Tag: ڈپٹی نذیر احمد

  • جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    ایک بار لاہور میں‌ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنے وقت کی نہایت عالم فاضل شخصیات اکٹھی ہوئیں۔ ان میں سیاست سے ادب تک اپنے نظریات اور فن و تخلیق کی بدولت ہندوستان بھر میں مقام و مرتبہ پانے والے شامل تھے۔ اس موقع پر ایک جذباتی منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کو جیّد صحافی، شاعر اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک نے اپنی خود نوشت سوانح "سرگزشت” میں یوں بیان کیا ہے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔

    آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدّین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلّمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے بھی نہیں اتری، محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سَر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدّین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔”

    یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے لیے اس زمانے کے اکابرین کس قدر پرخلوص اور دردمندانہ طریقے سے اجتماعات اور چندہ اکٹھا کرنے کی مہمّات میں‌ شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اختلافِ رائے، کسی راہ نما یا کارکن کے اقدام اور فیصلے پر ناراضی اور مؤقف سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل ان کے از حد خلوص اور بے نہایت دردمندی کا مظہر تھا۔ یہ ذاتی رنجش، بغض اور انفرادی فائدے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے ہرگز نہ ہوتا تھا۔

  • مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ کا مضحک کردار اپنے احساسِ کمتری کو احساسِ برتری میں بدلنے کے لیے چرب زبانی کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کے مضحک کردار ہمارے اردگرد آج بھی پائے جاتے ہیں جو ظاہری تصنّع اور شان و شوکت کا بھرم رکھنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو معاشرے کا باعزّت فرد ظاہر کرنے کے لیے اپنی امارت اور حسب و نسب کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے ان کو عزت ملے، لوگ انہیں احترام دیں۔

    اس طرح کے ہزاروں ظاہر دار بیگ ہر سماج میں خود کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کا تخلیق کردہ یہ کردار اپنے عہد کی اس تہذیب اور معاشرت پر کڑی تنقید کرتا ہے جہاں عزّت صرف دولت مندوں اور اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو ملتی تھی۔

    ظاہر دار بیگ کا کردار ایک نوعیت کی معاشرتی پیروڈی ہے۔ وہ اپنے عہد کی زندہ علامت ہے اور اس ظاہر داری کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی ترقی پذیر تہذیب کی تباہی کے لیے معاشرے میں رونما ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دستِ افلاس نے قوم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا اور سماج میں بے چینی کا عالم تھا۔ معاشرتی زندگی میں بڑے چھوٹے کا امتیاز تھا اور شہری حقوق سب کو یکساں طور پر میّسر نہ تھے۔

    عوامی زندگی ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جو نہ تو کوئی مقصد رکھتی تھی نہ منزل۔ 1857ء کے نتیجے میں پھیلی ہوئی تباہی عام تھی، لوگ اپنی اقدار کو بھول چکے تھے، اعصابی طور پر کم زور ہو چکے تھے، معاشرتی بیماریاں پھیل رہی تھیں، اس کا انجام یہ ہوا کہ ہر فرد حقیقت سے فرار حاصل کرنا چاہتا تھا۔

    مشرقی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب، ہندوستانی کھانوں کی جگہ مغربی کھانے، مکتب اور پاٹھ شالہ کی جگہ کالج اور یونیورسٹیوں نے لے لی اور یہ وقت انسان کو اکسا رہا تھا کہ یا تو خود کو بدل لے یا ماضی کے نہاں خانوں میں گھٹ گھٹ کر ختم ہو جائے۔

    مرزا ظاہر دار بیگ کا کردار اپنے عہد کی ظاہر داریوں کا نمائندہ ہے۔ احساسِ کمتری اسے اپنی بڑائی کا بھرم رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چوں کہ یہ کردار غیرلچک دار ہے اس لیے اس کی ناہمواریاں سمٹنے کے بجائے پھیل کر سامنے آتی ہیں جو ناظرین کو ہنسانے کا موجب بنتی ہیں۔

    توبتُہ النّصوح کا یہ کردار نذیر احمد کے دیگر کرداروں کی طرح اسمِ بامسمّیٰ ہے جس میں مرزا سفید پوش طبقے کا نمائندہ ہے جو نہ تو خود کو غریب کہلوانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی امراء کی برابری کی استطاعت رکھتا ہے۔ مرزا اہلِ لکھنؤ کی پرتصنع زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے لے آتا ہے، مگر ساتھ انفرادیت بھی رکھتا ہے۔

    اپنا یہ بھرم مرزا ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اپنی امارات کے قصّے اپنے قریبی دوست کلیم سے بھی بیان کرتا رہا۔ اپنے نانا کی جائیداد کو اپنی بیان کرتا رہا۔ جمعدار کے بیٹوں کی دیکھا دیکھی بھی مرزا کی عادتیں بگڑیں تھیں۔ مرزا ان کو اپنا رشتہ دار بتانا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔

    مرزا کا دوست کلیم جب گھروالوں سے ناراض ہو کر مرزا کی طرف آ گیا تو مرزا نے گھر کی بجائے اسے مسجد میں ٹھہرایا۔ مسجد میں اندھیرا تھا، جس کے حوالے سے کلیم کے اعتراض کو مرزا نے اس خوب صورتی سے ٹالا، مرزا کی چرب زبانی ملاحظہ کریں:

    چراغ کیا میں نے تو لیمپ روشن کروانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہوں گے اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہوں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجیے کہ ماہتاب نکال آتا ہے۔

    کلیم کو بھوک نے ستایا تو اس نے ذکر کیا، مرزا نے پہلے تو دیر ہو جانے کا عذر پیش کیا اور پھر بالآخر بُھنے ہوئے چنے لے آیا اور کرنے لگا تعریفیں چنوں کی۔

    مرزا کا لازوال کردار دراصل دہلی کے شکست خوردہ اور زوال پذیر معاشرے کے کھوکھلے پن، ظاہری نام و نمود اور ریا کاری کا عکس ہے۔ یہ کردار ہر معاشرے میں آج بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو غربت کے باعث احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا، امیروں میں شامل ہونے کے شوق میں مذہبی و اخلاقی اقدار سے بھی بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ محض اپنی چرب زبانی سے سب کو مرعوب کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

    (ارشاد علی کے مقالے، ‘اردو نثر کے مضحک کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ’ سے اقتباس)

  • پاﺅں نیچے کرلیجیے!

    پاﺅں نیچے کرلیجیے!

    سرسیّد احمد خان عمر میں مولوی نذیر احمد سے بیس بائیس سال بڑے تھے اور عوام کے علاوہ انگریز حکام میں بھی بہت معزّز تھے۔

    مولوی نذیر احمد بھی ان کی بڑی عزت کرتے اور دامے درمے، قدمے سخنے ان کی مدد کرتے رہتے تھے۔

    ایک دفعہ علی گڑھ کالج کے ایک ہندو محاسب نے لاکھوں روپے کا غبن کیا اور کالج جاری رکھنا محال ہوگیا۔

    یہ سُن کر مولوی نذیر احمد دلّی سے علی گڑھ پہنچے اور ہر طرح سے ان کی ڈھارس بندھائی۔ اور بولے ”اگر روپے کی ضرورت ہو تو یہ اس وقت موجود ہے، لے لو اور بھی دوں گا اور اگر کسی خدمت کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔“ سرسیّد اس پُرخلوص پیش کش سے بے حد متاثر ہوئے۔

    اس زمانے میں مولوی نذیر احمد کے دو نواسے مشرف الحق اور اشرف الحق علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔

    اشرف الحق نے بتایا کہ ”نانا ابّا نے ہمیں سیّد صاحب کے کمرے میں بلوایا تو ہم نے دیکھا کہ ان کے پاﺅں میں بوٹ ہیں اور وہ ٹانگیں میز پر سرسیّد کی طرف کیے نہایت بدتمیزی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اشرف نے چپکے سے ان سے کہا۔ ”نانا ابّا پاﺅں نیچے کرلیجیے۔“

    اس پر وہ بولے۔ ”یہ انہی کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔“ اور سرسیّد ہنس پڑے۔

    (شاہد احمد دہلوی کی کتاب گنجینۂ گوہر کا ایک ورق)