Tag: ڈی این اے ٹیسٹ

  • سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کی تشخیص کا سادہ ٹیسٹ ایجاد کر لیا

    سائنس دانوں کی بڑی کامیابی، کینسر کی تشخیص کا سادہ ٹیسٹ ایجاد کر لیا

    سائنس دانوں نے کینسر کی تشخیص کے سلسلے میں بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے، ایک ایسا سادہ ٹیسٹ ایجاد کر لیا ہے جو 18 طرح کے کینسر کو ابتدائی مرحلے میں شناخت کر سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی این اے یا جینیاتی سطح پر کام کرنے والا یہ ٹیسٹ امریکی سائنس دانوں نے وضع کیا ہے، یہ سادہ اور آسان ترین ٹیسٹ ہے جس کے ذریعے اٹھارہ طرح کے کینسر کی ابتدائی تشخیص ممکن ہے۔

    ماہرین نے اسے ایک گیم چینجر یعنی ایک انقلابی ٹیسٹ کا نام دیا ہے، واضح رہے کہ دنیا بھر میں ہونے ہر 6 اموات میں سے ایک موت کینسر کی وجہ سے ہوتی ہے، اسی لیے ابتدا ہی میں کینسر کی تشخیص سے مریض کو بچانے اور اس کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    اگرچہ پروٹین کے ذریعے مختلف اقسام کی بیماریوں کی شناخت پہلے ہی سے کی جا رہی ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے، تاہم یہ نیا ٹیسٹ پروٹین کے ڈی این اے میں معمولی اجزا کی بھی شناخت کر کے ابتدائی سطح پر کینسر سے خبردار کر سکتا ہے۔

    برٹش میڈیکل جنرل میں شائع مقالے کے مطابق یہ ٹیسٹ امریکا میں بائیو ٹیکنالوجی فرم نوویلنا نے وضع کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے حساس ترین ڈی این اے ٹیسٹوں سے بھی یہ ٹیسٹ زیادہ حساس اور مؤثر ہے، انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خون کے پلازمہ میں پائے جانے والے اجزا اور پروٹین کو شناخت کرتے ہوئے یہ ٹیسٹ بہت مؤثر انداز میں بتا سکتا ہے کہ کون کون سا کینسر اپنے پر پھیلانے کے لیے جسم کے اندر تیاری کر رہا ہے۔

    جن 18 اقسام کے کینسر کی بات کی گئی ہے وہ جسم کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتے ہیں۔

  • سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جائیداد کے تنازع کے ایک کیس میں 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جس میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق دیوانی مقدمات میں بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ شخصی آزادی اور نجی زندگی کے خلاف ہے، آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 شخصی آزادی اور نجی زندگی کے تحفظ کے ضامن ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تاج دین اور زبیدہ بی بی کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا گیا وہ کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔

    فیصلے میں قرار دیا گیا کہ نجی زندگی کا تعلق انسان کے حق زندگی کے ساتھ منسلک ہے، مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ نجی زندگی میں مداخلت ہے، فوجداری قوانین کی بعض شقوں میں مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت ہے۔

    علاوہ ازیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون شہادت کے مطابق شادی کے عرصے میں پیدا بچے کی ولدیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ جائیداد کے تنازع میں لاہور ہائیکورٹ نے تاج دین، زبیدہ اور محمد نواز کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا تھا۔

  • سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب: نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ

    سعودی عرب میں نایاب نسل کے اونٹوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا ہے جس کا مقصد ان کی نسل اور شجرہ نسب کا تحفظ کرنا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال کے اہلکاروں نے نایاب نسل کے 12 اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل حاصل کرلیے۔

    جن اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل لیے گئے وہ شہزادہ سلطان بن محمد بن سعود الکبیر اور شہزادہ ترکی بن محمد بن سعود الکبیر کے ہیں۔

    کیمل کلب اور کنگ فیصل اسپیشلسٹ اسپتال نایاب اونٹوں کی نسل کے تحفظ کے لیے ان کے ڈی این اے جمع کر رہے ہیں۔

    اونٹوں کے معائنے اور میڈیکل لیبارٹری میں اندراج کی کارروائی میں 5 روز صرف ہوئے، ڈی این اے جمع کرنے کے بعد اونٹوں کی نسل سے متعلق تمام معلومات محفوظ کی جائیں گی۔

    یاد رہے کہ جن اونٹوں کے ڈی این اے لیے گئے ہیں وہ غرنوق، الشامخ، الحاکم، شقران، شامان، العالی، نوفان، الکاید، خزام الشعل، ورقان اور الفاخر ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے بھی لیے گئے ہیں۔

    اس مہم کا مقصد نایاب نسل کے اونٹوں کا شجرہ نسب محفوظ کرنا ہے، شہزادہ سلطان بن محمد اور شہزادہ ترکی بن محمد کے اونٹوں کے ڈی این اے کے بعد دیگر نایاب نسل کے اونٹوں کے دیگر 17 مالکان سے بھی رجوع کیا جائے گا اور ان کے اونٹوں کے ڈی این اے سیمپل بھی لیے جائیں گے۔

  • کتے کے اصل مالک کا فیصلہ ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا

    کتے کے اصل مالک کا فیصلہ ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا

    مدھیہ پردیش: ڈی این اے ٹیسٹ سے انسانوں کا تو پتا چلتا ہے لیکن بھارت میں لیبریڈر نسل کے ایک کتے کے اصل مالک کا فیصلہ بھی ڈی این اے ٹیسٹ نے کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ہوشنگاباد میں ایک کتے کی ملکیت پر7 ماہ سے تنازعہ چل رہا تھا، آخر کار اس کے اصل مالک کا فیصلہ ہو گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق کوکو نامی 3 سالہ سیاہ لیبریڈر نسل کے کتے کا جب ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تو ثابت ہو گیا کہ اس کا اصل مالک شاداب خان ہے جو مقامی صحافی ہے۔

    نومبر 2020 میں کتے کے مالک شاداب خان نے پولیس تھانے میں درخواست جمع کرائی تھی کہ کروتک شوہارے نامی ایک سیاسی شخصیت نے ان کا کتا غلطی سے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔

    کتے کے خریدنے کے سرٹیفکیٹ اور ویکسی نیشن ریکارڈ کی تصدیق کے بعد درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے مقامی پولیس نے با اثر شخص سے کتا قبضے میں لے کر شاداب خان کے حوالے کر دیا۔

    تاہم، بعد میں کروتک شوہارے نے تھانے پہنچ کر دعویٰ کر دیا کہ انھوں نے یہ کتا گزشتہ برس اگست کے مہینے میں اٹارسی شہر سے خریدا تھا، یوں معاملہ پھر متنازعہ ہو گیا، جس پر شاداب خان نے ڈی این اے ٹیسٹ کی تجویز دی، جسے پولیس نے قبول کیا۔

    ٹیسٹ کے لیے پولیس کی ایک ٹیم پچماڑی بھیجی جہاں سے شاداب خان نے کتا خریدا تھا، جب کہ ایک ٹیم اٹارسی بھیجی گئی، اور کتے کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے وہاں سے سیمپل لیے گئے تاکہ پتا چل سکے کہ کتے کا تعلق کہاں سے ہے۔

    ڈی این اے ٹیسٹ کے اخراجات کے لیے شاداب خان ہی نے 30 ہزار روپے بھی خود دیے، ٹیسٹ کے لیے کتے کا سیمپل دسمبر 2020 میں لے کر حیدرآباد تنلگانہ فارنسک سائنس لیبارٹری بھیجا گیا تھا، تاہم اس کی رپورٹ جمعرات 18 مارچ کو آئی اور ثابت ہو گیا کہ کتا شاداب خان کا ہے۔

  • زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    زیادتی کیسز میں 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آتی: عدالت برہم

    کراچی: خواتین سے زیادتی کے متعلق قانون سازی کے کیس میں عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2، 2 سال تک ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں آئے گی تو ملزمان کو سزا کیسے ہوگی؟

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں خواتین سے زیادتی کے ملزمان کو سخت سزا دلوانے پر قانون سازی سے متعلق کیس کے دوران، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے خلاف عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ کیسز کے متعلق اصلاحات نہیں ہوئیں، 6، 6 ماہ تک مقدمات درج نہیں ہوتے۔ عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ سماعت میں پہنچے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب بتائیں، کیا فنڈز کا کوئی ایشو ہے گواہوں کے تحفظ کا قانون بنایا مگر کیا عمل کر رہے ہیں؟ ریپ کیسز میں اسکریننگ تک نہیں ہو رہی، آئی جی صاحب، تفتیشی افسر ڈی این اے لینے سے انکار کردے تو کیا کریں گے؟

    آئی جی سندھ نے کہا کہ بہت سے کیسز میں ڈی این اے کیے گئے ہیں، ہمارا ایک ایس او پی ہے اس پر عمل کر رہے ہیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ ایک تفتیشی افسر نے 6 ماہ تک ڈی این اے نہیں کروایا جس پر عدالت نے آئی جی سے دریافت کیا کہ آپ اپنے تفتیشی افسر کا کیا کریں گے جو ایس او پی پر عمل نہیں کرتا۔

    عدالت نے کہا کہ کیا آپ نے ایس ایچ او کو کوئی ہدایات جاری کیں؟ لوگوں کو تو سادہ ایف آئی آر تاخیر سے کٹنے کی شکایت ہوتی ہے۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈی این اے کے لیے لکھا جاتا ہے، ’اگر ضروری ہو تو‘، ان الفاظ پر آپ کے تفتیشی افسران فائدہ اٹھاتے ہیں، ریپ کیسز میں ڈی این اے میں ’اگر ضروری ہو‘ کہاں سے آگیا؟

    عدالت نے کہا کہ سندھ میں 598 تھانے ہیں مگر ڈی این اے ٹیسٹ کتنوں میں ہوا۔ درخواست گزار نے کہا کہ ڈی این اے کروانے کے بعد تفتیشی افسر 6 ماہ تک کٹ لے کر گھومتے رہے، جس پر وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ڈی این اے رپورٹ اس لیے نہیں دی کہ پیسے نہیں تھے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ کیا پولیس کے پاس فنڈز نہیں؟ جامعہ کراچی میں جامعہ جامشورو کے فنڈز سے ڈی این اے ہو رہے ہیں۔ اس طرح آپ کیس خراب کر رہے ہیں، ملزمان بری ہو جائیں گے۔ الزام عدالت پر آتا ہے کہ ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوگئیں۔

    آئی جی سندھ نے کہا کہ زیادتی کے 796 کیسز زیر سماعت ہیں ان کی پوری طرح ذمہ داری لینے کو تیار ہیں، ایک ہفتہ دیں پوری تیاری کر کے عدالت کو آگاہ کردیں گے۔

    عدالت نے کہا کہ 2، 2 سال رپورٹ نہیں آئے گی تو زیادتی کیسز میں سزا کیسے ہوگی، 2016 اور 2017 کے کیسز میں رپورٹس نہیں آئیں۔ بچوں کے کیسز میں اس طرح مت کریں۔

    جج نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی اور جامشورو یونیورسٹی نے بھی مذاق بنا رکھا ہے، یونیورسٹیز نے کیوں 2، 2 سال سے رپورٹس کو دبائے رکھا ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو فوری اجلاس طلب کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے زیادتی کے کیسز میں سندھ حکومت کو فنڈز کا جائزہ لینے کا حکم بھی دیا۔

    عدالت نے زیادتی کے کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے اور ڈی این اے ٹیسٹ بروقت کروانے کو یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

  • سندھ ہائی کورٹ نے لاوارث لاشوں کی شناخت کے میکنزم کی تفصیلات طلب کر لیں

    سندھ ہائی کورٹ نے لاوارث لاشوں کی شناخت کے میکنزم کی تفصیلات طلب کر لیں

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں لاوارث لاشوں کی شناخت کے معاملے پر سماعت کے دوران عدالت نے حکومت سندھ سے ڈی این اے لیبارٹریز کی تفصیلات طلب کر لیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاوارث لاشوں کی شناخت کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ رپورٹ دیں، لاوارث لاشوں کی شناخت کا میکنزم کیا ہے۔

    [bs-quote quote=”وقت آ گیا ہے کہ پولیس رولز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے: عدالت” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سندھ کی عدالت نے چیف سیکریٹری سے پوچھا کہ کتنی لاوارث لاشوں کی شناخت ہوئی ہے، جب کہ مسخ شدہ لاشوں کی شناخت کیسی ہوگی؟ عدالت نے کہا ’پولیس قواعد کے مطابق عام لاشوں کی تصویر بنائی جاتی ہے، تو جلی ہوئی، کچلی اور مسخ شدہ لاشیں کیسے شناخت کی جاتی ہیں؟

    عدالت نے دریافت کیا کہ ایسی لاشوں کے اعضا کیسے حاصل کیے جاتے ہیں اور ان اعضا کو کہاں رکھا جاتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پولیس رولز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

    قبل ازیں عدالت میں عبد الکریم کی بیٹی کے کیس کی سماعت ہوئی، عبد الکریم نے اپنی بیٹی آمنہ کے اغوا اور قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا، والد نے لاش سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میری بیٹی نہیں ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:   عدالت کا لاوارث لاشوں کی شناخت اور ڈی این اے کیلئے میکینزم بنانے کا حکم


    دوسری جانب ڈی این اے ایکسپرٹ نے عدالت کو بتایا کہ ٹیسٹ سے ثابت ہوا ہے کہ لاش آمنہ کی ہے۔ فارنزک ایکسپرٹ نے کہا کہ موت کی وجہ کا تعین پولیس سرجن کی ذمہ داری ہے۔

    سندھ ہائی کورٹ نے رولنگ دیتے ہوئے رپورٹ کو چالان کا حصہ بنانے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے حکومتِ سندھ کو رپورٹ 21 نومبر کو پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

    واضح رہے کہ ڈیڑھ سال قبل بھی عدالت نے لاوارث لاشوں کی شناخت اور ڈی این اے کے لیے میکنزم بنانے کا حکم دیا تھا، سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کیس کی سماعت کے دوران پولیس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایدھی قبرستان میں 84 ہزار لاپتا لاشیں دفن ہیں۔