Tag: کابل

  • افغان صدر کے سابق ترجمان کابل میں قتل

    افغان صدر کے سابق ترجمان کابل میں قتل

    کابل: افغان صدر اشرف غنی کے سابق ترجمان کو کابل میں قتل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کے ایک سابق ترجمان دواخان مینہ پال کو طالبان نے قتل کر دیا ہے۔

    طالبان نے دواخان مینہ پال کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی، اس سلسلے میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بتایا کہ کابل شہر میں دارالامان کی سڑک پر دواخان مینہ پال مجاہدین کے ایک خاص حملے میں ہلاک ہو گیا۔

    افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ دواخان مینہ پال افغان حکومت میڈیا اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔

    طالبان کیا چاہتے ہیں، حکومت میں بڑا حصہ یا کچھ اور؟ ترجمان کا اہم بیان

    واضح رہے کہ دو دن قبل روز افغان طالبان نے واضح کیا تھا کہ وہ افغانستان میں کیا چاہتے ہیں، حکومت میں ’بڑا حصہ‘ یا کچھ اور۔ اس سلسلے میں انھوں نے مستقبل کی حکومت میں ’بڑا حصہ‘ مانگنے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زلمے خلیل زاد کا ذاتی خیال ہے۔

    طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو لوگوں کے اسلامی جذبات کے مطابق ہو، ہم طاقت کی اجارہ داری یا اقتدار میں اہم نوع کی شراکت داری نہیں چاہتے۔

  • کابل: راکٹ دھماکوں کے باوجود نماز عید جاری رہی، صدر اشرف غنی بھی موجود (ویڈیو بچے نہ دیکھیں)

    کابل: راکٹ دھماکوں کے باوجود نماز عید جاری رہی، صدر اشرف غنی بھی موجود (ویڈیو بچے نہ دیکھیں)

    کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع صدارتی محل کے قریب نماز عید الاضحیٰ کے دوران راکٹ فائر کیے گئے، تاہم دھماکوں کی زبردست آوازوں کے باوجود عید کی نماز جاری رہی۔

    تفصیلات کے مطابق کابل میں نمازِ عید کے دوران صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کیے گئے، منگل کی صبح ہونے والے ان راکٹ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔

    افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی نے کہا کہ راکٹ محل کے باہر گرین زون میں تین مختلف مقامات پر گرے، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    افغان ٹی وی چینلز کی فوٹیج کے مطابق یہ راکٹ حملہ اس وقت ہوا جب صدر اشرف غنی دیگر اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ محل کے ایک سبزہ زار میں نماز عیدالاضحیٰ ادا کر رہے تھے۔

    راکٹ گرنے کے بعد دھماکوں کی آواز سنائی دی لیکن نماز جاری رہی، اس کے بعد صدر اشرف غنی نے خطاب بھی کیا جو مقامی میڈیا پر نشر کیا گیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ افغانستان کے صدارتی محل کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، صدارتی محل پر آخری راکٹ حملہ گزشتہ برس دسمبر میں ہوا تھا۔ گزشتہ برسوں کی برعکس اس سال عیدالاضحیٰ پر طالبان کی جانب سے سیز فائز کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔

    افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مختلف صوبوں میں طالبان اور حکومتی فورسز میں جھڑپوں کی وجہ سے غیر یقینی کی فضا قائم ہے۔

  • افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    افغانستان میں قائم وہ فوجی اڈہ جہاں آج سناٹے کا راج ہے

    کابل: افغانستان میں ایک ایسا فوجی اڈہ موجود ہے جہاں کبھی 600 جہاز روزانہ اترتے اور روانہ ہوتے تھے، لیکن آج یہاں دھول اڑتی ہے اور سناٹے کا راج قائم ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا نے ابھی چند روز پہلے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خالی کیا ہے، یوں ملک سے امریکی فوج کے انخلا کی جانب ایک اہم قدم اٹھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ 11 ستمبر کی ڈیڈ لائن سے کہیں پہلے امریکی اور اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔

    بگرام سے تقریباً 600 کلومیٹرز دور ایک ایسا فوجی اڈہ بھی تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی بیرونِ ملک سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بنا اور 34 ہزار فوجیوں کے لیے بنائے گئے اس اڈے اس پر ایک ارب ڈالرز سے بھی زیادہ لاگت آئی تھی لیکن خالی ہونے کے 7 سال بعد آج یہاں کے بیشتر حصے پر ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔

    یہ افغان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ کے قریب صحرا میں واقع کیمپ باسشن تھا جو 2005 سے 2014 تک افغانستان میں برطانوی فوج کا مرکز رہا۔ دور دراز ویران علاقے میں بنائے گئے اس فوجی اڈے میں تمام جدید ترین سہولیات دستیاب تھیں۔ یہ ایک پورا شہر تھا، جس کے تین نمایاں حصے تھے۔ ایک برطانوی فوجیوں کا کیمپ باسشن، دوسرا امریکا کا کیمپ لیدر نیک، جہاں برطانیہ سے بھی دو گنا زیادہ سپاہی تھے۔ جبکہ ایک افغان فوجیوں کا کیمپ خوارو تھا۔

    اس فوجی اڈے کا محض ایئرپورٹ ہی لندن کے مرکزی ایئرپورٹ گیٹ وِک کے حجم کا تھا۔ اس کے رن وے پر سی 17 گلوب ماسٹر جیسے طیارے بھی لینڈ کر سکتے تھے۔

    سنہ 2011 میں جب افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں تو اس اڈے پر روزانہ 600 ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز اترتے یا یہاں سے پرواز کرتے تھے۔ اس اڈے کے گرد موجود باڑھ ہی 24 کلومیٹرز کی تھی، جس کی حفاظت کا کام 36 واچ ٹاورز سے کیا جاتا تھا۔

    اڈے پر موجود برطانوی فوجیوں کے لیے خدمات انجام دینے والے 4 ہزار سے زیادہ کانٹریکٹرز بھی تھے۔ یہاں 3 ہزار سے زیادہ فوجی گاڑیاں اور ہیوی مشینری، 50 ہوائی جہاز، 1200 سے زیادہ خیمے، ایک جدید ہسپتال، ایک واٹر بوٹلنگ پلانٹ اور فاسٹ فوڈ ریستوران بھی تھا۔ اس اڈے کے لیے کھانے پینے کی تمام اشیا بیرون ملک سے آتی تھیں کیونکہ خطرہ تھا کہ مقامی ذرائع سے حاصل کردہ خوراک میں زہر نہ ملا دیا جائے۔

    اس کھانے کی فوجیوں کو فراہمی کے لیے تین بہت بڑی کینٹین بھی موجود تھے جہاں سے ایک دن 34 ہزار کھانے فراہم کیے جاتے تھے۔

    برطانیہ نے سنہ 2014 میں اس اڈے کی بندش کا فیصلہ کیا اور یہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اس کے مطابق تمام تر اہم نوعیت کا ساز و سامان واپس برطانیہ بھیجا جانا تھا۔ یوں اس پورے شہر کو اس طرح ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ اس کا تمام تر سامان کہیں اور استعمال کیا جا سکے۔ مثلاً بوٹلنگ پلانٹ ہی کو لے لیں، جسے بند کر کے پرزوں میں تقسیم کر کے واپس برطانیہ بھیجا گیا۔ اس پلانٹ کو بنانے، چلانے اور کھول کر برطانیہ لے جانے پر 19.5 ملین پونڈز لاگت آئی۔

    لیکن سارا سامان ایسا نہیں تھا کہ جسے لے جایا جا سکتا ہو یا جسے لے جانے کا کوئی فائدہ ہو لہٰذا باقی ہر چیز کو ضائع کرنے یا اسے تلف کر کے کباڑ میں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر بھی جو چیزیں ایسی تھیں جو نہ لے جائی جا سکتی تھیں اور نہ کباڑ میں بیچی جا سکتی تھیں، انہیں دھماکا خیز مواد سے تباہ کر دیا گیا۔ صرف ایسے سامان کی مقدار ہی 60 ٹن تھی اور مالیت 4 لاکھ برطانوی پاؤنڈز سے زیادہ تھی۔

    برطانیہ نے 26 اکتوبر 2014 کو یہ کیمپ خالی کر کے اسے افغان فوج کے حوالے کر دیا لیکن اس سے پہلے یہاں سے ہر ممکنہ سہولت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کیمپ کا جدید ترین اسپتال تک ختم کر دیا گیا۔

    کیمپ باسشن بنانے پر برطانیہ کے 50 ملین پونڈز خرچ ہوئے، لیکن اسے ختم کرنے اور یہاں کے سامان کو منتقل کرنے پر 300 ملین پونڈز کی لاگت آئی۔

    کیمپ باسشن کو ختم ہونے تقریباً سات سال ہونے والے ہیں اور اب اس کی محض دو یادگاریں ہی بچی ہیں، ایک رِنگ روڈ اور دوسرے واچ ٹاورز۔ اس رن وے پر جہاں روزانہ 600 جہاز اترتے اور پرواز کرتے تھے، اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔

    دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کی سب سے بڑی جنگی مہم پر برطانیہ کی کل لاگت 37 ارب ڈالرز رہی اور اس دوران 453 برطانویوں کی جانیں گئیں۔

  • افغان طالبان کا عید پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان، کابل اسکول دھماکے میں ہلاکتیں 58 ہوگئیں

    افغان طالبان کا عید پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان، کابل اسکول دھماکے میں ہلاکتیں 58 ہوگئیں

    کابل: افغان طالبان نے عید پر 3 روز ہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا، مسلح افراد کو حکم جاری کر دیا گیا، دوسری طرف کابل اسکول حملے میں جاں بحق طلبہ کی تعداد 58 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان طالبان محمد نعیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عید کے دنوں میں حکومتی فورسز پر حملے نہیں کیے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ تہوار کو پُر امن اور محفوظ ماحول میں منانے کے لیے تمام مسلح افراد کو حملے روکنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

    سربراہ افغان مفاہمتی کونسل عبداللہ عبداللہ نے سیز فائر کا خیر مقدم کیا، انھوں نے کہا حکومت بھی جنگ بندی کا جلد باقاعدہ اعلان کرے گی۔

    واضح رہے کہ افغان دارالحکومت کابل میں اسکول دھماکے میں ہلاک افراد کی تعداد 58 ہوگئی ہے، اقوامِ متحدہ، یونیسیف اور پاکستان نے واقعے کی شدید مذمت کی، افغان حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت طالبات کی ہے جن کی عمریں 11 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔

    دھماکے میں 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، یہ حملہ ہفتے کو کابل کے سید الشہدا نامی اسکول کے قریب کیا گیا تھا، طلبہ اسکول سے نکل رہے تھے کہ 3 زور دار دھماکے ہوئے، جس کے بعد طلبہ کی خون آلود کتابیں اور بستے جا بہ جا بکھرے دکھائی دیے۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسکول میں صبح کے وقت لڑکے اور دوپہر میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

  • کابل  میں 23 راکٹ حملے، 8 افراد جاں بحق، پاکستان کی شدید مذمت

    کابل میں 23 راکٹ حملے، 8 افراد جاں بحق، پاکستان کی شدید مذمت

    کابل/اسلام آباد: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 23 راکٹ حملوں میں 8 افراد جاں بحق، جب کہ 31 زخمی ہو گئے۔

    افغان میڈیا کے مطابق آج کابل میں مختلف مقامات پر ہوئے دھماکوں اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں آٹھ افراد جاں بحق اور 31 زخمی ہو گئے۔

    افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے میڈیا کو بتایا کہ دہشت گردوں نے راکٹ ایک چھوٹے ٹرک پر لادے تھے، اس بات کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ گاڑی سیکورٹی کے نوٹس میں آئے بغیر شہر کے اندر کیسے آگئی۔انھوں نے کہا کہ حملہ آج صبح کیا گیا جس میں رہائشی علاقوں میں مارٹر فائر کیے گئے، جس کے نتیجے میں متعدد عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئی ہیں۔

    افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ ایک راکٹ ایران کی ایمبیسی کے کمپاؤنڈ میں بھی گرا، سفارت خانہ ایران میں گرنے والے راکٹ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    طالبان نے کہا ہے کہ حملہ ان کی جانب سے نہیں کیا گیا، حملے میں 3 پولیس اہل کار بھی جاں بحق ہوئے، جب کہ 11 زخمی ہوئے۔

    واضح رہے کہ یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو دوحہ میں طالبان مذاکرات کاروں سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش میں ملاقات کرنے والے ہیں۔

    پاکستان نے کابل میں راکٹ حملوں کی شدید مذمت کی ہے، دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حملوں میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے، ہم متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں، اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری کی افغان امن عمل کے لیے کوششیں آگے بڑھ رہی ہیں، ایسے وقت میں امن خراب کرنے والوں سے چوکنا رہنا ہوگا، پاکستان دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

    ترجمان نے کہا ہم افغانستان کے عوام کی مکمل حمایت اور ان کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔

  • وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی افغان ہم منصب سے ملاقات

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی افغان ہم منصب سے ملاقات

    کابل: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی کابل میں افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کابل میں افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر سے ملاقات کی، ملاقات میں مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بھی موجود تھے۔

    ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے افغانستان آمد پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو خوش آمدید کہا، وزیر خارجہ نے پرتپاک خیر مقدم پر افغان ہم منصب کا شکریہ ادا کیا۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں دیرینہ، تہذیبی اور تاریخی تعلقات ہیں، وزیر اعظم کا شروع سے مؤقف ہے افغان مسئلہ طاقت سے حل نہیں ہوسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں دیرپا اور مستقل قیام امن کا حامی رہا ہے، پاکستان قابل قبول مذاکرات کا حامی رہا ہے۔ خطے کا امن و استحکام افغانستان میں امن سے مشروط ہے، خوشی ہے آج دنیا پاکستان کے مؤقف کی تائید کر رہی ہے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا آج افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہتی ہے، بین الافغان مذاکرات کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ناگزیر ہے۔ افغان مصالحتی کونسل کے وفد کا دورہ تعاون کے فروغ کی علامت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغان مہاجرین کی باوقار وطن واپسی کا متمنی ہے، افغان شہریوں کی سہولت کے لیے پاکستان نے نئی ویزا پالیسی کا اجرا کیا۔

    افغان وزیر خارجہ محمد حنیف آتمر نے افغان امن عمل میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا، انہوں نے دو طرفہ تعلقات کے لیے اقدامات پر وزیر خارجہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔

  • وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات

    وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات

    کابل: وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی، ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق افغان صدارتی محل میں وزیر اعظم عمران خان کی آمد پر استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی، صدارتی محل پہنچنے پر افغان صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم عمران خان کا استقبال کیا۔

    افغان صدارتی محل میں وزیر اعظم عمران خان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، استقبالیہ تقریب کے دوران دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔

    بعد ازاں افغان صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم عمران خان میں ون آن ون ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی۔

    ملاقات میں پاک افغان تجارت و دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات چیت ہوئی۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان افغان صدر کی دعوت پر اپنے پہلے دورہ افغانستان پر کچھ دیر قبل دارالحکومت کابل پہنچے ہیں۔

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید اور نمائندہ خصوصی برائے افغانستان محمد صادق بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ہیں۔

    وزیر اعظم کے دورے کے موقع پر کابل میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ رواں سال ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا جس میں پاک افغان تعلقات کو مضبوط بنانے اور افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

    وزیر اعظم نےافغان امن عمل میں پاکستان کی مستقل حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا تھا کہ مثبت کوششوں سے امریکا طالبان امن معاہدہ اور انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہوا۔

    وزیر اعظم نے دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات شروع کرنے کے اقدامات کی تعریف کی تھی اور جنگ بندی اور تشدد میں کمی کے لیے تمام افغان جماعتوں کے کردار کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کو تاریخی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

  • ویزا پالیسی تبدیل: افغانیوں کو پاکستانی سرحد پر ویزا ملے گا

    ویزا پالیسی تبدیل: افغانیوں کو پاکستانی سرحد پر ویزا ملے گا

    اسلام آباد: حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کے لیے ویزا پالیسی تبدیل کردی، افغانیوں کو اب پاکستانی سرحد پر ویزا ملے گا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کے حوالے سے اہم فیصلہ کرتے ہوئے ویزا پالیسی تبدیل کردی، افغانیوں کو کابل میں پاکستانی سفارتحانے کے چکر لگانے سے نجات مل گئی، اب انہیں سرحد پر ویزا ملے گا۔

    نئی ویزا پالیسی کے تحت قیام اور ویزا کی مدت اور اندرج کی تعداد کو بھی بدل دیا گیا۔ سفارت اور کونسل خانہ ایک سال کے لیے وزٹ ویزا ملٹی پل انٹریز کے ساتھ جاری کرے گا۔

    افغان شہریوں کو 5 سال کے لیے بزنس ویزا بھی مل سکے گا جو پاکستان میں قابل توسیع ہوگا، افغان طلبا ایک سال کے بجائے اپنی تعلیم کے پورے عرصہ کے لیے ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں طور خم بارڈر پر مریضوں کو 6 ماہ تک کا ویزا دیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان سے تجارت کرنے والوں کے لیے بارڈر مارکیٹیں کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان امن عمل کامیاب ہوا تو خطے میں خوشحالی اور ترقی آئے گی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے مواقع ہیں، افغان راہداری تجارت کی سہولت کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

  • کابل میں نائب افغان صدر کے قافلے پر بم حملہ،10 افراد ہلاک

    کابل میں نائب افغان صدر کے قافلے پر بم حملہ،10 افراد ہلاک

    کابل: نائب افغان صدر کے قافلے پر بم حملہ ہوا جس کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہوگئے تاہم امراللہ صالح کو صرف معمولی چوٹیں آئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج صبح افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سڑک کنارے بم دھماکے کے نتیجے میں 10 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 9 افراد زخمی ہوگئے، حملے میں افغانستان کے پہلے نائب صدر امراللہ صالح بال بال بچ گئے۔

    بم حملے کے دو گھنٹے بعد ویڈیو پیغام میں نائب افغان صدر نے کہا کہ اس واقعے میں ان کے متعدد محافظ زخمی ہوگئے ہیں اور انہیں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی اسپتال لایا گیا ہے۔

    امراللہ صالح کا کہنا تھا کہ مجھے اور میرے بیٹے عباد اللہ جان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن میرا چہرہ اور بازو زخمی ہوئے ہیں۔

    افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس حملے میں نائب افغان صدر امراللہ صالح کے محافظوں سمیت 10 شہری ہلاک اور 9 زخمی ہوگئے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق فوری طور پر دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے۔

    افغان صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

  • افغان حکومت نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا

    افغان حکومت نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا

    کابل: افغان حکومت نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا۔

    تفصیلات کےمطابق افغانستان کی حکومت نے ملک میں مستقل قیام امن کے لیے اپنی قید میں موجود آخری 400 طالبان جنگ جوؤں کی رہائی کا عمل شروع کر دیا ہے۔

    افغان نیشنل سیکورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ 80 طالبان قیدیوں کو آج رہا کر دیا گیا ہے، طالبان قیدیوں کو کابل کی پل چرخی جیل سے رہا کیا گیا، قیدیوں کی رہائی سے مکمل جنگ بندی میں تیزی آئے گی۔

    افغان حکومت کے اس عمل کے بعد طویل عرصے سے تعطل کے شکار بین الافغان امن مذاکرات کی راہ میں موجود بڑی رکاوٹ دور ہونے کا امکان ہے۔

    حکام کے مطابق طالبان قیدیوں پر افغان اور غیر ملکی شہریوں پر حملوں کے الزامات ہیں، یہ رہائی ملک میں 19 سال سے جاری تنازع کو ختم کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات کی ابتدا کے لیے بنیادی شرائط میں سے تھی۔

    افغانستان میں لویہ جرگہ نے 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ سنا دیا

    افغانستان کے نیشنل سیکورٹی کونسل نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ بلاواسطہ مذاکرات اور ایک پائیدار اور ملک گیر جنگ بندی کی کوششوں میں تیزی لانے کے لیے طالبان کو رہا کیا گیا ہے، رہا ہونے والے طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ اب زندگی امن کے ساتھ گزاریں گے اور جنگ نہیں کریں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے افغان لویہ جرگہ نے طالبان کے چار سو قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی تھی، لویہ جرگہ کا کہنا تھا کہ افغان امن مذاکرات کے لیے طالبان کے 400 قیدیوں کو رہا کیا جائے، طالبان بھی افغان قیدیوں کو رہا کریں، طالبان قیدیوں کو قومی اور بین الاقوامی ضمانت پر رہائی دی جائے۔

    اس لویہ جرگہ کا آغاز 7 اگست کو کابل میں 400 طالبان قیدیوں کو رہا کیے جانے کے لیے ہوا تھا، جس میں تقریباً 3200 معززین شریک ہوئے۔