتے ہوئے بلندی سے نیچے گرنے کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

    سوتے ہوئے بلندی سے نیچے گرنے کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

    کیا آپ کو نیند کے دوران کبھی ایسا محسوس ہوا ہے کہ آپ بہت گہرائی میں نیچے گرتے جارہے ہیں؟ اور اس کے بعد ایک جھٹکے سے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے؟

    نیند کے دوران ہمیں مختلف کیفیات کا سامنا ہوتا ہے جن میں سے ایک یہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسے ہائپنک جرک کہا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نیند لانے کے 5 آزمودہ طریقے

    یہ اس وقت محسوس ہوتا ہے جب ہم گہری نیند میں نہیں ہوتے اور ہمیں سوئے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے دوران آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی، آسمان یا کسی اور بلند جگہ سے نیچے گر رہے ہیں۔

    ماہرین کے طابق اس کی کوئی حتمی وجہ تو نہیں، تاہم اس کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔

    ایک نظریے کے مطابق یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ بہت زیادہ تھکے ہوئے، تناؤ زدہ ہوں یا آپ کی نیند پوری نہ ہوئی ہو، تب آپ کا دماغ شدت کے ساتھ سونا چاہتا ہے لیکن آپ کا جسم اس سے مطابقت نہیں کر پاتا۔

    ایک اور نظریے کے مطابق جب ہمارے اعصاب دن بھر کے تھکے ہونے کے بعد رات میں سکون کی حالت میں آتے ہیں تو اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے تاہم اس کے دوران بعض اوقات آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی اونچی جگہ سے نیچے گر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغ کو آرام پہنچانے کے طریقے

    ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال پیش آنے کی وجوہات میں بہت زیادہ کیفین کا استعمال، بے چینی اور دماغی تناؤ بھی شامل ہے۔ اس صورتحال کا صحت مند لوگوں کو بہت کم سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ رات سونے سے قبل کیفین پینے کی عادت ختم کی جائے، جسم اور دماغ کو سکون پہنچانے والے طریقے جیسے مراقبے سے مدد حاصل کی جائے، اور سونے کی جگہ اور بستر کو صاف ستھرا اور آرام دہ رکھا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں

    موڈ کو تیزی سے تبدیل کرنے والا مرض ۔ علامات جانیں

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔

    مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

    علامات

    یہاں ہم آپ کو اس مرض کی 5 عام علامات بتا رہے ہیں۔ اگر آپ بھی اپنے اندر یہ علامات پائیں تو یہ اس مرض کی طرف اشارہ ہے۔

    حد سے زیادہ ڈپریشن

    آج کل تقریباً ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے جو غصہ، چڑچڑاہٹ یا اداسی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس مرض میں یہ تمام علامات اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہیں۔

    اس کے ساتھ اس مرض کا شکار شخص ناامیدی، بے چینی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتا ہے یا وہ لوگوں یا مختلف صورتحال میں الجھن بھی محسوس کرسکتا ہے۔

    نیند میں بے قاعدگی

    بائی پولر ڈس آرڈر نیند پر نہایت منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس مرض کا شکار شخص رات میں کم یا بے سکون نیند سوتا ہے، اس کی نیند پوری نہیں ہو پاتی یوں وہ دن بھر تھکن، سستی اور چڑچڑاہٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    بائی پولر ڈس آرڈر چونکہ موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس کا شکار افراد غیر معمولی سماجی رویوں کے حامل ہوجاتے ہیں۔

    یہ اپنے دوستوں، آفس کے ساتھیوں یا نئے لوگوں سے ملتے ہوئے بدتہذیبی کا مظاہر کرتے ہیں جس کے باعث کبھی کبھار ناقابل تلافی نقصان بھی اٹھاتے ہیں۔

    کام میں غیر دلچسپی

    بائی پولر ڈس آرڈر مریض کی دماغی استعداد کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کی ہر شے سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے جس کے باعث وہ اپنا کام وقت پر انجام نہیں دے پاتے۔

    اپنی اس کیفیت کے باعث وہ غیر ذمہ دار مشہور ہوجاتے ہیں۔

    خودکش خیالات

    بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار شخص منفی سوچوں میں گھر جاتا ہے لہٰذا وہ اپنے آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ ایسے افراد خود کشی کے بارے میں سوچتے ہیں اور بعض اوقات اس پر عمل بھی کر ڈالتے ہیں۔

    مزید علامات

    اس بیماری کی مزید علامات یہ ہیں۔

    حد سے زیادہ غمگین محسوس کرنا

    بے حد مایوسی چھا جانا

    حد سے زیادہ خوش اور پر جوش ہونا

    کسی بھی کام میں دل نہ لگنا

    تھکن اور کمزوری محسوس ہونا

    غائب دماغی کی کیفیت

    احساس کمتری کا شکار ہوجانا

    ماضی کی ہر بری بات کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹہرانا

    بھوک اور وزن میں بہت زیادہ کمی یا زیادتی ہونا

    مرض کی وجوہات

    یہ مرض ڈپریشن سے مختلف اور اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔ اس کی بظاہر کوئی خاص وجوہات نہیں البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موروثی ہوسکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنک فوڈ کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب

    جنک فوڈ کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ جنک فوڈ کا زیادہ استعمال نہ صرف آپ کے وزن میں اضافہ کرے گا بلکہ یہ آپ کے اندر ڈپریشن پیدا کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

    اس سے قبل کئی بار اس بات کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ جنک فوڈ دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

    تازہ ترین تحقیق کے مطابق جنک فوڈ سب سے پہلے آپ کے وزن میں اضافہ کرتا ہے جس سے آپ کے کام کرنے کی رفتار سست ہوتی ہے، آپ صحیح کارکردگی نہیں دکھا پاتے، اور یوں آپ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    اس سے پہلے یہ تحقیق بھی سامنے آچکی ہے کہ ڈپریشن وزن میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے کیونکہ ڈپریشن میں لوگ لاشعوری طور پر زیادہ کھانے لگتے ہیں۔

    نیند کی کمی کا تعلق بھی ڈپریشن اور وزن میں اضافے سے ہے۔ نیند کی کمی بھوک میں بھی اضافہ کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ایک صحتمند طرز زندگی اور متوازن غذا کا استعمال ہی ان تمام بیماریوں سے دور رکھ سکتا ہے۔

    ڈپریشن کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    ڈپریشن کی 7 غیر معمولی علامات

    آج کل کے دور میں ڈپریشن ایک عام مرض بن چکا ہے جو جسم اور دماغ دونوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    تاہم اس مرض سے بری طرح متاثر ہونے والوں کو علم نہیں ہو پاتا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ اسے کام کی زیادتی یا حالات کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

    اگر اس مرض کی علامات کو پہچان کر فوری طور پر اس کا سدباب نہ کیا جائے تو یہ ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی عام اور ابتدائی علامات

    اس مرض کی ایک علامت اداسی ہے تاہم اس کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے اور یہ صرف ایک ابتدائی علامت ہے۔

    آج ہم آپ کو ڈپریشن کی کچھ غیر معمولی علامات بتا رہے ہیں۔ یہ علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب ڈپریشن اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے اور اب یہ وہ وقت ہے کہ مریض کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروی ہے۔

    اگر آپ اپنے یا اپنے آس پاس موجود افراد میں سے کسی کے اندر ان میں سے کوئی بھی علامت دیکھیں تو اس کی طرف فوری توجہ دینا ضروری ہے۔


    پشیمانی یا شرمندگی کا احساس

    3

    ڈپریشن کا شکار افراد شدید پشیمانی اور شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہر برے کام کے لیے اپنے آپ کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔

    یہ عمل انفردای شخصیت کے لیے نہایت تباہ کن ہے۔ اس رجحان سے کوئی بھی فرد اپنی صلاحیتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر کافی عرصے تک احساس کمتری اور بلا وجہ کی پشیمانی کا شکار رہتا ہے اور اس کیفیت سے نکلنے کے لیے اسے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔


    منفی سوچ

    4

    ڈپریشن کے مریض ہر بات میں منفی پہلو دیکھنے اور اس کے بارے میں منفی سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے افراد خوشی کے مواقعوں پر بھی کوئی نہ کوئی منفی پہلو نکال کر سب کو ناخوش کردیتے ہیں۔


    تھکاوٹ

    5

    ڈپریشن کے شکنجے میں جکڑے افراد ہر وقت تھکن اور غنودگی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں، منفی سوچتے ہیں اور منفی نتائج اخذ کرتے ہیں۔

    یہ عمل انہیں دماغی اور جسمانی طور پر تھکا دیتا ہے اور وہ ہر وقت غنودگی محسوس کرتے ہیں۔


    عدم دلچسپی

    6

    اس مرض کا شکار افراد ہر چیز سے غیر دلچسپی محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک انہیں نہایت پرجوش کردینے والی چیزیں بھی ان کے لیے کشش کھو دیتی ہیں اور انہیں کسی چیز میں دلچسپی محسوس نہیں ہوتی۔

    ان کا عمومی رویہ بظاہر لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لگتا ہے کیونکہ وہ کسی کام کو کرنے میں دلچسپی محسوس نہیں کر پاتے۔


    قوت فیصلہ میں کمی

    7

    ڈپریشن کی ایک اور علامت فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہونا بھی ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے کسی بھی شے کے بارے میں فیصلہ کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ چاہے یہ ان کی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ ہو، یا پھر روز یہ فیصلہ کرنا کہ آج چائے پی جائے یا کافی۔

    ایسے افراد بعض دفعہ کوئی فیصلہ کر بھی لیں تو وہ انہیں غلط محسوس ہوتا ہے اور کوئی مشکل وقت آنے سے قبل ہی وہ پچھتاووں کا شکار ہوجاتے ہیں۔


    جذبات میں تغیر

    1

    ڈپریشن کے شکار افراد کے جذبات اور موڈ بہت تیزی سے تبدیل ہوتا ہے۔ کبھی وہ اچانک بہت زیادہ غصہ یا چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور کبھی نہایت خوش اخلاق اور مددگار بن جاتے ہیں۔

    ان کے جذبات کا یہ تغیر ان کے رشتوں اور دیگر تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔


    خودکش خیالات

    2

    خودکشی اور موت کے بارے میں سوچنا کوئی عام عادت نہیں بلکہ ذہنی انتشار کی علامت ہے اور فوری طور پر علاج کی متقاضی ہے۔

    ایسے خیالات اس وقت آتے ہیں جب کوئی شخص زندگی سے بالکل مایوس اور نا امید ہوجائے اور اسے لگے کہ اب کچھ بہتر نہیں ہوسکتا۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کریں

    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے ماہرین نفسیات کے علاج کے ساتھ ساتھ اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون بھی لازمی درکار ہے۔


    ڈپریشن کا علاج اور اس کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ڈپریشن سے چھٹکارہ دلانے والی غذا

    ڈپریشن سے چھٹکارہ دلانے والی غذا

    ڈپریشن یا ذہنی دباؤ آج کل ایک عام مرض بن چکا ہے۔ اگر پہلے دن سے اس مرض کی علامات پر غور کر کے مختلف طریقوں سے اس کا علاج شروع کردیا جائے تو بہت جلد اس سے نجات مل سکتی ہے۔

    حال ہی میں امریکی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ دہی ڈپریشن میں کمی کرنے کے لیے نہایت معاون غذا ہے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف ورجینیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق دودھ کو دہی میں تبدیل کرنے والا بیکٹریا ذہنی تناؤ سے کمی میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    yogurt

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے چوہوں پر اس کا تجربہ کیا۔ انہوں نے دہی میں پائے جانے والے اجزا کو چوہوں کی خوراک میں شامل کیا۔

    ان اجزا کے باقاعدہ استعمال سے چوہوں کے دماغی خلیات میں تبدیلی دیکھی گئی اور وہ نسبتاً پرسکون حالت میں پائے گئے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق ڈپریشن سے لڑنے کی کوششوں کو نئی جہت دے سکتی ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن سے نجات پانے کے لیے مہنگی اور زود اثر ادویات کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا حل صرف ایک پیالہ دہی ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی وہ علامات جو کوئی نہیں جانتا

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے

    یاد رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہر تیسرا شخص ڈپریشن یا ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن کی عام علامات میں اداسی، ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے خیالات آنا شامل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دماغی طور پر صحت مند رہنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسی عادات و رویوں کے عادی ہوتے ہیں جو ہماری لاعلمی میں ہماری دماغی صحت کو متاثر کر رہی ہوتی ہیں۔

    ان عادات و رویوں سے چھٹکارہ پانا از حد ضروری ہوتا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کئی عوامل جیسے کم گفتگو کرنا، اپنے جذبات کو شیئر نہ کرنا، آلودہ فضا میں رہنا، موٹاپا اور نیند کی کمی وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ان کے علاوہ بھی کئی ایسی عادات ہیں جو ہماری دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آئیے ان عادات کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ان سے چھٹکارہ پایا جاسکے۔


    ڈپریشن

    2

    مستقل ڈپریشن کا شکار رہنا آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکتا ہے۔

    ایک طویل عرصے تک ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار رہنے والا شخص بالآخر اسی کا عادی بن جاتا ہے اور اپنے آپ کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر لیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کم کرنے کے 10 انوکھے طریقے


    تنقید کا نشانہ بننا

    11

    آپ نے اب تک اسکول بلنگ کا نام سنا ہوگا جس میں کوئی بچہ اپنی شکل و صورت یا وزن کے باعث دیگر بچوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہے نتیجتاً اس بچے کی نفسیات میں تبدیلی آتی ہے اور وہ احساس کمتری سمیت مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا سلسلہ اسکول تک ختم نہیں ہوجاتا۔ کام کرنے کی جگہوں پر بھی لوگ بلنگ یا تنقید و مذاق کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی تمام تر سنجیدگی اور ذہنی وسعت کے باوجود یہ ان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی عمر میں بلنگ کا نشانہ بننا دماغی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس کے اثرات سے نجات کے لیے ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا ضروری ہے۔


    کاموں کو ٹالنا

    اگر آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ناکامی کے خوف یا سستی کے باعث اسے ٹال دیتے ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنے کیریئر کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی صحت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    یاد رکھیں پہلا قدم اٹھانے کا مطلب کسی کام کو نصف پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ جب آپ کام شروع کریں گے تو خود اسے مکمل کرنا چاہیں گے۔


    ناپسندیدہ رشتے

    ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ لوگوں کی زندگیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ ان کا ایسے رشتوں میں بندھے رہنا ہے جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ صرف معاشروں یا خاندان کے خوف سے وہ ان رشتوں کو نبھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

    ایسے دوست احباب، شریک حیات یا اہل خانہ جو منفی سوچوں کو فروغ دیں، آپ کی کامیابی پر حسد کریں، ناکامی پر خوش ہوں اور ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے رہیں، ایسے رشتوں سے دور ہوجانا ہی بہتر ہے۔


    لوگوں میں گھرے رہنا

    5

    محبت کرنے والے دوست، احباب اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا اچھی عادت ہے لیکن ہفتے میں کچھ وقت تنہائی میں بھی گزارنا چاہیئے۔

    تنہائی اور خاموشی آپ کے دماغ کو خلیات کو پرسکون کرتی ہے اور یہ ایک بار پھر نئی توانائی حاصل کر کے پہلے سے زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خاموشی کے فوائد


    جھک کر چلنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے چلنے پھرنے اور اٹھنے بیٹھنے کا انداز ہمارے موڈ پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ماہرین سماجیات کے مطابق جو افراد چلتے ہوئے کاندھوں کو جھکا لیتے ہیں اور کاندھوں کو جھکا کر بیٹھتے ہیں، وہ عموماً منفی چیزوں کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔


    ہر چیز کی تصویر کھینچنا

    7

    معروف اداکار جارج کلونی نے ایک بار کہا تھا، ’ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں لوگوں کو زندگی جینے سے زیادہ اسے ریکارڈ کرنے سے دلچسپی ہے‘۔

    ہم اپنی زندگی کے بے شمار خوبصورت لمحوں اور اپنے درمیان کیمرے کا لینس حائل کردیتے ہیں اور اس لمحے کی خوبصورتی اور خوشی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیا کہ جو افراد دوستوں یا خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے موبائل کو دور رکھتے ہیں اور تصاویر لینے سے پرہیز کرتے ہیں وہ ایک خوش باش زندگی گزارتے ہیں۔


    زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا

    8

    زندگی مسائل، دکھوں، پریشانیوں اور اس کے ساتھ ساتھ خوشیوں کانام ہے۔

    یہ سوچنا احمقانہ بات ہے کہ کسی کی زندگی میں مصائب یا دکھ نہ ہوں۔ انہیں سنجیدگی سے لے کر ان پر افسردہ اور ڈپریس ہونے کے بجائے ٹھنڈے دماغ سے ان کا حل سوچنا چاہیئے۔


    ورزش نہ کرنا

    یونیورسٹی کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال ہونا ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے خطرات بڑھا دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افراد جو ہفتے میں 3 دن ورزش کرتے ہیں وہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت ڈپریشن کا شکار کم ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ویک اینڈ پر ورزش کرنا زیادہ فوائد کا باعث


    ہر وقت اسمارٹ فون کا استعمال

    9

    ہر دوسرے منٹ اپنے اسمارٹ فون میں مختلف ایپس اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ جیسے فیس بک، ٹوئٹر پر وقت گزارنا، یا مختلف گیمز کھیلنا آپ کے کسی کام کا نہیں ہے۔

    یہ آپ کی دماغی صلاحیت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈیجیٹل دور میں ڈیجیٹل بیماریاں


    بیک وقت کئی کام کرنا

    10

    ماہرین کی نظر میں ملٹی ٹاسکنگ ایک اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے توجہ تقسیم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی کام درست طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

    اس کے برعکس ایک وقت میں ایک ہی کام پوری یکسوئی اور دلجمعی سے کیا جائے۔ ملٹی ٹاسکنگ دماغی خیالات کو منتشر کر کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں، مدد چاہیئے؟

    آج دنیا بھر میں ذہنی امراض سے آگاہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جو غیر معمولی رویوں کے حامل ہیں اور انہیں عموماً نفسیاتی یا پاگل کہا جاتا ہے، تاہم نفسیاتی یا پاگل سمجھ یا کہہ کر جان چھڑا لینا اس مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترداف ہے۔

    ذہنی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، جبکہ سنہ 2020 تک یہ دنیا کا دوسرا بڑا مرض بن جائے گا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ ذہنی امراض ہیں کیا، یہ کس حد تک ہمارے معاشرے کو متاثر کر چکے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں پائے جانے والے 5 عام ذہنی امراض

    اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں ماہرین نفسیات و دماغی امراض سے خصوصی طور پر گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ پاکستان میں دماغی امراض کی شرح کیا ہے اور کون سے افراد ان کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی میں فرق

    معروف اسپتال برائے نفسیاتی امراض کاروان حیات سے منسلک ڈاکٹر سلیم احمد نے تفصیل سے اس بارے میں گفتگو کی۔ ان کے مطابق ذہنی امراض اور ذہنی پسماندگی، جسے ہم ذہنی معذوری بھی کہتے ہیں، میں فرق ہے۔ ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی پیدائشی ہے اور اس کا دارو مدار بچے یا والدین کی جینز پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ بچے پیدا ہی ذہنی طور پر معذور ہوتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، ان میں سے ایک وجہ والدین کا بلڈ گروپ بھی ہوتا ہے جو ملاپ کے بعد جب نئی زندگی وجود میں لاتا ہے تو وہ کسی ذہنی یا جسمانی معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح بعض دفعہ بچہ پیدا ہونے کے کافی دیر بعد روتا ہے، 5 سے 7 منٹ تک سانس نہیں لے پاتا یا نیلا پڑ جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کے دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا ہے کیونکہ دماغ کو فوری طور پر آکسیجن نہیں ملتی۔

    ایسے بچے عمر بھر کے لیے ذہنی طور پر معذور ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم کے مطابق ایسی معذوری کے تین مراحل ہوتے ہیں۔ بہت شدید طور پر ذہنی معذوری، جس میں بچے کو کچھ بھی سکھانا ناممکن ہو، ایسے بچے عموماً زیادہ نہیں جی پاتے اور جلد دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔

    درمیانی یا کم شدت کے ذہنی معذور بچوں کے لیے تربیتی پروگرامز ہوتے ہیں اور انہیں خصوصی طور پر اسپیشل ایجوکیشن دی جاتی ہے جہاں ان کے ذہن کی حد تک ان کی تعلیم اور تربیت کی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ پیدائشی ذہنی معذور بچوں میں مرض کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب وہ عام بچوں کے مقابلے میں اپنی افزائش کا عمل دیر سے شروع کرتے ہیں۔

    جیسے 8 سے 9 ماہ کی عمر کے بچے کا بیٹھنا، 16 یا 18 ماہ کی عمر کے بچے کا بولنا شروع کرنا، 1 سال کی عمر سے قبل قدم اٹھانا شروع کردینا وغیرہ معمول کا عمل ہے تاہم اگر اس عمل میں تاخیر ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    بچوں میں ذہنی پسماندگی یا معذوری کی ایک مثال ڈاؤن سنڈروم کا مرض ہے جو تا عمر ان کے ساتھ رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں جانیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بیماری اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب نئی زندگی بننے کے وقت خلیات میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے۔ یہ خرابی کیوں پیدا ہوتی ہے، ماہرین اس کی وجہ اور علاج تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

    دماغی امراض کیا ہیں؟

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق دماغی امراض کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک سائیکوٹک سنڈروم اور دوسرا نیوروٹک سنڈرمز۔

    سائیکوٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق سائیکوٹک سنڈروم میں ان مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کا بچپن نارمل گزرا ہو لیکن اوائل نوجوانی میں ان کے ساتھ نفسیاتی مسائل پیش آنا شروع ہوجائیں۔

    مثال کے طور پر ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے جذبات میں تبدیلی اور اس کی وجہ سے غصہ، ڈپریشن یا کسی قسم کے خوف کا بڑھ جانا۔ اگر کوئی شخص حساس ہے تو اس عمر میں وہ حد سے زیادہ حساس ہوگا اور معمولی باتوں کو بھی ذہن پر سوار کرلے گا۔

    اس درجہ بندی کے مریضوں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بے خبر ہو جاتے ہیں اور انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

    سائیکوٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    الزائمر

    ڈیمینشیا

    شیزو فرینیا

    مندرجہ بالا 2 امراض میں مبتلا افراد بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ مرض عموماً 50 سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا اور کیوں کرنے جارہا ہے۔

    اسی طرح شیزو فرینیا بھی مختلف توہمات و خیالات کے ذہن میں بیٹھ جانے یا اپنے آپ کو کوئی دوسری شخصیت سمجھنے کی بیماری ہے اور اس میں بھی مریض تقریباً اپنے مرض سے بے خبر اور ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق نیوروٹک سنڈروم وہ ذہنی امراض ہیں جن میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے۔

    نیوروٹک سنڈروم کی عام مثالیں

    اینگزائٹی ۔ بے چینی کا مرض

    پینک ڈس آرڈر ۔ شدید گھبراہٹ، اداسی، رقت طاری ہوجانا

    اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر ۔ اس مرض میں مریض کوئی کام بار بار سرانجام دیتا ہے یا جنون کی حد تک نفاست پسند ہوجاتا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس مرض کا شکار ہیں۔

    فوبیا ۔ کسی جانور، چوہے یا بلی سے خوف آنا

    اونچائی کا خوف

    بند جگہوں کا خوف

    اس نوعیت کے امراض میں مریض کو اپنے مرض سے آگاہی ہوتی ہے لیکن وہ اس کے آگے بے بس ہوتا ہے اور خود کو لاشعوری طور پر نقصان دہ کام کرنے پر مجبور پاتا ہے۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایک عام مرض بن چکا ہے جو اب اس مرحلے پر آگیا ہے کہ اس کا شکار افراد کو باقاعدہ ماہرین نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق ہر وہ شے جو آپ کی دماغی کارکردگی کو متاثر کرے، ڈپریشن کہلاتی ہے۔

    مثال کے طور پر آپ کی کسی سے نوک جھونک ہوگئی اور آپ کا موڈ خراب ہوگیا، تو یہ بھی ڈپریشن کی ایک قسم ہے تاہم یہ عارضی ہوتی ہے اور مذکورہ شخص کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے پر خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔

    اسی طرح آپ کسی سے برے رویے یا دھوکے کی امید نہ رکھتے ہوں، لیکن اس شخص کا رویہ آپ کو غیر متوقع طور پر دکھ پہنچائے تو یہ بھی ڈپریشن ہے۔ اس کا اثر چند دن، یا چند ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا تھا کہ ڈپریشن میں دراصل بیرونی عوامل زیادہ کار فرما ہوتے ہیں جو ہر شخص پر الگ انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 2 افراد ایک جیسے ماحول میں رہتے ہوئے بھی ڈپریشن کی مختلف اقسام (کم یا شدید) میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ڈپریشن سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    کیا اذیت پسندی بھی ذہنی مرض ہے؟

    بعض افراد خود کو یا دوسروں کو اذیت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ایسا نہ صرف جنسی تعلقات میں ہوتا ہے بلکہ زندگی کے دیگر مواقعوں پر بھی ایسے افراد اذیت پسندی سے باز نہیں آتے۔ کیا یہ بھی کسی ذہنی مرض کی علامت ہے؟

    ضیا الدین یونیورسٹی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر سمیہہ علیم اس بارے میں بتاتی ہیں کہ کسی دوسرے کو اذیت دے کر خوشی محسوس کرنا سیڈ ازم کہلاتا ہے جبکہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا یا کسی دوسرے کے ذریعے خود کو تکالیف دلوانا میکوس ازم کہلاتا ہے۔

    اس علامت کے حامل افراد لازماً کسی ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ’یہ دونوں اصطلاحیں صرف جنسی عمل سے منسلک نہیں ہیں، عام زندگی میں بھی ان افراد کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے‘۔

    ان کے مطابق اگر یہ اپنے لیے، کسی دوسرے کے لیے یا مجموعی طور پر معاشرے کے لیے نقصان دہ، متشدد اور جان لیوا ثابت ہونے لگے تو پھر یہ خطرناک بن جاتا ہے جس کا علاج ضروری ہے۔

    آپ خصوصاً مغرب میں پائے جانے والے ایسے سیریل کلرز کے بارے میں جانتے ہوں گے جو کسی کو قتل کرنے سے قبل اسے مخصوص تکلیف پہنچاتے تھے۔

    اس مرض کا آغاز بھی بچپن سے ہوتا ہے اور جب یہ مرض بڑھ جائے تو مریض اپنے لاشعور میں دبی کسی شے کی وجہ سے اس کا دشمن بن جاتا ہے۔

    جیسے بچپن میں ماں کا برا رویہ سہنے والا شخص عورتوں کو قتل یا نقصان پہنچا کر خوش ہوتا ہے۔ کسی مخصوص رویے یا رنگ سے اس کی کوئی ناخوشگوار یاد منسوب ہوتی ہے جسے دیکھتے ہی وہ اشتعال میں آجاتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔

    ایسے افراد بچپن میں بے ضرر اشیا یا اپنے سے کمزور افراد کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہیں سے ان کا یہ مرض نشونما پانے لگتا ہے۔

    بعض افراد اداسی یا غم کو بھی اپنے اوپر سوار کرلیتے ہیں اور خوش نہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور ایسی طبیعت کے افراد منفی سوچ اور مضمحل طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔

    شخصیت کے مختلف پہلو بھی ذہنی امراض کی علامت

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق شخصیت کے بعض مختلف پہلو جب شدت اختیار کرجائیں تو یہ بھی ذہنی امراض کی علامت ہوتے ہیں جنہیں پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    جیسے کسی کی شخصیت حاکمانہ ہے اور وہ سب پر اپنا حکم چلانے کا عادی ہے تو یہ اس کی شخصیت کا پہلو ہے۔ لیکن اگر یہی پہلو اس کے ارد گرد موجود افراد کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے لگے تو یہ ڈس آرڈر کہلائے گا جس کا علاج ضروری ہے۔

    ظلم و زیادتی کو برداشت کرنا بھی ذہنی مرض؟

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق ہمارے معاشرے میں ایک عام رواج ہے کہ لڑکیوں کا شادیاں ان کی پسند اور رضا مندی کے بغیر کردی جاتی ہیں، گو کہ یہ ظلم ہے تاہم ثقافتی اور سماجی طور پر لوگ اس ظلم کو سہنے کے عادی ہیں۔

    مذہبی یا ثقافتی رسوم و رواج کو نہ چاہتے ہوہے قبول کرلینا اطاعت گزاری یا فرمانبرداری کا نام ہے جس کے پیچھے معاشرتی، خاندانی و سماجی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔

    تاہم اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کے دباؤ سے بالکل آزاد ہو، تب بھی وہ ظلم اور زیادتی کو برداشت کرنا پسند کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ لوگ اسے تکلیف پہنچائیں، شخصیت کے اس پہلو کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

    اس بارے میں ڈاکٹر سمیہہ کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق بچپن میں پیش آنے والے حالات و ماحول سے ہے جو لاشعور میں بیٹھ جاتا ہے اور اسی کی بنیاد پر کسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔

    بظاہر آپ کے سامنے ایک خود انحصار اور پر اعتماد شخص موجود ہوگا، لیکن اگر سب کے سامنے اس کا اچھے الفاظ میں بھی تذکرہ کیا جائے تو وہ شرمندگی محسوس کرے گا۔

    ایسے شخص کو کسی ادارے میں کسی شعبے کا سربراہ بنانے پر غور کیا جائے تو وہ شخص ڈر جاتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکے گا، یا لوگ اسے اس روپ میں قبول نہیں کریں گے۔ ایسے افراد میں قائدانہ صلاحیتیں بالکل نہیں ہوتیں اور یہ پس منظر میں رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: احساس کمتری سے نجات حاصل کریں

    دراصل ایسے افراد کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو مظلوم بنا کر دوسروں کے سامنے پیش کریں گے تو نہ صرف انہیں قبول کیا جائے گا بلکہ ان سے محبت بھی کی جائے گی۔ ایسے لوگ ہر لمحہ خود کو غیر محفوظ بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے لاشعور میں بے شمار خوف و توہمات موجود ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سمیہہ کے مطابق یہ بھی شخصیت کا ایک پہلو ہے، تاہم منفی پہلو ہے۔

    ذہنی امراض کا علاج کیا ہے؟

    کراچی نفسیاتی اسپتال سے منسلک ڈاکٹر روحی افروز کا کہنا تھا کہ ذہنی پسماندگی کا تو کوئی علاج نہیں۔ اس میں مریض کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور مختلف تربیتی سیشنز کے ذریعے ذہنی معذور افراد کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    البتہ ذہنی امراض کا شکار افراد کے علاج کا انحصار ان کے مرض کی شدت پر ہوتا ہے کہ اسے کس نوعیت کی دواؤں یا تھراپی سے کنٹرول کیا جاسکے۔

    کراچی نفسیاتی اسپتال ڈاکٹر سید مبین اختر کا قائم کیا ہوا ہے جہاں پاکستان میں ہی بننے والی دواؤں سے ذہنی امراض کا نہایت مؤثر علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈاکٹر سمیہہ کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ پرسنیلٹی ٹریٹ ڈس آرڈر کو تھراپی کی مدد سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، تاہم اس کی لیے ضروری ہے کہ مریض خود اپنی اس کیفیت کو سمجھے اور علاج کروانے پر رضا مند ہو۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب رہنا دماغی صحت کو بہتر بنانے میں معاون

    مزید پڑھیں: دماغی طور پر حاضر بنانے والی غذائیں

    بعض افراد کو علم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو بڑھ کر ذہنی مرض کی صورت اختیار کرچکا ہے تاہم پھر بھی وہ اس کا علاج نہیں کروانا چاہتے، ایسے افراد خود اپنے دشمن ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیم احمد نے اس بارے میں بتایا کہ ماہرین نفسیات کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کو براہ راست ڈیل نہ کریں۔

    وہ چاہتے ہیں کہ مریض کے ساتھ اس کا کوئی بے حد قریبی عزیز چاہے وہ اہل خانہ میں سے ہو، کوئی دوست ہو، یا دفتر کا کوئی ساتھی جس سے وہ بہت قریب ہوں، وہ ان کے ساتھ آئے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کا شکار افراد کو آپ کی مدد کی ضرورت

    وہ مریض سے زیادہ اس کے ساتھ آئے شخص سے گفتگو کر کے مریض کی مختلف کیفیات و علامات سے آگاہی حاصل کرتے ہیں تاکہ مرض کی جڑ کو پکڑ کر اس کا علاج کیا جا سکے۔

    ذہنی امراض اور مذہب

    ڈاکٹر سلیم احمد نے ایک اور نہایت اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ذہنی امراض میں اضافے کی اصل وجہ اپنی بنیاد یعنی مذہب سے دور ہوجانا ہے۔ ’قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دلوں کو سکون صرف اللہ کو یاد کرنے میں ہے، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘۔

    ان کے مطابق نماز کی ادائیگی اور قرآن پاک کی تلاوت کو زندگی کا حصہ بنا لینا ذہنی امراض سے بچاتا ہے۔ اپنی زندگی میں خدا سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے والے افراد (بذریعہ نماز و تلاوت) جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ یہی بات دوسرے مذاہب پر بھی لاگو ہوتی ہے، ’کیونکہ ہیں تو سب آدم کی اولاد، تمام انبیا بھی خدا کے حکم سے اس عہدے پر فائز ہوئے چنانچہ سب کا تعلق کہیں نہ کہیں سے اس ایک خدا سے ضرور جا ملتا ہے جو واحد اس کائنات کا مالک ہے‘۔

    ان کے مطابق خدا کے سامنے رونا اور گڑگڑانا کتھارسس کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ذریعے جو سکون آپ کو حاصل ہوتا ہے وہ دنیا کا بڑے سے بڑا ماہر نفسیات بھی آپ کو نہیں دے سکتا۔


    دماغ ہمارے جسم کا سب سے طاقتور عضو ہے جسے صحت مند رکھنے کے لیے سب سے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    دماغ کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں