Tag: ڈیلٹا

  • ڈیلٹا کے خلاف ایک اور ویکسین کی افادیت سامنے آگئی

    ڈیلٹا کے خلاف ایک اور ویکسین کی افادیت سامنے آگئی

    کیپ ٹاؤن: کرونا وائرس کی سب سے خطرناک اور متعدی قسم ڈیلٹا کے خلاف ایک اور ویکسین کی افادیت سامنے آگئی، مذکورہ تحقیق جنوبی افریقہ میں کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ سنگل ڈوز کووڈ 19 ویکسین کرونا کی زیادہ متعدی اقسام ڈیلٹا اور بیٹا سے سنگین حد تک بیمار اور موت سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔

    جنوبی افریقہ میں ہونے والی یہ تحقیق ڈیلٹا کے خلاف جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی افادیت کا اظہار کرنے والی پہلی تحقیق ہے۔ جنوبی افریقہ کی وزارت صحت نے تحقیق کے ابتدائی نتائج جاری کیے ہیں۔

    اس ٹرائل میں جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی ایک خوراک لگ بھگ 5 لاکھ ہیلتھ ورکرز کو استعمال کرائی گئی تھی جن میں کووڈ 19 کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ یہ ویکسین ڈیلٹا سے متاثر افراد کو موت سے بچانے میں 95 فیصد تک مؤثر ہے جبکہ اسپتال میں داخلے کا خطرہ 71 فیصد تک کم کرتی ہے۔

    اس کے مقابلے میں کرونا وائرس کی قسم بیٹا (جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں ہی سامنے آئی تھی) کے مقابلے میں اس کی افادیت کچھ کم تھی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ویکسین وہی کام کررہی ہے جس کے لیے اسے تیار کیا گیا ہے، یعنی لوگوں کے اسپتال اور آئی سی یو میں داخلے کی روک تھام اور موت سے بچانا۔

    تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرنے والے افراد کو بوسٹر ڈوز کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جن افراد کو ویکسی نیشن کے بعد بیماری کا سامنا ہوا، ان میں سے 96 فیصد مریضوں میں بیماری کی علامات معمولی تھی جبکہ سنگین بیماری یا موت کا سامنا 0.05 فیصد افراد کو ہوا۔

  • ویکسی نیشن کروانے والے ڈیلٹا کرونا سے متاثر ہوں تو کیا ہوگا؟

    ویکسی نیشن کروانے والے ڈیلٹا کرونا سے متاثر ہوں تو کیا ہوگا؟

    سنگاپور: کرونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے زیادہ متعدی اور خطرناک ہونے کے حوالے سے نئی نئی ریسرچز سامنے آرہی ہیں اور حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ کرونا ویکسی نیشن مکمل کروانے والے افراد اگر کووڈ کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہو جائیں تو بھی ان میں بیماری کی معتدل یا سنگین شدت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    سنگاپور کے مختلف طبی اداروں کی اس مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسی نیشن سے بریک تھرو انفیکشنز کی صورت میں کووڈ سے منسلک ورم کا خطرہ کم ہوتا ہے، علامات کم نظر آتی ہیں بلکہ بغیر علامات والی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور کلینکل نتائج بہتر رہتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے 218 افراد کا تجزیہ کیا گیا تھا جو ڈیلٹا قسم سے بیمار ہوئے تھے اور انہیں 5 اسپتالوں یا طبی مراکز میں داخل کروایا گیا۔ ان میں سے 84 افراد کو کووڈ سے بچاؤ کے لیے ایم آر این اے ویکسینز استعمال کرائی گئی تھی اور 71 کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی۔

    130 مریضوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی تھی جبکہ باقی 4 کو دیگر ویکسینز استعمال کروائی گئی تھیں۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے اور ویکسی نیشن کے مرحلے سے گزرنے والے ڈیلٹا کے مریضوں میں ابتدا میں وائرل لوڈ کی شرح ملتی جلتی تھی۔

    تحقیق سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن سے مریضوں سے دیگر افراد میں وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

  • ڈیلٹا کرونا کے لیے ویکسین لگوانے والے اور نہ لگوانے والے دونوں برابر

    ڈیلٹا کرونا کے لیے ویکسین لگوانے والے اور نہ لگوانے والے دونوں برابر

    کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ثابت ہورہی ہے اور اب ایک تحقیق نے اس کی مزید تصدیق کردی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ویکسین استعمال کرنے کے بعد اگر کسی فرد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کے لیے بریک تھرو انفیکشن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، اب امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ویکسین استعمال کرنے والے افراد اگر بیماری کے شکار ہوتے ہیں تو ان کے جسم میں وائرس کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ویکسنیشن نہ کرانے والے لوگوں میں ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق ویکسین کے بعد بریک تھرو انفیکشن کے شکار افراد بھی وائرس کو آگے دیگر افراد تک منتقل کرسکتے ہیں۔

    سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کی جانب سے جاری تحقیق میں کہا گیا کہ امریکا میں کرونا کی قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ میں تیزی اور نئے نتائج کو دیکھتے ہوئے ہی چار دیواری کے اندر ایک بار پھر فیس ماسک کے استعمال کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔

    اب تک خیال کیا جاتا تھا کہ ویکسی نیشن کے بعد کرونا وائرس کی پرانی اقسام سے بیماری کے شکار افراد میں وائرل لوڈ بہت کم ہوتا ہے اور وہ اسے دیگر افراد تک منتقل نہیں کرسکتے، مگر نئے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈیلٹا قسم سے متاثر افراد میں ایسا نہیں ہوتا اور ان میں وائرل لوڈ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں امریکی ریاست میساچوسٹس میں مکمل ویکسین یشن کرانے والے افراد میں کووڈ کی تشخیص کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا تھا۔

    میساچوسٹس کے سیاحتی مقام کیپ کوڈ میں 900 سے زیادہ کیسز سامنے آچکے ہیں، جن میں سے تین چوتھائی ایسے افراد تھے جن کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی۔ امریکا کی بیشتر ریاستوں کی طرح میساچوسٹس میں بھی مئی کے آخر میں کووڈ پابندیوں کو ختم کردیا گیا تھا۔

    تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے جب سی ڈی سی کی ایک لیک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کورونا کی ڈیلٹا قسم چکن پاکس کی طرح تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    سی ڈی سی کی مذکورہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈیلٹا کی قسم سب سے زیادہ متعدی ہے جو چکن پاکس یا خسرے کی طرح پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس سے متاثرہ شخص متعدد افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا قسم سے متاثر ہونے والے کوئی بھی شخص آرام سے دیگر 8 افراد کو متاثر کر سکتا ہے اور اس وائرس کی خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی علامات بھی تیز نہیں ہوتیں اور معمولی سے نزلے، زکام اور سردی سے بھی اس وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

  • چکن پاکس سے تعلق؟ بھارتی کرونا وائرس سے متعلق امریکی ادارے کی خفیہ رپورٹ لیک

    چکن پاکس سے تعلق؟ بھارتی کرونا وائرس سے متعلق امریکی ادارے کی خفیہ رپورٹ لیک

    واشنگٹن: امریکی ادارے کی لیک ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا چکن پاس کی طرح متعدی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی کرونا وائرس کے بھارتی ڈیلٹا ویرینٹ پر اندرونی رپورٹ سامنے آ گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کرونا ڈیلٹا چکن پاکس کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے۔

    امریکی ادارے کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے باوجود ڈیلٹا کورونا وائرس انسان کو متاثر کرسکتا ہے، ڈیلٹا ویرینٹ سے متاثرہ شخص اوسطاً 8 یا 9 دیگر افراد کو متاثر کر سکتا ہے، اور اگر ویکسینیٹڈ افراد اس انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں تو ان کے جسم میں بھی اتنا ہی وائرس موجود ہے جتنا ویکسین نہ لگوانے والوں میں ہوتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بھارتی وائرس چکن پاکس (جیسے کاکڑا لاکڑا اور چھوٹی چیچک بھی کہتے ہیں) کی طرح تیز رفتاری سے پھیلتا ہے، اور ویکسین شدہ امریکیوں میں بھی یہ انفیکشن اتنا ہی قابلِ منتقلی ہو سکتا ہے جتنا ویکسین نہ لگوانے والوں میں ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ ویکسین کے ذریعے فراہم کرنے والی حفاظت کو بھی توڑ سکتا ہے، اور کرونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔

    امریکی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ میرس، سارس اور ایبولا جیسے وائرس کے مقابلے میں بھی زیادہ تیزی سے منتقل ہونے والا وائرس ہے۔

    چکن پاکس

    چکن پاکس کو طبّی اصطلاح میں Varicella کہا جاتا ہے، جو ایک متعدّی بیماری ہے، یہ مرض Varicella zoster نامی وائرس کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے، چکن پاکس ایک سے دوسرے فرد میں انتہائی تیزی سے منتقل ہو جاتی ہے، بالخصوص متاثرہ فرد کے کھانسنے اور چھینکنے سے، حفاظتی ٹیکے دریافت ہونے کے بعد امریکا میں اس بیماری کے پھیلاؤ میں 90 فی صد کمی واقع ہوئی۔

    چکن پاکس (کاکڑا لاکڑا، چھوٹی چیچک) کی واضح علامت، جِلد پر چکتوں کی شکل میں سُرخ نشانات نمایاں ہونا ہے، جو بعد میں چھوٹے چھوٹے خارش زدہ پانی بَھرے چھالوں اور آبلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ پانی بَھرے دانے ابتدا میں سینے، کمر اور چہرے پر نمودار ہوتے ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ جسم کے دیگر حصّوں تک پھیل جاتے ہیں۔

    مرض کی دیگر علامات میں بخار، تھکن، بے چینی اور سَر درد شامل ہیں، یہ علامات 7 سے 10 دِن تک برقرار رہتی ہیں اور پھر بتدریج ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ مرض کی پیچیدگیوں میں نمونیا، دماغ میں انفیکشن اور جِلد کے دانوں میں مواد بَھر جانا شامل ہیں، عام طور پر چکن پاکس بچّوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

  • کراچی کے اسپتالوں میں بھارتی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا رش

    کراچی کے اسپتالوں میں بھارتی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا رش

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں خطرے کی گھنٹی بج گئی، شہری بھارتی کرونا وائرس سے متاثر ہو کر اسپتال پہنچنے لگے جس کے بعد اسپتالوں میں جگہ ختم ہونے لگی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر کراچی میں بھارتی ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ کے بعد بڑے سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں رش بڑھنے لگا۔ انڈس اسپتال کے ترجمان پروفیسر عبدالباری کا کہنا ہے کہ انڈس اسپتال کا کرونا اور ایمرجنسی وارڈ مریضوں سے بھر چکا ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ انڈس اسپتال میں اضافی بیڈز لگا کر مریضوں کو رکھا جا رہا ہے، عوام سے ایس او پیز پر عمل کرنے اور ویکسین لگوانے کی درخواست ہے۔

    انتظامیہ لیاری جنرل اسپتال کے مطابق لیاری جنرل اسپتال میں ڈیلٹا متاثرین کی آمد شروع ہوچکی ہے، اسپتال کے کرونا وارڈ میں بیڈز کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔

    دوسری جانب سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ مختلف سرکاری اسپتالوں میں بھی مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، گلشن اقبال نیپا کا انفیکشنز ڈیزیز اسپتال مکمل طور پر بھر چکا ہے، ایکسپو سینٹر میں مزید مریضوں کے داخلے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے جبکہ آغا خان اسپتال نے کرونا وائرس کے مزید مریضوں کو لینے سے منع کردیا۔

    حکام کے مطابق ڈاکٹرز اور ماہرین نے حکومت سے کراچی میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، سول اسپتال کا 48 بیڈ پر مشتمل سرجیکل وارڈ کرونا وارڈ میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جناح اسپتال کے چیسٹ وارڈ کو بھی کرونا وارڈ میں بدلنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

    حکام کا مزید کہنا ہے کہ کراچی میں بھارتی کرونا ویرینٹ کی شرح 92 فیصد سے بڑھ چکی ہے، ڈاکٹرز اور طبی عملے میں بھی کرونا انفیکشن کی شرح بڑھ رہی ہے۔

  • یورپ میں کرونا کی سب سے خطرناک قسم کے پھیلنے کا انتباہ

    یورپ میں کرونا کی سب سے خطرناک قسم کے پھیلنے کا انتباہ

    کوپن ہیگن: عالمی ادارہ صحت نے یورپ میں کو وِڈ 19 کی ڈیلٹا قسم کے پھیلنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر برائے یورپ ہانس کلوگ نے کہا ہے کہ یورپ میں دس ہفتوں سے جاری کرونا کیسز میں کمی کا سلسلہ رک گیا ہے، اس کی وجہ بڑھتے ہوئے میل جول، سفر، اجتماعات اور سماجی پابندیوں میں نرمی ہے۔

    کوپن ہیگن میں ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کلوگ نے کہا کہ پچھلے ہفتے کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں 10 فی صد اضافہ ہوا، یہ تیزی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہے۔

    انھوں نے کہا وبا کی ایک نئی قسم ڈیلٹا تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، جو ایسے خطے میں ہے جہاں رکن ممالک کی زبردست کوششوں کے باوجود لاکھوں افراد کو تاحال ویکسین نہیں لگائی جا سکی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ کہ ڈیلٹا کی قسم متعدد اور بار بار کی انٹروڈکشنز کے ذریعے الفا کو تیزی سے تبدیل کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے پہلے ہی اسپتال داخل ہونے والوں اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

    کلوگ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے یورپی علاقے میں زیادہ تعداد اگست تک کرونا کی ڈیلٹا قسم کی ہوگی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ وبا کی نئی قسم، ویکسین کی مقدار میں کمی اور سماجی میل جول میں اضافے سے خطے میں موسم خزاں سے قبل اسپتال داخلوں اور اموات کی زیادہ تعداد کی لہر آ سکتی ہے۔

  • بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم مزید تبدیل ہورہی ہے

    نئی دہلی: بھارت میں کرونا وائرس کی تباہ کن قسم ڈیلٹا کی ایک اور ذیلی قسم سامنے آگئی جسے کے 417 این کا نام دیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بھارت میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ڈیلٹا قسم کے 40 کے لگ بھگ کیسز سامنے آنے کے بعد مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کہا ہے کہ شہریوں کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائے جائیں۔

    کرونا وائرس کی تبدیل شدہ شکل رکھنے والی یہ قسم نہایت تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کو انڈیا میں ڈیلٹا پلس کا نام دیا گیا ہے، اس کا پہلا کیس رواں ماہ کی 11 تاریخ کو پبلک ہیلتھ انگلینڈ نے رپورٹ کیا تھا۔

    کرونا وائرس کی اس تبدیل شدہ قسم کو ڈیلٹا ویرینٹ کی ذیلی نسب سمجھا جاتا ہے جو سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آئی اور پروٹین میوٹیشن کے تحت صورت بدلی اس کو کے 417 این کا نام دیا گیا۔

    اس تبدیل شدہ وائرس کا بِیٹا ویرینٹ پہلی بار جنوبی افریقا میں بھی سامنے آیا تھا۔

    بعض سائنسدان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وائرس کی میوٹیشن ڈیلٹا ویرینٹ کے دیگر موجود فیچرز کے ساتھ مل کر اس کو زیادہ تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

    انڈیا کے محکمہ صحت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کے 417 این وائرس کی نوعیت ریسرچ میں دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ یہ بِیٹا ویرینٹ میں بھی موجود ہے جو قوت مدافعت سے متلق پہلے ہی رپورٹ ہو چکا ہے۔

    انڈیا کے ایک نمایاں وائرولوجسٹ شاہد جمیل نے بتایا کہ یہ تبدیل شدہ شکل کا وائرس اینٹی باڈیز کے مؤثر ہونے میں کمی لانے کے لیے جانا جاتا ہے۔

    ڈیلٹا ویریئنٹ کرونا وائرس کے 16 جون تک کم از کم 197 کیسز سامنے آچکے ہیں جو دنیا کے 11 ملکوں میں رپورٹ کیے گئے، ان ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، انڈیا، جاپان، نیپال، پولینڈ، پرتگال، روس، سوئٹزرلینڈ، ترکی اور امریکا شامل ہیں۔

    بدھ کو بھارتی حکام نے بتایا کہ اس ویرینٹ کے 40 کیسز تین ریاستوں مہاراشٹر، کیرالہ اور مدھیہ پردیش میں سامنے آئے تاہم ان کے تیزی سے پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی حقائق سامنے نہیں آئے۔

    برطانیہ نے کہا ہے کہ اس تبدیل شدہ وائرس کے پانچ کیسز 26 اپریل کو رپورٹ کیے گئے تھے اور یہ افراد ایسے لوگوں سے ملے تھے جنہوں نے نیپال اور ترکی کا سفر کیا تھا۔

    برطانیہ اور بھارت میں تبدیل شدہ شکل والے وائرس سے تاحال کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں کی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ اس ویرینٹ کو ڈیلٹا ویرینٹ کے ایک حصے کے طور پر ٹریک کر رہا ہے اور اس کے ساتھ وائرس کے دیگر ویرینٹس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے جن کی میوٹیشن ہوئی ہے۔

  • کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا دنیا بھر کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس کی بھارتی قسم ڈیلٹا دنیا بھر کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے؟

    بھارت میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا نے خوفناک تباہی مچائی ہے اور اب یہ دنیا بھر کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہے، ماہرین اس قسم پر مسلسل تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا جسے بی 1617.2 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دسمبر 2020 میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی۔

    اب یہ قسم بھارت اور برطانیہ میں سب سے زیادہ کیسز کا باعث بننے والی قسم ہے جبکہ امریکا میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں بھی جلد اس کا غلبہ ہوگا۔ ڈیلٹا قسم 6 ماہ کے دوران 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور متعدد ممالک میں کیسز میں اضافے کے بعد سفری پابندیوں کا باعث بی ہے۔

    اس نئی قسم کے پھیلاؤ کی زیادہ رفتار اور ویکسینز کی افادیت میں ممکنہ کمی کے باعث اس کے اثرات کے بارے میں جاننا اب بہت اہم ہوچکا ہے۔ اب تک ہم اس کے بارے میں جو جان چکے ہیں وہ درج ذیل ہے۔

    یہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے

    جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ اب تک 80 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور برطانیہ میں یہ کیسز کی تعداد کے حوالے سے ایلفا قسم کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

    حالانکہ ایلفا قسم بھی بہت زیادہ متعدی ہے مگر ڈیلٹا قسم کے بارے میں اب تک کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ کرونا کی سابقہ اقسام سے 43 سے 90 فیصد تک زیادہ متعدی ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ کی رفتار 30 سے 100 فیصد زیادہ ہوسکتی ہے۔

    محققین ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ یہ نئی قسم دیگر کے مقابلے میں اتنی زیادہ متعدی کیوں ہے، ان کے خیال میں اس قسم کے پروٹین میں آنے والی تبدیلیوں نے اس کے لیے انسانی خلیات میں داخلہ آسان بنادیا ہے۔

    ایک ابتدائی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ اس قسم میں ایک ایسی میوٹیشن ہوئی ہے جس سے ایک بار انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے بعد وہ زیادہ بہتر طریقے سے مدغم ہوجاتی ہے۔ اگر یہ حقیقی معنوں میں خلیات سے آسانی سے مدغم ہوسکتی ہے تو یہ زیادہ سے زیادہ خلیات کو متاثر کرسکتی ہے اور مدافعتی نظام کو بے بس کرسکتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کے مطابق ڈیلٹا قسم جلد دنیا بھر میں کرونا کی بالادست قسم بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم ایلفا کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    کم عمر افراد کو زیادہ متاثر کرتی نظر آتی ہے

    برطانیہ میں تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ 50 سال سے کم عمر افراد اس نئی قسم سے ڈھائی گنا زیادہ بیمار ہورہے ہیں۔

    علامات کی شدت زیادہ سنگین ہے

    ڈیلٹا سے بیمار ہونے والے افراد میں ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملا ہے کہ ایلفا کے مقابلے میں ڈیلٹا سے متاثر ہونے والے افراد میں اسپتال کے داخلے کا خطرہ دگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    چین میں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر افراد وبا کے آغاز میں کووڈ کا شکار ہونے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہوتے ہیں، جبکہ ان کی حالت زیادہ تیزی سے بگڑتی ہے۔

    بھارت بھر میں مریضوں کا علاج کرنے والے 6 ڈاکٹروں کے مطابق معدے میں درد، قے، متلی، کھانے کی اشتہا ختم ہونا، سننے کی حس سے محرومی اور جوڑوں میں درد کووڈ کی اس قسم کے مریضوں کو درپیش چند مسائل ہیں۔

    بھارت میں اس قسم سے متاثر افراد میں بلیگ فنگس کے کیسز بھی بڑھ چکے ہیں جو اب تک 8 ہزار 800 کووڈ 19 کے مریضوں یا ان کو شکست دینے والے میں سامنے آئے ہیں۔

    علامات بھی مختلف

    برطانیہ کی زوئی کووڈ 19 سیمپم اسٹڈی ایپ کے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ڈیلٹا کے شکار مریضوں کی عام علامات بھی دیگر اقسام سے مختلف ہیں۔ اس ایپ کے ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا کے شکار افراد میں سر درد، گلے کی سوجن، ناک بہنا اور بخار سب سے عام علامات ہیں۔

    کھانسی ان مریضوں میں زیادہ عام علامت نہیں جبکہ سونگھنے کی حس سے محرومی سرفہرست 10 عام علامات میں شامل ہی نہیں۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیلٹا کی علامات کو بگڑے ہوئے نزلے کی علامات سمجھا جاسکتا ہے اور لوگوں کی جانب سے کوئی احتیاط نہیں کی جائے گی، جس سے اس کے پھیلاؤ میں مزید مدد ملے گی۔

    خود کو کیسے بچائیں؟

    ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔ مگر ابتدائی تحقیق کے مطابق فائر ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال سے ڈیلٹا قسم سے 79 فیصد تک تحفظ مل سکتا ہے اور بیمار ہونے پر علامات سے تحفظ کی شرح 88 فیصد تک ہوسکتی ہے۔

    ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں سے ڈیلٹا سے بیمار ہوکر ہسپتال پہنچنے کا خطرہ 92 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ اب تک ویکسنیشن والے کسی فرد میں اس نئی قسم سے ہلاکت کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔