Tag: کابل

  • پاکستانی سفارت خانہ غیر ملکی شہریوں کے انخلا میں مدد کر رہا ہے، سی این این

    پاکستانی سفارت خانہ غیر ملکی شہریوں کے انخلا میں مدد کر رہا ہے، سی این این

    کابل: عالمی میڈیا پر کابل میں پاکستانی سفارت خانے اور پی آئی اے کی پذیرائی ہونے لگی ہے، امریکی میڈیا کمپنی سی این این نے کہا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ غیر ملکی شہریوں کے انخلا میں مدد کر رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان سے نہ صرف پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے سفارت خانے اور قومی ایئر لائن نے متحرک کردار ادا کیا بلکہ اس دوران دیگر غیر ملکی شہریوں کے انخلا کے سلسلے میں بھی سفارت خانے اور ایئر لائن نے بہت مدد کی۔

    اس کارکردگی کو سراہتے ہوئے سی این این نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی سفارت خانہ غیر ملکی شہریوں کے انخلا میں مدد کر رہا ہے، اور انخلا میں معاونت کرنے کے لیے پاکستانی سفارت خانہ کھلا ہے۔

    سی این این نے کہا کہ پی آئی اے نے 1100 سے زائد لوگوں کو دو دنوں میں افغانستان سے بہ حفاظت نکالا، دوسری طرف پاکستانی سفارت خانہ بھی ترجیحی بنیادوں پر ویزے جاری کر رہا ہے۔

    طالبان نے واضح کیا تھا طاقت میں آئیں گے تو اتحادی حکومت بنائیں گے: پاکستانی سفیر

    رپورٹ میں‌ کہا گیا ہے کہ نکالے گئے لوگوں میں متعدد ممالک کے شہری شامل ہیں، جب کہ کئی ممالک اور بین الاقوامی ایجنسیوں نے پی آئی اے سے ان کے شہری نکالنے کے لیے مدد کی درخواست کی ہے، ان میں امریکا، فلپائن، کینیڈا، جرمنی، جاپان اور نیدرلینڈز شامل ہیں۔

    آج اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کابل میں موجود پاکستانی سفیر منصور خان نے بتایا کہ آج بھی ایک فلائٹ کابل گئی ہے، کل 2 مزید جائیں گی۔

    سفیر کے مطابق پاکستانی سفارت خانے نے 4 ہزار ویزے جاری کیے ہیں، 600 ویزے افغانستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو دیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم نے افغان شہریوں کے لیے ویزا پالیسی میں گزشتہ سال تبدیلی کی تھی، اب ویزے کے لیے لوگ آ رہے ہیں لیکن بہت زیادہ تعداد میں نہیں۔

  • اس وقت توجہ کابل سے امریکیوں اور اتحادی افغانوں کے انخلا پر ہے: امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف

    اس وقت توجہ کابل سے امریکیوں اور اتحادی افغانوں کے انخلا پر ہے: امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف

    واشنگٹن: امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ واحد جگہ ہے جو اس وقت امریکیوں کے کنٹرول میں ہے، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کے مطابق اس وقت توجہ امریکیوں اور اتحادی افغانوں کے انخلا پر ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

    وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جنگ وہ ہے جو میں نے خود لڑی، میں اس ملک اور ان لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے شانہ بشانہ لڑے۔ جنہوں نے ہماری مدد کی ان کی مدد کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔

    جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ یہ اندازہ بعد میں لگایا جائے گا کہ افغانستان میں کیا غلطیاں ہوئیں، اس وقت توجہ امریکیوں اور اتحادی افغانوں کے انخلا پر ہے۔

    انہوں نے کہا کہ طالبان نے کابل کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، طالبان ہمارے انخلا آپریشن میں دخل اندازی نہیں کر رہے۔

    وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ واحد جگہ ہے جو امریکیوں کے کنٹرول میں ہے، اس وقت امریکا کی کابل کے اندر آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، کابل میں موجود سینکڑوں افراد ایئرپورٹ نہیں پہنچ پا رہے۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ انخلا کا مشن کب پورا ہوگا۔

  • افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    کابل شہر خصوصاً اور افغانستان مجموعی طور پر افراتفری، انتشار، عدم تحفّظ، اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آرہا ہے جس کی وجہ طالبان کا برق رفتاری کے ساتھ صوبائی دارالحکومتوں کے بعد دارالخلافہ پر قبضہ ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جو قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوں گے، وہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت سمجھے جانے والی قوّت اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو مسلح طالبان کے سامنے نہیں‌ ٹھہر سکے اور گویا ڈھیر ہوگئے۔

    افغانستان میں فوج کی پسپائی اور وجوہات
    تقریباً دو ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بہت پر اعتماد انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں جن کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعداد میں لگ بھگ ستّر ہزار طالبان کی پیش قدمی کو روک کر ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور حکومت کا دفاع بھی کریں گے۔ ان کا دعویٰ‌ تھا کہ امریکہ کے پندرہ ہزار کے قریب ٹرینروں نے انھیں تربیت دے کر جدید اسلحہ سے لیس کیا ہے جب کہ امریکہ کے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی رپورٹ کے مطابق افغان ارمی پر گزشتہ بیس سال میں 80 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، لیکن صورتِ حال دنیا کے سامنے ہے۔ جونہی امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہوا افغانستان کی فوج اور دیگر اداروں کے اہلکار تتر بتر ہوگئے اور وہ اسلحہ جو ان کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ملا تھا، اسی اسلحہ سمیت طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق افغان آرمی کی پسپائی کی بڑی وجہ لسانی، قومیت اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم، بڑھتی ہوئی کرپشن، افسروں اور ماتحت میں عدم اعتماد اور بدترین بد انتظامی ہے اور اس کے علاوہ افغان فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ ان کو یوں چھوڑ کر ملک سے نکل جائے گا جس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیر کرلیا۔

    افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا فرار اور اس کے اثرات
    ڈاکٹر اشرف غنی جو افغانستان کے 2014 کے متنازع انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل ورلڈ بنک سے منسلک رہے اور ایک کتاب انگریزی زبان میں بھی تحریر کرچکے ہیں جس کا عنوان تھا، ناکام ریاستوں کی تعمیرِ نو (ری کنسٹرکشن آف فیلڈ اسٹیٹ) لیکن جب ان کو خود ایک تباہ حال افغانستان دیا گیا تو سیاسی، قبائلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو بڑھاوا ملا اور یہی وجہ کہ امریکہ کو بار بار ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے مابین تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑتی جب کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی حلقوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کو ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر ان کی معاونت کے لیے آئے تھے جس کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے اتحادی افغان قیادت عدم اعتماد کا شکار رہے جس کے اثرات اس وقت سامنے ائے جب امریکہ نے افغان حکومت کی بجائے طالبان سے مذاکرات کر کے دوحا معاہدہ قلمبند کیا اور پھر اپنی واپسی کے اعلان پر عملدرامد شروع کردیا۔

    تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اشرف غنی کی اپنی حکومت پر رٹ کمزور تھی اس لیے طالبان نے جب امسال مئی میں پیش قدمی شروع کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش نہیں ایا اور طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی کو اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب افغان قوم صدمے میں چلی گئی اور وہ طالبان جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ افغان ارمی ان کو شکست دے دی گی لیکن اب وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ طالبان کو ایک سیاسی طاقت پر قبول کریں بلکہ اگر ان کی حکومت پر بنتی ہے اس کو تسلیم کرنے کو بھی تیار ہیں۔

    طالبان کا کابل پر قبضہ اور زمینی حقائق
    پندرہ اگست سے قبل کابل میں حالات معمول پر تھے۔ افغان پولیس تھانوں میں موجود تھی، بازار دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ لڑکیاں اسکول جارہی تھیں اور خواتین اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھیں لیکن جونہی طالبان کابل گیٹ پر قریب پہنچے تو ایک افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کو روکنے کے لیے طالبان نے اعلان کیا وہ جنگ کی بجائے پرامن طریقے سے دارالحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ جونہی ڈاکٹر اشرف غنی ایوان صدر کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو طالبان نے صدارتی محل پر بغیر کسی مزاحمت کے کنٹرول سنبھالا تو افغان عوام میں جنگ کا خوف تو ختم ہوا لیکن اس دوران افغان پولیس اور افغان ارمی منظر نامے سے اچانک غائب ہوگئی اور شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بے پناہ قیمتی گاڑیاں کو چھینا گیا جب کہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی سامنے ائیں اور یہی وجہ تھی کہ کابل کے بازاروں اور دفاتر کو بند کردیا گیا جب کہ مقامی ابادی گھروں میں محصور ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے سرکاری گاڑیاں قبضہ میں لے کر گشت شروع کردی ہے اور ان کو یقین ہے کہ طالبان حالات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

    کابل ایئر پورٹ پر دھاوا
    جب کابل پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا تو افغانستان سے فرار ہونے والا پہلا شخص افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا ہوگئی اور اس دوران مقامی افراد کے مطابق جب یہ افواہ پھیلا ئی گئی کہ امریکہ اور کینیڈا سے جہاز کابل پر اترے ہیں اور جو افغان پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو بغیر ویزے کے لے جائیں گے تو کابل میں موجود افغان عوام نے ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے وہ فوجی جو افغانستان میں افغان عوام کے دفاع کے لیے ائے تھے اور جب وہ ان کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جانے لگے تو اپنے فوجی جہاز کو اڑانے پر افغانوں پر فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔

    طالبان کا قبضہ اور مسقبل کے حالات
    افغان طالبان نے اپنی بیس سالہ جدو جہد کا ثمر افغانستان پر قبضہ کرکے حاصل تو کر لیا ہے لیکن اب ان کی بڑی ازمائش افغان قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کا بڑا مسئلہ بدامنی، خراب معیشت، کرپشن اور سیاسی کشیدگی ہے اور اگر طالبان نے ان مسائل پر دیگر افغان قیادت کے ساتھ مل کر ان کو حل کرلیا تو افغانستان استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور خواتین کے حوالے سے تحفظات ختم ہوں گے لیکن اگر طالبان نے اقتدار کو اپنے تک محدود رکھا تو سیاسی و عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور وہ نقل مکانی جو اب کابل تک محدود ہے ہمسایہ ملکوں تک پھیل سکتی ہے۔

  • روسی سفارت کاروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا: طالبان

    روسی سفارت کاروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا: طالبان

    کابل: طالبان نے روسی سفارت کاروں کو مکمل تحفظ کا بھرپور یقین دلایا ہے کہ کابل میں‌ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ روسی سفارت کار کابل میں محفوظ رہیں گے، افغانستان میں روسی سفیر دیمتری زیرنوف نے میڈیا کو بتایا کہ طالبان نے پیر کو کابل میں روسی سفارت خانے کو تحفظ میں لے لیا اور تصدیق کی کہ روسی سفارت کار محفوظ طریقے سے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

    روسی سفیر کے مطابق طالبان اب افغان سیکیورٹی فورسز کے طور پر ہمارے سفارت خانے کی حفاظت کر رہے ہیں، طالبان نے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کوئی بھی روسی سفارت کاروں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، طالبان نے کہا کہ آپ بلا روک ٹوک کام کر سکتے ہیں۔

    کابل پر قبضہ، افغان طالبان کا روس کو اہم پیغام

    روسی سفیر کا کہنا تھا کہ افغان دارالحکومت میں پُر امن زندگی جاری ہے، اور سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ لڑکیوں کے اسکول شہر میں کھلے ہیں۔

    واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کے شریک بانی اور ملا محمد عمر کے نائب عبدالغنی برادر اخوند‎‎ افغانستان کے لیے قطر سے آج روانہ ہوئے، ملا عبدالغنی برادر کو افغانستان میں اہم ذمہ داری سونپے جانے کا امکان ہے۔

    افغانستان میں نئی حکومت بنانے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، بتایا جا رہا ہے کہ اہم مشاورت کے لیے ملا برادر قطر سے افغانستان پہنچ رہے ہیں۔

  • افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    افغانستان: احمد شاہ بابا کی سلطنت میں طالبان کا عروج

    جرمنی کے انقلابی مفکّر اور متعدد تاریخی کتب کے مصنّف فریڈرک اینگلز 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات کو رقم کرتے ہوئے لکھا تھا:

    افغانستان فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطہ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔

    درّانی سلطنت
    افغانستان کی تاریخ بھی ہزاروں سال پرانی ہے، اور یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا ہے جسے درّانی سلطنت کے قیام کے بعد افغانستان کہا جانے لگا۔

    احمد شاہ ابدالی اور ماضی کا افغانستان
    یہ احمد شاہ ابدالی ہی تھے جن کی سلطنت کو آج ہم افغانستان کے نام سے جانتے ہیں۔

    تاریخ کی مختلف کتب میں لکھا ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قابض ہونا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس سلطنت کا جغرافیہ بھی ایران کے نادر شاہ اور اس سے قبل مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک افغانستان کئی حصّوں میں منقسم رہا۔ تاہم ایک ملک کے طور پر افغانستان اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ابھرا جنھیں سب سے عظیم افغان سمجھا جاتا ہے اور وہ بابائے افغان مشہور ہیں۔ انھیں عام طور پر احمد شاہ بابا بھی پکارا جاتا ہے۔

    احمد شاہ ابدالی ہی وہ حکم راں ہیں جنھوں نے افغانستان کو ریاست کے طور پر چلایا۔ ان کا دورِ حکومت 25 برس پر محیط ہے جس میں انھوں نے ملک اور قوم کی ترقّی کے لیے کام کیا اور ایک ذمہ دار اور سنجیدہ حکم راں کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔

    نادر شاہ کا زمانہ، قتل اور نئے حکم راں کا انتخاب
    احمد شاہ ابدالی نے جن علاقوں پر مشتمل درّانی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی وہ ایران کے نادر شاہ کے زیرِ نگیں تھے۔ یہ وہی نادر شاہ ہے جو تاریخ میں دلّی کو تاراج کرنے اور ہندوستان میں لوٹ مار اور قتلِ عام کے لیے مشہور تھا۔

    نادر شاہ کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے افغانستان کی بنیاد رکھی۔ وہ نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے جنھیں 1747ء میں 25 برس کی عمر میں اتفاقِ رائے سے افغانستان کا بادشاہ منتخب کیا گیا۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ کا قبیلہ درّانی کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی سلطنت کو درّانی سلطنت کہا جانے لگا۔ احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے وہاں حکومت کی اور بعد میں اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ ان کا مقبرہ قندھار میں ہے۔

    تاریخ احمد شاہ کو ایک ایسے حکم راں کے طور پر جانتی ہے جنھوں نے افغان قبائل کو یکجا کرکے ایک ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے جنگیں بھی لڑیں اور اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ ان کا بڑا کارنامہ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر ان کا زور توڑنا ہے جو ہندوستان میں مغلیہ حکومت اور دیگر ریاستوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔

    آج کا افغانستان اور موجودہ حالات
    انیسویں صدی کے اوائل میں سیاست دانوں نے اسی درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا تھا۔

    افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

    مسلمان اکثریت والا یہ ملک اس وقت دنیا کی توجّہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکا اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کی تیزی سے پیش قدمی اور سرکاری فوج کی پسپائی کے بعد گزشتہ دنوں کابل میں طالبان کا داخل ہوکر کنٹرول سنبھال لینا، اس وقت بین الاقوامی میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔

  • امریکی فوجی جاتے جاتے اپنے کتے بھی لے گئے لیکن …

    امریکی فوجی جاتے جاتے اپنے کتے بھی لے گئے لیکن …

    کابل: امریکی فوجی افغانستان کے دارالحکومت کابل سے انخلا کے دوران جاتے جاتے اپنے کتے بھی لے گئے ہیں تاہم مدد کرنے والے افغان شہریوں‌ کو بھول گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر سامنے آ گئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی فوجی اپنے پالتو کتوں کے ساتھ کابل ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار ہو کر واپس جا رہے ہیں۔

    یہ منظر بہت سے افغان شہریوں کے لیے نہایت دکھ کا باعث بنا ہے، کیوں کہ انھوں نے اتحادی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ان کی بہت مدد کی، لیکن جاتے جاتے وہ اپنے کتے تو لے گئے اور مدد کرنے والوں کو بھول گئے۔

    ایئر پورٹ پر کتوں کو دیکھ کر افغان شہری دہائی دیتا رہا کہ امریکا اپنے کتوں کو لے کر جا رہا ہے لیکن ہمیں نہیں، ہم نے امریکی فوج کی مدد کی لیکن ہمیں لاوارث چھوڑ دیا گیا۔

    واضح رہے کہ اس وقت کابل ایئر پورٹ امریکی فوج کے کنٹرول میں ہے، امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے آج سینئر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی، جس میں انھوں نے مطالبہ کیا کہ کابل سے امریکیوں کے انخلا میں مداخلت نہ کی جائے۔

    آج ہی کابل ایئر پورٹ پر اپنی نوعیت کا ایک نہایت ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا، امریکی فوجی طیارہ جب ایئر پورٹ سے ٹیک آف کرنے لگا تو مقامی افغان شہری طیارے پر چڑھنے کی کوشش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    طیارے سے لٹک کر افغانستان چھوڑنے کی کوشش، شہری زمین پر آگرے (کمزور دل افراد ویڈیو نہ دیکھیں)

    ایک طرف امریکی فوجیوں کی فائرنگ سے پانچ شہری جاں بحق ہوئے، دوسری طرف افغان شہریوں نے جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے رن وے پر دوڑتے طیارے پر چڑھنے کی کوشش کی اور اس کے پروں اور ٹائرز سے لٹک گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فضا میں اڑان بھرتے ہی تین افغان شہری بلندی سے نیچے رن وے پر گر کر جاں بحق ہو گئے۔

  • اقوام متحدہ کا افغانستان کی صورتحال پر اظہار تشویش

    اقوام متحدہ کا افغانستان کی صورتحال پر اظہار تشویش

    نیویارک: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے افغانستان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ افغانستان میں پرامن تصفیے کے لیے پرعزم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے افغانستان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ طالبان سمیت تمام فریقین انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں۔

    انہوں نے کہا کہ جانوں کا تحفظ اور ضروریات پوری کرنے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے، اقوام متحدہ افغانستان میں پرامن تصفیے کے لیے پرعزم ہے۔

    سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ تمام افغانوں کے انسانی حقوق کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز افغان طالبان افغان دارالحکومت کابل اور بعد ازاں صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں، صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوچکے ہیں جبکہ افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان ہوچکا ہے۔

  • عاشورہ کے بعد افغانستان کے ہمسائیوں سے رابطہ کروں گا: وزیر خارجہ

    عاشورہ کے بعد افغانستان کے ہمسائیوں سے رابطہ کروں گا: وزیر خارجہ

    ملتان: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کبھی کی، نہ ہی کرنے کا ارادہ ہے، ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے کہتا آیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا عسکری حل نہیں، پاکستان کے مؤقف کو دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ دنیا اور پاکستان اس وقت ایک صفحے پر ہیں، افغانستان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ افغان قیادت کی آزمائش کے لمحات ہیں، افغان عوام امن اور استحکام چاہتے ہیں، پاکستان افغان امن عمل کا حصہ رہا ہے، پاکستان نے ہمیشہ ایک مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی اجازت سے عاشورہ کے بعد افغانستان کے ہمسائیوں سے رابطہ کروں گا، اطلاع ملی ہے کہ برطانیہ کے وزیر خارجہ مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں، انشا اللہ آج شام برطانیہ کے وزیر خارجہ سے بات چیت بھی ہوگی، افغانستان کے اہم رہنماؤں کا وفد عنقریب پاکستان تشریف لا رہا ہے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی، نہ ہی کرنے کا ارادہ ہے، ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے کرنا ہے۔ افغانستان سے کوئی پاکستانی یا کوئی اور باہر جانا چاہے تو پاکستان سہولت دے سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کا کام مائیکرو مینجمنٹ نہیں ہے، پاکستان کا کام عالمی سوچ میں رہتے ہوئے امن پر توجہ دینا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لیے سہولت کار کردار ادا کیا آئندہ بھی کریں گے۔ ہم نے مہاجرین کو عزت دی اور پاکستان میں جگہ دی۔

    وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کوئی اضافی افغان مہاجرین پاکستان نہیں آئے، افغانستان کے ساتھ بارڈر کی فینسنگ کی ہے، ریگولیٹ سسٹم لگائے ہیں۔ پاکستان نے اپنی سرحد کے اندر خاطرخواہ ڈپلائمنٹ بھی کی ہے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ صورتحال واضح ہونے پر پاکستان زمینی حقائق دیکھ کر مفاد میں فیصلہ کرے گا۔

  • کابل میں سفارتخانے کی بندش کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا: دفتر خارجہ

    کابل میں سفارتخانے کی بندش کے حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا: دفتر خارجہ

    اسلام آباد: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان طالبان کے داخلے کے پیش نظر دفتر خارجہ پاکستان کا کہنا ہے کہ ابھی کابل میں سفارتخانہ بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، پاکستان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ کابل میں پاکستان کا سفارتخانہ فعال ہے، افغانستان کی صورتحال کو مسلسل مانیٹر کر رہے ہیں۔

    دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ کابل میں سفارتی عملے کی سیکیورٹی کے لیے تمام اقدامات کیے ہیں، ابھی کابل میں سفارتخانہ بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تمام پاکستانیوں کو ممکنہ مدد فراہم کی جارہی ہے، افغانستان میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، پاکستان کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔

    دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے چاہتا ہے کہ سیکیورٹی صورتحال خراب نہ ہو، پاکستان کی کوشش ہے کہ سفارتخانہ بند نہ کرے۔

    خیال رہے کہ افغان طالبان کچھ دیر قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔ افغان وزارت داخلہ نے افغان طالبان کے کابل میں داخلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان دارالحکومت میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔

    افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ کابل کے راستے پرامن طریقے سے داخل ہونے کا ارادہ ہے، کابل میں طاقت کے زور پر داخل نہیں ہوں گے۔

    ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کابل میں داخلے سے قبل افغان حکومت سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ محفوظ طریقے سے حکومت کی منتقلی ہو۔

  • طالبان کابل میں داخل: طور خم گیٹ بند، سیکیورٹی ہائی الرٹ

    طالبان کابل میں داخل: طور خم گیٹ بند، سیکیورٹی ہائی الرٹ

    پشاور: افغانستان کی سرحد پر طور خم گیٹ ہر قسم کی آمد و رفت اور مال بردار گاڑیوں کے لیے بند کردیا گیا، افغان طالبان کچھ دیر قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طالبان کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل میں داخلے کے بعد افغانستان کی سرحد پر طور خم گیٹ ہر قسم کی آمد و رفت اور مال بردار گاڑیوں کے لیے بند کردیا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ طور خم بارڈر پر سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی، افغان حدود میں طور خم بارڈر گیٹ پر طالبان موجود ہیں۔

    خیال رہے کہ افغان طالبان کچھ دیر قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔ افغان وزارت داخلہ نے افغان طالبان کے کابل میں داخلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان دارالحکومت میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔

    افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ کابل کے راستے پرامن طریقے سے داخل ہونے کا ارادہ ہے، کابل میں طاقت کے زور پر داخل نہیں ہوں گے۔

    ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کابل میں داخلے سے قبل افغان حکومت سے مذاکرات جاری ہیں تاکہ محفوظ طریقے سے حکومت کی منتقلی ہو۔