Tag: ڈپٹی نذیر احمد کا ناول

  • کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    زمانہ بدلتا ہے تو بعض رواج بھی بدل جاتے ہیں، طور طریقے اور رجحان بھی تبدیل ہوتے ہیں۔

    آج کسی لڑکی کا نام اکبری یا اصغری نہیں رکھا جاتا، لیکن ایک دور تھا جب یہ نام یا عرفیتیں عام تھیں۔

    اردو زبان اور ادب کے طالب علم اور باذوق قارئین کو معلوم ہو گاکہ ہمارے یہاں ناول نویسی کے آغاز کا سہرا مولوی نذیر احمد سَر ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے انھیں اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔

    1869 میں ان کا مشہور ناول’’مراۃ العروس‘‘ شایع ہوا تھا جس میں دو بہنوں کی عادات و اطوار، سلیقے، پھوہڑ پن کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد عام اصلاح، لڑکیوں میں عائلی زندگی اور معاشرت کا شعور اجاگر کرنا تھا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی ملتی اور کرداروں کے مکالموں میں چاشنی بھی۔ لیکن اس ناول کی کم زوریاں بھی نقادوں نے اجاگر کی ہیں۔ اکثر نے انھیں ناصح اور روایتی سوچ والا بھی کہا ہے۔ تاہم ان کا یہ ناول اس دور کی خوب صورت تخلیقی یادگار ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ اس ناول کے مرکزی اور اہم کرداروں‌ کے نام کیا ہیں؟

    اکبری اور اصغری کے علاوہ اس ناول کے دیگر اہم کرداروں میں ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل، سیٹھ ہزاری مل، دور اندیش خان اور خیراندیش خان شامل ہیں۔

  • مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    مولوی صاحب اور چمڑے کی جلد والی ایک کتاب

    شمسُ العلما ڈپٹی مولوی نذیر احمد دہلوی کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اُن کے پاس عربی کی ایک نایاب کتاب تھی، جسے دیکھنے کے دلّی کے ایک مولوی صاحب بھی شائق تھے۔

    اُن سے ڈپٹی صاحب کے تعلقات کچھ اس قسم کے تھے کہ ڈپٹی صاحب نہ انکار کرتے تھے اور نہ دینا چاہتے تھے، لیکن ایک روز ڈپٹی صاحب کو یہ کتاب ان کو دیتے ہی بنی۔

    ڈپٹی صاحب کو اللہ نے حسِ مزاح سے پوری طرح نوازا تھا، کتاب مولوی صاحب کی جانب بڑھاتے ہوئے ڈپٹی صاحب نے فرمایا کہ کتاب تو بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی جلد سُور کے چمڑے کی ہے۔

    مولوی صاحب نے جو یہ الفاظ سُنے تو لاحول پڑھتے ہوئے فوراً پیچھے ہٹ گئے اور کتاب لینے سے انکار کر دیا۔

    راوی: عبدالمجید قریشی