Tag: ڈگری

  • کارتک آریان نے 10 سال بعد انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی

    کارتک آریان نے 10 سال بعد انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی

    بالی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار کارتک آریان نے دس سال بعد اپنی انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرلی۔

    اداکار کارتک آریان نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر یادگار تقریب کانووکیشن کی ویڈیو  شیئر کیں، جہاں انہیں طلباء کے ساتھ جشن مناتے، خوشی سے رقص کرتے اور اپنے کالج کے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

    ویڈیو میں آریان کو کانووکیشن سے پہلے ریہرسل اور پھر والدہ کے ساتھ ڈگری وصول کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، اداکار نے ممبئی میں ڈی وائی پاٹل یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by KARTIK AARYAN (@kartikaaryan)

    ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کارتک آریان نے کیپشن میں لکھا کہ ’’بیک بینچ پر بیٹھنے سے لے کر کانووکیشن کے لیے اسٹیج پر کھڑے ہونے تک سفر بہت حسین رہا ہے‘‘۔

    اداکار کا مزید کہنا تھا کہ ’’ڈی وائی پاٹل یونیورسٹی نے مجھے بہت سے یادگار لمحات، خواب اور اب آخرکار میری ڈگری بھی دے دی، جس کے حصول کے لیے مجھے ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ لگا‘‘۔

    اداکار نے اپنے اساتذہ سمیت یونیورسٹی کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شکریہ وجے پاٹل سر، میرے ناقابل یقین اساتذہ اور یہاں کے نوجوان سب کا شکریہ، میرا یہاں آنا گھر آنے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

  • "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    "ڈگری” مائی ڈگھی کی یاد دلاتا رہے گا!

    سندھ کے مختلف شہروں کے اضلاع اور تعلقہ کی مختلف سیاسی ادوار میں حد بندیاں ہوتی رہی ہیں اور ان علاقوں کی انتظامی لحاظ سے حیثیت بدلتی رہی ہے- کبھی کسی علاقے کو آبادی اور وسائل کی وجہ سے ضلع کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی قصبہ ضلعی ہیڈ کوارٹر اور کبھی سب ڈویژن اور تعلقہ بن جاتا ہے-

    الغرض سیاسی اور انتظامی امور چلانے کے لیے علاقوں کی حدود اور حیثیت تبدیل کی جاتی رہتی ہے، لیکن یہ تقسیم کبھی شہروں اور قدیم علاقوں کے نام اور ان کی شناخت پر اثر انداز نہیں ہوتی- اس تمہید کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ میر پور خاص سندھ کا وہ شہر ہے جو پھلوں کے بادشاہ آم کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے اور "ڈگری” اسی میر پور خاص کا ایک چھوٹا شہر ہے-

    کیا آپ جانتے ہیں کہ سندھ کے اس ہزاروں نفوس پر مشتمل شہر کا یہ نام کیسے پڑا؟

    ڈگری اس شہر کی رہائشی ایک غریب اور بہادر خاتون کے نام سے منسوب علاقہ ہے-

    سندھی زبان میں ڈگھو اور ڈگھی کسی طویل القامت انسان کے لیے بولا جاتا ہے-

    ڈگری کا علاقہ ایک ایسی خاتون کے نام سے مشہور ہوا جو طویل القامت تھیں- انھیں مقامی لوگ’’مائی ڈگھی‘‘ کے نام سے پکارتے اور جانتے تھے-

    مذکورہ خاتون اس زمانے میں سندھ کے حکم راں سرفراز کلہوڑو سے منسوب "سرفراز واہ” کے گھاٹ پر کشتی کے ذریعے لوگوں کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہچانے کا کام انجام دیتی تھیں-

    دریا میں کشتی چلانے والے اور ماہی گیروں یا مسافروں کو آمدورفت کی سہولت دینے والوں کو میر بحر بھی کہا جاتا ہے- مائی ڈگھی بھی میر بحر برادری سے تعلق رکھتی تھیں-

    اس زمانے میں اس علاقے کے سارے ہی لوگ مائی ڈگھی کو جانتے تھے- آبادی بہت کم تھی اور اکثر کشتی میں سفر کے دوران مقامی لوگوں کا مائی ڈگھی سے واسطہ پڑ ہی جاتا تھا-

    مائی ڈگھی نے اس زمانے میں ایک سفاک لٹیرے اور اس کے پورے گروہ کا خاتمہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا- ڈاکوؤں کے خلاف کوشش اور دلیری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے انھیں خوب شہرت ملی اور اس علاقے کی پہچان ہی بن گئیں- بعد میں یہ ڈگری کہلایا اور آج تک اس کی یہ شناخت قائم ہے-

  • اصلی ہیں یا جعلی؟ عدالت کی پی آئی اے کے ملازمین کی ڈگریاں چیک کرنے کا حکم

    اصلی ہیں یا جعلی؟ عدالت کی پی آئی اے کے ملازمین کی ڈگریاں چیک کرنے کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے ملازمین کی ڈگریوں کی تصدیق کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے ملازمین کی ڈگریاں چیک اور تصدیق کروانے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین، پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ پی آئی اے کے بعض ملازمین نے آزاد کشمیر کی نجی یونیورسٹی سے تعلیمی اسناد حاصل کی، ایئر لائن کے ملازمین کبھی یونیورسٹی نہیں گئے لیکن انہیں ڈگریاں مل گئیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ ان اسناد کی بنیاد پر محکمانہ پرموشن حاصل کی گئی۔

    عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ الخیر یونیورسٹی محض دکھاوے کی جامعہ ہے۔ تعلیمی عمل کے بغیر ڈگریاں فروخت کی گئیں۔ بظاہر ڈگریوں کے حصول کا عمل غیر قانونی لگتا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ پی آئی اے میں نجی یونیورسٹی سے حاصل اسناد کو پذیرائی دی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ پی آئی اے انتظامیہ یقینی بنائے کہ ملازمین کی تعلیمی اسناد منظور شدہ اداروں سے ہوں۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ رواں برس اگست میں پی آئی اے انتظامیہ نے اس حوالے سے بڑی کارروائی کی تھی اور گھوسٹ اور جعلی ڈگریوں کے حامل 11 سو سے زائد ملازمین کو برطرف کردیا تھا۔

    ترجمان کے مطابق جعلی ڈگریوں کے حامل 700 ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ زیادہ تر ملازمین کی تعداد فلائٹ سروسز اور دیگر محکموں سے تھی۔

  • ڈگری ڈگری ہوتی ہے: اسلم رئیسانی نے قوم سے معافی مانگ لی

    ڈگری ڈگری ہوتی ہے: اسلم رئیسانی نے قوم سے معافی مانگ لی

    کوئٹہ: ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی، مشہور زمانہ بیان دینے والے اسلم رئیسانی نے قوم سے معافی مانگ لی۔

    تفصیلات کے مطابق اراکین اسمبلی کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ماضی میں بیان دینے والے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ایک انٹرویو میں قوم سے معافی مانگ لی ہے۔

    اسلم رئیسانی نے بتایا کہ وہ ان دنوں ایم فِل کی ڈگری کے لیے پڑھائی کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ایم فِل کے بعد وہ پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کا ارادہ ہے کہ انسانی ماحول پر تحقیق کریں، وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں، اور نوجوانوں کے ساتھ یونی ورسٹی میں پڑھنے کا مزا آ رہا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومت کی پالیسی نہیں کہ کسی کوجعلی ڈگری پربھرتی کرے، اعظم سواتی

    اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ ان سے صحافیوں نے صوبائی اسمبلی کے اراکین کی ڈگریاں جعلی ہونے کا سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی، یہ بیان ان کے گلے پڑ گیا، جس پر عوام سے معافی چاہتا ہوں۔

    یاد رہے کہ 64 سالہ نواب محمداسلم خان رئیسانی نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز آف فلاسفی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بلوچستان یونی ورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔

    اسلم رئیسانی 2008 سے 2013 تک بلوچستان کے وزیر اعلیٰ رہے، سیاست میں آنے سے قبل وہ پولیس میں ڈی ایس پی کے عہدے پر فائز تھے۔

  • یونیورسٹی سائنس اینڈٹیکنالوجی بنوں میں ڈگری درخت لگانے سے مشروط

    یونیورسٹی سائنس اینڈٹیکنالوجی بنوں میں ڈگری درخت لگانے سے مشروط

    پشاور: : یونیورسٹی سائنس اینڈٹیکنالوجی بنوں نے ڈگری درخت لگانے سے مشروط کردی اور کہا جو طلبہ کم ازکم ایک درخت نہیں اگاسکیں گےان کوڈگریاں نہیں دی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی سائنس اینڈٹیکنالوجی بنوں نے ڈگری درخت لگانے سے مشروط کرتے ہوئے پلانٹیشن مہم کےدوران ہر طالب علم کے ذمے ایک درخت لگانا لازمی قرار دیا ہے۔

    ڈائریکٹراکیڈمکس کوکلیئرنس فارم میں پلانٹیشن سے متعلق اضافی کالم کی ہدایت کردی ہے ۔

    ڈائریکٹرایڈمنسٹریشن یونیورسٹی آف سائنس بنوں کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کوسرسبزبنانے کی مہم کاآغازہوچکا، اور زیادہ درخت لگانے کی ہدایت کی۔

    اعلامیہ کے مطابق تمام شعبہ جات کےچیئرمین مذکورہ درختوں کاریکارڈاپنےپاس رکھیں گے، کیمپس کوآرڈینیٹرماہانہ پراگرس رپورٹ پیش کرےگی، جو طلبہ کم ازکم ایک درخت نہیں اگاسکیں گےان کوڈگریاں نہیں دی جائیں گی۔

    خیال رہے پاکستان کو سرسبزوشاداب بنانے کے لیے عمران خان نے مہم کا آغاز کیا تو ملک کے طول و عرض میں بسنے والے شہریوں نے بھی ’سبزوصاف پاکستان‘ مہم میں حصہ لیا۔

    بعد ازاں عمران خان نے ملک بھر میں ’پلانٹ فار پاکستان‘ کے نام سے ایک روزہ شجر کاری مہم چلانے کا اعلان کیا تھا جس میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک بھر میں 15 لاکھ پودے لگائے۔

    کچھ روز قبل عمران خان نے ملک کی خوبصورتی کو مزید اجاگر کرنے کے لیے ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ مہم کا اعلان کیا تھا، جس کا آج وزیر اعظم نے خود پودہ لگا کر باقاعدہ آغاز کیا تھا۔

    سرسبزوصاف مہم کا اعلان ہونے کے بعد CleanGreenPakistan# اور hogaSaafPakistan# کے ناموں سے ٹرینڈ چلنا شروع ہوئے اور عوام کی بڑی تعداد نے اس میں حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے تھے۔

  • کامیاب ہونے کے لیے اب ڈگری کی ضرورت ختم

    کامیاب ہونے کے لیے اب ڈگری کی ضرورت ختم

    بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، جدید دور کے مطابق شعبے کا انتخاب کرنا اور اعلیٰ تعلیمی ڈگری لینا ایک بہترین مستقبل اور کیریئر کی ضمانت ہوسکتا ہے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رواج اب بدلتا جارہا ہے اور مستقبل میں ڈگریاں بے فائدہ ہوجائیں گی۔

    امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے میں 93 فیصد افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی کالج ڈگری پیشہ وارانہ طور پر ان کے لیے غیر ضروری ثابت ہوئی، اس کے برعکس مختلف مہارتوں کے لیے کیے جانے والے شارٹ کورسز ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔

    سروے کے نتائج نے کئی سوالات کو جنم دے دیا۔

    دنیا بھر میں نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بھاری قرضے دیے جاتے ہیں جن کا تخمینہ بہت زیادہ ہے، علاوہ ازیں ان قرضوں کو ادا کرنے میں نوجوانوں کی بہت محنت اور وقت بھی لگتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گوگل میں کام کرنے کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں

    ایک ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہ کے مطابق انہوں نے اپنے کیریئر میں بے شمار افراد کو ملازمت دی، لیکن انہوں نے کبھی بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا ان کے پاس آنے والے امیدواروں کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہے یا نہیں۔

    اس کے برعکس انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مذکورہ امیدوار کمپیوٹر کوڈنگ کو کس حد تک اور کتنے بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ڈگری سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہوگی کہ آپ جو کام کرنے جارہے ہیں اس میں کتنی مہارت اور نئے آئیڈیاز رکھتے ہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وقت بدل گیا ہے، پرانے دور کے لوگ زندگی بھر صرف ایک ملازمت کرتے تھے لیکن اب لوگ بیک وقت کئی کام اور ملازمتیں کرتے ہیں، ایسے میں ہر کام کی علیحدہ ڈگری لینا ایک مشکل امر ہے، صرف مہارت ہی آپ کو اس شعبے میں کامیاب کرسکتی ہے۔

    گو کہ بدلتے وقت کے ساتھ رجحان بدلنا بھی ایک فطری شے ہے، تاہم تعلیم حاصل کرنا، تعلیمی اداروں میں وقت گزارنا اور اساتذہ سے سیکھنا ایسی دولت ہے جس کا نعم البدل کچھ نہیں ہوسکتا۔

  • اب گوگل میں کام کرنے کے لیے ڈگری کی کوئی ضرورت نہیں

    اب گوگل میں کام کرنے کے لیے ڈگری کی کوئی ضرورت نہیں

    ایک طویل عرصے سے اچھی ملازمت حاصل کرنے کے لیے ڈگری کا حصول ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بعض غیر ڈگری یافتہ افراد کے پاس بے شمار کمپنیوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے لیکن صرف ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے وہ اونچے عہدوں پر فائز نہیں ہوپاتے۔

    یہ صورتحال اب بھی برقرار ہے تاہم اب گوگل اور ایپل سمیت 15 اعلیٰ کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لیے ڈگری کی شرط چھوڑ دی ہے۔

    یہ کمپنیاں ملازمت کے لیے آنے والے افراد کے تجربے اور اس کی صلاحیتوں کو پرکھتی ہیں۔ ان کی فہرست میں اب ڈگری سب سے آخر میں آتی ہے اور اس کا ہونا یا نہ ہونا بھی اب ان کے لیے برابر ہے۔

    مزید پڑھیں: گوگل اپنے ملازمین میں کن خصوصیات کو ترجیح دیتا ہے؟

    اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انٹرنیٹ کے اس تیز رفتار دور میں کمسن بچے اور نوجوان بھی نہایت کم عمری میں ٹیکنالوجی کی دنیا کے نئے نئے پہلو روشناس کروا رہے ہیں۔

    ان کمپنیوں کو اب ایسے ہی افراد کی ضرورت ہے۔

    گوگل نے اپنی ملازمت کا یہ معیار یوں ہی وضع نہیں کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گوگل نے کئی سال تک تحقیق کی کہ مالکان اور مینیجرز ملازمت دینے کے لیے ڈگری کی شرط تو رکھ دیتے ہیں لیکن اس کے مطابق ملازمت نہیں دے پاتے۔

    مثال کے طور پر بینک ایک انجینئر کی ڈگری دیکھ کر بھی اسے ملازم رکھ لیتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے بینکنگ سیکٹر کے بارے میں کچھ علم نہیں۔

    اسی طرح کوئی شخص بینکنگ کا ماہر اور شوقین ہوگا لیکن اس کے پاس ڈگری کسی اور شعبے کی ہوگی تو یا تو وہ اپنے شوق کے برخلاف کام کرے گا یا پھر اپنی ڈگری سے مختلف کام کرنے پر مجبور ہوگا۔

    مزید پڑھیں: گوگل کے ملازم دفتر میں کیا کھاتے ہیں؟

    گوگل کے مطابق اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی شخص کتنا قابل ہے اور کس شعبے میں مہارت اور نئے آئیڈیاز رکھتا ہے۔

    تاہم اب ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ ڈگری کو بالکل ہی غیر ضروری سمجھنا شروع کردیں۔

    ماہرین کے مطابق یونیورسٹی میں وقت گزارنا کسی انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے جبکہ اس کی شخصیت پر اعتماد بھی ہوتی ہے۔

  • کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    کس ملک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین ہیں؟

    دنیا کی بیشتر آبادی اس وقت کسی نہ کسی قسم کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ خواندگی کی تعریف کے مطابق ہر وہ شخص جو تھوڑا سا لکھ اور پڑھ سکتا ہو خواندہ کہلایا جائے گا۔

    لیکن دنیا کی ترقی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مرہون منت ہے۔ جن ممالک میں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد زیادہ ہوگی، یقیناً وہ ہر شعبہ میں ایک ترقی یافتہ ملک ہوگا۔

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں *

    تاہم حال ہی میں تنظیم برائے معاشی تعاون اور ترقی او ای سی ڈی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کن ممالک کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور فعال ہوتے ہیں۔

    رپورٹ میں شامل فہرست کے مطابق جاپان کے طلبا سب سے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ اس رپورٹ کے لیے طلبا کے تعلیمی امتحانات اور ان کی عملی زندگی میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا جائزہ لیا گیا۔

    فہرست میں شامل دیگر ممالک یہ ہیں۔

    فن لینڈ
    نیدرلینڈز
    آسٹریلیا
    ناروے
    بیلجیئم
    نیوزی لینڈ
    انگلینڈ
    امریکا
    چیک ری پبلک

    اس فہرست میں وہ ممالک شامل نہیں جن کی جامعات بین الاقوامی معیار کی اور دنیا کی بہترین جامعات میں سے ایک تصور کی جاتی ہیں جیسے سنگا پور اور جنوبی کوریا۔ ان دونوں ممالک میں خواندگی کی شرح بھی 96 فیصد سے زائد ہے تاہم یہ اس فہرست میں جگہ بنانے میں ناکام رہے۔

    ماہرین کے مطابق اس فہرست نے دنیا کے بہترین تعلیمی نظام کا دعویٰ کرنے والے ممالک کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔

    پاکستان میں 2 کروڑ بچے تعلیم سے محروم *

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈگری تو کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اہم یہ ہے کہ وہ ڈگری طلبا کو زندگی میں کیا دے سکتی ہے؟

    اس فہرست میں دنیا میں 100 فیصد شرح خواندگی رکھنے والا یورپی ملک انڈورا بھی شامل نہیں۔ مزید یہ کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والے سرفہرست 10 ممالک میں سے صرف 2 ممالک فن لینڈ اور ناروے ہی اس فہرست میں شامل ہوسکے۔

    japan-2

    ان دونوں ممالک میں شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور او ای سی ڈی کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق ان دونوں ممالک کے طلبا نہایت ذہین پائے گئے ہیں۔