Tag: ڈینٹسٹ

  • کیا آپ کے بچے کے دانت میں تکلیف ہے؟ آسان حل جانیے

    کیا آپ کے بچے کے دانت میں تکلیف ہے؟ آسان حل جانیے

    دانت کے درد کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی لگاسکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو اور اگر اس درد میں بچے مبتلا ہوجائیں تو والدین پر کیا گزرتی ہوگی۔

    کیویٹیز بچوں میں دانتوں کے سب سے زیادہ عام مسائل میں سے ایک ہے جس سے دانتوں میں چھوٹے سوراخ بن جاتے ہیں۔ منہ کی ناقص حفظان صحت، میٹھی خوراک، اور دانتوں کا بے قاعدہ چیک اپ جیسے عوامل اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

    بچوں میں دانت کی تکلیف نہ صرف بچوں بلکہ والدین کیلئے بھی مشکل بن جاتی ہے۔ اگر کم عمر بچوں میں دانتوں کے درد کی شکایت ہو تو کو اس کو کیسے فوری دور کیا جائے؟ اس کو جاننے کیلئے اس مضمون کا بغور مطالعہ کریں۔

    دانتوں میں کوئی بھی تکلیف کیوں نہ ہو اس کا درست طریقہ تو ڈینٹسٹ سے چیک اپ کا ہی ہے تاہم درد سے فوری چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ان چند گھریلو ٹوٹکوں کا آزمایا جاسکتا ہے۔

    نمکین پانی کے غرارے :

    نیم گرم پانی میں نمک ڈال کر غرارے کرنے کا یہ ٹوٹکہ صدیوں پرانا اور کارآمد بھی ہے، یہ سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور قدرتی جراثیم کش کے طور پر کام کرتا ہے۔

    صبح شام نمک کے پانی کے غرارے کرنے سے آپ کے بچے کو دانتوں کے درد سے آرام مل سکتا ہے۔

    یخ ٹھنڈا پانی یا برف کا استعمال :

    دانتوں میں اگر درد یا سوزش ہو تو یخ ٹھنڈے پانی یا برف کے ٹکڑوں کو منہ میں رکھنے سے بھی درد کم کو کیاجاسکتا ہے جبکہ یہ عمل دانتوں اور مسوڑوں سے نکلنے والے خون کو بھی روکتا ہے۔

    اس کے علاوہ برف کو بچوں کے گال پر یا متاثرہ جگہ پر رکھ کر بھی درد اور سوزش کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    لونگ یا لونگ کے تیل کا استعمال :

    لونگ میں قدرت نے بےشمار فوائد رکھے ہیں، یہ کھانسی سے نجات دینے کے ساتھ ساتھ دانتوں کے درد کو کم کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

    لونگ کے تیل کو روئی پر لگا کر متاثر دانت پر لگانے سے دانت کی تکلیف دور ہوسکتی ہے اگر لونگ کا تیل نہ ہوتو لونگ کو دانتوں سے چبا کر بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

    اس کے علاوہ والدین کیلئے ضروری ہے کہ بچوں میں پانی زیادہ پینے کی عادت ڈالیں کیونکہ پانی پینے سے بیکٹیریا دانتوں میں نہیں رہتے، ساتھ ہی بچوں کو دانتوں کو صاف رکھنے کی بھی عادت ڈالیں اس طریقے سے بھی دانتوں کی تکلیف سے بچا جاسکتا ہے۔

  • کیا عقل داڑھ نکلنے سے عقل آ جاتی ہے؟

    کیا عقل داڑھ نکلنے سے عقل آ جاتی ہے؟

    عقل ڈارھ جسے انگریزی میں وزڈم ٹوتھ کہا جاتا ہے دانتوں کے نکلنے کا تیسرا سلسلہ ہے جو 17 سے 25برس کی عمر کے درمیان جبڑے میں دانتوں کی قطار کے سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں معروف ڈینٹسٹ ڈاکٹر عبد القادر بلوچ نے عقل داڑھ کی وجہ اور اس کے نام کی وجہ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ اس داڑھ کا عقل سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے، دراصل عقل داڑھ 18 سے 25 سال کی عمر میں نکلتی ہے، اس عمر میں چونکہ انسان کے شعور میں پختگی پیدا ہونا شروع ہوتی ہے اسی وجہ سے اس کا نام بھی عقل داڑھ پڑ گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ان داڑھوں کا نکلنا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور ان کے اُگنے کے بعد بھی مسائل سامنے آسکتے ہیں یعنی منہ میں اتنی جگہ نہ ہو جو اس داڑھ کو درکار ہو تو پھر اس کے نکلنے کی کوشش دانتوں کو ٹیڑھا کرنے کے ساتھ مسوڑوں کے لیے بھی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے جس سے انفیکشن، دانتوں کے گرنے اور مسلسل تکلیف کی شکایات ہوسکتی ہیں۔

    ڈاکٹر عبد القادر بلوچ نے بتایا کہ آپ کو یہ جان حیرت ہوگی کہ عقل داڑھ ہر کسی کی نہیں آتی ہے کچھ ان میں صرف ایک یا دو جبکہ بعض لوگوں میں یہ چاروں نکل آتی ہیں۔

    دانتوں کا پہلا مرحلہ اس وقت نکلتا ہے جب بچہ چند ماہ کا ہوتا ہے جسے عموماً دودھ کے دانت کہا جاتا ہے یہ دانت ابتدائی چند سال میں اپنی مدت پوری کرکے ٹوٹ جاتے ہیں دوسرا سلسلہ میں دودھ کے دانت کی جگہ نئے دانت آجاتے ہیں جو کہ تعداد میں 28 ہوتے ہیں تاہم 32 دانتوں کے مکمل ہونے میں تیسرا سلسلہ کافی اہمیت رکھتا ہے یہ ایک ایسی عمر میں شروع ہوتا ہے جب آپ شعوری طور پر کافی سمجھدار ہوتے ہیں اسی لیے انہیں عقل داڑھ کہاجاتا ہے۔

    ڈاکٹر عبد القادر بلوچ کا کہنا تھا کہ دانتوں کی تکالیف کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہوتا ہے کسی بھی پریشانی یا تکلیف کی شکایت میں ڈاکٹر سے مشورہ کرکے دوا کا استعمال کریں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں کا خیال ہے کہ لاکھوں سال قبل زیادہ مضبوط جبڑوں اور دانتوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی کیونکہ ابتدائی انسانی آباؤ اجداد کو غذا کھاتے تھے وہ سخت ہوا کرتی تھی اور انہیں زیادہ چبانے کی ضرورت پڑتی تھی۔

    ان میں سامنے کی طرف تین عقل داڑھ کی طرح مضبوط دانت تھے تاہم ارتقائی منازل طے کرنے اور غذائی انداز تبدیل ہونے کی بنا پر دانتوں کے جسامت کم ہونے لگی اور اب یہ صرف عقل داڑھ کے طور پر موجود دکھائی دیتے ہیں۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کو بھی نقصان

    کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کو بھی نقصان

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مختلف طبی اثرات سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں ایک اور نقصان نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران دانتوں کے امراض میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے ایک پروفیسر کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کی نگہداشت میں تعطل اور تناؤ کے تیجے میں کچھ ڈینٹسٹ کو دانتوں میں کریک، جبڑوں کی سوجن اور کیوٹیز کے کیسز میں اضافہ نظر آرہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران دانتوں میں مسائل کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ ایسے مریضوں کی بھی کمی نہیں جن کو جبڑوں کی سوجن کا سامنا ہے۔

    ایک ماہر دندان کے مطابق دانتوں کے فریکچر کی شرح گزشتہ 6 برسوں سے بھی زیادہ ہے۔ گھروں میں زیادہ وقت گزارنے کے دوران زیادہ میٹھی اشیا کا استعمال ہورہا ہے اور اکثر افراد دانت صاف کرنے بھول جاتے ہیں جس سے دانتوں کے مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے ستمبر کے وسط میں دانتوں کے کریک بھروانے والوں کی شرح 120 فیصد تک بڑھ گئی جبکہ ماؤتھ گارڈز کی فروخت میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں اس برس 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن اور سی ڈی سی نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران ڈینٹسٹس کے پروٹوکول بھی تیار کیے ہیں۔

  • دانتوں کے ڈاکٹر کی عجیب حرکت اسے مہنگی پڑ گئی

    دانتوں کے ڈاکٹر کی عجیب حرکت اسے مہنگی پڑ گئی

    امریکا میں ایک ڈینٹسٹ کو اس وقت مقدمے کا سامنا کرنا پڑ گیا جب ایک مریض کا دانت نکالتے ہوئے اس نے غیر پیشہ وارانہ رویے کا مظاہرہ کیا اور ہاور بورڈ پر سوار ہو کر دانت نکالنے کا عمل سر انجام دیا۔

    امریکی ریاست الاسکا میں کام کرنے والے ایک ڈینٹسٹ لک ہارٹ کے خلاف سنہ 2017 میں ایک درخواست دائر کی گئی، درخواست کی وجہ ایک ویڈیو بنی۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر نے بے ہوش مریضہ کا دانت نکالا اس کے بعد وہ ہاور بورڈ پر کمرے سے باہر نکل گیا، مریض کا دانت نکالتے ہوئے بھی وہ ہاور بورڈ پر سوار تھا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ڈینٹسٹ کا رویہ پیشہ وارانہ معیار سے میل نہیں کھاتا، ڈاکٹر نے بے ہوش مریض کے دانت نکالنے کا تکلیف دہ عمل اس وقت انجام دیا جب وہ ہاور بورڈ پر سوار تھا۔

    درخواست میں لک ہارٹ کی فون پر کی جانے والی ایک گفتگو کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں اس نے کہا کہ ’ہاور بورڈ پر سوار ہو کر دانت نکالنا نیا معیار ہے‘۔

    مقامی عدالت نے لک ہارٹ پر اپنے کام کے دوران غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے سمیت متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں جبکہ اس پر میڈیکل بلوں میں فراڈ کرنے اور مریضوں سے غیر ضروری اخراجات لینے کے الزامات پر بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    درخواست کی سماعت کے دوران جج نے کہا کہ ڈاکٹر نے اپنی ان سرگرمیوں کا ذکر اپنے دوستوں سے بھی کیا، یوں اس کے فون کالز اور ٹیکسٹ میسجز کی صورت میں ہمیں اس کے خلاف مضبوط ثبوت ملے۔

    لک ہارٹ کے خلاف اس کے کئی مریض عدالت میں پیش ہوئے، ان میں وہ مریضہ بھی شامل تھی جس کا دانت لک ہارٹ نے ہاور بورڈ پر سوار ہو کر نکالا تھا۔

    مذکورہ خاتون اپنے ساتھ ہونے والی اس حرکت سے ناواقف تھیں اور جب تفتیش کاروں نے ان سے رابطہ کر کے ان کی ویڈیو دکھائی اور بتایا کہ ان کا دانت کس طرح نکالا گیا تو وہ چیخ اٹھیں، ’یہ سراسر غیر پیشہ وارانہ عمل ہے‘۔

    لک ہارٹ کو مقامی عدالت جلد سزا سنا دے گی۔

  • دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    دانت کا علاج موت کا سبب بن گیا

    لندن: برطانیہ میں دانتوں کا علاج کرانے کے لیے اسپتال جانے والی معذور خاتون کئی دن زیر علاج رہنے کے بعد انتقال کرگئیں ، ڈینٹسٹ نے خاتون کے تمام دانت نکال دیے تھے۔

    تفصیلات کےمطابق یہ واقعہ برطانیہ کے علاقے ورسسٹرشائر میں پیش آیا جہاں رواں سال اکتوبر میں 49 سالہ رشل جونسٹون اپنے دانت کی خراب حالت کے سبب آپریشن کے لیے گئی تھیں۔

    یہ کہا جارہاہ ہے کہ ڈاکٹر نے دانتوں کی حالت خراب ہونے کے سبب ان کے تمام دانت نکال دیے جس کے سبب ان کی طبعیت خراب ہوئی اور آپریشن کے چند گھنٹوں بعد وہ اپنے حواس میں نہ رہیں۔ کئی دن انہوں نے اسپتال میں جان بچانے والی مشینوں کے سہارے گزارے اور بالاخر نومبر کے آخر میں اسپتال انتظامیہ نے ان کے اہل خانہ کو کہہ دیا کہ وہ اب ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق دو اورخاندانوں نے اسی نوعیت کی شکایت کی ہے کہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ دونوں بچے ذہنی طور پر متاثر تھے اور ان کا خیال تھا کہ خرابی کے سبب ان کے کچھ دانت نکالے جائیں گے تاہم جب بچے واپس آئے تو ان کے منہ میں کوئی دانت نہیں تھا۔

    مریضوں کے ورثا ء کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں مریض کے اہل خانہ کو ہر صورت اعتماد میں لینا چاہیئے اور ایسا کوئی عمل بغیر اجازت ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

    ڈینٹل سروس چلانے والے سرکاری اداےکا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال کا شکار مریضوں کے ساتھ جو طریقہ کار اپنانا لازمی ہے وہ مکمل طریقےسے اپنایا گیا ہے اور خاتون کے علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی ہے۔ خاتون کی موت کی تحقیقات کے لیے تین طبی ماہرین پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔

    اس معاملے پر مہم چلانے والے کچھ لوگوں کا کہنا ہے خصوصی توجہ کے طالب مریضوں اور ان کے اہل خانہ میں عموماً رابطے کے مسائل پیش آتے ہیں ، ایسی صورتحال میں ڈاکٹر کو چاہیئے کہ سارے دانت نکالنے سے قبل اہل خانہ سے گفتگو کرے اور اس کے لیے لازمی اجازت حاصل کرے۔

  • پتھر کے دور میں دانتوں کی تکلیف کا علاج کیسے؟

    پتھر کے دور میں دانتوں کی تکلیف کا علاج کیسے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھر کے دور میں انسان دانتوں میں سرمئی رنگ کے ایک نایاب پتھر کے ذریعہ سوراخ کیا کرتے تھے جو اس زمانے میں دانتوں کی تکالیف کا انتہائی مؤثر علاج سمجھا جاتا تھا۔

    ماہرین آثار قدیمہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع قدیم تہذیبی شہر مہر گڑھ سے ایک دانت برآمد کیا جو پتھر کے زمانے کا تقریباً 9 ہزار سال قدیم ہے۔

    قبرستان سے ملنے والے اس دانت کے تجزیے سے پتہ چلا کہ اس دور میں ماہر دندان دانتوں کی تکالیف دور کرنے کے لیے دانتوں میں سرمئی رنگ کے ایک نایاب پتھر کے ذریعہ سوراخ کر دیا کرتے تھے۔

    teeth-3

    اس پتھر کو تراش کر نوکیلی شکل دی جاتی تھی، اس کے بعد اس سے دانت میں ڈرل کیا جاتا تھا جس سے دانت کا تکلیف کا شکار اور سڑا ہوا حصہ نکل کر باہر آجایا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ طریقہ علاج حیرت انگیز نتائج دیتا تھا اور دانتوں کے ان ٹشوز کو اکھاڑ پھینکتا تھا جو تکلیف کا باعث بنتے تھے۔ ان کے تجزیوں کے مطابق اس علاج کے فوری بعد مریض کچھ بھی چبانے کے قابل ہوتا تھا۔

    ماہرین کو یہاں سے ایسے 4 دانت ملے جن میں کسی خرابی کے شواہد نظر آئے اور ان میں اس پتھر کے ذریعہ کیے گئے سوراخ دکھائی دیے۔

    teeth-2

    واضح رہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب وادی سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہے جو 7 سے 9 ہزار سال قبل کے درمیانی عرصے میں موجود تھی۔ ماہرین کے مطابق اس تہذیب میں زراعت کے ابتدائی آثار ملے تھے اور یہاں گندم، کپاس، اور جو کاشت کی جاتی تھی۔

    اس تہذیب کے آثار صوبہ بلوچستان میں واقع کچی میدان کے قریب واقع ہیں۔