Tag: کاربن اخراج

  • کاربن کا 75 فی صد اخراج کرنے والے 10 ممالک ہی 85 فی صد گرین فنانس لے جا رہے ہیں، مصدق ملک

    کاربن کا 75 فی صد اخراج کرنے والے 10 ممالک ہی 85 فی صد گرین فنانس لے جا رہے ہیں، مصدق ملک

    اسلام آباد: وفاقی وزیر مصدق ملک نے عالمی سطح پر آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے شدید متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک جو سب سے زیادہ کاربن اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں، وہی ممالک گرین فنانس کا زیادہ تر حصہ لے جا رہے ہیں، جو نا انصافی ہے۔

    قدرتی آفات کے خطرے میں کمی لانے کے موضوع پر منعقدہ پاکستان کے دوسرے ایکسپو کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیات اور ماحولیات مصدق ملک نے کہا پاکستان میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، گلاف (برفانی جھیل میں آنے والے سیلاب) کے واقعات کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے،قدرتی آفات آتی ہیں لیکن ہم تیار نہیں ہوتے۔

    انھوں نے اپیل کی ہے کہ آفات سے لوگوں کی اموات کے بارے میں سوچیں، سندھ کا بڑا حصہ سیلاب میں بہہ گیا، ہمیں ان سب مسائل کو ختم کرنا ہوگا۔


    پاکستان اور امریکا کا دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کے عزم کا اظہار


    مصدق ملک نے کہا دنیا میں صرف 2 ممالک 45 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں، 1 ملک تمام ماحولیاتی معاہدوں سے نکل گیا ہے، اور یہ ملک دنیا میں اپنی اجارہ داری بنا کر بیٹھا ہے، یہ جتنی بھی آلودگی پھیلا لیں کوئی ان سے نہ پوچھے، جب کہ دنیا کے دیگر 10 ممالک 75 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں انصاف کا فقدان نظر آتا ہے، یہ وہی 10 ممالک ہیں جو 85 فی صد گرین فنانس لے جاتے ہیں، اس سب میں افریقی جنوبی ایشیائی ممالک کہاں ہیں؟ پاکستان گلوبل ولیج میں نظر نہیں آتا۔

    انھوں نے کہا چین دنیا کی 70 فی صد سولر ٹیکنالوجی بیچتا ہے، فن لینڈ نے جنگلات بچانے کے لیے اقدامات کیے، ایسے میں دنیا بھر کے لیے گرین پاکستان کے دروازے کھلے ہیں، ہمیں بھی پاکستان میں گرین جابز پیدا کرنا ہوں گی۔

     

  • سعودی عرب کی آئل کمپنی ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے کوشاں

    سعودی عرب کی آئل کمپنی ماحول دوست اقدامات کرنے کے لیے کوشاں

    ریاض: سعودی عرب کا کہنا ہے کہ مملکت کی تیل کمپنی آرامکو کاربن کے اخراج میں 55 ملین ٹن تک کی کمی کے لیے کوشاں ہے، سعودی عرب سرکلر کاربن اکانومی متعارف کروا رہا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی آرامکو کے سربراہ امین الناصر نے کہا ہے کہ کرونا وائرس وبا کے بعد آئل مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ اور طلب میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس سے رسد نیٹ ورک پر برا اثر پڑا ہے۔

    امین الناصر کا کہنا ہے کہ منافع کی شرح اور افراط زر میں اضافے جیسے اسباب نے کئی لوگوں کے یہاں آئل مارکیٹ کے حوالے سے منفی نقطہ نظر پیدا کیا ہے۔

    فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو سمٹ میں مباحثے کے دوران انہوں نے کہا کہ سعودی آرامکو نے سنہ 2025 تک کاربن کی مقدار میں 15 فیصد تک کمی پیدا کرنے والی تجدد پذیر توانائی اور پائیدار حکمت عملی متعارف کروائی ہے۔

    سعودی آرامکو سرمایہ کاری اور مؤثر حل پیش کر کے سنہ 2025 تک کاربن کے اخراج میں 55 ملین ٹن تک کی کمی کے لیے کوشاں ہے۔

    امین الناصر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سرکلر کاربن اکانومی متعارف کروا رہا ہے، کئی ٹیکنالوجیز ایسی ہیں جو کاربن کے اخراج میں کمی لا سکتی ہیں۔

    سعودی آرامکو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ الاستدامہ فنڈ ٹیکنالوجی میں سرمایہ لگا رہے ہیں، اس فنڈ کی قدر ڈیڑھ ارب ڈالر ہے۔ یہ اس شعبے میں دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی فنڈنگ ہے۔ اسے ماحولیاتی تبدیلی روکنے میں معاون نئی کمپنیوں کی اہم ٹیکنالوجی پر خرچ کیا جائے گا۔

    انہوں نے بلو ہائیڈروجن اور ہائیڈروجن مارکیٹ نیز حال و مستقبل میں اس کے استعمال کا تعارف بھی کروایا۔

  • کاربن اخراج کی وجہ سے سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    کاربن اخراج کی وجہ سے سبزیاں اور پھل جنک فوڈ بن سکتے ہیں

    متوازن غذا کے لیے سبزیوں اور پھلوں کا استعمال لازمی ہے اور جنک فوڈ ہماری صحت کو تباہ کرسکتا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزیاں اور پھل بھی آہستہ آہستہ جنک فوڈ میں تبدیل ہورہے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہماری فضا میں کاربن اخراج کی بڑھتی ہوئی مقدار ہماری غذاؤں کی تاثیر کو تبدیل کر رہی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند غذائیں جیسے پھل اور سبزیاں اپنی غذائیت کھو رہی ہیں اور ان کا صحت پر ممکنہ اثر جنک فوڈ جیسا ہوسکتا ہے۔

    چونکہ پودوں کو افزائش کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ جتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوگی اتنا ہی زیادہ پودوں کے لیے فائدہ مند ہوگا، تاہم نئی تحقیق میں دیکھا گیا کہ کاربن کی زیادہ مقدار پودوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ کاربن کی وجہ سے غذائی پودے اپنی غذائیت کھو رہے ہیں۔ ان پودوں میں موجود اہم معدنیات جیسے پوٹاشیئم، کیلشیئم، آئرن، زنک اور پروٹین کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہورہی ہے۔

    کاربو ہائیڈریٹ جنک فوڈ میں پایا جاتا ہے اور یہ موٹاپے اور امراض قلب کا سبب بنتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی انقلاب سے قبل فضا میں 10 لاکھ کے مقابلے میں 180 ذرات کاربن کے ہوتے تھے، لیکن اب کاربن ذرات کی تعداد 400 سے زائد ہوگئی ہے، جبکہ سنہ 2050 تک یہ تعداد 550 ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ ویسے ہی ضروری وٹامن اور معدنیات سے محروم رہتے ہیں، ایسے میں کاربن کے غذائی اشیا پر اثرت ان ممالک کے لیے مزید تباہ کن ثابت ہوں گے۔

    ایک اندازے کے مطابق ان اثرات سے 80 کروڑ افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے کچھے جنگلات کو بھی کاٹ کر وہاں پر زراعت کی جائے گی، یوں کاربن اخراج میں اضافہ ہوگا کیونکہ اسے جذب کرنے کے لیے درختوں میں کمی آتی جائے گی۔

    گویا ایک سائیکل کی طرح صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔

  • دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    نیویارک: دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدہ پیش کیا گیا جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    اس معاہدے پر 191 ممالک نے دستخط کیے جبکہ 60 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے اس معاہدے کی توثیق کردی ہے لیکن اقوام متحدہ کے مطابق ان ممالک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں صرف 47 فیصد حصہ ہے۔

    paris_accord1

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں فضا میں کاربن گیس کی مقدار بڑھا دیتا ہے جس سے نہ صرف ماحول، انسان اور جنگلی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ یہ گیس آسمان میں جا کر عالمی درجہ حرات میں اضافہ کا سبب بھی بن رہی ہے یعنی دنیا کے اکثر ممالک میں موسم گرم ہوگیا ہے۔

    ان زہریلی گیسوں جسے گرین ہاؤس گیس بھی کہا جاتا ہے کے اخراج میں سب سے آگے چین اور امریکا ہیں جو معاہدے کے دستخط کنندہ ہیں۔

    رواں برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 31 مزید ممالک نے اس معاہدے کی توثیق کی ہے جس کے بعد دنیا کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانے کی کوششوں کا اعادہ کرنے والے ممالک کی تعداد 60 ہوگئی ہے۔

    global-warming-2

    اقوام متحدہ کو امید ہے کہ رواں برس مراکش میں جب کلائمٹ چینج کی سالانہ عالمی کانفرنس منعقد ہوگی اس وقت تک تمام دستخط کنندہ ممالک اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہوں گے اور دنیا کو بچانے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوجائے گا۔

    ان کوششوں کے تحت کئی ممالک اپنی توانائی کی ضروریات قدرتی ذرائعوں (سورج، ہوا، پانی) سے پورا کرنے، ماحول دوست بجلی کے آلات متعارف کروانے، ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹک پر پابندی عائد کرنے، جنگلی حیات اور جنگلات کے تحفظ کرنے، قدرتی ذرائع جیسے گلیشیئر اور جھیلوں، دریاؤں کا تحفظ کرنے اور مختلف آفات سے متاثر ہونے کے خدشے کا شکار آبادیوں کی تربیت جیسے اقدامات کر رہے ہیں۔

    رواں برس مراکش میں کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ان امیر ممالک سے جو کاربن کے اخراج کا سبب بن رہے ہیں، اس بات کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غریب اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کا شکار ممالک کو معاشی طور پر بھی سہارا دیں تاکہ وہ اپنے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔

  • آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    آلودگی سے سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ممکن

    آپ یقیناً اپنے شہر کی آلودگی سے بہت پریشان ہوں گے۔ گاڑیوں کا دھواں، مٹی اور آلودگی انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس آلودگی سے کوئی ایسی چیز تخلیق کی جائے جو فائدہ مند ثابت ہو؟

    امریکی ماہرین اس پر کام کر رہے ہیں۔ وہ آلودگی سے سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

    جی ہاں، امریکی ماہرین ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس میں کاربن کو کنکریٹ کی شکل میں تبدیل کردیا جائے گا جسے تعمیری مقاصد میں استعمال کیا جاسکے گا۔

    co2-2

    واضح رہے کہ فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں میں سب سے زیادہ کاربن گیس شامل ہوتی ہے جو آلودگی کا سبب بنتی ہے اور ماحول اور انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ کاربن اخراج عالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس یعنی یو سی ایل اے میں تجرباتی طور پر تیار کی جانے والی اس کنکریٹ کو سی او ٹو کریٹ کا نام دیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشتوں کو 2 کھرب پاؤنڈز نقصان کا خدشہ

    اسے تیار کرنے کے لیے چمنیوں کے ذریعہ دھواں جمع کیا گیا اور بعد ازاں ان میں سے کاربن کو الگ کر کے اسے لیموں کے ساتھ ملا کر تھری ڈی پرنٹ کیا گیا۔ اس طرح ہمارے ماحول اور صحت کو نقصان پہنچانے والی گیس تعمیری اشیا میں تبدیل ہوگئیں۔

    اس تحقیقی تجربہ کے لیے یونیورسٹی کے انجینیئرز، کیمیا دان اور حیاتیاتی سائنسدانوں نے مل کر کام کیا۔ فی الحال اسے تجرباتی طور پر لیبارٹری میں تیار کیا جارہا ہے مگر بہت جلد اس کی پیداوار بڑھانے کے متعلق سوچا جارہا ہے۔

    co2-1

    اس سے قبل بھی فضا میں پھیلی کاربن کو فائدہ مند اشیا میں تبدیل کرنے کے مختلف تجربات کیے جاچکے ہیں۔ آئس لینڈ میں سائنسدانوں نے کاربن گیس کو پانی کے ساتھ مکس کر کے زیر زمین گہرائی میں پمپ کیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    کاربن کی تبدیل شدہ یہ شکل چونے کے پتھر کی شکل میں نمودار ہوئی اور ماہرین کے مطابق یہ مختلف تعمیری کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔

  • ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو: جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر کا انتخاب کرلیا۔ یوریکو کوئیکے ایک سابق ٹی وی اینکر ہیں جبکہ وہ وزیر برائے دفاع بھی رہ چکی ہیں۔

    یوریکو تحفظ ماحول کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر ہیں جبکہ بطور وزیر دفاع بھی وہ پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز رہیں۔

    tokyo-2

    یوریکو نے وزیر اعظم شنزو ایبے کے حمایت یافتہ امیدوار ہیرویا ماسودا کو شکست دے کر فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور 2.9 ووٹ حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج 2020 کے ٹوکیو اولمپکس کی تیاریاں ہوں گی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔ اولمپکس کی تیاریوں کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شنزو ایبے اور ان کی حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے۔

    اہم عہدوں کی دوڑ میں خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا *

    یوریکو 2003 سے 2005 کے دوران جاپان کی وزیر ماحولیات بھی رہ چکی ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سبز کپڑے اور بینڈز پہن کر تحفظ ماحول کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔

    اپنے دور حکومت میں انہوں نے کئی ماحول دوست اقدامات متعارف کروائے جس میں سب سے اہم ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی تکمیل کے لیے کاربن ٹیکس کا نفاذ تھا۔

    tokyo-3

    کیوٹو پروٹوکول 1997 میں اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت وہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں حصہ دار ہیں، ان غریب ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو ان کاربن گیسوں کی وجہ سے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    یوریکو کا متعارف کروایا جانے والا کاربن ٹیکس مختلف اقسام کے فیول کے استعمال پر لاگو کیا گیا تھا جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں کو ادا کرنا تھا۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون *

    سال 2005 میں یوریکو نے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت دفاتر میں کام کرنے والے مرد ملازمین سے کہا گیا کہ وہ گرمیوں میں کوٹ پہننے سے گریز کریں تاکہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوسکے۔

    یوریکو نے عوام پر ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹگ بیگز کی جگہ ’فروشکی‘ استعمال کرنے پر زور دیا۔ فروشکی روایتی جاپانی کپڑے کے تھیلے ہیں جو مختلف چیزیں لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    tokyo-4

    نو منتخب گورنر یوریکو نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ روانی کے ساتھ عربی زبان بول سکتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ ٹوکیو میں خواتین دوست پالیسیاں متعارف کروائیں گی۔

  • بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    بدترین فضائی آلودگی کا شکار 10 ممالک

    جنیوا: عالمی اقتصادی فورم ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات والے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وسطی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کے ساتھ سرفہرست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے ہر روز 18 ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق سالانہ یہ شرح 6.5 ملین ہے اور یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور سڑک پر ہونے والے حادثات کی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہے۔

    pollution-2

    فضائی آلودگی صنعتوں اور ٹریفک کے دھویں، سگریٹ نوشی اور کھانا پکانے کا دھویں کے باعث پیدا ہوتی ہے اور یہ انسانی صحت کو لاحق چوتھا بڑا جان لیوا خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے ایشیا اور افریقہ میں قبل از وقت اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا اور یورپ میں اس شرح میں کمی آئی ہے۔

    فضائی آلودگی پوری دنیا میں پائی جاتی ہے مگر چند ممالک میں یہ بلند ترین سطح پر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے ان 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں آلودگی کے باعث سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔

    فہرست میں جارجیا ایک لاکھ کی آبادی میں سے 293 افراد کی اموات کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    pollution-3

    شمالی کوریا 235 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ شمالی کوریا کی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ایندھن کی ضروریات کے لیے کوئلے کا استعمال ہے۔ 2012 میں شمالی کورین کوئلے کی صنعت نے 65 ملین ٹن کاربن کا اخراج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    بوسنیا ہرزگووینیا 224 افراد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں آلودگی کی بڑی وجہ ٹریفک کا دھواں ہے۔

    بلغاریہ 175 افراد کے ساتھ چوتھے، البانیہ 172 افراد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

    دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت چین میں فضائی آلودگی کے باعث 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی کی وجہ ہے۔

    pollution-1

    ساتویں نمبر پر افریقی ملک سیرالیون 143 اموات کے ساتھ ہے۔ یہاں گھروں کے اندر جلایا جانے والا ایندھن فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہے۔

    یوکرین 140 افراد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر موجود ہے۔ یوکرین میں گرمیوں کے موسم میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات عام ہیں جس کے باعث فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ

    رومانیہ 139 افراد کے ساتھ نویں جبکہ سربیا 138 اموات کے ساتھ دسویں نمبر پر موجود ہے۔

    فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتوں سے نکلنے والا کاربن کا اخراج ہے جس کے سدباب کے لیے رواں سال کے آغاز میں ایک معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کیے گئے ہیں۔ معاہدے کے مطابق 195 ممالک نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتوں سے خارج ہونے والا کاربن عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    پاکستان بھی اس معاہدے پر دستخط کرچکا ہے اور یوں کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کے خلاف کی جانے والی عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔