Tag: کائنات

  • کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    ہماری کائنات میں واقع بلیک ہول اپنے اندر بے پناہ اسرار رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کیا ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا، یہ بھی ممکن ہے ان کے دوسری طرف ایک اور کائنات ہو۔

    بلیک ہولز بیرونی خلا میں دریافت ہونے والی سب سے دلچسپ چیزوں میں سے ایک ہیں، یہ روشنی سمیت ہر چیز کو اپنے اندر کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

    ناسا کے مطابق بلیک ہول کی مضبوط کشش ثقل مادے کو ایک انتہائی چھوٹی سی جگہ میں دبانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کمپریشن ستارے کی زندگی کے اختتام پر وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ بلیک ہولز بذات خود آنکھوں سے نہیں دیکھے جا سکتے، لیکن خصوصی دوربینیں ایسے مواد اور ستاروں کے رویے کا مشاہدہ کر سکتی ہیں جو بلیک ہولز کے بہت قریب ہیں۔

    کچھ بلیک ہولز ایک ایٹم جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت ایک پہاڑ جتنی ہوسکتی ہے، جبکہ دوسرے ہمارے نظام شمسی کے سائز کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت 1 ملین سورج سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

    سیگیٹیریئس اے ہماری کہکشاں میں موجود ملکی وے کے مرکز میں واقع بلیک ہول ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں تقریباً 4 ملین سورجوں کی کمیت ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں کو نہیں لگتا کہ زمین کو کسی بھی وقت جلد ہی بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے گا۔

    لیکن فرضی طور پر، اگر زمین کو بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے تو کیا ہوگا؟ کیا ہم کشش ثقل کے ذریعے ختم ہو جائیں گے، یا یہ ہمیں کسی متوازی کائنات میں لے جائے گا؟

    بلیک ہول میں کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں اصل میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ تمام مادہ ایک لامحدود چھوٹے نقطے پر سکڑ جاتا ہے اور جگہ اور وقت کے تمام تصورات ٹوٹ جاتے ہیں۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیک ہول دراصل سوراخ نہیں ہوتے، وہ درحقیقت اشیا ہیں، لیکن چونکہ کوئی روشنی ان سے بچ نہیں سکتی، وہ ہمیں ایک سوراخ کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    تاہم، چونکہ روشنی اس پر پڑ نہیں سکتی اس لیے بلیک ہولز میں درحقیقت بہت کچھ ہو سکتا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔

    سنہ 2018 میں اپنی موت سے پہلے، نظریاتی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے اس خیال سے اختلاف کیا کہ ہر وہ چیز جو بلیک ہول میں چلی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے۔

    سنہ 2015 کی اپنی ایک تقریر میں ہاکنگ نے کہا کہ بلیک ہولز وہ ابدی جیلیں نہیں ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا جاتا تھا، اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بلیک ہول میں پھنسے ہوئے ہیں، تو ہمت نہ ہاریں۔ باہر نکلنے کا راستہ ہے۔

    وہ یہ تجویز کرتے رہے کہ بلیک ہولز درحقیقت کسی اور دنیا کے لیے گیٹ وے ہو سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بلیک ہول کو کافی بڑا ہونا چاہیئے اور اگر یہ گھوم رہا ہے تو اس کا راستہ کسی اور کائنات تک جا سکتا ہے۔ لیکن آپ ہماری کائنات میں واپس نہیں آسکتے۔

  • ایسی کائنات جہاں وقت پیچھے کی طرف چلے گا، کیا ایسا ممکن ہے؟

    ایسی کائنات جہاں وقت پیچھے کی طرف چلے گا، کیا ایسا ممکن ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات جیسی ایک ایسی کائنات بھی موجود ہوسکتی ہے جہاں سب کچھ الٹا ہوگا اور وقت بھی پیچھے کی طرف چلتا ہوگا۔

    ہماری کائنات بہت وسیع ہے اور اب تک ہم میں سے اکثر نے اس امکان کو قبول کر لیا ہے کہ کائنات کے ارد گرد زندگی دوسری شکلوں میں بھی موجود ہو سکتی ہے، جو ہماری گرفت یا سمجھ سے بہت دور ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا اگر ہمارے سامنے ایک پوری کائنات ہو؟ کائنات کی ہم آہنگی کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ ہماری کائنات سے آگے ایک متبادل کائنات بھی ہو۔

    ماہرین نے ہماری کائنات سے بالکل باہر ایک ممکنہ الٹی کائنات کے بارے میں ایک نظریہ پیش کیا ہے، جہاں وقت الٹا چلتا ہے۔

    اس دوسری پراسرار کائنات کے پیچھے کی سائنس کے بارے میں ہمیں ہر چیز جاننے کی ضرورت ہوگی، خاص طور پر اس بارے میں کہ وہاں وقت مختلف طریقے سے کیوں چلے گا۔

    الٹی کائنات کا نظریہ کیا ہے؟

    سائنس دانوں نے کائنات میں بنیادی ہم آہنگی کے علم پر ایک الٹی کائنات کے نظریے کی بنیاد رکھی ہے، جس میں اہم طور پر چارج، برابری اور وقت شامل ہیں، اسے سی پی ٹی ہم آہنگی) کا نام دیا گیا ہے۔

    کسی بھی کائنات میں تمام جسمانی تعاملات عام طور پر ان ہم آہنگیوں کی پابندی کرتے ہیں اور طبیعیات دانوں نے کبھی بھی فطرت کے ان تینوں قوانین کی ایک ہی وقت میں کوئی خلاف ورزی نہیں پائی۔

    ماہرین نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ چونکہ یہ ہم آہنگی کائنات میں تعاملات پر لاگو ہوتی ہے، اس لیے اس کا اطلاق پوری کائنات پر بھی ہو سکتا ہے۔

    جریدے اینالسز آف فزکس میں اشاعت کے لیے قبول کیے گئے ایک مقالے میں، سائنس دانوں نے تجویز کیا ہے کہ ابتدائی کائنات اتنی چھوٹی، گرم اور یکسانیت کے ساتھ گھنی تھی جس کی وجہ سے وقت آگے اور پیچھے کی طرف متوازی دکھائی دیتا تھا۔

    ہماری کائنات میں اس ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے، ممکنہ طور پر ہماری کائنات کی ایک آئینہ دار امیج کا امکان ہے جس میں وقت پیچھے کی طرف چلتا ہے۔

    الٹی کائنات کا نظریہ کیوں اہم ہے؟

    سائنس دانوں کا خیال ہے کہ الٹی کائنات کا وجود تاریک مادے (ڈارک میٹر) کی وضاحت کر سکتا ہے، فی الحال، کائنات میں صرف تین نیوٹرینو (ذیلی ایٹمی ذرہ کی قسم) ہیں، اور یہ سب بائیں طرف گھومنے والے ہیں۔

    تاہم، ایک معکوس کائنات میں توازن کی ضرورت کا مطلب دائیں گھومنے والے نیوٹرینو کا وجود ہوگا، جس کا علم طبیعیات دانوں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔

    لائیو سائنس کے مطابق، یہ نئی قسم کے نیوٹرینو اگر ہماری کائنات میں موجود ہیں، تو اس تاریک مادے کا حساب کتاب کرنے کے لیے کافی ہوں گے جس کا طبیعیات دانوں کے ذریعے پتہ نہیں چل سکا ہے۔

    کیا الٹی کائنات کے وجود کو ثابت کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟

    نظریاتی طور پر ہم کبھی بھی الٹی کائنات تک رسائی حاصل نہیں کر پائیں گے، کیونکہ یہ بگ بینگ سے پہلے موجود تھی۔ تاہم، سائنس دان اب بھی نیوٹرینو کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریہ کی جانچ کر سکتے ہیں۔

    ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ نیوٹرینو کی نئی قسموں میں سے ایک کو ماس لیس ہونا چاہیئے، اس لیے اگر وہ کبھی بھی ذیلی ایٹمی ذرات کی کمیت کی پیمائش کرنے کے قابل ہو جائیں اور ان میں کوئی کمیت نہ پائی جائے، تو یہ الٹی کائنات کی تھیوری کو تقویت دینے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔

    اس نظریے کے تحت سائنس دان اس عقیدے پر کام کر رہے ہیں کہ کائنات کی قدرتی توسیع نہیں ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کشش ثقل کی لہروں کی بھرمار ہماری کائنات میں ہوئی تھی وہ متبادل کائنات میں نہیں پائی جائے گی۔

    لہٰذا، تجربے کے دوران اگر کشش ثقل کی لہریں نہیں ملتی، تو یہ ایک معکوس کائنات کے وجود کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔

  • دو بلیک ہولز کا خطرناک تصادم، زمین کا مستقبل کیا ہے؟

    دو بلیک ہولز کا خطرناک تصادم، زمین کا مستقبل کیا ہے؟

    کائنات میں اربوں نوری سال کے فاصلے پر دو بلیک ہولز کا خطرناک ٹکراؤ اور تصادم جاری ہے، ماہرین کے مطابق کچھ عرصے میں یہ دونوں بلیک ہولز مل کر ایک بڑا بلیک ہول بنا لیں گے۔

    تقریباً 10 ارب نوری سال کے فاصلے پر دو انتہائی بڑے بلیک ہولز ایک مدار میں اتنا کس کر پھنس گئے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد 10 ہزار سال کے مختصر عرصے میں ایک بڑا بلیک ہول بنا لیں گے۔

    ان کے درمیان مداری فاصلہ 0.03 نوری سال کا ہے جو سورج اور پلوٹو کے درمیان اوسط فاصلے سے تقریباً 50 گنا زیادہ ہے۔

    تاہم، دونوں اس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں کہ ان کو بائنری مدار مکمل کرنے کے لیے دو سال لگتے ہیں اور پلوٹو کے حساب سے 248 سال۔

    بائنری سسٹم وہ نظام ہوتا ہے جس میں دو سیارے ایک مرکز کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں، سپر میسِو بلیک ہول بائنریز کا ماہرین فلکیات کی توجہ کا مرکز ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔

    سپر میسو بلیک ہولز اکثر کہکشاؤں کے مرکز میں پائے جاتے ہیں، وہ مرکز جس کے گرد ہر چیز گھومتی ہے۔ جب دو بلیک ہول ایک ساتھ دیکھے جاتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دو کہکشائیں قریب آ چکی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل ہوتا ہے لہٰذا سپر میسو بلیک ہول بائنری کی تلاش ہمیں بتا سکتی ہے کہ حتمی مراحل میں یہ کیسا لگتا ہے۔ سپر میسو بلیک ہول بائنریز ہمیں یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ کیسے یہ دیو ہیکل اشیا اتنی بڑی ہو سکتی ہیں۔

  • کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    کائنات کے ابتدائی ستاروں کی کھوج ممکن ہوگئی

    جلد ہی انسانوں کے پاس کائنات کے ابتدائی ستاروں کی معلومات بھی ہوں گی، ناسا نے اس سلسلے میں تیاری مکمل کر لی۔

    امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے کائنات کے راز کھوجنے کے لیے ایک اور بڑا مشن لانچ کرنے کی تیاری کر لی ہے، ناسا نے 30 برس میں تیار ہونے والی خلائی دوربین کا کام مکمل کر لیا۔

    ناسا کے انجینئرز نے فرنچ گیانا میں جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کو ڈبے سے نکال لیا ہے، اور اب اسے لانچ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، یہ مشہور زمانہ دور بین ہبل کی جانشین بننے جا رہی ہے، جسے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا ہے، اور امریکا سے بھیجے جانے کے بعد پانچ دن قبل ہی یورپ کے کورو اسپیس پورٹ پہنچی ہے، اسے 18 دسمبر کو مدار میں روانہ کیا جائے گا۔

    سائنس دانوں کو امید ہے کہ یہ خلائی دور بین کائنات میں بالکل ابتدائی ستاروں سے نکلنے والی روشنی کا پتا لگا سکتی ہے، تاکہ ساڑھے 13 ارب سال پہلے کے ستاروں کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔یہ ٹیلی اسکوپ امریکی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

    اس سے قبل تاریخ میں پہلی بار ناسا نے ہبل ٹیلی اسکوپ کو 1990 میں خلا میں بھیجا تھا، جمیز ویب ٹیلی اسکوپ کا شیشہ ہبل ٹیلی اسکوپ کے مقابلے تین گنا بڑا ہے۔

    ناسا کے مطابق جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو زمین سے 15 لاکھ میل دور خلا میں چھوڑا جائے گا، جہاں سے وہ کائنات کے ان حصوں کی کھوج لگائے گا جہاں تک ہبل ٹیلی اسکوپ کی رسائی ممکن نہیں تھی۔

  • ماہرین فلکیات نے کائنات کا سب سے بڑا 3 ڈی نقشہ تیار کرنے میں تاریخی کامیابی حاصل کر لی

    ماہرین فلکیات نے کائنات کا سب سے بڑا 3 ڈی نقشہ تیار کرنے میں تاریخی کامیابی حاصل کر لی

    یوٹاہ: ماہرین فلکیات نے 20 برس کی مسلسل محنت کے بعد کائنات کا سب سے بڑا 3D نقشہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں کی 20 برس کی محنت رنگ لے آئی، کائنات کا ایک 3 ڈی (سہ ابعادی) نقشہ تیار ہو گیا، ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ 11 ارب سال سے موجود نظامِ فلکیات کو سمجھنا اب آسان ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق نقشہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کائنات، جو زیادہ تر چپٹی ہے، کے مختلف حصے مختلف رفتار سے پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، اور اس کی تاریخ میں 11 بلین سال کے فاصلے کو بھرتی جا رہی ہے۔

    امریکی ریاست یوٹاہ کی یونی ورسٹی کے کوسمولوجسٹ ڈاکٹر کیلی ڈاسن کا کہنا ہے کہ ہم کائنات کی قدیم ترین تاریخ اور اس کے پھیلاؤ کی حالیہ تاریخ کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں تاہم گیارہ ارب سالوں کے بیچ ایک پریشان کن خلا موجود ہے۔

    Scientists Just Revealed The Largest-Ever 3D Map of The Universe ...

    اس تحقیق میں دنیا بھر سے 100 ماہرین فلکیات نے حصہ لیا، تحقیق کے دوران 20 لاکھ سے زیادہ کہکشاؤں اور کواثر (quasars) کی تفصیلی پیمائش کی گئی، جس میں 11 بلین سال کے کائناتی خلائی وقت کا احاطہ کیا گیا ہے۔

    نقشے سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح، جب کائنات کی عمر صرف 3 لاکھ سال تھی، مادے کے دھاگوں (filaments) اور خالی حصوں سے کائنات کا ڈھانچا واضح ہوا۔ ہبل دوربین کے ذریعے ہم یہ جانتے ہیں کہ جو کہکشائیں زمین سے زیادہ دوری پر ہیں وہ زمین سے قریب کہکشاؤں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت کر رہے ہیں، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی اس بات پر اتفاق نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کتنی تیزی سے پھیل رہی ہیں، اب کہکشاؤں کی اس نئی سروے میں یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ مختلف حصے مختلف رفتار سے پھیل رہے ہیں۔

    اس نقشے کا وہ حصہ جو 6 ارب سال پرانا تھا، اسے بنانے کے لیے ٹیم نے بڑی اور سرخ کہکشاؤں کو استعمال کیا، مزید آگے جانے کے لیے انھوں نے چھوٹی اور نیلی کہکشاؤں کا استعمال کیا، اور پھر آخر کار کائنات کی 11 ارب سالہ پرانی تاریخ کو نقشے کا حصہ بنانے کے لیے ماہرین فلکیات نے کواثرز کا استعمال کیا، جو روشن تر کہکشائیں ہیں اور یہ ایک مرکزی سپر میسو (یعنی وہ جو سورج سے 106 سے 109 گنا بڑے ہیں) بلیک ہول پر گرنے والے مادے سے روشن ہونے والی کہکشائیں ہیں۔

  • اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    اربوں سال میں تخلیق شدہ زمین انسانی ترقی کی زد پر

    ہم کئی نسلوں سے اس زمین پر آباد ہیں، ہم روز بروز ہوتی ترقی کی بدولت اپنے پڑوسی سیاروں اور اپنے نظام شمسی سے باہر کے حالات بھی کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں لیکن ان پر غور کرنے کا وقت ہمیں بہت کم ملتا ہے۔

    آئیں آج ہم اپنے اس گھر یعنی زمین اور کائنات کے بارے میں جانتے ہیں۔

    ہماری کائنات ایک بہت بڑے دھماکے جسے بگ بینگ کہا جاتا ہے، کے نتیجے میں 13 ارب 80 کروڑ سال قبل وجود میں آئی۔ کائنات ابتدا میں بہت سادہ تھی۔ یہاں کچھ ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسیں موجود تھیں جبکہ بہت ساری توانائی بھی موجود تھی۔

    اس وقت کائنات میں ستارے، کہکہشائیں اور سیارے موجود نہیں تھے جبکہ کسی جاندار کا بھی وجود نہیں تھا۔

    کچھ وقت بعد کائنات میں کچھ پیچیدہ اجسام ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ کائنات میں پہلی بار ستارے اور کہکہشاں بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد نمودار ہوئے۔

    کچھ بڑے ستارے بنے اور پھر ختم ہوگئے، یہ دھماکے سے پھٹے اور اس دھماکے سے نئے اجسام وجود میں آئے۔ ان اجسام نے مزید نئے عناصر کو جنم دیا جیسے مٹی، برف، پتھر اور معدنیات۔ پھر ان عناصر سے سیارے بننا شروع ہوئے۔

    ہمارا سورج اور نظام شمسی ساڑھے 4 ارب سال قبل نمودار ہوا۔

    4 ارب سال قبل زمین پر زندگی نے جنم لیا۔ اس زندگی کا ارتقا ہونا شروع ہوا مگر تب بھی زیادہ تر جاندار بہت چھوٹے اور یک خلیائی (ایک خلیے پر مشتمل) تھے۔ 1 ارب سال قبل پہلی بار کثیر خلیائی (بہت سارے خلیوں پر مشتمل) زندگی نے جنم لیا۔

    50 کروڑ سال قبل زمین پر بڑے اجسام عام ہوگئے تھے جیسے درخت یا ٹائرنا سارس۔ ان سب میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ انسان کا ظہور صرف 2 لاکھ سال قبل اس زمین ہوا۔

    انسان کی آمد اس زمین پر ایک اہم واقعہ تھی، کیونکہ انسان اس سے قبل آنے والی تمام مخلوق سے منفرد اور بہتر تھا۔ انسان نے اپنے آس پاس کی معلومات اور اپنے خیالات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا شروع کیا جس سے آنے والی نسلیں پرمغز ہونا شروع ہوئیں۔

    اب، صرف چند سو سال میں انسان نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ پورے کرہ ارض اور اس میں بسنے والے تمام جانداروں کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔

    بے تحاشہ ترقی، ٹیکنالوجی اور دولت سے انسان موسموں کا رنگ، دریاؤں اور ہواؤں کا رخ تک بدلنے پر قادر ہوگیا ہے اور اس جنون میں اپنے ہی گھر کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق صرف اگلے چند سال میں انسان کی ترقی اس بات کا تعین کرلے گی کہ آیا یہ کرہ ارض اور اس پر موجود جاندار صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے یا اگلے کئی لاکھ سال تک موجود رہیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اربوں سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تمام سیارے کی مخلوق کی بقا، ایک مخلوق (انسان) کی مرہون منت ہے۔ اس بقا کی جنگ لڑنا ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ چیلنج 4 ارب سال میں ایک ہی بار درپیش ہے۔

  • انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈے اور ہماری کائنات میں قدر مشترک کیا ہے؟

    انڈا ہماری روزمرہ کی غذا میں استعمال ہونے والا عام جز ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ انڈا ہماری کائنات کے کئی رازوں کا امین ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس کے کیلشیئم کاربونیٹ سے بنے چھلکے اور اس کے اندر کی دنیا کو غور سے دیکھیں تو اس کے اندر ہماری کائنات کی چھوٹی سی جھلک نظر آئے گی۔

    لوک کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں انڈے کا ذکر ثابت کرتا ہے کہ انڈا ہم سے بہت پہلے سے اس کائنات پرموجود ہے۔ قدیم مصری، یونانی، رومی اور انکا تہذیبوں سمیت مختلف مذاہب اور روایات میں انڈے کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

    امریکا میں جنوبی کیلی فورنیا میں موجود ایک قبیلے کی دیو مالائی کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ جس طرح انڈا ٹوٹتا ہے بالکل ویسے ہی ہماری کائنات تخلیق ہوئی۔

    اسی طرح امریکی ریاست آئیووا کا ایک اور قبیلہ اوماہا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کروڑوں سال قبل ایک انڈا سمندروں میں پھینکا گیا جس کی حفاظت ایک سانپ کے پاس ہے، اس انڈے میں وہ تمام افراد آرام کر رہے ہیں جنہیں ابھی دنیا میں آنا ہے۔

    کیا ہماری کائنات بھی انڈے جیسی ہے؟

    سنہ 2006 میں ناسا کے ولکنسن سیٹلائٹ کی حاصل کردہ معلومات سے یہ مفروضہ پیش کیا گیا کہ کائنات (انڈے کی طرح) بیضوی شکل کی ہے۔ سائنسی طبقے نے آج تک اس مفروضے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

    تاہم اس سے قبل سولہویں صدی عیسوی میں جرمن ماہر فلکیات جوہانس کیپلر اس بات کی تصدیق کر چکا تھا کہ ہمارے سیارے سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گول دائرے میں نہیں بلکہ بیضوی دائرے میں گھومتے ہیں۔

    اسی طرح ماہرین کے مطابق انڈے کے خول اور چاند کی زمینی سطح میں بھی بے حد مماثلت ہے، دونوں کھردرے اور دانے دار ہیں۔

    انڈے کی بیضوی ساخت اپنے اندر یہ خصوصیت بھی رکھتی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک سرے پر بیرونی دباؤ ڈالا جائے تو وہ دباؤ تمام حصوں پر یکساں تقسیم ہوجاتا ہے جس کے بعد اندر موجود زندگی محفوظ رہتی ہے۔

    اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ہم ایک بڑے سے انڈے میں رہ رہے ہیں جو مسلسل پھیل رہا ہے، تاہم تمام تر ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ماہرین اس بات کا حتمی تعین نہیں کرسکے۔

  • پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    پانچ قرآنی آیات جنہوں نے سائنسدانوں کو حیران کردیا

    آج کی جدید سائنس ایسے ایسے میدان سر کررہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ، آج انسانی ایجادات خلا کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے نظامِ شمسی سے باہر نکل چکی ہیں اور بہت جلد ہی یہ انسان پڑوسی سیارے پر آباد ہونے کی تیاری کررہا ہے۔

    آج سے ایک صدی پہلے تک یہ سب خواب و خیال کی باتیں تھی اور اگر کوئی ایسے نظریات پیش کرتا تو اسے دیوانہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن آج کی دنیا میں یہ سب حقیقت ہے۔

    سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ایک صدی پہلے تک یہ سب دیوانگی سمجھا جارہا تھا تو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں ہمارے نبی ﷺ مدینے کی مسجد کے منبر سے افلاک کی وسعتوں کے بارے میں ایسی آیات مسلمانوں کو حفظ کرارہے تھے جن کے بارے میں صدیوں ابہام رہا اور اب انسانی ارتقاء کی اس جدید ترین صدی میں ان کی تصدیق ممکن ہوئی ہے۔

    یہاں ہم پیش کررہے ہیں کچھ ایسی آیات جو کہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو بھی حیران کیے ہوئے ہیں۔


    جب کوئی نہیں جانتا تھا کہ چاند اور سورج ایک مقررہ حساب سے اپنا کام انجام دے رہیں تب سورہ رحمان کی آیت پانچ میں قرآن کہتا ہے

    [bs-quote quote=”والشمس والقمر بحسبان

    آفتاب اور مہتاب (مقررہ) حساب سے ہیں

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    سورہ رحمان کی آیت 19 اور 20میں خالق ِ کائنات زمیں پر موجود نمکین اور میٹھے پانی کے فرق کو بیا ن کرتا ہے۔

    [bs-quote quote=”مرج البحرین یلتقیان۔ بینھما برزخ لا یبغن

    اور اس نے دو دریا جاری کردیے جو آپس میں مل جاتے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان برزخ) ہے کہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    قدیم زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد طواف کرتا ہے، ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ سورج اپنی جگہ ساکن ہے ، لیکن قرآن نے دونوں نظریات سے ہٹ کر سورہ یس کی آیت نمبر 38 میں بیان کیا کہ

    [bs-quote quote=”والشمس تجری لمستقر لھا ۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم

    اور سورج کے لئے جو مقررہ راہ ہے وہ اسی پر چلتا رہتا ہے یہ ہے مقرر کردہ غالب، باعلم اللہ تعالٰی کا” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آج سائنس داں جانتے ہیں کہ سورج جسے ساکن تصور کیا جاتا ہے درحقیقت اپنے پورے نظامِ شمسی اور اس سے بڑھ کر یہ پوری کہکشاں ایک نامعلوم سمت میں رواں دواں ہے۔

    آج سے14 سو سال قبل جب عرب میں اسلام ، محمد عربی ﷺ کے زیر سایہ نمو پارہا تھا ، اس زمانے کے ماہرینِ فلکیات سمجھتے تھے کہ چاند ، سورج اور ستارے درحقیقت آسمان میں لٹکے ہوئے چراغ ہیں اور اپنی جگہ ساکن ہیں لیکن قرآن نے سورہ یس کی آیت نمبر 40 میں انکشاف کیا کہ

    [bs-quote quote=”لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر والا اللیل سابق النھار۔ وکل فی فلک یسبحون

    نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں ” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]

    آسمان کے لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ اپنی جگہ پر جامد ہے لیکن جب جدید سائنس نے انسان کو اس آسمان یعنی خلا کی وسعتوں تک رسائی دی تو انکشاف ہوا کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے، اس امر کو اللہ قرآن کی سورہ الذریات کی آیت نمبر 47 میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

    [bs-quote quote=”والسما بنینا ہا باید وانالموسعون

    اس آسمان کو ہم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اسے مسلسل پھیلاتے چلے جارہے ہیں” style=”style-2″ align=”center”][/bs-quote]


    یقیناً بحیثیتِ مسلم ہمارے لیے یہ امر قابلِ ا فتخار ہے کہ آج جو کچھ سائنس دریافت کررہی ہے اس کے اشارے ہمیں قرآن نے 14 صدیوں قبل ہی دے دیے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی ہمارے لیے قابلِ غور ہے کہ یہ قرآن ہمارے لیے ہی نازل کیا گیا تھا۔ ہمارے رب نے اسے انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ حیات قرار دے کر ہم سے کہا تھا کہ اس ( قرآن ) میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

    کیا ہی اچھا ہو کہ ہم محض غیر مسلموں کی دریافتوں کو قرآن سے سند عطا کرنے کے بجائے خود آگے بڑھیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ایسے ایسے کام کرجائیں کہ دنیا قرآن کا مطالعہ کرکے ایک دوسرے سے کہیں،  کہ دیکھو! مسلمانوں کو ان کے رب نے جو نشانی قرآن میں بتائی تھی وہ انہوں نے دریافت کر ڈالی ہے۔

    آج کی دنیا علم و فن کی دنیا ہے، تیز رفتار سائنسی ترقی کی دنیا ہے اگر ہم نے اس میدان کی جانب توجہ نہیں دی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ویسا ہی ہو، جیسا کہ ہم سے اگلوں کا ہوا اور ان کے قصے بھی اسی قرآن میں ہمیں کھول کھول کر بیان کیے گئے ہیں کہ ہم ہدایت حاصل کرسکیں۔

  • متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    متعدد کائناتوں کی موجودگی سے متعلق اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق

    لندن: آنجہانی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحقیق بھی سامنے آگئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ  پر صرف  ہماری کائنات اکیلی نہیں بلکہ اس جیسی متعدد کائناتیں موجود ہیں جنہیں عام انسان نہیں دیکھ سکتا۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی موت سے 10 روز قبل ایک خط تحریر کر کے جرنل آف ہائی انرجی فزکس کو ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے دیگر کائناتوں کی موجودگی کا انکشاف کیا۔

    پروفیسر ہاکنگ بستر مرگ تک اس بات کا جواب تلاش کرنے کے لیے سرگرداں تھے کہ ہمارے یعنی انسانوں کے علاوہ دنیا میں اور کتنی مخلوقات ہیں اور ایسی ہی کتنی رنگین کائناتیں موجود ہیں؟۔

    آنجہانی پروفیسر نے اپنی آخری تحقیقاتی تحریر میں ماہرینِ فلکیات کی رہنمائی کا بھی تذکرہ کیا جس کے مطابق زمین کے علاوہ متوازی کائناتوں کے شواہد موجود ہیں، جو آنے والے وقتوں میں عام انسان کو نظر آنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: معروف سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں

    اسٹیفن ہاکنگ کی آخری تحریر 20 سالہ محنت کا ثمر ہے جس میں سائنسی نظریے ’اسٹرنگ تھیوری‘ میں استعمال ہونے والی پیچیدہ ریاضی کی تکنیک کو بھی شامل کیا گیا تاکہ آنے والے وقتوں میں سائنسی ماہرین یا طالب علم اس سے استفادہ حاصل کرسکیں۔

    اس ضمن میں پروفیسر ہرٹوگ کا کہنا ہے کہ اسٹیفن نے اپنی آخری تحریر میں یہ بات تحریر کی کہ فزکس قوانین کے تحت ہماری جیسی کئی کائناتیں مستقبل میں وجود میں آسکتی ہیں، یہ تصورات ذہن کو چکرا سکتے ہیں تاہم اس خط کے ذریعے سائنس دانوں کو کائنات کے وجود میں آنے کا حتمی نظریہ قائم کرنے میں مدد بھی ملے گی۔

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے معروف ماہر طبیعات تھے، آپ کو آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائئنسدان قرار دیا جاتا تھا۔ پروفیسر نے زیادہ تر کام ثقب اسود یعنی بلیک ہول، نظریاتی کونیات کے میدان میں کیا اور زندگی بھر اس گھتی کو سلجھانے کی کوشش کی کہ انسانوں کو کسی طرح دیگر کائناتوں کی موجودگی کے حوالے سے قائل کرسکیں۔

    یہ بھی پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ دنیا کے لیے مثالی شخصیت تھے

    اسٹیفن ہاکنگ نے ویسے تو متعدد کتابیں تحریر کیں جن میں سے اُن کی ایک کتاب A Brief History of Time  آسان الفاظ میں لکھی گئی جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس کتاب کو انقلابی حیثیت حاصل ہوئی۔

    اسٹیفن ہاکنگ دماغی طور پر تو صحت مند تھے تاہم جسمانی طور پر وہ ایک خطرناک بیماری سے مبتلاء تھے جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر اور پاؤں تک ہلانے کے قابل نہیں تھے، اس تمام تر صورتحال کے باوجود آنجہانی پروفیسر نے بلند حوصلے کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا اور اپنے خیالات کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

    واضح رہے کہ برطانوی سائنسدان نے ایک انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ انسان جس خلائی مخلوق کی کھوج میں ہے وہ اس کے لیے تباہی لائے گی، ایسی کوئی مخلوق زمین پر آئی تو وہی ہوگا جو کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کے بعد ریڈ انڈینز کے ساتھ ہوا تھا۔

    اسے بھی پڑھیں: کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    پروفیسر ہاکنگ نے کہا تھا کہ اجنبی مخلوق سے رابطوں کی کوشش کے بجائے ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے، سائنس دانوں نے خلا میں ایسے مشن بھیجے ہیں جن پر انسانوں کی تصویریں اور زمین تک پہنچنے کے نقشے تھے، ممکنہ خلائی مخلوق سے رابطے کے لیے ویڈیو بیمز بھی بھیجی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ ہالی ووڈ اداکار ایڈی ریڈمائن نے 2014 میں بنائی جانے والی فلم ‘دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کا کردار ادا کیا تھا جبکہ ان کی اہلیہ کا کردار اداکارہ فلیسٹی جونز نے نبھایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    کائنات کے بارے میں حیران کن حقائق

    ہماری ماں زمین جہاں ہم رہتے اور زندگی گزارتے ہیں، ہماری کائنات کا پانچواں بڑا سیارہ ہے، اور شاید یہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔

    زمین ہمارے لیے بہت بڑی ہے، لیکن ہم کائنات کی وسعت کا اندازہ لگانے سے بھی قاصر ہیں۔ اس وسعت میں ہماری زمین کی حیثیت ایک معمولی سے ریت کے ذرے کے برابر ہے۔

    universe-2

    آج ہم آپ کو کائنات کے ایسے ہی چند حیران کن حقائق بتا رہے ہیں جنہیں جان کر آپ خود کو نہایت حقیر محسوس کرنے لگیں گے، اور ساتھ ہی دنگ بھی رہ جائیں گے۔

    کائنات میں لگ بھگ 100 ارب ستارے اور سیارے موجود ہیں اور ہماری زمین ان میں سے ایک ہے۔

    universe-1

    اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں تب بھی ہمیں پوری کہکشاں کی سیر کرنے کے لیے 1 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار 1 لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

    کائنات کا 70 فیصد حصہ اندھیرے میں چھپا ہوا ہے۔ زمین سے باہر جو کچھ ہم اب تک دریافت کر چکے ہیں وہ کائنات کا صرف 5 فیصد حصہ ہے۔

    ہماری خلا کا زیادہ تر حجم سورج نے گھیرا ہوا ہے۔ سورج کے علاوہ بقیہ تمام سیارے کائنات کا صرف 0.2 فیصد رقبہ گھیرے ہوئے ہیں۔

    sun

    ووئیجر 1 اس وقت انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی وہ واحد شے ہے جو زمین سے سب سے زیادہ فاصلے پر موجود ہے۔ یہ سورج سے 11 ارب میل کے فاصلے پر ہے جبکہ خود زمین سورج سے 14.96 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

    universe-3

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ماہرین فلکیات نے خلا میں زمین جیسے 7 سیارے دریافت کیے تھے۔

    مزید پڑھیں: زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ایک ستارے اور اس کے گرد گھومتے 7 سیاروں پر مشتمل اس نئے نظام کو ٹریپسٹ 1 کا نام دیا گیا تھا۔

    سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔