Tag: ڈیزائنر

  • بختاور بھٹو کی شادی کا لباس کس طرح تیار کیا گیا؟

    بختاور بھٹو کی شادی کا لباس کس طرح تیار کیا گیا؟

    سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو کی شادی کا لباس تیار کرنے والی ڈیزائنر وردہ سلیم کا کہنا ہے کہ لباس کی تیاری میں مقامی مارکیٹ میں موجود سب سے عمدہ اور نفیس معیار کا سامان استعمال کیا گیا۔

    بختاور بھٹو 29 جنوری کو صنعت کار محمود چوہدری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، ان کی شادی کا سنہری لباس پاکستانی ڈیزائنر وردہ سلیم نے تیار کیا تھا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے وردہ سلیم نے اس لباس کے بارے میں بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ بختاور بھٹو کے لباس کی تیاری میں بھی مقامی مارکیٹ میں موجود سب سے عمدہ اور نفیس معیار کا سامان استعمال کیا گیا۔

    وردہ کا کہنا تھا کہ نکاح کے لباس کی تیاری میں پرلز، ریشم کی تار، سلور اور گولڈ زری کی تار، فرنچ ناٹس، زردوزی کا کام اور سلور اور گولڈ لیدر کا کام کیا گیا، جوڑے کا کپڑا بھی ہاتھ سے تیار کردہ شیفون ہے جو کہ مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔

    بختاور کے نکاح کی تقریب کی تصاویر جاری ہونے کے بعد سے سوشل میڈیا پر کہا جارہا تھا کہ بختاور بھٹو کے لباس پر سونے کی تاروں سے کام ہوا تھا اور اس میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔

    علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بختاور بھٹو کے نکاح کا لباس مہنگا ترین تھا اور اس کی قیمت کروڑوں میں تھی۔

    تاہم اب وردہ سلیم کا کہنا تھا کہ بختاور بھٹو کے لباس میں نہ سونے کی تار استعمال ہوئی اور نہ ہیرے جڑے ہیں، تاہم یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کام ہی اتنا نفیس تھا کہ لوگوں کو یہ گمان ہوا اور یہ ایک طرح سے ہماری تعریف ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس لباس کی تیاری میں 45 کاریگروں نے حصہ لیا اور 7 ہزار گھنٹوں سے زائد وقت یعنی لگ بھگ 6 سے 7 ماہ لگے اور اس دوران 2 سے 3 ماہ ڈبل شفٹس میں 24 گھنٹے بھی کام کیا گیا۔

  • مچھلی کی جلد سے خوبصورت ماحول دوست اشیا تیار

    مچھلی کی جلد سے خوبصورت ماحول دوست اشیا تیار

    دنیا بھر میں کئی ممالک میں ماہی گیری لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، مچھلیاں پکڑنے کے بعد ان کی جلد نکال دی جاتی ہے جسے عموماً پھینک دیا جاتا ہے۔

    بعض افراد مچھلی کی جلد کو کھاد بنانے میں استعمال کرلیتے ہیں تاہم 70 فیصد مچھلی کی جلد کچرے کے ڈھیروں کی زینت بن جاتی ہے۔

    افریقی ملک کینیا میں ایک ڈیزائنر نے اس جلد کو مختلف ڈیزائنر اشیا میں بدل دیا ہے۔ جیمز امبانی نامی اس مقامی ڈیزائنر نے گویا نیا لیدر پیش کیا ہے جو لوگوں میں بے حد مقبول ہورہا ہے۔

    اس کے لیے ماہی گیروں سے مچھلی کی کھال خریدی جاتی ہے جس سے انہیں اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس کھال کو دھو کر سکھایا جاتا ہے اور مختلف مرحلوں سے گزار کر اس پر مختلف رنگ کیے جاتے ہیں۔

    اب اس کھال سے مختلف اشیا بنائی جاتی ہیں جنہیں مقامی افراد اور سیاح نہایت شوق سے خریدتے ہیں۔ یہ اشیا ماحول دوست بھی ہیں اور استعمال کے بعد پھینک دیے جانے کے بعد یہ جلد زمین میں تلف ہوجائیں گی۔

    جیمز کا کہنا ہے کہ افریقہ کے کئی ممالک میں میٹھے پانی کی جھیلیں موجود ہیں جہاں سے ماہی گیری کی جاتی ہے، تاہم صرف ماہی گیری کسی خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔

    ان کے مطابق مچھلی کی کھال کی فروخت ایک طرف تو مچھیروں کی اضافی آمدنی کا سبب بنے گی، دوسری طرف اسے ’لیدر‘ بنانے کے عمل کے لیے افرادی قوت درکار ہے جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

    جیمز کو امید ہے کہ یہ لیدر دنیا بھر میں بہت جلد مقبول ہوگا جس سے افریقہ سمیت دنیا بھر کے غریب ماہی گیروں کے لیے خوشحالی کا دروازہ کھلے گا۔

  • ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    ہاتھ کے اشارے سے رنگ بکھیرتا جادوئی کینوس

    مصوروں کے لیے اپنے فن اور تخیل کو وجود میں لانا ایک دقت طلب مرحلہ ہے جس میں ان کے جسم اور دماغ کی پوری توانائی صرف ہوجاتی ہے۔

    لیکن کیا ہی اچھا ہو، کہ اگر مصور صرف اپنے ہاتھ کو حرکت دے، اور اس کی مطلوبہ تصویر رنگوں کے ساتھ کینوس پر بکھر جائے؟ گو کہ یہ کسی جادوئی فلم میں دکھائی جانے والی صورتحال لگتی ہے مگر مائیکرو سافٹ نے اسے حقیقت میں تبدیل کر دکھایا، آخر سائنس بھی تو جادو ہی کا دوسرا نام ہے۔

    گزشتہ برس اکتوبر میں جاری کیا جانے والا مائیکرو سافٹ کا آل ان ون ونڈوز 10 ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر سرفیس اسٹوڈیو ایسی ہی جادوئی صلاحیت کا حامل ہے جو مصوروں کے تخیل کو ان کی ایک جنبش انگشت سے وجود میں لاسکتا ہے۔

    surface-6

    surface-7

    surface-2

    ایلومینیم سے تیار کردہ اس کمپیوٹر کی اسکرین 28 انچ کی پکسل سنس ڈسپلے ٹچ اسکرین ہے جس کی موٹائی محض 12.5 ملی میٹر ہے۔

    surface-4

    surface-5

    surface-3

    اس کے ساتھ ایک سرفیس ڈائل بھی موجود ہے جو ٹریک پیڈ کی طرح کام کرتا ہے، اور اسے اسکرین پر رکھ کر اس سے رنگوں اور تصاویر کا انتخاب یا تصویروں کی تشکیل بھی کی جاسکتی ہے۔

  • پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    پریوں کی گزر گاہ ننھے منے دروازے

    واشنگٹن: امریکی ریاست مشی گن میں ایک چھوٹا سا قصبہ ایسا ہے جہاں جانے والوں کو ایک حیرت انگیز اور کسی حد تک پراسرار شے نظر آتی ہے۔

    یہ پراسرار شے قصبہ میں جا بجا بکھرے ننھے منے سے دروازے ہیں جنہیں پریوں کا دروازہ یا فیری ڈور کہا جاتا ہے۔

    5

    10

    4

    یہ ننھے منے دروازے دراصل مختلف ریستورانوں، دکانوں یا عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں۔ ان کے بنانے کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ یہ خوبصورتی اور وہاں موجود بچوں کو بہلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور دیکھنے میں یہ بند دروازے کسی فریم کی طرح لگتے ہیں۔

    7

    9

    بعض دروازوں کے اندر ننھی منی سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں اور یہ سیڑھیاں ایک اور بند دروازے پر منتج ہوتی ہیں، اور دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ اس دروازے کے پیچھے واقعی کوئی پری چھپی بیٹھی ہے۔ یہ دیکھنے والے کو ایک پراسرار سے سحر میں مبتلا کردیتا ہے۔

    6

    مشی گن کے قصبے این آربر میں بنائے جانے والے یہ دروازے دراصل ایک رہائشی جوناتھن بی رائٹ نامی فنکار نے بنائے ہیں۔

    2

    اسے اپنے گھر میں بھی ایک ایسا ہی ننھا سا دروازہ ملا تھا جو اس گھر کی تعمیر کے وقت بنایا گیا تھا۔ اس نے اس دروازے کو بے حد خوبصورتی سے سجایا اور ساتھ ہی قصبے کے نمایاں مقامات پر بھی یہ دروازے بنانے کا کام شروع کردیا۔

    3

    کچھ عرصے بعد رہائشیوں نے ان دروازوں کو وشنگ ویل یا خواہشات کے دروازے کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا۔

    8

    ان کا عقیدہ ہے کہ یہاں سچ مچ پریاں آتی ہیں۔ وہ خیر سگالی کے طور پر یہاں ان کے لیے سکے، ڈارئنگز اور دیگر اشیا رکھتے ہیں، اس امید پر کہ شاید ان پریوں کو ان کا تحفہ پسند آجائے اور وہ اپنی جادوئی چھڑی گھما کر ان کا بگڑا ہوا کام بنا دیں۔

  • فیشن پاکستان ویک 2016 کی جھلکیاں

    فیشن پاکستان ویک 2016 کی جھلکیاں

    کراچی: 3 روزہ فیشن پاکستان ویک اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جاری ہے۔ فیشن ویک میں مختلف ڈیزائنرز نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔

    کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد حالیہ فیشن ویک میں سردیوں اور خزاں کے ملبوسات پیش کیے گئے۔ 30 نومبر سے شروع ہونے والا یہ شو 1 نومبر کو اختتام پذیر ہوگا۔

    سنہ 2010 سے آغاز کیے جانے والے اس شو کا انعقاد سال میں دو بار ہوتا ہے۔ شو کا آغاز ڈیزائنر امیر عدنان کے مینز ویئر سے کیا گیا۔

    فیشن ویک میں ماہین کریم، ثوبیہ نذیر، دیپک پروانی اور حسن شہریار یاسین سمیت متعدد ڈیزائنرز نے اپنے ملبوسات پیش کیے جنہیں مختلف ماڈلز اور اداکار و اداکاراؤں نے زیب تن کیا۔

    fpw-2

    fpw-3

    fpw-4

    fpw-5

    #fpw2016 #fpw16 #fashion #super #model #fouziaaman #karachi

    A photo posted by Fashion (@fashion_pakistan1) on

    Models walk the ramp for @jeem.official ✨ #Fpw16 #talentvalent

    A video posted by Rehan Malick (@talentvalent) on

  • جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    نیویارک: امریکی شہر نیویارک میں جاری نیویارک فیشن ویک بڑے بڑے مشہور ڈیزائنرز کے ملبوسات سے سجا ایسا شو ہے جس میں شرکت کرنا ہر ڈیزائنر اپنا خواب سمجھتا ہے۔ ہر سال اس میں کئی نئے ڈیزائنرز بھی اپنا ڈیبیو کرتے ہیں۔

    اس شو میں شریک ہونے والے ڈیزائنرز بین الاقوامی شہرت کے مالک بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈیزائنر اوڈے شکار بھی ہیں جو عراقی نژاد ہیں۔

    اپنے فیشن ڈیزائننگ کے کیریئر کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے وہ انوکھے ڈیزائنز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں شریک ہوئے۔

    oday-2

    oday-3

    لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دربدری، جدوجہد اور تکلیف کی ایک طویل داستان ہے۔

    شکار کے والدین صدام حسین کے دور میں بغداد سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اس وقت اوڈے شکار بہت کم عمر تھے۔

    گلف کی جنگ کے خاتمہ پر شکار کو ان کے 2 بھائیوں کے ساتھ واپس عراق بھیجا گیا تاکہ وہ اپنی ثقافت سے آشنا ہوسکیں۔

    اس دور کی یادیں آج بھی شکار کے ذہن میں تازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے دھویں اور بارود کی ایک نادیدہ مہک محسوس ہونے لگتی ہے‘۔

    سنہ 50 کی دہائی میں فیشن کیسا تھا؟ *

    انہوں نے اس وقت عراق میں جو خواتین دیکھیں وہ اب بھی ان کی یادوں میں موجود ہیں۔ یہ اس وقت بھی موجود ہوتی ہیں جب وہ کپڑے ڈیزائن کر رہے ہوتے ہیں۔

    وہ اپنے بچپن کی اس یاد کو یوں بیان کرتے ہیں، ’دلکش آئی لائنر سے سجی آنکھیں اور خوبصورت بال، وہ خواتین بہت فیشن زدہ تھیں باوجود اس کے، کہ وہ اس کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرتی تھیں۔ وہ کسی پرانے کپڑے کو بھی ایسے انداز میں پہنتی تھیں کہ وہ فیشن معلوم ہوتا تھا۔ وہ خواتین حجاب سے آزاد تھیں‘۔

    بالآخر 2 سال بغداد میں گزارنے کے بعد شکار اردن آگئے جہاں انہوں نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔

    oday-4

    بعد ازاں وہ امریکا آگئے۔ اس وقت شکار کی عمر 18 سال تھی۔ انہوں نے لاس اینجلس میں فیشن انسٹیٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ مرچنڈائزنگ میں داخلہ لیا۔ 2003 میں جب ان کا گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا تھا، انہیں ایک میوزک ویڈیو کے کپڑے ڈیزائن کرنے کا موقع مل گیا۔

    امریکا اور عراق کی جنگ شکار کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’اس دور میں، میں عجیب الجھن کا شکار ہوگیا۔ آپس میں برسر پیکار دونوں ممالک میرے اپنے ہی تھے۔ ایک میرا آبائی وطن تھا، دوسرے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع دیا‘۔

    شکار کے مطابق، ’مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کہاں کھڑا ہوں، اور مجھے کہاں ہونا چاہیئے۔ بعض دفعہ میں یہ بھی بھول جاتا کہ درحقیقت میں ہوں کون‘۔

    فیشن ڈیزائننگ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اوڈے شکار اپنا برانڈ شروع کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ وہ تھائیرائیڈ کینسر میں مبتلا ہیں۔

    ریڈی ایشن تھراپی کے لیے انہیں کافی عرصہ اسپتال میں تقریباً معذوری کی حالت میں گزارنا پڑا۔

    وہ بتاتے ہیں، ’اسپتال میں گزارے گئے دن میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ میں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا تھا اور یہ خیال ہی میرے لیے بہت خوفناک تھا کہ میں اپنے ہاتھوں کو کبھی حرکت نہیں دے سکتا، یعنی کچھ ڈیزائن نہیں کر سکتا‘۔

    بالآخر 2009 میں انہوں نے اپنا برانڈ لانچ کردیا اور اگلے ہی سال 2010 میں انہیں اس وقت بین الاقوامی شہرت مل گئی جب ہالی ووڈ اداکارہ سینڈرا بلاک نے ایم ٹی وی مووی ایوارڈز میں ان کا ڈیزائن کردہ لباس زیب تن کیا۔

    oday-1

    اوڈے اپنے ملبوسات کے لیے دو دنیاؤں کے امتزاج کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی مشرق وسطیٰ پر مغربی اثر۔ ان کے مطابق ان کے تیار کردہ ڈیزائنز اسلامی آرکیٹیکچر اور مغربی آرٹ کا امتزاج ہوتے ہیں۔

    رواں برس بھی وہ اپنے منفرد انداز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں جلوہ گر ہوئے اور ناقدین نے ان کے ملبوسات کو پسندیدگی کی سند بخشی۔

  • کرینہ کپور کی دوران حمل ریمپ پر واک

    کرینہ کپور کی دوران حمل ریمپ پر واک

    ممبئی: بھارت میں ہونے والے لیکمے فیشن ویک میں کرینہ کپور نے حمل کے دوران ریمپ پر واک کر کے سب کو حیران کردیا۔

    بھارت کے شہر ممبئی میں لیکمے فیشن ویک اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ شو میں بالی ووڈ ستاروں نے شرکت کی تاہم سب کی توجہ کرینہ کپور نے سمیٹ لی۔

    kareena-post-7

    kareena-post-6

    بالی ووڈ اداکارہ کرینہ کپور آج کل حاملہ ہیں تاہم انہوں نے اپنا کام نہیں چھوڑا۔ وہ اپنی فلم ’ویرے دی ویڈنگ‘ کی شوٹنگ میں بھی مصروف ہیں۔

    kareena-post-5

    kareena-post-2

    فیشن ویک میں انہوں نے بھارتی ڈیزائنر سبیاسچی مکھرجی کا ڈیزائن کردہ لباس پہنا اور اعتماد کے ساتھ ریمپ پر واک کی۔

    kareena-2

    kareena-post-4

    کرینہ نے اسے اپنی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ قرار دیا۔ وہ اس سے قبل بھی اپنے حمل کے حوالے سے میڈیا کی احمقانہ قیاس آرائیوں پر اسے جھاڑ چکی ہیں۔

    ان کا ماننا ہے کہ ماں بننا ایک فطری اور نارمل عمل ہے اور میڈیا کو حاملہ عورت کے ساتھ کسی خلائی مخلوق جیسا سلوک نہیں کرنا چاہیئے۔